• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وضوء میں جرابوں اور پگڑی پر مسح

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
وضو میں جرابوں پر مسح


محدث العصر شیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حدیث میں آیا ہے کہ
عن ثوبان قال بعث رسول اللہ سریۃ….امرھم ان یمسحوا علی العصائب والتساخین.
ترجمہ: سیدنا ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین کی ایک جماعت بھیجی….انہیں حکم دیا کہ پگڑیوں اور پاؤں کوگرم کرنے والی اشیاء (جرابوں اورموزوں) پر مسح کریں۔
(سنن ابی داؤد ،الرقم:۱۴۶)
اس روایت کی سند صحیح ہے، اسے حاکم نیشاپوری رحمہ اللہ اور حافظ ذھبیؒ دونوں نے صحیح کہاہے۔
(المستدرک والتلخیص ،الرقم:۶۰۲)
اس حدیث پر امام احمد رحمہ اللہ کی جرح کے جواب کےلئے نصب الرایہ (۱؍۱۶۵)وغیرہ دیکھیں۔
امام ابوداؤدؒ فرماتے ہیں:
ومسح علی الجوربین علی بن ابی طالب وابومسعود والبراء بن عازب وانس بن مالک وابوأمامۃ وسھل بن سعد وعمرو بن حریث وروی ذلک عن عمر بن الخطاب وابن عباس .
ترجمہ: اور علی بن ابی طالب ،ابومسعود(ابن مسعود)،البراء بن عازب ،انس بن مالک ،ابوأمامۃ ،سھل بن سعد اورعمرو بن حریث نے جرابوں پر مسح کیااور عمر بن الخطاب اورابن عباس سے بھی جرابوں پر مسح مروی ہے۔(y)(سنن ابی داؤد،الرقم:۱۵۹)

صحابہ کرام کے یہ آثار مصنف ابن ابی شیبہ (۱؍۱۸۸،۱۸۹)، مصنف عبدالرزاق (۱؍۱۹۹،۲۰۰)،محلی ابن حزم (۲؍۸۴)الکنی للدولابی(۱؍۱۸۱)وغیرہ میں باسند موجود ہیں۔
سیدناعلی رضی اللہ عنہ کا اثر الاوسط لابن المنذر (۱؍۴۶۲)میں صحیح سند کے ساتھ موجود ہے۔
جیسا کہ آگے آرہا ہے،علامہ ابن قدامہ فرماتے ہیں:
’’ولان الصحابۃ رضی اللہ عنھم مسحوا علی الجوارب ولم یظھر لھم مخالف فی عصرھم فکان اجماعا‘‘
ترجمہ: اور چونکہ صحابہ نے جرابوں پر مسح کیا ہے اور ان کے زمانے میں ان کا کوئی مخالف ظاہرنہیں ہوالہذا اس پر اجماع ہے کہ جرابوں پر مسح کرنا صحیح ہے۔(المغنی ۱؍۱۸۱مسئلہ۴۲۶)

خُفین (موزوں ) پر مسح متواتر احادیث سے ثابت ہے، جرابیں بھی خفین کی ایک قسم ہےجیسا کہ سیدنا انسt،ابراھیم نخعی، اورنافع وغیرھم سے مروی ہے، جو لوگ جرابوں پر مسح کےمنکر ہیں ،ان کے پاس قرآن،حدیث اور اجماع سے ایک بھی صریح دلیل نہیں ہے۔
(۱)امام ابن المنذر النیسابوریؒ نے فرمایا:
حدثنا محمد بن عبدالوہاب ثنا جعفر بن عون:ثنا یزید بن مردانبۃ: ثنا الولید بن سریع عن عمرو بن حریث قال: رایت علیا بال ثم توضأ ومسح علی الجوربین.
ترجمہ: عمروبن حریث فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا (سیدنا) علی رضی اللہ عنہ نے پیشاب کیا،پھروضوءکیا اور جرابوں پر مسح کیا۔(الاوسط ۱؍۴۶۲،وفی الاصل مردانیۃ وھو خطأ،طبعی)
اس کی سند صحیح ہے۔

