• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وسیلے کے بارے مالک الدار والی روایت کی حقیقت

شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
اصول حدیث کے امام ابن الصلاحؒ فرماتے ہیں:
[علوم الحدیث للامام ابن الصلاح:ص۹۹]
اور سماع کی تصریح امام زہبی نے کی ہے۔
آپ کے زبیر علی زئی صاحب لکھتے ہیں
مدلس کی غیرمصرح بالسماع روایت مرسل کی طرح ہے(علمی مقالات ج 4 ص 161)
ملاں علی قاری لکھتے ہیں
امام ابن جریر نے یہ تصریح کی ہے کہ حدیث مرسل قبول کرنے پر تمام تابعین کا اجماع ہے (شرح نخبۃ الفکر ص 112)
امام جلال الدین سیوطی نے بھی یہی لکھا ہے (تدریب الراوی ج 1 ص 198)
امام نووی نے لکھا کہ امام مالک ،امام ابو حنیفہ اور امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ مرسل سے استدلال کی جائے گا۔اور امام شافعی نے کہا کہ جب کوئی روایت مرسل کو تقویت کرنے والی مل جائے تو اس سے استدلال کیا جائے گا۔(مقدمہ صحیح مسلم ص 17)
گفتگو مذکورہ کا خلاصہ یہ کہ بالفرض محال اگر اعمش کے سماع کی تصریح نہ بھی ہو تو یہ حدیث مرسل ہے اور مرسل قابل حجت ہے۔جہاں تک امام شافعی کی شرط تو کیونکہ البدایۃ والنہایہ میں بھی دو رواتیںموجود ہیں لہذا ثابت ہوا یہ حدیث حجت ہے۔
۱)امام سفیان الثوریؒ نے ایک روایت کے بارے میں فرمایا:
[تقدمہ الجرح و التعدیل:ص۸۲]
امام سفیان ثوری ؒ نے اعمش کی ابو صالح سے معنعن روایت پر ایک اور جگہ بھی جرح کر رکھی ہے ۔دیکھئے السنن الکبریٰ للبیہقی (ج۳ص۱۲۷)
۲)امام حاکم نیشا پوریؒ نے اعمش کی ابو صالح سے ایک معنعن روایت پر اعتراض کیا اور سماع پر محمول ہونے کا انکار کرتے ہوئے کہا:
[معرفۃ علوم الحدیث:ص۳۵]​
۳) اسی طرح امام بیہقی نے ایک روایت کے متعلق فرمایا:
[السنن الکبریٰ:ج۱ص۴۳۰]
ان کے بارے میں عرض ہے کہ محڈثین نے ایک خاص حدیث کے بارے میں کہا کہ انہوں نے ہو سکتا ہے نہ سنی ہو یا یقینا نہ سنی ہو ۔تو یہ خاص حکم ہے اس کو مطلقا لاگو نہیں کیا جا سکتا۔اس سے یہ قطعا ثابت نہیں ہوتا کہ اس حدیث میں بھی سماع نہ ہو۔پھر ان سب کا جواب تو امام زہبی کا قول ہے جس میں آپ نےسماع کی تصریح کی ہے۔
اگلی بات جو باتیں طالب نور صاحب نے نقل کی ہیں ان سب کو نقل کرنے کے بعد زبیر صاحب فرماتے ہیں
جس طرح بعض اصول و قواعد میں تخصیصات ثابت ہو جانے کے بعد عام کا حکم عموم پر جاری رہتا ہے اور خاص کو عموم سے باہر نکال لیا جاتا ہے ۔(مقالات ج 4 ص 164)
لہذا امام زہبی کے قول نے تخصیص ثابت کی جس سے سماع ثابت ہوتا ہے۔
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
ان باتوں کا جواب کہاں ہے ذارا غور سئ پڑھ کر بتائیے۔یہ باتیں میں نے طالب نور کے جواب میں کیں تھی۔
