• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وراثت سے متعلق سوال نمر2

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ماشاء اللہ بھائیوں نے میرے سوال کا بہت ہی عمدہ جواب دیا تھا اللہ تعالی ان کےعلم وعمل میں برکت عطافرمائے
وراثت سے متعلق میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ مسمی زید (اہلحدیث) فوت ہوا۔ اس کے ورثا میں ایک بیٹی (اہلحدیث)، ایک نوربخشی المذہب بھائی، ایک دو نور بخشی بہنیں اور ابن اخ شقیق (اہلحدیث) موجود ہے۔ حقیقی بھائی یہ کہہ کر میت (اہلحدیث) سے حصہ نہیں لیتا کہ میرا مسلک مجھے اس کی اجازت نہیں دیتا میں محروم ہوں لہٰذا میں حصہ نہیں لوں گا۔
سوال یہ ہے کہ اس اقرب حقیقی بھائی کا اس حق سے اپنا مسلک اجازت دینے کی بناء پر دستبردار ہونے کی وجہ سے ابن اخ شقیق یعنی بھتیجا (اہلحدیث) بھی محروم ہوگا۔ اور تمام ترکہ بطور ردّ بیٹی کو ملے گا یا حدیث نبویﷺ (أَلْحِقُوا الْفَرَآئِضَ بِأَہْلِہَا فَمَا بَقِيَ فَلِأَوْلَیٰ رَجُلٍ ذَکَرٍ) کے تحت بھتیجا حصہ لے گا اور ہر دو صورت میں ترکہ کی تقسیم کا طریقہ کار کیا ہوگا؟ أفیدونا، جزاکم اﷲ خیرًا
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,980
پوائنٹ
323
اللہ رب العالمین کا فرمان ہے :
۴۔فَإِن كُنَّ نِسَاء فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ [النساء : 11]
اگر (میت کی اولاد میں ) عورتیں دو سے زائد ہوں تو انکے لیے دو تہائی حصہ ہے اور اگر اکیلی ہو تو اسکے لیے نصف حصہ ہے ۔
۳۔رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
لَا يَرِثُ الْمُسْلِمُ الْكَافِرَ وَلَا الْكَافِرُ الْمُسْلِمَ ( صحیح بخاری کتاب الفرائض باب لا یرث المسلم الکافر ولا الکافر المسلم ح ۶۷۶۴
مسلمان کافر کا وارث نہیں بن سکتا اور کافر مسلمان کا وارث نہیں بن سکتا۔
۳۔رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ صحیح بخاری کتاب الفرائض باب میراث الولد من أبیہ و أمہ ح ۶۷۳۲
کتاب وسنت میں جن لوگوں کے حصےمقرر ہیں وہ حصے ان لوگوں کو دو اور جو مال باقی بچے وہ قریب ترین مرد رشتہ دار کے لیے ہے ۔
مذکورہ بالا دلائل کی رو سے
معلوم ہوا کہ
بیٹی کو نصف حصہ دیا جائے گا۔
نور بخشیوں کے عقیدہ میں کفر وشرک پایا جاتا ہے لہذا وہ وراث نہیں بنیں گے۔
اسکے بعد قریبی ترین مرد رشتہ دار بھتیجا ہی ہے ، لہذا باقی نصف کا وہی وارث بنے گا۔
یعنی کل ترکہ کے دو حصہ کیے جائیں گے نصف میت کی بیٹی کو اور نصف میت کے بھتیجے کو۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
جزاک اللہ رفیق بھائی۔۔۔
 
Top