(۲)سیدناابوامامہؓ نے جرابوں پر مسح کیا۔دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ (۱؍۱۸۸ح:۱۹۷۹،وسندہ حسن)
(۳)سیدنابراء بن عازب ؓ نے جرابوںپر مسح کیا۔دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ(۱؍۱۸۹ح:۱۹۸۴وسندہ صحیح)
(۴)سیدنا عقبہ بن عمروؓنے جرابوں پر مسح کیا، دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ (۱؍۱۸۹ح۱۹۸)اور اس کی سند صحیح ہے۔
(۵)سیدنا سہل بن سعدؓ نے جرابوںپر مسح کیا، دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ (۱؍۱۸۹ح۱۹۹۰)وسندہ حسن
امام ابن منذرؒ نے کہا:(امام) اسحاق ؒبن راھویہ نے فرمایا:
’’صحابہ کرام کا اس مسئلے پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔(الاوسط ابن المنذر ۱؍۴۶۴،۴۶۵)
تقریبا یہی بات ابن حزم نے کہی ہے۔(المحلی ۲؍۸۶،مسئلہ نمبر۲۱۲)
مشہور محدث اور فقیہ علامہ ابن قدامہ کا قول سابقہ صفحہ پر گزرچکا ہے۔
معلوم ہوا کہ جرابوں پر مسح کے جائز ہونے کے بارے میں صحابہ کا اجماع ہے اور اجماع (بذات خود مستقل)شرعی حجت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ میری امت کو گمراہی پر کبھی جمع نہیں کریگا۔(المستدرک للحاکم ۱؍۱۱۶ح۳۹۷،۳۹۸)
نیز دیکھئیے:ابراء اہل الحدیث والقرآن معا فی الشواھد من التھمۃ والبھتان‘‘ص:۳۲تصنیف حافظ عبداللہ محدث غازی پوری (متوفی ۱۳۳۷ھ)
مزیدمعلومات:
(۱)ابراھیم النخعی رحمہ اللہ جرابوں پر مسح کرتے تھے۔(مصنف ابن ابی شیبہ ۱؍۱۸۸ح۱۹۷۷)اس کی سند صحیح ہے۔
(۲)سعید بن جبیر رحمہ اللہ نےجرابوں پر مسح کیا۔(مصنف ابن ابی شیبہ ۱؍۱۸۹ح۱۹۷۹)اس کی سند صحیح ہے۔
(۱)عطاء بن ابی رباح aجرابوں پر مسح کے قائل تھے۔
(المحلی ۲؍۸۶)
معلوم ہوا کہ تابعین کا بھی جرابوں پر مسح کے جواز پر اجماع ہے ،والحمدللہ
(۱)بقول حنفیہ قاضی ابویوسف جرابوں پر مسح کے قائل تھے۔
(الھدایہ ۱؍۶۱)
(۲)بقول حنفیہ محمد بن حسن الشیبانی بھی جرابوں پر مسح کے قائل تھے۔ (ایضا ۱؍۱۶۱باب المسح علی الخفین)
(۳)آگے آرہا ہے کہ(بقول حنفیہ) امام ابوحنیفہ پہلے جرابوں پر مسح کے قائل نہیں تھے لیکن بعد میں انہوں نے رجوع کرلیاتھا۔
امام ترمذی ؒفرماتے ہیں:
امام سفیانؒ الثوری،امام عبداللہ ؒابن المبارک ،امام شافعیؒ، امام احمدبن حنبلؒ اور امام اسحقؒ (بن راھویہ) جرابوں پر مسح کے قائل تھے۔(بشرطیکہ وہ موٹی ہوں)دیکھئے(سنن الترمذی ،ح:۹۹)
سیدنذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’باقی رہا صحابہ کا عمل، تو ان سے مسح جراب ثابت ہے، اور تیرہ صحابہ کرام کے نام صراحت سے معلوم ہیں، کہ وہ جرابوں پر مسح کیا کرتے تھے ۔(فتاویٰ نذیریہ ۱؍۳۳۲)
جورب: سوت یا اون کے موزوں کو کہتے ہیں۔
(درس ترمذی ۱؍۳۳۴تصنیف محمد تقی عثمانی دیوبندی)
نیز دیکھئے البنایہ فی شرح الھدایہ للعینی (۱؍۵۹۷)

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ خفین(موزوں) جوربین مجلدین اور جوربین منعلین پر مسح کے قائل تھے مگر جوربین (جرابوں)پر مسح کے قائل نہیں تھے ۔
ملامرغینانی لکھتے ہیں:
’’وعنہ انہ رجع الی قولھما وعلیہ الفتویٰ‘‘
اور امام صاحب سے مروی ہے کہ انہوں نے صاحبین کے قول پر رجوع کرلیاتھا اور اسی پر فتویٰ ہے۔(الھدایہ ۱؍۶۱)
صحیح احادیث،اجماع صحابہ، قول ابی حنیفہ اور مفتی بہ قول کے مقابلہ میں دیوبندی اور بریلوی حضرات کا یہ دعویٰ ہے کہ جرابوں پر مسح جائز نہیں ہے،اس دعویٰ پر ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔
(شہادت، جنوری :۲۰۰۱)