دوسری بات امام بخاری نے اعمش سے مروی معنعن روایت سے استدلال کیا ہے ۔امام بخاری نے باب الصلوۃفی مسجد السوق میں اپنی سند سے روایت کیا کہ جماعت کی نماز اکیلے پڑھنے سے ازروئے ثواب میں زیادہ ہوتی ہے
امام بخاری کوئی متابع نہیًں لائے تا کہ سماع ثابت کریں۔بلکہ اسی سے استدلال کیا۔اور اسی پر اکتفاء کیا،
تیسری بات اعمش بخاری کے راوی ہیں اور ارشاد الحق صاحب لکھتے ہیں
بخاری اور مسلم کے راویوں کے سر سے پانی گزر چکا ہے۔(اسباب اختلاف فقہا ص 96)یعنی اب ان پر جرح نہیں ہو سکتی۔اور زئی صاحب نے لکھا
کسے معلوم تھا کہ ایسا دور آنے والا ہے کہ جب مسلمانوں کی راہ کے خلاف چلنے والے بدعتی صححیین کی احادیث اور راویوں پر اندھا دھند حملے کریں گئے۔(نور العنین ص 32)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
اور سماع کی تصریح امام زہبی نے کی ہے۔
آپ کے زبیر علی زئی صاحب لکھتے ہیں
مدلس کی غیرمصرح بالسماع روایت مرسل کی طرح ہے(علمی مقالات ج 4 ص 161)
ملاں علی قاری لکھتے ہیں
امام ابن جریر نے یہ تصریح کی ہے کہ حدیث مرسل قبول کرنے پر تمام تابعین کا اجماع ہے (شرح نخبۃ الفکر ص 112)
امام جلال الدین سیوطی نے بھی یہی لکھا ہے (تدریب الراوی ج 1 ص 198)
امام نووی نے لکھا کہ امام مالک ،امام ابو حنیفہ اور امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ مرسل سے استدلال کی جائے گا۔اور امام شافعی نے کہا کہ جب کوئی روایت مرسل کو تقویت کرنے والی مل جائے تو اس سے استدلال کیا جائے گا۔(مقدمہ صحیح مسلم ص 17)
گفتگو مذکورہ کا خلاصہ یہ کہ بالفرض محال اگر اعمش کے سماع کی تصریح نہ بھی ہو تو یہ حدیث مرسل ہے اور مرسل قابل حجت ہے۔جہاں تک امام شافعی کی شرط تو کیونکہ البدایۃ والنہایہ میں بھی دو رواتیںموجود ہیں لہذا ثابت ہوا یہ حدیث حجت ہے۔
ان کے بارے میں عرض ہے کہ محڈثین نے ایک خاص حدیث کے بارے میں کہا کہ انہوں نے ہو سکتا ہے نہ سنی ہو یا یقینا نہ سنی ہو ۔تو یہ خاص حکم ہے اس کو مطلقا لاگو نہیں کیا جا سکتا۔اس سے یہ قطعا ثابت نہیں ہوتا کہ اس حدیث میں بھی سماع نہ ہو۔پھر ان سب کا جواب تو امام زہبی کا قول ہے جس میں آپ نےسماع کی تصریح کی ہے۔
اگلی بات جو باتیں طالب نور صاحب نے نقل کی ہیں ان سب کو نقل کرنے کے بعد زبیر صاحب فرماتے ہیں
جس طرح بعض اصول و قواعد میں تخصیصات ثابت ہو جانے کے بعد عام کا حکم عموم پر جاری رہتا ہے اور خاص کو عموم سے باہر نکال لیا جاتا ہے ۔(مقالات ج 4 ص 164)
لہذا امام زہبی کے قول نے تخصیص ثابت کی جس سے سماع ثابت ہوتا ہے۔
اس پوسٹ میں آپ نے درج ذیل باتیں کی ہیں :
مدلس روایت مرسل کی طرح ہے ۔ اور مرسل کی قبولیت پر اجماع ہے ۔
مدلس اس اعتبار سے تو مرسل کی طرح ہے کہ دونوں ہی منقطع ہوتی ہیں ۔ ورنہ دونوں میں فرق ہے اور بہت زیادہ فرق ہے ۔
