• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وضعی قانون کے مطابق فیصلہ یا اس کے نفاذ بارے کبارعلماء اہل السنۃ والجماعہ کا منہج حقہ

علی ولی

مبتدی
شمولیت
جولائی 26، 2013
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
81
پوائنٹ
21
مقام حیرت ہے ، اکثر لوگ یہی نہیں جانتے کہ مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ کا تحکیم بغیر مانزال اللہ اور وضعی قوانین کے نفاذ بارے موقف کوئی انکا ذاتی نہیں، بلکہ قرآن و سنت، فہم سلف صالحین اور کبار سلفی آئمہ کے موقف کے عین مطابق ہے۔
زرا اس بارے تفصیل ملاحضہ فرمائیں:

مجرد وضعی قانون کے مطابق فیصلہ یا اس کا نفاذ اور سلفی علماء کی رائے

شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کے فتوی کے بارے ان مذکورہ بالا پانچ آراء میں سے دوسری رائے راجح ہے۔ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کا رسالہ تحکیم ١٣٨٠ھ میں پہلی دفعہ شائع ہوا جبکہ شیخ کا دوسرا فتوی محرم ١٣٨٥ھ کا ہے پس ثابت ہوا کہ یہی شیخ کاآخری قو ل ہے اور یہی جمیع اہل سنت کا بھی موقف ہے کہ مجرد وضعی قانون کے مطابق فیصلہ یا اس کا نفاذ خارج عن الملة نہیں ہے ا لا یہ کہ اس کے ساتھ استحلال قلبی یا انکار بھی ہو۔
؎علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''وخلاصة الکلام : لا بد من معرفة أن الکفر کالفسق والظلم ینقسم الی قسمین : کفر وفسق وظلم یخرج من الملة وکل ذلک یعود الی الاستحلال القلبی وآخر لا یخرج من الملة یعود الی الاستحلال العملی.'' (التحذیر من فتنة التکفیر : ص ٩' ١٠)
''ہماری اس طویل بحث کا خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ جان لینا چاہیے کہ کفر بھی ظلم اور فسق کی مانند دو طرح کا ہے ۔ ایک کفر' ظلم اور فسق و فجور تو وہ ہے جو ملت اسلامیہ سے اخراج کا باعث بنتا ہے اور یہ وہ کفر ' ظلم یا فسق ہے جس میں کوئی کفر' ظلم یا فسق کا ارتکاب اسے دل سے حلال سمجھتے ہوئے کرے اور دوسرا کفر' ظلم یا فسق وہ ہے جو ملتاسلامیہ سے خارج نہیں کرتا اور یہ وہ ہے جس کا مرتکب عملاً اس کفر' ظلم یا فسق کو حلال سمجھ رہا ہو نہ کہ قلبی طور پر۔ ''
سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''فقد اطلعت علی الجواب المفید الذی تفضل بہ صاحب الفضیلة الشیخ محمد ناصر الدین الألبانی وفقہ اللہ المنشور فی صحیفة المسلمون الذی أجاب بہ فضیلتہ من سألہ عن '' تکفیر من حکم بغیر ما أنزل اللہ من غیر تفصیل'' ... وقد أوضح أن الکفر کفران : أکبر وأصغر کما أن الظلم ظلمان وھکذا الفسق فسقان : أکبر وأصغر. فمن استحل الحکم بغیر ما أنزل اللہ أو الزنی أو الربا أو غیرھما من المحرمات المجمع علی تحریمھا فقد کفر کفرا أکبر وظلم ظلما أکبر وفسق فسقا أکبر : ومن فعلھا بدون استحلال کان کفرہ کفرا أصغر وظلمہ ظلما أصغر.''(التحذیر من فتنة التکفیر : ص ١٣ ' ١٤)