سوال: جرابوں پر مسح کرنے والی روایت میں سفیان ثوری رحمہ اللہ عن سے روایت کرتے ہیں اور آپ سفیان ثوری کی عن والی روایت کو نہیں مانتے۔(دیکھئے نور العیین ،ترمذی کی روایت)
توکیاجرابوںپر مسح جائز ہے ؟کیا آپ کے پاس تحدیث یا ثقہ متابعت ہے؟
اگر ہے توضرور چاہئے ،علامہ مبارک پوری نے تحفۃ الاحوذی میں جراب پر مسح کی روایت کو ضعیف کہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب: سیدناعلی رضی للہ عنہ سے باسند صحیح جرابوں پر مسح کرناثابت ہے۔
(الاوسط لابن منذر ۱؍۴۶۲ت۴۷۶)
اس روایت کی سند میں نہ تو سفیان ثوری ہیں اور نہ کوئی دوسرا مدلس راوی بلکہ یہ سند بالکل صحیح ہے۔
یہ روایت مصنف ابن ابی شیبہ ۱؍۱۸۹ح۱۹۸۶،میں بھی موجود ہے مگر غلطی سے عمرو بن حریث کے بجائے عمرو بن کریب چھپ گیا ہے۔
ان کے علاوہ دیگر کئی صحابہ سے المسح علی الجوربین ثابت ہےجن کا کوئی مخالف معلوم نہیں لہذا جرابوں پر مسح کے جواز پر صحابہ کا اجماع ہے۔
(۱؍۱۸۱،مسئلہ ۴۲۶،دیکھئے المغنی ابن قدامہ والاوسط لابن منذر ۱؍۴۶۴،۴۶۵،والمحلی ۲؍۸۷) اور ھدیۃ المسلمین ،ص:۱۷،۲۰ح۴)
اجماع صحابہ بذات خود بہت بڑی دلیل ہے لہذا سفیان ثوری کی معنعن روایت پیش کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے، اسے صرف اس اجماع کی تائید میں پیش کیا جاسکتا ہے۔(شھادت جنوری:۲۰۰۳)


ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
وضوءمیں جرابوں پر مسح



عن ثوبان قال : بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم سرية۔۔۔ أمرهم أن يمسحوا على العصائب و التساخين
’’ سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین کی ایک جماعت بھیجی . . . انہیں حکم دیا کہ پگڑیوں اور پاؤں کو گرم کرنے والی اشیاء (جرابوں اور موزوں) پر مسح کریں۔ “ [سنن ابي داود : ج1ص21ح146]
اس روایت کی سند صحیح ہے۔
اسے امام حاکم رحمہ اللہ اور امام ذہبی رحمہ اللہ دونوں نے صحیح کہا ہے۔ [المستدرك و التلخيص ج 1ص169ح602]
اس پر امام احمد رحمہ اللہ کی جرح کے جواب کے لئے نصب الرایہ [ج1ص165] وغیرہ دیکھیں۔

امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جرابوں پر درج ذیل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مسح کیا ہے۔
”علی بن ابی طالب، ابومسعود، (ابن مسعود)، براء بن عازب، انس بن مالک، ابوامامہ اور سہل بن سعد وغیرہم رضی اللہ عنہم“ [سنن ابي داود ج 1ص24قبل ح160]

امام ابوداؤد السجستانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ومسح على اجوربين على بن أبى طالب و أبو مسعود و البراء بن عازب و أنس بن مالك و أبو أمامة و سهل بن سعد و عمر و بن حريث، وروي ذلك عن عمر بن الخطاب و ابن عباس .
اور جناب علی بن ابی طالب، ابومسعود (ابن مسعود ) اور براء بن عازب، انس بن مالک، ابوامامہ، سہل بن سعد اور عمرو بن حریث نے جرابوں پر مسح کیا اور عمر بن خطاب اور ابن عباس سے بھی جرابوں پر مسح مروی ہے۔ (رضی اللہ عنہم اجمعین) [سنن ابي داؤد : 1؍24ح159]

