• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وزیر اعظم پاکستان کے نام کھلا خط !!!

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
محترم بھائی اوپر کی بات میں ہر بھائی آپ کے ساتھ متفق ہے سوائے نشان زدہ الفاظ کے- جن میں میں تو آپ کے ساتھ متفق ہوں مگر جو متفق نہیں ہوتا اس کے کفر پر متفق نہیں ہوں کیونکہ ان کے پاس جائز تاویلات موجود ہیں اگرچہ میرے نزدیک وہ اجتہادی طور پر غلط ہو گا جیسے مبشر ربانی حفظہ اللہ کی کلمہ گو مشرک کتاب میں ابن باز رحمہ اللہ کا فتوی نقل ہے کہ بریلوی مشرک کو مشرک نہ سمجھنے والے بھائیوں کو کافر کہنا ٹھیک نہیں کیونکہ انکے پاس تاویل موجود ہے


محترم بھائی میں نے اوپر کفر میں اختلاف کی وضاحت کر دی ہے پس جب کفر میں ہی اتفاق نہیں تو قتل فرض عین نہیں ہو گا اور دوسرا آپ نے اوپر فاسق حکمرانوں لکھا ہے جس کی مطابقت آپ کی بات سے نہیں لگتی
جہاں تک قتل کا تعلق ہے تو اس میں بھی میں نے اوپر لکھا ہے کہ استطاعت اور سلطہ کو دیکھا جائے گا اور اس کے لئے آپ کے نظریے کے مطابق قابل عمل حل یہ نہیں کہ انکے قتل کے فتوی دینے شروع کر دیں بلکہ پہلے لوگوں کو اس بات پر تو متفق کر لیں یا اکثر کو متفق کر لیں یا اتنے لوگ جتنے کافی ہوں کو دعوت سے متفق کر لیں پھر آپ اپنے نظریے کے مطابق اپنی خواہش کو قابل عمل بنا سکتے ہیں
تحکیم بغیر ما انزل اللہ بھی غیر متفق کفر میں آتی ہے

اس میں اگر آپ کی مراد یہ ہے کہ صحیح مسلمان نہیں ہیں اسلئے ہمارے پاس طاقت نہیں پس ہم ہم سلطہ کے بغیر سزاؤں کو نافذ نہیں کر سکتے تو محترم بھائی میں بھی اوپر یہی کہ رہا ہوں
اگر اس کے مفہوم مخالف سے آپ کچھ اور ثابت کرنا چاہتے ہیں تو محترم بھائی وہ میں نے اوپر وضاحت کر دی ہے
اللہ آپ کا اور میرا حامی و ناصر ہو امین
آپ کے جوابات کا شکریہ عبدہ بھائی مگر -

یہ بات آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی جانتا ہوں کہ کسی بھی اختلاف کی صورت میں رجوع صرف قرآن و سنّت کی طرف ہے - اگر کوئی اپنے کفر سے برأت کے لئے کوئی تاویل پیش کرتا ہے تو اسے پہلے قرانی نص یا صحیح حدیث سے یہ ثابت کرنا ہو گا کہ اس پر کفر کا الزام غلط ہے - ورنہ نص صریح کے بارے میں تو تقریباً ہر کوئی جانتا ہے کہ کیا کفر ہے اور کیا نہیں - یہ الگ بات ہے کہ ہمارے ہاں قرآن کریم اور احدیث کو خود سے ترجمہ کے ساتھ نہیں پڑھا جاتا جس کی بنا پر فرقہ واریت اور بدعات معاشرے میں بڑی سرعت کے ساتھ پھیل رہی ہیں اور جس کی وجہ سے ہم تقریباً ہر دینی معاملے میں چاہے وہ نص صریح سے ثابت ہو یا نہیں - اندھے بہروں کی طرح اپنے نام نہاد علماء پر انحصار کرتے جا رہے ہیں -یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ ان علماء میں سے اکثریت کا مفاد حکومت وقت سے وابستہ ہوتا ہے -کیا ایسی صورت میں ہم ان علماء کی اکثریت کے فتویٰ پر اعتبار کریںنگے- جب کہ وہ خود حکمران طبقے کے حواری بنے ہوے ہوں-