''میں تکفیر کے مسئلے میں اس جواب سے مطلع ہوا جسے فضیلة الشیخ جناب علامہ البانی نے نقل کیا ہے اور وہ 'المسلمون' نامی اخبار میں نشر ہوا ہے ۔ اپنے اس فتوی میں آنجناب نے' بغیر کسی تفصیل کے اس شخص کی تکفیر کہ جس نے اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کیا ہو' کے بارے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے ... شیخ ألبانی نے یہ واضح کیا ہے کہ کفر دو قسم کا ہے : ایک کفر اکبر اور دوسرا کفر اصغر جیسا کہ ظلم اور فسق و فجور بھی دو قسم کا ہے۔ ایک ظلم اکبر اور دوسرا ظلم اصغر ' اسی طرح ایک فسق اکبر اوردوسرا فسق اصغر۔ جس نے اللہ کی نازل کردہ شریعت کے بغیر فیصلہ کرنے کو جائز اور حلال سمجھا یا زنا یا سود یاان کے علاوہ مجمع علیہ حرام شدہ امور میں سے کسی امر کو حلال سمجھا تو اس کا کفر تو کفر اکبر ہے یا اس کا ظلم تو ظلم اکبر اور اس کا فسق تو فسق اکبر ہے۔ اور جس نے اللہ کی نازل کردہ شریعت کو حلال جانے بغیر اس کے خلاف فیصلہ دیا تو اس کا کفر تو کفر اصغر ہے اور اس کا ظلم بھی ظلم اصغر ہے۔''
بعض لوگوں کو شیخ بن باز رحمہ اللہ کے ایک فتوی سے یہ غلط فہمی لاحق ہوئی کہ وہ وضعی قوانین کے مطابق فیصلوں کو مطلق طور پر کفر سمجھتے تھے حالانکہ شیخ کا یہ فتوی ان کے مذکورہ بالا فتاوی ہی کا ایک بیان ہے۔
شیخ بن باز رحمہ اللہ نے ایک جگہ فرمایا ہے:
'' وکل دولة لا تحکم بشرع اللہ ولا تنصاع لحکم اللہ ولا ترضاہ فھی دولة جاھلیة کافرة ظالمة فاسقة بنص ھذة الآیات المحکمات.''(المفصل فی شرح آیت الولاء والبراء : ص ٢٨٨)
'' ہر ریاست جو اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کرتی ہو اور اللہ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرتی ہو اور اللہ کے حکم پرراضی نہ ہو تو وہ مذکورہ بالا محکم آیات کی روشنی میں جاہلی ' کافر ' ظالم اور فاسق ریاست ہے ۔''
اس فتوی میں 'ترضاہ' کے الفاظ اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ شیخ بن باز رحمہ اللہ اس مسلمان ریاست کی تکفیر کرتے ہیں جو غیر اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلے کرنے کو جائز اور حلال سمجھتی ہو اور یہی بات جمہور سلفی علماء بھی کہتے ہیں۔
شیخ بن باز رحمہ اللہ کے جلیل القدر تلامذہ نے بھی ان کی طرف اسی موقف کی نسبت کی ہے جسے ہم ان کے حوالے سے بیان کر رہے ہیں ۔
شیخ عبد اللہ بن عبد العزیز جبرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''فقد ذھب بعض أھل العلم الی أن مجرد تحکیم قانون أو نظام عام مخالف لشرع اللہ تعالی کفر مخرج من الملة ولو لم یصحبہ اعتقاد أن ھذا القانون أفضل من شرع اللہ أو مثلہ أویجوز الحکم بہ ...وقد رجح شیخای الشیخ عبد العزیز بن باز والشیخ ابن عثیمین رحمھما اللہ القول الأول وھو أن الحکم بغیر ما أنزل اللہ لا یکون کفرا مخرجا من الملة مطلقا حتی یصحبہ اعتقاد جواز الحکم بہ أو أنہ أفضل من حکم اللہ أو مثلہ أو أی مکفر آخر.'' (تسھیل العقیدة السلامیة : ص ٢٤٢۔٢٤٣)