صحابہ کرام کے یہ آثار مصنف ابن ابی شیبہ [1؍188، 189] مصنف عبدالرزاق [1؍199، 200] محلیٰ ابن حزم [2؍84] الکنیٰ للدولابی [1؍181] وغیرہ میں باسند موجود ہیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا اثر الاوسط لابن المنذر [ج 1ص462] میں صحیح سند کے ساتھ موجود ہے، جیسا کہ آگے آرہا ہے۔

امام ابن قدامہ فرماتے ہیں :
ولأ ن الصحابة رضي الله عنهم مسحو ا على الجوارب ولم يظهر لهم مخالف فى عصرهم فكان اجماعا .
’’ اور چونکہ صحابہ نے جرابوں پر مسح کیا ہے اور ان کے زمانے میں ان کا کوئی مخالف ظاہر نہیں ہوا۔ لہذا اس پر اجماع ہے کہ جرابوں پر مسح کرنا صحیح ہے۔ [المغني : 1 ؍181 مسئله 426]

صحابہ کے اس اجماع کی تائید میں مرفوع روایات بھی موجود ہیں۔ مثلا دیکھئے : [المستدرک : ج1ص169ح602]

خفین پر مسح متواتر احادیث سے ثابت ہے۔ جرابین بھی خفین کی ایک قسم ہیں جیسا کہ انس رضی اللہ عنہ، ابراہیم نخعی اور نافع وغیرہم سے مروی ہے۔
جو لوگ جرابوں پر مسح کے منکر ہیں، ان کے پاس قرآن، حدیث اور اجماع سے ایک بھی صریح دلیل نہیں ہے۔

① امام ابن المنذر النیسابوری رحمہ اللہ نے فرمایا :
حدثنا محمد بن عبدالوهاب : ثنا جعفر بن عون : ثنا يزيد بن مردانبة : ثنا الوليد بن سريع عن عمرو بن حريث قال : رأيت عليا بال ثم توضأ ومسح على الجوربين .
مفہوم : سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پیشاب کیا پھر وضو کیا اور جرابوں پر مسح کیا۔ [الاوسط ج 1ص 462 وسنده صحيح]

② ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے جرابوں پر مسح کیا، دیکھئے : [مصنف ابن ابي شيبه 1؍188ح 1979 و سنده حسن]
③ براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے جرابوں پر مسح کیا، دیکھئے : [مصنف ابن ابي شيبه 1؍189ح 1984، وسنده صحيح]
④ عقبہ بن عمر و رضی اللہ عنہ نے جرابوں پر مسح کیا، دیکھئے : [مصنف ابن ابي شيبه 1؍189ح1987 وسنده صحيح]
⑤ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے جرابوں پر مسح کیا، دیکھئے : [مصنف ابن ابي شيبه 1؍189ح 1990 و سنده حسن]
◈ ابن منذر نے کہا: کہ امام اسحاق بن راہویہ نے فرمایا کہ ”صحابہ کا اس مسئلے پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔“ [الاوسط لابن المنذر 1؍464، 465]
◈ تقریبا یہی بات ابن حزم نے کہی ہے۔ [المحلي 2؍86، مسئله نمبر 212]
◈ ابن قدامہ نے کہا: اس پر صحابہ کا اجماع ہے۔ [المغني ج 1ص181، مسئله426]
معلوم ہوا کہ جرابوں پر مسح کے جائز ہونے کے بارے میں صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا اجماع ہے اور اجماع شرعی حجت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”اللہ میری امت کو گمراہی پر کبھی جمع نہیں کرے گا۔“ [المستدرك للحاكم : 1 ؍116ح397، 398] نیز دیکھئے : [ابراء اهل الحديث و القرآن مما فى الشواهد من التهمة و البهتان ’’ ص 32، تصنيف حافظ عبدالله محدث غازي پوري (متوفي 1337ه) تلميذ سيد نذير حسين محدث الدهلوي رحمهما الله تعاليٰٰ]

مزید معلومات :
◈ ابراہیم النخعی رحمہ اللہ جرابوں پر مسح کرتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 1؍188ح1977 وسنده صحيح]
◈ سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے جرابوں پر مسح کیا۔ [ايضا1؍189ح 1989 وسنده صحيح]
◈ عطاء بن ابی رباح جرابوں پر مسح کے قائل تھے۔ [المحلي2؍86]
معلوم ہوا کہ تابعین کا بھی جرابوں پر مسح کے جواز پر اجماع ہے۔ والحمد لله
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
بغیر عذر کے موزہ یا جراب پہ مسح کرنا


