• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وضع حدیث اور موقف صحابہ رضی اللہ عنہ

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
وضع حدیث اور موقف صحابہ رضی اللہ عنہ



امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مسلمان سخت ابتلا اور آزمائش میں گرفتار ہوگئے ملت واحدہ فرقوں میں تقسیم ہوگئی دشمنان اسلام بھی یہی کچھ چاہتے تھے چنانچہ انہیں اپنی کوششیں ثمر آور نظر آنے لگيں۔ مسلمانوں کے باہمی مناقشات نے ان کے پست حوصلوں کو بلند کیا جس سے یہ لوگ برسر عام اسلام کے بنیادی اصولوں کی تضحیک و تذلیل پر اتر آئے-

عبداللہ ابن سبا جو دراصل یہودی تھا اس نے اسلام کو نقصان پہنچانے کی خاطر اسلام کا ظاہری لبادہ اوڑھا تھا- مسلمانوں کے درمیاں اختلاف پیدا کرنے میں اس کی پارٹی کا ہاتھ تھا- اب وہ پارٹی بھی مستحکم ہوچکی تھی اور اہل بیت کی محبت کے پردہ میں وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر سرعام تنقید کرتے تھے کہ خلافت کے اصل حق دار آل رسول تھے جسے صحابہ کرام رض نے زبردستی عصب کرلیا- ظاہر ہے اس قسم کے الزامات کے لئے مواد کی ضرورت تھی مگر ان کے پاس مواد کہاں سے آتا لہذا انہوں نے دین میں جھوٹ کو داخل کیا اور پوری گرم جوشی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف من گھڑت روایات منسوب کیں-
سبائیوں نے اس منحوس امر کے آغاز کے لئے حالات کو سازگار پایا اس لئے کہ اکثر صحابہ کرام دنیا سے رخصت ہوچکے تھے اور جو باقی زندہ تھے ان میں اکثر مدینہ منورہ میں مقیم مسند علمی بچھوائے ہوئے تھے اور اسلام کی حفاظت میں انہیں نقوش پر گامزن تھے جن پر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علکہ وسلم اور اکابر کو پایا تھا لہذا ان کے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ سبائیوں کے اس ہلاکت خيز فتنے پر خاموش تماشائی بنے رہتے چنانچہ انہوں نے ان حالات میں اسلام کی حفاطت کا فریضہ اس طرح انجام دیا کہ کذب پردازوں کی کوششیں ان کی موجودگی میں ناکام ثابت ہوئيں۔


تحقیق حدیث کا اہتمام
وہ ایسے کہ اہل علم صحابہ کرام نے روایت کو قبول کرنے کے لئے تحقیق کو لازم قرار دیا اور حدیث کے قبول کرنے کا ایک معیار مقرر کیا تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف من گھڑت بات منسوب نہ ہوجائے- جس کی توضیح عبداللہ ابن
عباس رضی اللہ عنہ کے مقرر کردہ اس اصول سے ہوتی ہے کہ فرماتے ہیں:
" ہم جب کسی آدمی سے سنتے کہ وہ قال رسول اللہ کہتا تو ہماری نظریں فورا اس کی طرف اٹھ جاتیں اور ہم کانوں کو اس کی طرف جھکادیتے مگر جب لوگوں نے ہر طرح کی حدیٹیں روایت کرنا شروع کریں تو ہم انہیں حظرات سے حدیث قبول کرتے جن کو ہم جانتے تھے-"
(مسلم:ص 10)


صحابہ کرام کے اس موقوف کی ترجمانی اور توضیح مشہور تابعی امام محمد بن سیرین نے کی ہے فرماتے ہیں:

" لوگ سند طلب نہیں کرتے تھے مگر جب (عثمان رض کی شہادت کا) فتنہ رونما ہوا (تو حدیث کے بارے میں سختی کی گئی اور سند کا مطالبہ شروع ہوگیا) وہ کہتے ہیں ہمیں بتاؤ یہ حدیث کس نے روایت کی ہے پھر دیکھا جاتا اگر اس حدیث کے راوی کا تعلق اہل سنت سے ہے تو تو اس کی حدیث قبول کرلی جاتی اہل بدیت کو دیکھا جاتا اگر حدیث کا راوی اہل بدعت سے ہوتا تو اس کی حدیث رد کی جاتی-"
( مسلم، ج 1، ص 11)

یہ اصول صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظم نے وصع کئے تھے بعد والوں نے علم حدیث کو انہیں اصولوں پر مرتب کیا-
جھوٹ سے نفرت


یہ اصول اسکی غمازی کرتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم روایت حدیث کے بارے میں بڑے محتاظ تھے اور قطعا پسند نہیں کرتے تھے کہ جھوٹ کا دین میں کجھ دخل ہو وہ ہر حال میں دین کو انہیں خطوط پر برقرار رکھتے تھے جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پایا تھا- یہی وجہ ہے کہ صحیح دین کے خلاف کسی امر کو پاتے تو فورا اس کا تدارک چاہتے اور ایسے کرنے والون کو رد کردیتے (جس کی متعدد مثالیں کتب حدیث میں موجود ہیں) اس لئے کہ انہوں نے دین براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ کیا تھا اور ان کی تربیت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں ہوئی تھی اس لئے ان کی جھوٹ سے نفرت بجا آور قرین قیاس تھی-

پھر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اصل دین سمجھتے تھے اور دین کے لئے انہوں نے بے پناہ قربانیاں دی تھیں بھلا وہ جھوٹ بول کرصحیح دین کو باطل سے مکدر کیے کرسکتے تھے بلکہ وہ حدیث پورے حزم و احتیاط سے روایت کرتے جس میں جھوٹ کا شائبہ تا نہ ہوتا تھا-
مشہور تابعی حمید فرماتے ہیں کہ ہمیں انس رضی اللہ عنہ نے بتایا:
"ہم آپ سے جو حدیثیں روایت کرتے ہیں وہ تمام ہم نے براہ راست رسول اللہ صلی اللہ سے نہیں سنی ہوتیں لیکن ہم ایک دوسرے سے جھوٹ نہیں بولتے-"

حضرت براء فرماتے ہیں:
" ہمارے تمام حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث نہیں سنتے تھے کیونکہ ہمارا کاروبار تھا جس میں ہم مشغول رہتے تھے لیکن بات یہ ہے کہ لوگ اس وقت جھوٹ نہیں بولتے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوتا وہ اس تک حدیث پہنچا دیتا جو غا‏ئب ہوتا-"
(المستدرک، ج 1، ص 123)
مشہور تابعی حضرت قتادہ رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
" ایک شحص نے حدیث بیان کی تو کسی نے اس سے پوچھا کیا یہ حدیث آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی"
وہ فرمانے لگے:
" جی ہاں میں نے رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے یا پھر مجھ سے اس شخص نے بیال کی ہے جو جھوٹ نہیں بولتا، اللہ کی قسم نہ ہم جھوٹ بولتے ہیں اور نہ ہی ہم جھوٹ سے واقف ہیں-"
( مفتاح الجنہ ص 37)
ان آثار سے واضح ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا دامن کذب سے پاک تھا بلاشبہ کسی صحابی سے بصحت سند معلوم نہیں کہ اس نے عمدا کسی جھوٹی بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا ہو یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عدالت پر تمام اہل سنت کا اجماع ہے اور اس عدالت سے کوئی ایک بھی مستثنی نہیں ہے-


اقتباس: ضعیف اور موضوع روایات


تالیف: محمد یحی گوندلوی حفظ اللہ
 
Top