'' بعض اہل علم کا دوسراقول یہ ہے کہ مجرد کسی خلاف شرع وضعی قانون یا نظام عام سے فیصلہ کرنا ایسا کفر ہے جو ملت اسلامیہ سے اخراج کا باعث ہے اگرچہ اس شخص کا یہ اعتقاد نہ بھی ہو کہ وضعی قانون اللہ کی شریعت سے افضل یا اس کے برابر ہے یا اس سے فیصلہ کرنا جائز ہے ... ہمارے شیخین ' شیخ بن باز اور شیخ بن عثیمین رحمہما اللہ نے اس مسئلے میں پہلے قول کو ترجیح دی ہے اور وہ یہ ہے کہ مطلق طور پر اللہ کی نازل کردہشریعت کے علاوہ سے فیصلہ کرنا ایسا کفر نہیں ہے جو ملت اسلامیہ سے اخراج کا باعث ہو یہاں تک کہ وہ فیصلہ کرنے والا اس کے مطابق فیصلے کو جائز سمجھتا ہو یا شریعت سے افضل یا اسے بہتر سمجھتا ہو یا اس قسم کا کوئی کفریہ سبب پایا جاتا ہو۔''
شیخ صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''والذی فھم من کلام الشیخین : أن الکفر لمن استحل ذلک وأما من حکم بہ علی أنہ معصیة مخالفة : فھذا لیس بکافر لأنہ لم یستحلہ لکن قد یکون خوفا أو عجزا أو ما أشبہ ذلک.''(التحذیر من فتنة التکفیر : ص ١٦)
''شیخین یعنی شیخ بن باز اور علامہ ألبانی کے کلام سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلے نہ کرنے والے حاکم کا کفر،حقیقی اس صورت میں ہو گا جبکہ وہ اپنے اس فعل کو جائز سمجھتا ہو اور جو حاکم غیر اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلے کرے اور اس کو معصیت یا دین کی مخالفت سمجھے تو وہ حقیقی کافر نہیں ہے کیونکہ اس نے اپنے اس فعل کو حلال نہیں سمجھا۔ بعض اوقات کوئی حاکم خوف یا عجز یا اس قسم کی وجوہات کی وجہ سے بھی شریعت کے خلاف فیصلہ کر دیتا ہے،(لہذا اس صورت میں بھی اس پر کفر کا فتوی نہیں لگا یا جائے گا)۔''
ایک اور مقام پر ایک سوال کے جواب میں شیخ صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
'' سؤال : اذا ألزم الحاکم الناس بشریعة مخالفة للکتاب والسنة مع اعترافہ بأن الحق ما فی الکتاب و السنة لکنہ یری ا لزام الناس بھذا الشریعة شھوة أو لاعتبارات أخری ' ھل یکون بفعلہ ھذا کافر أم لا بد أن ینظر فی اعتقادہ فی ھذہ المسألة ؟ فأجاب: أما فی ما یتعلق بالحکم بغیر ما أنزل اللہ فھو کما فی کتابہ العزیز ینقسم الی ثلاثہ أقسام : کفر وظلم وفسق علی حسب الأسباب التی بنی علیھا ھذا الحکم' فھذا الرجل یحکم بغیر ما أنزل اللہ تبعا لھواہ مع علمہ بأن الحق فیما قضی اللہ بہ' فھذا لا یکفر لکنہ بین فاسق وظالم.وأما ذا کان یشرع حکما عاما تمشی علیہ الأمة یری أن ذلک من المصلحة وقد لبس علیہ فیہ فلا یکفر أیضا' لأن کثیر من الحکام عندھم جھل بعلم الشریعة ویتصل بمن لا یعرف الحکم الشرعی وھم یرونہ عالما کبیرا فیحصل بذلک مخالفة واذا کان یعلم الشرع ولکنہ حکم بھذا أو شرع ھذا وجعلہ دستورا یمشی الناس علیہ نعتقد أنہ ظالم فی ذلک وللحق الذی جاء فی الکتاب والسنة أننا لا نستطیع أن نکفر ھذا وانما نکفر من یری أن الحکم بغیر ما أنزل اللہ أولی أن یکون الناس علیہ أو مثل حکم اللہ عزوجل فان ھذا کافر لأنہ یکذب بقولہ تعالی ألیس اللہ بأحکم الحاکمین وقولہ تعالی أفحکم الجاھلیة یبغون ومن أحسن من اللہ حکما لقوم یوقنون.''(تحکیم قوانین کے متعلق اقوال سلف: ص ٣١۔٣٢)
