محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
كُتِبَ عَلَيْكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَكَ خَيْرَۨا۰ۚۖ الْوَصِيَّۃُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ بِالْمَعْرُوْفِ۰ۚ حَقًّا عَلَي الْمُتَّقِيْنَ۱۸۰ۭ فَمَنْۢ بَدَّلَہٗ بَعْدَ مَا سَمِعَہٗ فَاِنَّمَآ اِثْمُہٗ عَلَي الَّذِيْنَ يُبَدِّلُوْنَہٗ۰ۭ اِنَّ اللہَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۱۸۱ۭ فَمَنْ خَافَ مِنْ مُّوْصٍ جَنَفًا اَوْ اِثْمًا فَاَصْلَحَ بَيْنَہُمْ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْہِ۰ۭ اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۱۸۲ۧ
تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آپکڑے اور وہ کچھ مال چھوڑے تو وہ اپنے والدین اورناطے داروں کے لیے حسب دستور وصیت کرکے مرے(یہ ) حق ہے متقیوں پر۔۱؎(۱۸۰) پھرجو کوئی سننے کے بعد اس وصیت کو بدلے گا اس کا گناہ بدلنے والے پرہوگا اورخدا جانتا سنتا ہے ۔(۱۸۱) پھر جوکوئی وصیت کرنے والے کی طرفداری یا گناہ سے ڈرا اور اس نے ان کے درمیان صلح کرادی، اس پر کچھ گناہ نہیں۔بیشک خدا بخشنے والا مہربان ہے۔(۱۸۲)
۱؎ ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ کوئی شخص مال کثیر رکھتا ہو(خیراً سے مراد مال کثیر ہے ) تو وہ والدین اوراقربا کے لیے علاوہ مقرر حصوں کے کچھ اور بھی بطور احسان ومعونت کے وصیت کرے۔ بعض لوگوں نے اس حکم کو آیت وراثت کی وجہ سے منسوخ سمجھا ہے لیکن یہ صحیح نہیں۔ اس لیے کہ آیت کا انداز بیان اس کی مخالفت کرتا ہے ۔حَقًّاعَلَی الْمُتَّقِیْنَ کے الفاظ بتارہے ہیں کہ یہ غیرمنسوخ آیت ہے اور یہ مال کی بہتات کی صورت میں کوئی حرج نہیں کہ وصی والدین کے لیے کچھ زائد وصیت کرجائے، کیوں کہ اس صورت میں دوسرے ورثا گھاٹے میں نہیں رہتے۔ بعض کے خیال میں یہاں والدین واقربا سے وہ مراد ہیں جو بسبب غیرمسلم ہونے کے وارث نہ ہو سکیں مگر آیت میں اس قسم کا کوئی قرینہ موجو د نہیں ۔وصیت