لیکن یہ دعوی بالکل درست نہیں کہ مرسل کی حجیت پر علماء کا اتفاق ہے ۔ جن جن کتابوں سے آپ نے ( بلکہ جس سے آپ نے نقل کیا ہے ) مطلب کے حوالے نکال لیے ہیں ، چیلنج ہے انہیں کتابوں سے سیاق و سباق نقل کرنے سے اس دعوے کی حقیقت واضح ہوجائیگی ۔
مثال کے طور پر آپ نے ملا علی قاری کے حوالے سے اجماع نقل کیا ، اسی کتاب میں ملاحظہ فرمائیں :
وَاعْلَم أَن كَون الْمُرْسل حَدِيثا ضَعِيفا لَا يحْتَج بِهِ، إِنَّمَا هُوَ اخْتِيَار جمَاعَة من الْمُحدثين، وَهُوَ قَول الشَّافِعِي رَضِي الله عَنهُ، وَطَائِفَة من الْفُقَهَاء ۔۔۔
شرح نخبة الفكر للقاري (ص: 405 ۔ 406)
یہ کون سا اجماع ہے جس کے مخالف محدثین کی ایک جماعت ، اور امام شافعی سمیت فقہاء کی ایک جماعت موقف رکھتی ہے ؟
تدریب الراوی سے نقل کردہ اجماع کی حقیقت بھی ملاحظہ کرلیں :
تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي (1/ 222۔223)
(ثم المرسل حديث ضعيف) ، لا يحتج به (عند جماهير المحدثين والشافعي) ، كما حكاه عنهم مسلم في صدر صحيحه، وابن عبد البر في " التمهيد "، وحكاه الحاكم، عن ابن المسيب، ومالك، (وكثير من الفقهاء وأصحاب ۔۔۔ قال ابن جرير: وأجمع التابعون بأسرهم على قبول المرسل، ولم يأت عنهم إنكاره، ولا عن أحد من الأئمة بعدهم إلى رأس المائتين.
سیوطی کی یہ کتاب شرح ہے نووی کی کتاب کی ، دونوں کی عبارات مرسل کی حجیت پر اجماع کے بے بنیاد دعوی کی تردید کے لیے کافی ہیں ۔
دوسری بات جو آپ نے کی کہ اعمش عن ابی صالح کی روایت میں اصل یہ ہے کہ وہ متصل ہے ، الا کہ اس کا منقطع ہونا واضح ہو جائے ۔
یہ امام ذہبی رحمہ اللہ کا موقف ہے ، جبکہ جس نے ان سے اختلاف کیا ہے ، دلائل کی بنا پر کیا ہے ، کہ علماء نے اعمش عن ابی صالح والی کئی ایک روایات پر جرح کی ہے ۔ اس کے جواب میں آپ نے جو کہا مناسب بات ہے ۔ اتفاق کرنا الگ بات ، لیکن بہر صورت بات قوی ہے ۔
لیکن حدیث پھر بھی ضعیف ہی رہتی ہے ، کیونکہ رجل کی جہالت بہر صورت باقی ہے ۔
 
Last edited:
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
لیکن حدیث پھر بھی ضعیف ہی رہتی ہے ، کیونکہ رجل کی جہالت بہر صورت باقی ہے ۔
حضرت میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ حجت کا دارومدا رجل پر نہیں حضرت عمر کے عمل پر ہے۔انہوں نے رجل کو روکا نہیں یہ کہا کہ تم نے شرک کا کام کیا ہے ۔بلکہ آپ نے فرمایا اے میرے پروردگار میں کوتاہی نہیں کرتا مگر یہ کہ عاجز ہوں۔لہذا قبر انور پر آنے والا صحابی یا تابعی اس کا عدم ذکر اس روایت کی صحت پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔اور باقی اپنا اپنا زوق اپنی اپنی رائے۔اور اگر اس پر آپ کا کوئی اعتراض ہے تو بتائیں؟
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