'' سوال: اگر کوئی حاکم کتاب و سنت کے مخالف کسی قانون کو نافذ کر دیتا ہے لیکن ساتھ ہی اس بات کا بھی اعتراف کرتا ہے کہ حق وہی ہے جو کتاب وسنت میں ہے اور اس مخالف ِ کتاب و سنت قانون کو اپنی خواہش نفس یا کئی اور وجوہات کی بنا پر نافذ کرتا ہے تو کیا اپنے اس فعل سے وہ کافر ہو جائے گا یا یہ لازم ہے کہ اس مسئلے میں اس پر کفر کا فتوی لگانے کے لیے اس کا عقیدہ دیکھا جائے ؟
جواب: ما أنزل اللہ کے غیر کے مطابق فیصلہ کرنے کی تین قسمیں یعنی کفر' ظلم اور فسق و فجور قرآن میں بیان کی گئی ہیں اور ان قسموں کا اطلاق اس حکم کے اسباب کے اعتبار سے بدلتا رہے گا۔ پس اگر کسی شخص نے اپنی خواہش نفس کے تحت ما أنزل اللہ کے غیر کے مطابق فیصلہ کیا جبکہ اس کا عقیدہ یہ ہو کہ اللہ کا فیصلہ حق ہے تو ایسے شخص کی تکفیر نہ ہو گی اور یہ ظالم اور فاسق کے مابین کسی رتبے پر ہو گا۔ اور اگر کوئی حکمران ما أنزل اللہ کے غیر کو تشریع عام یعنی عمومی قانون کے طور پر نافذ کرتا ہے تا کہ امت مسلمہ اس پر عمل کرے اور ایسا وہ اس لیے کرتا ہے کہ اسے اس میں کوئی مصلحت دکھائی دیتی ہیحالانکہ اصل حقیقت اس سے پوشیدہ ہوتی ہے تو ایسے حکمران کی بھی تکفیر نہ ہو گی کیونکہ اکثر حکمرانوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ شرعی احکام سے ناواقف ہوتے ہیںاور انہیں ایسے جہلاء کا قرب حاصل ہوتا ہے جنہیں وہ بہت بڑا عالم سمجھ رہے ہوتے ہیں ۔ پس اس طرح وہ شریعت کی مخالفت کرتے ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی حکمران شریعت کو جانتا ہو لیکن اس نے کسی وضعیقانون کے مطابق فیصلہ کر دیا یا اسے بطور قانون اور دستور نافذ کر دیا تاکہ لوگ اس پر عمل کریں تو ایسے حکمران کے بارے بھی ہمارا عقیدہ یہی ہے کہ وہ اس مسئلے میں ظالم ہے اور حق بات کہ جس کے ساتھ کتاب و سنت وارد ہوئے ہیں' یہ ہے کہ اس حکمران کی بھی ہم تکفیر نہیں کر سکتے ہیں ۔ ہم تو صرف اسی حکمران کی تکفیر کریں گے جو ما أنزل اللہ کے غیر کے مطابق اس عقیدے کے ساتھ فیصلہ کرے کہ لوگوں کاما أنزل اللہ کے غیر پر چلنا اللہ کے حکم پر چلنے سے بہتر ہے یا وہ اللہ کے حکم کے برابر ہے ۔ ایسا حکمران بلاشبہ کافر ہے کیونکہ وہ اللہ تعالی کے قول' کیا اللہ تعالی سب حاکموں سے بڑھ کر حاکم نہیں ہے ' اور ' کیا وہ جاہلیت کے فیصلہ سے فیصلہ چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا فیصلہ ہوسکتا ہے ' ایسی قوم کے لیے جو کہ یقین رکھتے ہیں' کا انکار کر تا ہے۔''
شیخ محمد بن عبد الوہاب کے پڑپوتے شیخ عبد اللطیف بن عبد الرحمن آل الشیخ رحمہما اللہ فرماتے ہیں:
'' وانما یحرم اذا کان المستند الی الشریعة باطلة تخالف الکتاب والسنة کأحکام الیونان والفرنج والتتر وقوانینھم التی مصدرھا آراؤھم وأھواؤھم وکذلک البادیة وعاداتھم الجاریة. فمن استحل الحکم بھذا فی الدماء أو غیرھا فھو کافر قال تعالی : ومن لم یحکم بما أنزل اللہ فأولئک ھم الکفرون. وھذہ الآیة ذکر فیھا بعض المفسرین : أن الکفر المراد ھنا: کفر دون الکفر الأکبر لأنھم فھموا أنھا تتناول من حکم بغیر ما أنزل اللہ وھو غیر مستحل لذک لکنھم لا ینازعون فی عمومھا للمستحل وأن کفرہ مخرج عن الملة.''(منھاج التأسیس والتقدیس فی کشف شبھات داؤد بن جرجیس: ص٧٠' دار الھدایة)
