• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وسیلہ کے بارہ میں سمجھنے کے لئے ایک جامع پوسٹ

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
وسیلہ کے بارہ میں سمجھنے کے لئے ایک جامع پوسٹ
*******************************************
.
احمد : عمر آپ ابو کو وسیلہ کے تعلق سے بھی کچھ بتا دیجئے کہ کسی مردہ سے یا کسی کے صدقے اور طفیل سے دعا مانگنا بھی غلط ہے۔
حنفی الدین : کیا؟ کسی کے صدقے اور طفیل سے دعا مانگنا بھی غلط ہے؟ ہم تو ہر دعا میں یہ کہتے ہیں کہ اے اللہ میری دعا کو اپنے حبیب ﷺ کے صدقے اور طفیل میں قبول فرما۔
عمر : میں نے آپ سے کہا تھا نا چاچا کہ مسائل سے اہم عقیدہ ہوتا ہے، کیونکہ مسائل میں کمی پیشی انشاء اللہ، اللہ معاف کر دے گا لیکن اگر عقیدہ ہی صحیح نہ ہو تو تمام اعمال بے کار ہو جائیں گے۔ آج کتنے غیر مسلم ہیں جو اچھے اچھے کام کرتے ہیں ہاسپٹل بناتے ہیں، اسکول چلاتے ہیں، غریبوں کی مدد کرتے ہیں۔ کیا اللہ ان سب کو قیامت کے دن ان کے اچھے اعمال کا بدلہ دے گا؟ ہر گز نہیں کیونکہ ان کا عقیدہ ہی غلط تھا اللہ تعالی نے فرمایا کہ جو دینِ اسلام کے علاوہ کوئی دوسرا دین لیکر آئے گا قیامت کے دن تو اللہ تعالیٰ اس سے اس کا دین ہر گز قبول نہیں کرے گا اور وہ نقصان اُٹھانے والوں میں ہو جائے گا۔ (آل عمران : 85) خیر میں آپ کو یہ بتا رہا تھا کہ وسیلہ دو طریقہ کا ہوتا ہے ایک جائز طریقہ کا وسیلہ اور ایک ناجائز وسیلہ۔ اس سے پہلے میں آپ کو یہ بتا دوں کہ وسیلہ کا معنی عربی میں الگ ہے اور اردو میں اس کا معنی الگ ہے۔
عربی میں وسیلہ کہتے ہیں قربت یا نزدیکی حاصل کرنے کو جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنے رب کے لیے وسیلہ تلاش کرو (سورۃ المائدۃ:35) یعنی رب کی نزدیکی کے لیے۔ اور اردو میں وسیلہ کہتے ہیں ذریعہ بنانے کو۔ دونوں میں بہت بڑا فرق ہے اور وسیلہ جنت میں اس اعلی مقام کو بھی کہا جاتا ہے جو اللہ تعالی اپنے رسول ﷺ کو عطا کرے گا جیسے صحیح مسلم میں عبد اللہ بن عمر و بن عاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم اگر اذان سنو تو وہی کہو جو مؤذن کہتا ہے پھر مجھ پر درود پڑھو کیونکہ جو مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھتا ہے اللہ اس پر دس رحمتیں نازل کرتا ہے پھر اللہ تعالیٰ سے میرے لیے وسیلہ طلب کرو کیونکہ یہ وسیلہ جنت کا وہ مقام ہے جو اللہ کے بندوں میں صرف ایک بندہ کو ملے گا اور مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہوں۔ سن لو جس نے میرے لیے اللہ سے وسیلہ مانگا اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگئی (مسلم) اس حدیث سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ہم کو ان کے لیے اللہ سے وسیلہ مانگنے کی تعلیم دی ہے جیسا کہ اذان کے بعد کی دعا میں ہم پڑھتے ہیں۔ ’’آتِ مُحَمَّدَ نِ الْوَسِےْلَۃَ وَالْفَضِےْلَۃَ‘‘ تو محمد ﷺ کو وسیلہ (جنت کا اعلی مقام) اور فضیلت عطا کر اور ان کو مقام محمود پر بھیج، لیکن اس کے خلاف آج ہم اللہ ہی کو محمد ﷺ کا وسیلہ دیتے ہیں کہ اے اللہ تو ہماری دعا کو محمد ﷺ کے صدقہ اور طفیل سے قبول فرما۔ دیکھا آپ نے کتنا فرق ہے دونوں وسیلوں میں؟ قرآنِ مجید اور احادیث میں جتنی بھی دعائیں ہم کو سکھائی گئی ہیں وہ سب یا تو اللھم سے شروع ہوتی ہیں یا ربنا سے کہ اے اللہ، اے ہمارے رب، یعنی اللہ کو ڈائرکٹ پکارنے کی تعلیم دی گئی ہے اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 186 میں فرمایا کہ ’’ اے نبی ﷺ میرے بندے اگر تم سے پوچھیں تو تم انہیں بتادو کہ میں تم سے قریب ہی ہوں پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی پکار سنتا ہوں اور جواب دیتا ہوں‘‘ تو اس آیت میں بھی ہم کو اللہ تعالیٰ کو بغیر کسی وسیلہ کے ڈائرکٹ پکارنے کی تعلیم دی ہے اور اسلام میں جو وسیلہ جائز ہے وہ اس طرح ہے۔
اپنے نیک اعمال کی وسیلہ ہم اپنی دعاؤں میں استعمال کر سکتے ہیں جیسا کہ صحیح بخاری میں آتا ہے کہ بنی اسرئیل میں 3 لوگ کہیں جارہے تھے اچانک بارش آگئی تو تینوں نے ایک غار میں پناہ لی پھر اچانک ایک بڑی چٹان آئی اور اس غار کے منہ پر گری اس طرح وہ غار بند ہو گیا یہ تینوں بہت پریشان ہوئے وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ اس مصیبت سے ان کو صرف اللہ تعالیٰ ہی نکال سکتا ہے لہذا ان کے نیک اعمال کو آگے پیش کر کے اس کے وسیلہ سے دعا مانگیں۔ ان میں سے ایک شحص نے اللہ سے دعا کی کہ : ’’ اے اللہ تجھے معلوم ہے کہ میں بکریاں چراتا ہوں اور میرے بوڑھے ماں باپ کو پہلے کھلاتا اور میری بیوی بچوں کو بعد میں کھلاتا۔ ایک دن میں بکریاں چراتے ہوئے بہت دور چلا گیا اور واپسی میں بہت دیر ہو گئی اور میرے بوڑھے ماں باپ میرا انتظار کر کے سو گئے جب میں واپس گھر آیا تو میں نے اپنے ہاتھ میں دودھ کا پیالہ لیے میرے ماں باپ کے سراہنے کھڑا ہو گیا کہ جب وہ جاگیں تو میں ان کو سب سے پہلے دودھ پلاؤں اور بعد میں میرے بیوی بچوں کو پلاؤں لیکن میرے ماں باپ اس رات جاگے نہیں اور میرے بیوی بچے اس رات بھوکے ہی سوگئے۔ اے اللہ یہ عمل میں نے خالص تیر ی رضامندی کے لیے کیا تھا، اگر تجھے یہ عمل پسند ہے تو مجھے اس مشکل سے نکال تو غار کے منہ سے پتھر تھوڑا ہٹ گیا پھر ایک دوسرے شخص نے کہا کہ اے اللہ تجھے معلوم ہے کہ میری ایک چچازاد بہن تھی جو بہت خوبصورت تھی میں نے اس سے ہمیشہ اپنی خواہش پوری کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بڑی متقی تھی اس نے کبھی مجھے نزدیک آنے نہیں دیا۔ ایک مرتبہ اس کو پیسوں کی بہت ضرورت پڑ گئی اور وہ مجھ سے مدد مانگنے آئی میں نے موقع کا فائدہ اٹھا کر اس کو یہ شرط لگائی کہ اگر تو مجھے میری خواہش پوری کرلینے دیگی تو میں تیری ضرورت پوری گروں گا۔ وہ بیچاری مجبوراً راضی ہو گئی۔ جب میں زنا کرنے اس کے قریب گیا تو اس نے مجھ سے کہا کہ اے اللہ کے بندے اللہ سے ڈر وہ ہمیں دیکھ رہا ہے۔ اس کے اس جملہ سے میرے بدن میں تیرے خوف سے کپکپی طاری ہوگئی اور میں اس کو چھوڑ دیا اے اللہ میرا یہ عمل خالص تیرے لیے تھا اگر تو اس سے راضی ہے تو مجھ کو اس مصیبت سے نکال تو پتھر اور تھوڑا ہٹ گیا لیکن ابھی بھی اس میں اتنی جگہ نہیں تھی کہ اس سے وہ باہر نکل سکیں۔ پھر تیسرے شخص نے کہا کہ ’’ اے اللہ میں نے ایک آدمی کو بطور اجرت کے اپنے پاس رکھا تھا وہ آدمی اپنی اُجرت لیے بغیر چلا گیا تو میں نے اس کی رقم میں ایک بکری خریدی اور وہ کئی سال بعد آیا اور مجھ سے اپنی اُجرت کا مطالبہ کیا تو میں نے اس سے کہا کہ یہ بکریوں کا سارا ریوڑ تمہارا ہی ہے تم اسے لے جاؤ تو اس آدمی نے کہا کہ مجھ سے مذاق نہ کرو تو میں نے کہا کہ میں مذاق نہیں کر رہا ہوں میں نے تمہاری رقم میں ایک بکری خریدی تھی اور اسی سے اتنی ساری بکریاں ہو گئیں لہذا تم اپنی ساری بکریاں لے جاؤ تو وہ آدمی ہنسی خوشی بکریاں لے گیا۔ اے اللہ میرا یہ عمل خالص تیرے لیے تھا اگر تو اس سے راضی ہے تو مجھ کو اس مصیبت سے نکال تو پتھر پورا ہٹ گیا اور وہ صحیح سلامت باہر آگئے۔ تو اس لمبی حدیث سے ہمیں اس بات کا پتا چلتا ہے کہ اپنے نیک اعمال کے وسیلے سے ہم اللہ سے دعا کر سکتے ہیں۔
دوسرا جائز وسیلہ یہ ہے کہ اللہ کے ناموں کا وسیلہ دے کر اللہ سے دعا کرنا جیسے اللہ تعالیٰ تو رازق ہے تو مجھے روزی دے، اے اللہ تو رحیم ہے تو مجھ پر رحم فرما۔ اس کی مثالیں تو قرآن اور حدیث میں بھری پڑی ہیں۔ اسی طرح تیسرا جائز وسیلہ یہ ہے کہ کسی نیک آدمی کو جو زندہ ہے اس سے ہمارے لیے دعا کرنے کی دوخواست کرنا جیسے عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں ایک مرتبہ بہت زبردست قحط پڑا تھا تو عمر رضی اللہ عنہ عباس رضی اللہ عنہ کو لے گئے اور دعا کی کہ اے اللہ جب تک تیرے نبی زندہ تھے تو وہ بارش کے لیے تجھ سے دعا کرتے تھے اب چونکہ وہ ہمارے درمیان موجود نہیں اس لیے ہم انکے چچا کے ذریعے تجھ سے دعا کراتے ہیں کہ تو ہم پر بارش برسا تو اللہ تعالیٰ نے بارش بھیجی۔ دیکھا آپ نے اللہ کے نبی ﷺ کا وسیلہ لینا جائز ہوتا تو عمر رضی اللہ عنہ کیوں ان کے چاچا کے ذریعے سے دعا کرتے ؟ کیوں انہوں نے اللہ کے رسول ﷺ کے صدقہ اور طفیل سے دعا نہیں مانگی؟ اور کیوں انہوں نے اللہ کے رسول ﷺ کی قبر پر جا کر دعا نہیں کی؟
تو وسیلہ کی صرف یہ تین قسمیں ہیں جو جائز ہیں اور اس کے علاوہ کسی اور فوت شدہ انسان کے وسیلہ سے یا کسی کے صدقے اور طفیل سے دعا مانگنا جائز نہیں۔