مخالف محدثین کی ایک جماعت ، اور امام شافعی سمیت فقہاء کی ایک جماعت موقف رکھتی ہے ؟
اور امام شافعی نے کہا کہ جب کوئی روایت مرسل کو تقویت کرنے والی مل جائے تو اس سے استدلال کیا جائے گا۔(مقدمہ صحیح مسلم ص 17)
گفتگو مذکورہ کا خلاصہ یہ کہ بالفرض محال اگر اعمش کے سماع کی تصریح نہ بھی ہو تو یہ حدیث مرسل ہے اور مرسل قابل حجت ہے۔جہاں تک امام شافعی کی شرط تو کیونکہ البدایۃ والنہایہ میں بھی دو رواتیںموجود ہیں لہذا ثابت ہوا یہ حدیث حجت ہے۔
حضرت اس کا ذکر کیا تھا میں نے۔کہ امام شافعی مطلقا نہیں مگر مشروط طریقے سے مانتے ہیں اور اس کا ذکر بھی کر دیا۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
حضرت میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ حجت کا دارومدا رجل پر نہیں حضرت عمر کے عمل پر ہے۔انہوں نے رجل کو روکا نہیں یہ کہا کہ تم نے شرک کا کام کیا ہے ۔بلکہ آپ نے فرمایا اے میرے پروردگار میں کوتاہی نہیں کرتا مگر یہ کہ عاجز ہوں۔لہذا قبر انور پر آنے والا صحابی یا تابعی اس کا عدم ذکر اس روایت کی صحت پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔اور باقی اپنا اپنا زوق اپنی اپنی رائے۔اور اگر اس پر آپ کا کوئی اعتراض ہے تو بتائیں؟
قادری صاحب ! ذرا تھوڑا غور و فکر سے کام لیں ، پہلے حضرت عمر تک سند تو صحیح ثابت کردیں ، پھر ان کے سکوت یا اعتماد کو حجت ٹھہرا لیں ۔ اس رجل مجہول کی وجہ سے سند حضرت عمر تک جاتی ہی نہیں ۔ حد ہے کہ سیدھی سی بات سمجھ نہیں آرہی ہے ۔ اور یہ بھی نہیں کہ اس بات کی سابقہ مراسلوں میں وضاحت نہیں ، لیکن اس کے باوجود پتہ نہیں جہالت اتنی گہری ہے کہ زائل ہونے کا نام نہیں لے رہی یا پھر جان بوجھ کر تجاہل کیا جارہا ہے ۔
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
اور یہاں پر ایک اور بات بھی قابل ذکرعرض ہے کہ ناصرالدین البانی صاحب نے مدلس کی منعنن روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔(مشکوۃ محقق بتحقیق ناصر الدین البانی ج1 ص 294)جس کا اقرار زبیر علی زئی نے بھی کیا ہے (نور العینین ص 137)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
سند کا تعلق رجل مجہول سے نہیں مالک دار سے ہے ۔اور یہ واقعہ ان کے مشاہدے کا ہے اور وہ حضرت عمر کے خازن تھے۔
گو اس کی وضاحت بھی پہلے ہو چکی ، کہ رجل مجہول سند کا حصہ ہے ، اگر سند سے اسے نکال دیا جائے تو سند منقطع ہو جاتی ہے ۔ اور اس کی واضح اور سمجھ آجانے والی دلیل یہ ہے کہ واقعہ میں رجل مجہول کا خواب بھی بیان کیا گیا ہے ، مالک الدار کے پاس کون سی عینک تھی جس سے انہوں نے اس خواب کا مشاہدہ کرلیا تھا ؟
اتنا غصہ ۔طبعیت کے لیے اچھا نہیں جناب ۔مسکراہٹ
اس قدر جہالت کا اظہار بھی مناسب نہیں کہ فلاں نے فلاں کی خواب کا مشاہدہ کیا ہے ۔
 
Top