'' اگر کتاب و سنت کے مخالف باطل احکامات مثلا ً یونانی' انگریزی اور تاتاری قوانین کہ جن کا منبع و سر چشمہ اہل باطل کی خواہشات اور آراء ہوتی ہیں' کو شرعی مرجع بنا لیا جائے تو یہ صرف ایک حرام کام ہے۔ اسی طرح کا معاملہ قبائلی جرگوںاور ان کے رسوم و رواج کے مطابق فیصلوںکا بھی ہےیعنی وہ بھی ایک حرام فعل ہے۔ پس جس نے ان باطل قوانین کے مطابق قتل و غارت اور دیگر مسائل میں فیصلہ کرنے کو حلال سمجھا تو ایسا شخص کافر ہے جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے: جو شخص اللہ کے نازل کردہ کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا تو وہ کافر ہے ۔ بعض مفسرین نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ اس آیت میں کفر سے مراد کفر اکبر سے چھوٹا کفر یعنی کفر اصغر ہے کیونکہ ان مفسرین کے فہم کے مطابق اس آیت میں ما أنزل اللہ کے غیر کے مطابق فیصلہ کرنے سے مراد اس فیصلہ کو حلال نہ سمجھتے ہوئے کرنا ہے لیکن اہل علم کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ جو حکمران اس فیصلہ کو حلال سمجھتا ہے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔''
شیخ عبد الرحمن بن ناصر سعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
'' فالحکم بغیر ما أنزل اللہ من أعمال أھل الکفر وقد یکون کفر ینقل عن الملة وذلک ا ذا اعتقد حلہ وجوازہ وقد یکون کبیرة من کبائر الذنوب ومن أعمال الکفر قد استحق من فعلہ العذاب الشدید...فھو ظلم أکبر عند استحلالہ وعظیمة کبیرة عند فعلہ غیر مستحل لہ.''(تفسیر سعدی : المائدة : ٤٥)
''ما أنزل اللہ کے مطابق فیصلہ نہ کرناکفریہ فعل ہے اور بعض صورتوں میں یہ دائرہ اسلام سے اخراج کا باعث بھی بنتا ہے اور یہ اس صورت میں ہے جب کوئی شخص اپنے اس فعل کو حلال اور جائز سمجھتا ہو۔ اور بعض اوقات یہ فعل ایک کبیرہ گناہ اور کفریہ فعل ہوتا ہے جس کا فاعل شدید عذاب کا مستحق ہے...پس اگر اس شخص نے اپنے اس فعل کو حلال سمجھا تو یہ کفر اکبر ہے اور اگر اس فعل کو حلال نہ سمجھا تو اس وقت یہ ایک کبیرہ گناہ ہے۔''
شیخ عبد المحسن العباد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
'' ھل استبدال الشریعة الاسلامیة بالقوانین الوضعیة کفر فی ذاتہ؟ أم یحتاج الی الاستحلال القلبی والاعتقاد بجواز ذلک؟ وھل ھناک فرق فی الحکم مرة بغیرما أنزل اللہ وجعل القوانین تشریعا عاما مع اعتقاد عدم جواز ذلک؟ الجواب : یبدو أنہ لا فرق بین الحکم فی مسألة أو عشرة أو مئة أو أقل أو أکثر فما دام الانسان یعتبر نفسہ أنہ مخطیء وأنہ فعل أمرا منکرا وأنہ فعل معصیة وأنہ خائف من الذنب فھذا کفر دونکفر وأما مع الاستحلال ولو کان فی مسألة واحدة وھو یستحل فیھا الحکم بغیر ما أنزل اللہ ویعتبرذلک حلالا فنہ یکون کفرا أکبر.'' (شرح سنن أبی داؤد للشیخ عبد المحسن العباد :جلد10،ص 332' المکتبة الشاملة' الاصدار الثالث)