حنفی الدین : اللہ مجھے معاف کرے اتنے سالوں سے میں نے صدقہ اور طفیل سے دعا مانگی ہے لیکن میں نے ایک حدیث پڑھی ہے کہ آدم علیہ السلام سے جب گناہ ہو گیا تو انہوں نے آسمان کی طرف سر اُٹھا کر محمد ﷺ کے وسیلہ سے معافی مانگی تو اللہ تعالیٰ نے پوچھا کہ یہ محمد کون ہیں تو آدم علیہ السلام نے کہا کہ جب تو نے مجھے پیدا کیا میں نے سر اٹھا کر عرش کی طرف دیکھا اور وہاں ’’لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ لکھا دیکھا تو میں نے سمجھ لیا کہ تیرے نام کے ساتھ جس کا نام ہو اس سے زیادہ عظمت والا کوئی نہیں ہو سکتا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آدم تم نے سچ کہا ہے وہ آخری نبی ہیں اور تمہاری اولاد میں سے ہوں گے اور اگر وہ نہ ہوتے تو تم بھی پیدا نہ کیے جاتے اور ایک اور جگہ میں نے یہ بھی پڑھا ہے کہ اے نبی اگر آپ نہ ہوتے تو میں یہ کائنات کو پیدا نہ کرتا۔ اس حدیث کی تھوڑی وضاحت کر دو۔
عمر : اللہ کے رسول ﷺ سے ایسی کوئی حدیث ثابت نہیں یہ اللہ کے رسول ﷺ پر جھوٹ باندھا گیا ہے اور یہ بات قرآن کے بھی خلاف ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتا ہے کہ : ’’ آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے کچھ باتیں سیکھی، اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی اور بے شک وہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے‘‘۔ (البقرۃ:37) اس آیت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو دعا سکھائی اور اس حدیث کے مطابق آدم علیہ السلام نے خود عرش پر لکھا ہوا پڑھ لیا۔ کیا اس سے جھوٹ ظاہر نہیں ہوتا؟ اور وہ کونسی دعا تھی وہ دوسری جگہ اللہ فرماتا ہے کہ آدم علیہ السلام نے یہ دعا کی: ’’رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِےْنَ۔‘‘ (الاعراف:23)کہ آدم علیہ السلام نے کہا: ’’ اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہم کو نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم ضرور تباہ ہو جائیں گے۔‘‘ تو یہ آیت اس بات کو واضح کر دیتی ہے کہ وہ کونسے کلمات تھے جن کے ذریعے آدم علیہ السلام کو اللہ نے معاف فرمادیا تو اس آیت کی روشنی میں بھی یہ حدیث کے الفاظ نبی کریم ﷺ کے نہیں ہو سکتے بلکہ ان کی طرف منسوب کردیے گئے ہیں، اور تیسرا جھوٹ اس حدیث میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں اور جنوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے جیسے اللہ ارشاد فرماتا ہے کہ ’’ میں نے تمام جن اور انسان کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘ (الذاریت:56) تو اللہ تعالیٰ نے انسانوں اور جنوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے، نہ کہ محمد ﷺ کے لیے بلکہ وہ خود بھی اللہ کی عبادت کے لیے ہی پیدا کیے گئے ہیں۔