جہاں تک ہمارے وقت کے حکمرانوں کا تعلق ہے- تو ان کے کفر تو کفر بواح ہے - اب اگر یہ کفر بواح ہمارے علماء کو نظر نا آئے تو کیا کہا جا سکتا ہے -ہاں البتہ بغاوت کے لئے ایک لاحے عمل مرتب کرنا ضروری ہے یہ نہیں کہ ہر کوئی بندوق لے کر گھر سے نکل پڑے -ہمارے حکمرانوں کا تو یہ حال ہے کہ اگر کوئی نبی کریم صل الله علیہ وآ لہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتا ہے -تو حکمرانوں کی طرف سے عوام کے جذبات اور احتجاج کا ساتھ دینے کے بجاے طاغوتی قوتوں کی ہمنوائی کی جاتی ہے - اب اس سے بڑھ کر کفر بواح کیا ہو گا -اس کے بعد بھی اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ صبر سے کام لیا جائے اور حکمرنوں کی ان کفریہ باتوں کو برداشت کیا جائے تو کیا یہ زیادتی نہیں - کیا ہماری دینی حمیت اس بات کی ہمیں اجازت دیتی ہے - کہ ہم ان حکمرانوں کا صریح کفر برداشت کرتے رہیں (ظلم و ستم تو بعد کی بات ہے)-

اگر کوئی بات بری لگی ہو و معذرت چاہوں گا -الله آپ کو خوش رکھے -

والسلام -
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
یہ بات آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی جانتا ہوں کہ کسی بھی اختلاف کی صورت میں رجوع صرف قرآن و سنّت کی طرف ہے - اگر کوئی اپنے کفر سے برأت کے لئے کوئی تاویل پیش کرتا ہے تو اسے پہلے قرانی نص یا صحیح حدیث سے یہ ثابت کرنا ہو گا کہ اس پر کفر کا الزام غلط ہے - ورنہ نص صریح کے بارے میں تو تقریباً ہر کوئی جانتا ہے کہ کیا کفر ہے اور کیا نہیں-جہاں تک ہمارے وقت کے حکمرانوں کا تعلق ہے- تو ان کے کفر تو کفر بواح ہے - اب اگر یہ کفر بواح ہمارے علماء کو نظر نا آئے تو کیا کہا جا سکتا ہے -
محترم بھائی ایک مومن کے علائے کلمۃ اللہ کے لئے جذبات تو واقعی آپ کی طرح ہونے چاہیں مگر میری کچھ وضاحتیں بھی ہیں جیسا کہ میں نے کہیں غالبا ابن باز رحمہ اللہ کی بات بھی پڑھی تھی کہ کفر میں جلی اور خفی امور میں فرق کرنا چاہئے
میرے خیال میں کفر دو طرح کے امور سے ہوتا ہے علماء اصلاح کر دیں
1-جلی امور (بزرگوں سے مانگنا، بتوں کو سجدہ کرنا، ، ایسے کفار جو مسلمانوں سے دین کی وجہ سے لڑ رہے ہوں انکی مسلمانوں کے خلاف مدد کرنا، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی نہ ماننا وغیرہ)
2-خفی امور (السماءو الصفات میں شرک، جلی کفریہ امور میں مانع تکفیر کے اطلاق میں خطا وغیرہ)
جلی امور میں ابلاغ سے حجت پوری ہو جاتی ہے اسکو دلیل سمجھانا شرط نہیں مگر خفی امور میں دلیل سمجھانا بھی ضروری ہوتا ہے مثلا اللہ کے ہر جگہ حاضر ناظر کے عقیدے میں دلیل سمجھانا بھی ضروری ہے پس اللہ کو ہر جہ حاضر سمجھنے والے کی تکفیر نہ کرنے والے کی تکفیر نہیں کی جائے گی-اسی طرح مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد کرنے کہ بات تو اوپر جلی امور میں آ لکھ دی ہے مگر اس میں مانع تکفیر کا اطلاق کرنا خفی امور میں آ جاتا ہے پس جو ایسے مسلمانوں کو کافر نہیں سمجھتا وہ جلی امور کی مخالفت شاہد نہ کر رہا ہو بلکہ خفی امر یعنی مانع تکفیر کے اطلاق میں غلطی کر رہا ہو جس میں اس پر حجت پوری نہ ہوئی ہو پس اسکی کافر کو کافر نہ سمجھنے کی وجہ سے تکفیر نہیں کی جائے گی
پس آپ کا اوپر لکھنا کہ حکمرانوں کا کفر بواح ہو چکا ہے جو علماء کو نظر نہیں آتا تو محترم بھائی مانع تکفیر میں تو علماء کے اختلاف کی وجہ سے ابہام ہے پس آپ کو جن علماء کا موقف بہتر نظر آئے اس پر عمل کریں مگر دوسرے کو کافر یا گمراہ نہ کہیں-
محترم خضر حیات بھائی میرے موقف کی اصلاح کر سکتے ہیں
-ہم تقریباً ہر دینی معاملے میں چاہے وہ نص صریح سے ثابت ہو یا نہیں - اندھے بہروں کی طرح اپنے نام نہاد علماء پر انحصار کرتے جا رہے ہیں -یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ ان علماء میں سے اکثریت کا مفاد حکومت وقت سے وابستہ ہوتا ہے -کیا ایسی صورت میں ہم ان علماء کی اکثریت کے فتویٰ پر اعتبار کریںنگے- جب کہ وہ خود حکمران طبقے کے حواری بنے ہوے ہوں-
محترم بھائی جہاں تک حکمرانوں سے مفاد وابستہ ہونے کی وجہ سے اشتروا بایات اللہ ثمنا قلیلا والی بات ہے تو اس پر تو ہمارے کچھ محدثین و اسلاف کے اقوال اور سیرت بھی گواہ ہے ایسا ہوتا ہے مگر کیا ہر عالم جو حکمرانوں سے وابستہ ہو وہ ایسا ہی ہوتا ہے تو یہ بالکل غلط بات ہے اسکو آپ بھی نہیں مانیں گے چونکہ ہمارے اسلاف میں سے ہی بڑے بڑے علماء حکمرانوں سے وابستہ رہے ہیں پس آپ علی الاطلاق حکمرانوں سے وابستہ ّلماء کو غلط نہیں کہ سکتے پس اگر انکے پاس کوئی جائز تاویل ہے تو ہمیں اس کو بھی دیکھنا ہو گا
جہاں تک علماء کی اکثریت کی پیروی کی بات ہے تو میرے خیال میں یہ ٹھیک نہیں اگر علماء حق میں سے کچھ علماء بھی قرآن و سنت کے مضبوط دلائل کے تحت کوئی موقف رکھتے ہوں اور اکثریت علماء غلط اجتہاد کی وجہ سے اسکے خلاف موقف رکھتے ہوں تو اعتبار خالی اکثریت کا نہیں ہو گا بلکہ مخالف موقف والے علماء کا علماءِ حق ہونا اور پھر مضبوط دلیل کا ہو گا پس آپ کا علماءِ حق پر غلط طرف لے جانے کا اشکال میرے خیال میں ٹھیک نہیں- البتہ جو علماء نا جائز تاویل کرتے ہیں تو میں انکی بات نہیں کر رہا