'' سوال: کیا شریعت اسلامیہ کی جگہ وضعی قوانین کا نفاذ بنفسہ کفر ہے؟ یا اس کے کفر ہونے کے لیے ضروری ہے کہ انسان دلی طور پر اس فعل کو حلال سمجھتا اور اس کے جواز کا عقیدہ رکھتا ہو؟ کیا ایک مرتبہ ما أنزل اللہ کے غیر کے مطابق فیصلہ کرنے اور وضعی قوانین کو مستقل و عمومی قانون بنا لینے میں کوئی فرق ہے جبکہ قانون ساز اس قانون سازی کے جائز نہ ہونے کا بھی عقیدہ رکھتا ہو؟
جواب : یہ بات ظاہر ہے کہ کسی ایک مقدمہ یا دس یا سو یا اس سے زائد یا کم میں فیصلہ کرنے سےشرعی حکم میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جب تک انسان یہ سمجھتا ہو کہ وہ خطار کار ہے اور اس نے ایک برا اور نافرمانی کا کام کیا ہے اور اسے اپنے گناہ کا خوف بھی لاحق ہوتو یہ کفر اصغر ہے اور اگر وہ اپنے اس فعل کو حلال سمجھتا ہو' چاہے ایک مقدمہ میں ہی کیوں نہ ہو اور وہ اس مقدمہ میں ماأنزل اللہ کے غیر کے مطابق فیصلہ کو حلال سمجھتا ہو تو یہ کفر اکبر ہو گا۔''
شیخ عبد اللہ بن عبد العزیز جبرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''أن یضع تشریعا أو قانونا مخالفا لما جاء فی کتاب اللہ و سنة رسولہ و یحکم بہ معتقدا جواز الحکم بھذا القانون أو معتقدا أن ھذا القانون خیر من حکم اللہ أومثلہ فھذا شرک مخرج من الملة.''(تسھیل العقیدة الاسلامیة: ص ٢٤٢)
'' یہ کہ حکمران کوئی ایسی قانون سازی کرے جو کتاب اللہ اور سنت رسول کے مخالف ہو اور وہ اس قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کو عقیدے کے اعتبار سے جائز سمجھتا ہو یا اس قانون کو اپنے عقیدے میں اللہ کے حکم سے بہتر خیال کرتا ہو یا اس کے برابر سمجھتا ہو تو یہ ایسا شرک ہے جو ملت اسلامیہ سے اخراج کا باعث ہے۔''
پس معاصر سلفی علماء کے نزدیک غیر اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلے کرنے والے حکمرانوں کا کفر دو قسم کا ہے:
کفر حقیقی اور کفر عملی'
اگر تو حکمران غیر اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلے اس کو حلال' شریعت اسلامیہ سے بہتر' اس کے برابر اور جائز سمجھتے ہوئے کر رہے ہیں تو یہ کفر اعتقادی ہے ورنہ کفر عملی۔
اب اگر اس موقف کے قائل محترم مبشر احمد ربانی صاحب گمراہی پر ہیں یا مرجئہ ہیں تو ان کے ہم فہم و ہم مسلک سلف صالحین جو کہ مندرجہ ذیل ہیں ، وہ بھی گمراہ و مرجئہ ہیں؟
اس تقسیم کے قائلین:
عبد اللہ بن عباس'
امام احمد بن حنبل'
امام محمد بن نصر مروزی'
امام ابن جریر طبری'
امام ابن بطہ'
امام ابن عبد البر'
امام سمعانی'
امام ابن جوزی'
امام ابن العربی'
امام قرطبی'
امام ابن تیمیہ'
امام ابن قیم'
امام ابن کثیر'
امام شاطبی'
امام ابن أبی العز الحنفی'
امام ابن حجر عسقلانی'
شیخ عبد للطیف بن عبد الرحمن آل الشیخ'
شیخ عبد الرحمن بن ناصر السعدی'
علامہ صدیق حسن خان'
علامہ محمد أمین شنقیطی رحمہم اللہ أجمعین اور شیخ عبد المحسن العباد بھی ہیں
یا پھر ، اہل السنۃ والجماعۃ پھر تحکیم بغیر ما انزل اللہ کے مسئلے میں گمراہی اور ارجاء کا الزام لگانے والے خود سے خارجیت کے دھبے کو چھپانے کی معصومانہ کوشش میں ہیں؟؟؟
 