اب آئیے ہم اس حدیث کی صحت کے متعلق بھی کچھ باتیں جان لیتے ہیں فن حدیث کے لحاظ سے اس حدیث کو تمام محدثین نے موضوع (گھڑی ہوئی) بتایا ہے کیونکہ اس حدیث کا ایک راوی عبد الرحمن بن زید بن اسلم ہے جو ضعیف ہے تو ہر لحاظ سے یہ حدیث قابلِ حجت نہیں۔ یہی بات احناف کی بڑی اور معتبر کتاب میں بھی لکھی ہوئی ہے کہ ’’ اور جائز نہیں ہے کہ کوئی اپنی دعاؤں میں یوں کہے کہ بحق فلاں یا اپنے انبیاء اور رسولوں کے حق کے طفیل یا صدقہ میں کیونکہ خالق پر کسی مخلوق کا حق نہیں۔ (ہداےۃ) اور ایک کتاب میں یوں لکھا ہے کہ ’’اے اللہ میں تجھ سے فلاں بندے کے حق کے واسطے سے سوال کرتا ہوں یا یوں کہے کہ اس کے جاہ کے واسطے سے یا اس کی حرمت کے واسطے سے سوال کرتا ہوں یہ مکروہِ تحریمی ہے اور یہ بات احناف کی بہت ساری کتابوں میں متنوں کے ساتھ لکھی ہوئی ہے۔ امام محمد جو کہ امام ابو حنیفہ کے شاگرد ہیں ان کے نزدیک بھی اس طرح کہنا حرام ہے اور کہنے والے پر آگ کا عذاب ہوگا۔ اتنی وضاحت کے باوجود بھی افسوس کہ آج اللہ تعالیٰ کو کبھی نبی ﷺ کا وسیلہ دیا جاتا ہے تو کبھی کسی ولی کا اور کبھی کسی پیر کا وسیلہ بنایا جاتا ہے اور قرآن مجید کی اس آیت کو دلیل بنایا جاتا ہے کہ ’’ اے ایمان والوں اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘ (المائدہ:35) لیکن اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں وسیلہ کا معنی قربت اور قریبی حاصل کرنے کا ہے نہ کہ کسی ذات کو وسیلہ بنانے کا اور یہ قربت ایمان، تقوی اور جہاد فی سبیل اللہ سے حاصل ہو سکتی ہے جیسے کہ آیت ہی میں ارشاد ہے، اور یہی وہ ایمان اور عمل کا وسیلہ ہے جس پر سب متفق ہیں اور یہی بات قرآن اور سنت سے ثابت ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان سب عیبوں سے پاک ہے۔ لہذا کسی بھی طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو کسی کا صدقہ اور طفیل کی ضرورت نہیں، اور جو صحیح وسیلے ہم کو بتائے گئے ہیں ان پر عمل کرلیں تو یہ ہمارے لیے کافی ہے۔
احمد : ابو 4:30 بج گئے اور اب تھوڑی ہی دیر میں اذان ہونے والی ہے میرے خیال سے ہمیں اٹھ کر فجر کی تیاری کرنی چاہیے۔
حنفی الدین : ہائے اللہ ! اتنی جلدی رات ہو گئی؟ جزاک اللہ خیر عمر آج آپ نے مجھے اتنے سالوں کی نیند سے جگا دیا اور اب میری آنکھیں کھل گئیں۔
1) برسوں سے میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مقلد تھا لیکن تقلید کس کو کہتے ہیں مجھے نہیں معلوم تھا آج کی رات اللہ کے فضل سے آپ نے اس کا بہت بہترین انداز میں قرآن، حدیث اور مختلف کتابوں کے حوالات، ائمہ کے اقوال اور سمجھ میں آنے والی آسان مثالیں دے کر ایسے سمجھا یا کہ اب میں زندگی بھر کسی کی تقلید نہیں کروں گا۔
2) ایک ہاتھ سے مصافحہ کو میں غیر مسلمانوں والا عمل سمجھ رہا تھا لیکن احمد کی مفتی صاحب کے ساتھ بحث نے مجھے یہ ماننے پر مجبور کر دیا کہ ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا سنت ہے۔
3) میں مسلکِ اہل حدیث کو سو دیڑھ سو سال کی پیداوار سمجھتا تھا لیکن مجھے معلوم ہوا کہ یہ لوگ تو اللہ کے رسول ﷺ کے دور سے چلے آرہے ہیں۔