ہمارے حکمرانوں کا تو یہ حال ہے کہ اگر کوئی نبی کریم صل الله علیہ وآ لہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتا ہے -تو حکمرانوں کی طرف سے عوام کے جذبات اور احتجاج کا ساتھ دینے کے بجاے طاغوتی قوتوں کی ہمنوائی کی جاتی ہے - اب اس سے بڑھ کر کفر بواح کیا ہو گا -
محترم بھائی لائحہ عمل والی بات آپ کی سو فیصد ٹھیک ہے مگر اس سے پہلے کچھ باتیں سوچنے والی ہیں جو کچھ اوپر لکھی گئیں ہیں
جہاں تک گستاخ رسول کے قتل کی بات ہے تو اس پر غالبا کچھ علماء حق بھی شاہد اعتراض کرتے ہیں
دوسرا کفر بواح کے واضح ہونے کے باوجود کچھ علماء احتیاط کرتے ہیں چونکہ اسکے خلاف احادیث کی وعیدیں مثلا من کفر اخاہ فقد باء بہا احدھما وغیرہ انکو اس بات سے روکتی ہیں کیونکہ مانع تکفیر میں بہت زیادہ ابہام آج کل آگئے ہیں جیسے من کذب علی متعمدا فلیتبوا مقعدہ من النار سے ڈر کر کچھ احادیث بیان کرنے سے رک گئے تھے پس آپ اپنی عقل کے مطابق جو حق بات نظر آتی ہے اس پر عمل کریں مگر دوسرے علماء پر گمراہی کا اعتراض کرنے کی بجائے غلطی کا اعتراض کریں

البتہ بغاوت کے لئے ایک لاحے عمل مرتب کرنا ضروری ہے یہ نہیں کہ ہر کوئی بندوق لے کر گھر سے نکل پڑے ---------------اس کے بعد بھی اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ صبر سے کام لیا جائے اور حکمرنوں کی ان کفریہ باتوں کو برداشت کیا جائے تو کیا یہ زیادتی نہیں - کیا ہماری دینی حمیت اس بات کی ہمیں اجازت دیتی ہے - کہ ہم ان حکمرانوں کا صریح کفر برداشت کرتے رہیں (ظلم و ستم تو بعد کی بات ہے)-
محترم بھائی میں نے فسق و فجور و ظلم میں صبر کرنے کی بات کی ہے اور کفر بواح میں طاقت کی بات کی ہے جیسے آپ نے بھی اوپر لائحہ عمل تیار کرنے کی بات کی ہے

اگر کوئی بات بری لگی ہو و معذرت چاہوں گا -الله آپ کو خوش رکھے -
محترم بھائی الحمد للہ دین سمجھنے یا سمجھانے میں اللہ کی توفیق سے میں ناراض نہیں ہوتا بلکہ دوسرے کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس کی نیت تو میری اصلاح ہی ہوتی ہے اللہ آپ کو سدا خوش رکھے امین
 
Top