علی ولی

مبتدی
شمولیت
جولائی 26، 2013
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
81
پوائنٹ
21
شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کے فتوے کے متعلق بھی ارشاد فرمائیے۔
یہی سوال اگر میں آپ سے کروں کہ آپ الشیخ امین اللہ حفظہ اللہ کے اس فتوی کے بارے ارشاد فرمائیں، جس میں انہوں نے پاکستان میں جہاد کو فساد قرار دیا ہے اور ھرام قرار دیا ہے؟؟؟
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
یہی سوال اگر میں آپ سے کروں کہ آپ الشیخ امین اللہ حفظہ اللہ کے اس فتوی کے بارے ارشاد فرمائیں، جس میں انہوں نے پاکستان میں جہاد کو فساد قرار دیا ہے اور ھرام قرار دیا ہے؟؟؟
آپ کے جواب کے فی الحال دو معنی اخذ کر لیتے ہیں۔

ایک یہ کہ آپ نے شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کے فتوے کے متعلق اپنا فتوی اس لئے ارشاد نہیں فرمایا کہ اُ ن کے فتوے کا جواب دینا آپ کے بس کی بات نہیں تھی۔ (ہاں شیخ کی مدت حیات کے بعد اگر آپ زندہ رہے تو اُن کے مذکورہ فتوے کو اپنے معنی پہنانے کی کوشش ضرور کریں گے یہ میرا اندازہ ہے جیسا کہ آپ اور آپ کے مقتدین و متبعین اور آپ کی قبیل کے لوگوں کا وطیرہ رہا ہے۔)

دوسرا معنی یہ ہو سکتا ہے کہ آپ جناب امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کے فتوے سے مکمل طور پر متفق ہیں۔ لیکن یہ بات آپ کسی پر ظاہر نہیں کرنا چاہ رہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو یہ کتمانِ حق کے زمرے میں آتا ہے۔

آپ نے جو الزامی سوال داغا ہے کہ
جس میں انہوں نے پاکستان میں جہاد کو فساد قرار دیا ہے اور ھرام قرار دیا ہے؟؟؟
پہلے تو آپ چونکہ چنانچہ کی گردان سے بچتے ہوئے ہمارےسوال کا دوٹوک جواب ارشاد فرمائیں پھر ہم بھی آپ کو بتا دیں گے کہ شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ نے بقول آپ کے
پاکستان میں جہاد کو فساد اور ھرام کیوں قرار دیا ہے؟؟؟
 

علی ولی

مبتدی
شمولیت
جولائی 26، 2013
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
81
پوائنٹ
21
ایک یہ کہ آپ نے شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کے فتوے کے متعلق اپنا فتوی اس لئے ارشاد نہیں فرمایا کہ اُ ن کے فتوے کا جواب دینا آپ کے بس کی بات نہیں تھی۔
جناب عالی ،جب آپ اپنے فیصلہ اور فتوی ضرور سنائین ، یہاں مگر مجھ سے کوئی بات منسوب کرنے اور مجھ بد گمانیوں کے پل بنانے سے گریز ہی کریں تو بہتر ہوگا

الشیخ امین اللہ حفظہ اللہ کا موقف یا فتوی قرآن و سنت اور فہم سلف صالحین سمیت آئمہ اہل السنہ سے میل نہیں ، ،کھاتا ، لہذا یہ فتوی درست نہیں۔ یہ انکی اجتہادی خطاء ہے اور اس کے خطاء ہونے میں جس کو شک ہو وہ اوپر مسئلہ تحکیم بارے جمیع سلف صالحین کا فہم پڑھ لے۔

میں امین اللہ حفظہ اللہ کے احترام میں منہج سلٍف صالحین نہیں چھوڑ سکتا ۔ معذرت
 

علی ولی

مبتدی
شمولیت
جولائی 26، 2013
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
81
پوائنٹ
21
آپ نے جو الزامی سوال داغا ہے کہ
جس میں انہوں نے پاکستان میں جہاد کو فساد قرار دیا ہے اور ھرام قرار دیا ہے؟؟؟
پہلے تو آپ چونکہ چنانچہ کی گردان سے بچتے ہوئے ہمارےسوال کا دوٹوک جواب ارشاد فرمائیں پھر ہم بھی آپ کو بتا دیں گے کہ شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ نے بقول آپ کے
پاکستان میں جہاد کو فساد اور ھرام کیوں قرار دیا ہے؟؟؟
جی بسم اللہ؟
 
Top