4) ائمہ کی پیدائش اور وفات کی تاریخوں سے میں بے خبر تھا، لیکن الحمدللہ آج آپ نے چاروں ائمہ کرام کی تاریخِ پیدائش اور وفات معلوم کرادی۔
5) میں دیگر فرقوں کی تاریخ سے لا علم تھا، آپ نے دیگر فرقوں کے وجود اور ان کی تاریخ پر بھی دلائل کی روشنی میں بات واضح کر دی۔
6) میں لفظ ’’ غیر مقلد‘‘ کا بہت زیادہ استعمال کرتا تھا لیکن احمد کی مفتی صاحب کے ساتھ بحث سے معلوم کر لیا کہ ’’ غیر مقلد‘‘ لفظ کا استعمال ہی غلط ہے۔
7) میں صحیح اور ضعیف حدیث کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا اور سبھی کو اللہ کے رسول ﷺ کی بات سمجھ رہا تھا لیکن آج مجھے معلوم ہوا کہ اللہ کے رسول ﷺ کی سنتوں کی حفاظت اور دین کی حفاظت کے لیے صحیح اور ضعیف حدیث میں فرق کرنا کتنا ضروی ہے۔
8) میں اسلام کو بہت ہی مشکل اور قرآن و حدیث کا سمجھنا ناممکن سمجھ رہا تھا لیکن آپ کے دلائل میری سوچ بدل دی اور میں سمجھ گیا کہ قرآن و حدیث اگر فہمِ صحابہ کے مطابق ہو تو ان کا سمجھنا مشکل نہیں۔
9) میں مسلک اہل حدیث کو ایک اچھوت مذہب سمجھ رہا تھا لیکن مجھے آج معلوم ہوا کہ کن کن بزرگ ہستیوں نے اس مذہب کو قبول کیا ہے اور اس مسلک کے تعلق سے ان کے کیا نیک اقول ہیں۔
10) ماخذ شریعت کے بارے میں میں نے اپنے علماء سے بہت کچھ سن رکھا تھا اور اجماع و قیاس کو بھی قرآن و حدیث کے برابر سمجھ رہا تھا لیکن آج مجھے معلوم ہوا کہ اجماع اور قیاس قرآن و حدیث کے پابند اور ماتحت ہیں الگ سے دو ماخذ نہیں۔
11) میں نے کھبی یہ تصور نہیں کیا کہ اہل حدیث کے خلاف جو کتابیں لکھی جا چکی ہیں اس کا جواب بھی آیا ہوگا۔ لیکن آپ نے کتابوں کے ناموں کے ساتھ ساتھ لکھنے والے علماء کے نام اور سی ڈیز وغیرہ دکھا کر مجھے مطمئن کر دیا کہ مسلک اہل حدیث ہی حق ہے۔
12) مجھے ہمیشہ یہ بتایا جاتا کہ اہل حدیث کے علماء نے کتابوں میں بہت ہی غلط مسئلے لکھ دیے ہیں لیکن آج اس کی حقیقت معلوم ہوئی کہ وہ کتابیں یا تو ان علماء کے اہل حدیث ہونے سے پہلے کی ہیں یا پھر کتابوں میں کچھ اور ہی ہے اور اس کا کچھ اور ہی مطلب بیان کیا جاتا ہے یا پھر ان پر یہ صرف ایک بہتان ہے۔
13) میں جہری نماز میں سورۃ الفاتحہ نہیں پڑھتا تھا اور یہ سمجھ رہا تھا کہ اس کے دلائل قرآن و حدیث میں ہیں لیکن الحمد للہ آپ کی علمی بحث نے مجھ کو امام کے پیچھے جہری نماز میں بھی سورۃ الفاتحہ پڑھنے پر راضی کر دیا۔
14) رفع الیدین کرنے والوں کو میں حقیر سمجھتا تھا لیکن ان شاء اللہ آج سے میں خود رفع الیدین کروں گا۔
15) تراویح میں 20 رکعت کو ہی اصل سمجھ رہا تھا اور عمر رضی اللہ عنہ کا عمل اور حرمین شریفین کے عمل کو دلیل مانتا تھا لیکن آج مجھے معلوم ہوا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے بھی 11 رکعت ہی پڑھنے کا حکم دیا ہے اور حرمین شریفین کا عمل کوئی حجت نہیں۔ ان شاء اللہ آئندہ رمضان میرا تراویح کا عمل سنت کے مطابق 11 رکعت ہی ہوگا۔
