• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وصیت کی اہمیت اور فوائد

شمولیت
نومبر 24، 2012
پیغامات
265
ری ایکشن اسکور
502
پوائنٹ
73
وصیت کی اہمیت اور فوائد



كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ فَمَن بَدَّلَهُ بَعْدَ مَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ‌ رَّحِيمٌ
ترجمہ:
تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آجائے تو اگر وہ کچھ مال چھوڑ جانے والا ہو تو ماں با پ اور رشتہ داروں کے لئے دستور کے مطابق وصیت کرجائے (خدا سے) ڈر نے والوں پر یہ ایک حق ہے جو شخص وصیت کو سننے کے بعد بدل ڈالے تو اس (کے بدلنے) کا گناہ انہیں لوگوں پر ہے جو اس کو بدلیں۔ اور بےشک خدا سنتا جانتا ہےاگر کسی کو وصیت کرنے والے کی طرف سے (کسی وارث کی) طرفداری یا حق تلفی کا اندیشہ ہو تو اگر وہ (وصیت کو بدل کر) وارثوں میں صلح کرادے تو اس پر کچھ گناہ نہیں۔ بےشک خدا بخشنے والا (اور) رحم والا ہے
سورۂ بقرہ (آیات180 تا 182)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ إِنْ أَنتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَأَصَابَتْكُم مُّصِيبَةُ الْمَوْتِ ۚ تَحْبِسُونَهُمَا مِن بَعْدِ الصَّلَاةِ فَيُقْسِمَانِ بِاللَّـهِ إِنِ ارْتَبْتُمْ لَا نَشْتَرِي بِهِ ثَمَنًا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۙ وَلَا نَكْتُمُ شَهَادَةَ اللَّـهِ إِنَّا إِذًا لَّمِنَ الْآثِمِينَ فَإِنْ عُثِرَ عَلَىٰ أَنَّهُمَا اسْتَحَقَّا إِثْمًا فَآخَرَانِ يَقُومَانِ مَقَامَهُمَا مِنَ الَّذِينَ اسْتَحَقَّ عَلَيْهِمُ الْأَوْلَيَانِ فَيُقْسِمَانِ بِاللَّـهِ لَشَهَادَتُنَا أَحَقُّ مِن شَهَادَتِهِمَا وَمَا اعْتَدَيْنَا إِنَّا إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يَأْتُوا بِالشَّهَادَةِ عَلَىٰ وَجْهِهَا أَوْ يَخَافُوا أَن تُرَدَّ أَيْمَانٌ بَعْدَ أَيْمَانِهِمْ ۗ وَاتَّقُوا اللَّـهَ وَاسْمَعُوا ۗ وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ

ترجمہ:م
ومنو! جب تم میں سے کسی کی موت آموجود ہو تو شہادت (کا نصاب) یہ ہے کہ وصیت کے وقت تم (مسلمانوں) میں سے دو عادل (یعنی صاحب اعتبار) گواہ ہوں یا اگر (مسلمان نہ ملیں اور) تم سفر کر رہے ہو اور (اس وقت) تم پر موت کی مصیبت واقع ہو تو کسی دوسرے مذہب کے دو (شخصوں کو) گواہ (کر لو) اگر تم کو ان گواہوں کی نسبت کچھ شک ہو تو ان کو (عصر کی) نماز کے بعد کھڑا کرو اور دونوں خدا کی قسمیں کھائیں کہ ہم شہادت کا کچھ عوض نہیں لیں گے گو ہمارا رشتہ دار ہی ہو اور نہ ہم الله کی شہادت کو چھپائیں گے اگر ایسا کریں گے تو گنہگار ہوں گے پھر اگر معلوم ہو جائے کہ ان دونوں نے (جھوٹ بول کر) گناہ حاصل کیا ہے تو جن لوگوں کا انہوں نے حق مارنا چاہا تھا ان میں سے ان کی جگہ اور دو گواہ کھڑے ہوں جو (میت سے) قرابت قریبہ رکھتے ہوں پھر وہ خدا کی قسمیں کھائیں کہ ہماری شہادت ان کی شہادت سے بہت اچھی ہے اور ہم نے کوئی زیادتی نہیں کی ایسا کیا ہو تو ہم بےانصاف ہیں اس طریق سے بہت قریب ہے کہ یہ لوگ صحیح صحیح شہادت دیں یا اس بات سے خوف کریں کہ (ہماری) قسمیں ان کی قسموں کے بعد رد کر دی جائیں گی اور خدا سے ڈرو اور اس کے حکموں کو (گوشِ ہوش سے) سنو اور خدا نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ سو رہ مائدہ ( آیات 106 تا 108 )
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ کسی مسلمان کو، جس کے پاس وصیت کے لائق کچھ مال ہو، یہ جائز نہیں کہ دو شب بھی بغیر اس کے رہے کہ وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی نہ ہو۔” صحیح بخاری
سیدنا عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ وصیت کی تھی؟ انھوں نے کہا نہیں۔ پوچھا گیا کہ پھر کیونکر وصیت فرض کی گئی یا انھیں کیونکر وصیت کا حکم دیا گیا؟ تو انھوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب اللہ (پر عمل کرنے) کی وصیت کی تھی۔صحیح بخاری
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی سہم کا ایک شخص تمیم داری اور عدی بن بداء (رضی اللہ عنہ) کے ساتھ سفر کو نکلا۔ پھر وہ ایسی سرزمین میں فوت ہوئے کہ وہاں کوئی مسلمان نہ تھا۔ جب تمیم اور عدی رضی اللہ عنہ اس کا ترکہ لائے تو چاندی کا ایک گلاس جس میں سنہری نقش تھے کھو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو قسم دی اور انھوں نے قسم کھا لی۔ اس کے بعد وہ گلاس مکہ میں جن کے پاس ملا انھوں نے کہا کہ ہم نے اس کو تمیم اور عدی سے خریدا ہے۔ پھر دو شخص میت کے اعزہ میں سے کھڑے ہو گئے اور انھوں نے قسم کھائی کہ ہماری شہادت بہ نسبت ان دونوں کی شہادت کے زیادہ قابل قبول ہے ہم یہ گواہی دیتے ہیں کہ یہ پیالہ ہمارے (مرنے والے) عزیز کا ہے۔ (ابن عباس رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ یہ آیت انہی کے حق میں نازل ہوئی: “ اے مسلمانو! جب تم میں سے کسی کو موت آئے تو وصیت کے وقت دو انصاف والے تم میں سے یا تمہارے غیروں میں گواہ ہونے چاہئیں .... آخر آیت تک۔” صحیح بخاری
انسان ساری زندگی محنت کر کے مال و دولت جمع کرتا ہے تاکہ وہ اور اسکی اولاد اس سے فائدہ اٹھائے مگر ایسے مال کا کیا فائدہ جو اسکی اولاد کیلئے دنیاوی جھگڑوں کا سبب بن جائے۔ اس مصیبت سے بچنے کیلئے اسلام نے ترکہ اور وصیت کے احکام دے دئیے ہیں جس کا فائدہ یہ ہے کہ مرنے والے کیلئے صدقہ جاریہ بن جائے اور اگر وہ اس میت کی وصیت پر عمل کریں تو اسکی اولاد بھی خوش وخرم رہے گی، جھگڑوں کا خطرہ بھی ٹل جائے اور حقدار کو اسکا حق مل جائے گا۔
اپنی وصیت لکھ کر کے اسکی ایک کاپی کسی معتبر شخص کے پاس محفوظ کرا دیں۔ آپ کو یہ شرعی حق حاصل ہے کہ آپ اس وصیت نامہ کو کسی بھی وقت تبدیل یا منسوخ کرسکتے ہیں۔اگر آپ وصیت نامہ تبدیل یا منسوخ کر دیں تو نئے وصیت نامہ میں پرانے وصیت نامہ کی تبدیلی یا منسوخی کا ذکر ضرور کریں۔ لیکن ہر قسم کی ناانصافی اور جانب داری سے بچیں اور اللہ ربُّ العزت اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے مطابق وصیت کریں۔
یاد رہے کہ مال کی تقسیم وغیرہ کا اللہ تعالی نے جو ورثاء کا حق رکھا ہے اس کے مطابق ہی وصیت کرنی چاہیئے خلافت شرعیت وصیت نہیں کرنی چاہیے۔اگر کوئی فوت ہونے والا خلاف شرعیت وصیت کرگیا ہو تو ایسی وصیت کو ہر گز نہیں ماننا چاہیے
دعا ہے اللہ ہمیں عمل کی توفیق عطاءکرے آمین
مریم خان
لنک
 
Top