16 ) مناظرہ جیتنے کے بہت سارے جھوٹے قصے سنے تھے لیکن ان کی حقیقت آج مجھے معلوم ہوئی کہ زور، زبردستی، طاقت اور تعداد کے بل پر ڈرا دھمکا کر کسی سے مناظرہ جیت لینے سے باطل حق نہیں ہو جاتا ۔
17) میں اللہ تعالیٰ کو ہر جگہ موجود سمجھ رہا تھا لیکن آج مجھے پتہ چلا کہ اللہ تعالیٰ ساتوں آسمان پر عرش پر مستوی ہے اور اس کا علم ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔
18) ہر دعا میں اللہ کے رسول ﷺ کے صدقۂ طفیل سے مانگتا تھا لیکن آج مجھے پتا چلا کہ صرف تین چیزوں سے وسیلہ مانگنا جائز ہے۔ (۱) اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کا۔ (۲) اپنے نیک اعمال کا۔ (۳) کسی نیک و صالح زندہ آدمی سے دعا کرانا۔
اتنی ساری حقیقتیں مجھے معلوم ہونے کے بعد اب میری یہ کوشش رہے گی کہ میں ان حقیقتوں کو میرے دوست احباب اور رشتہ داروں کو بھی پہنچاؤں اور ان کو بھی تقلید شخصی کے اندھیروں سے نکال کر قرآن و سنت کی روشنی میں لاؤں، اور آج سے میرا نام حنفی الدین نہیں اسلام الدین ہوگا اور ان شاء اللہ میں ہر عمل قرآن و سنت کے مطابق کرنے کی کوشش کروں گا۔ مجھے آپ سے دو بارہ ملنا ہے تاکہ اور بھی سارے مسائل پر معلومات حاصل کروں۔ میں آپ کو احمد کے ذریعے معلوم کرا دوں گا اس وقت آپ پھر آجانا۔ اللہ آپ کو آج کی پوری رات جاگ کر اللہ کے فرمان ’’ تم اپنے رب کے راستے کی طرف بلاؤ نصیحت اور حکمت کے ساتھ اور ان سے اچھے انداز میں بحث کرو‘‘ (سورۃ الحجر:125) پر عمل کرتے ہوئے میری اصلاح کرنے پر آپ کو بہترین اجر سے نوازے۔
احمد : ماشاء اللہ ابو مجھے یقین تھا کہ آپ جیسا ذہین اور انصاف پسند آدمی ضرور حق قبول کرلے گا۔ اے اللہ تیرا شکر ہے۔
عمر : اب آپ پر بھی طرح طرح کے الزامات لگیں گے آپ کو بھی ڈرایا دھمکایا جائے گا اور ہو سکتا ہے کہ ایک اور بڑا پروگرام دو بارہ اہل حدیث کے خلاف ہو جائے۔ اللہ سے ثابت قدمی کی دعا کرنا اور اپنی دعوت حسنِ اخلاق سے اور دلائل کی روشنی میں پیش کرنا اور کسی بھی مسلمان کے لیے اپنے دل میں کینہ نہ رکھنا اکثر لوگوں کو حقیقت کا علم نہیں ہے نہ ہی ان کو دین سے دلچسپی ہے۔ جب انہیں دین کو سمجھنے کا شوق آجائے تو وہ بھی ان کو اپنا لیں گے۔ اللہ سے میرے لیے بھی دعا کرنا نہ بھولیں۔
احمد : جزاک اللہ خیر عمر بھائی! آپ نے ہمارے لیے ساری رات جاگ کر دین سمجھایا۔ یہ آپ کی کوشش اللہ ضرور قبول کرے گا اور آپ کو اس کا بہترین اجر ضرور ملے گا۔ ان شاء اللہ
عمر : اچھا تو چلئے مسجد چلتے ہیں۔ نماز کھڑی ہونے میں بہت کم وقت ہے اور سنت بھی ہم کو پڑھنا ہے۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
گر نہیں جستجوئے حق کا تجھ میں ذوق و شوق
امتی کہلا کر پیمبر کو تو رسوا نہ کر
ہے فقط توحید و سنت امن و راحت کا طریق
فتنہ و جنگ و جدل تقلید سے پیدا نہ کر
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
جزاکم اللہ خیرا۔
 
Top