شیخ @مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر شمالی طائف (مسرہ)

اسلام دین رحمت ہے اس میں بندوں کی طاقت اور زمانے وحالات کی نزاکت کی رعایت بھی پائی جاتی ہے ۔ ٹھنڈے موسم میں موزوں پر مسح کی اجازت ہمارے لئے باعث رحمت ہے ۔
نبی رحمتﷺ سے موزہ اور جراب دونوں پہ مسح کرنا ثابت ہے ۔ عمرو بن امیہ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں:
رأیتُ النبیَّ صلَّی اللہ علیہ وسلَّمَ یمسح علی عمامتہ و خفَّیہ .(صحیح مسلم:205)
ترجمہ : میں نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے (وضو میں) اپنی پگڑی اور موزوں پر مسح کیا۔
مسلم شریف کی یہ حدیث موزہ پر مسح کرنے کی دلیل ہے اور جراب (اونی یا سوتی موزے) پر مسح کرنے کی دلیل حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں :
توضَّأَ النَّبیُّ صلَّی اللَّہُ علیہِ وسلَّمَ ومسحَ علی الجَورَبینِ والنَّعلینِ((صحیح الترمذی:۹۹، صحیح ابن ماجہ :460)
ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا اور اپنی جرابوں اور جوتوں پر مسح فرمایا۔

مذکورہ دونوں احادیث سے ہر قسم کے موزوں (چمڑے، اونی، سوتی) پر مسح کرنے کی واضح دلیل مل گئی ، ساتھ ہی مسح سے متعلق دیگر تمام نصوص کی روشنی میں پتہ چلتا ہے کہ احادیث میں موزہ یا جراب پہ مسح کا حکم عام ہے ،اس کی کوئی علت نہیں بیان کی گئی ہے کہ صرف مجبوری میں یا ٹھنڈ کی وجہ سے یا مرض کی وجہ سے مسح کرسکتے ہیں ۔ اس وجہ سے آدمی بیمار ہو یا تندرست، مقیم ہویا مسافر، معذور ہو یا غیر معذور موزے پہ مسح کرسکتا ہے خواہ گرمی کا موسم ہو یا سردی کا اور چاہیگرم پانی موجود ہویا پھر سردی کم ہو یعنی بلاکسی عذر اور بغیر کسی مجبوری کے کسی بھی موسم میں اور کہیں بھی موزہ اور جراب پر مسح کرسکتے ہیں ۔
میرے اس موقف کی تائید میں چند احادیث پیش ہیں جن کی روشنی میں صراحت کے ساتھ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ بلاکسی عذر کے بھی موزہ ؍ جراب پر مسح کرنا جائز ہے ۔

پہلی دلیل : حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں :
کنتُ معَ النبیِّ صلَّی اللہُ علیہ وسلَّم فی سفَرٍ ، فأہوَیتُ لأنزِعَ خُفَّیہِ، فقال : دَعْہما، فإنی أَدخَلتُہما طاہِرَتَینِ . فمسَح علیہما .(صحیح البخاری:۲۰۶)
ترجمہ: میں نبی ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھا کہ (وضو کے وقت) میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں سے موزوں نکالنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:انہیں مت نکالو کیوں کہ میں نے انھیں باوضو ہوکر پہنا ہے ،پھر آپ نے ان پر مسح کیا۔

دوسری دلیل : حضرت زر بن حبیش کے متعلق وارد ہے :سألتُ صفوانَ بنَ عسَّالٍ عنِ المسحِ علَی الخفَّینِ ؟ فقالَ : کانَ رسولُ اللَّہِ یأمرنا إذا کنَّا مسافرینَ ، أن نمسحَ علَی خفافنا ، ولا ننزعَہا ثلاثۃَ أیَّامٍ من غائطٍ وبولٍ ونومٍ إلَّا من جنابۃٍ(صحیح النسائی:127)
ترجمہ: (زر بن حبیش) نے صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ سے موزے پہ مسح کے متعلق پوچھا توانہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ حکم دیا کرتے تھے کہ ہم حالت سفر میں اپنے موزوں پہ مسح کریں۔اور اسے تین دن، تین رات تک پیشاب،پاخانہ اور نیند سے نہ اتاریں الایہ کہ جنابت کی حالت(درپیش) ہو۔

تیسری دلیل: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے :لو کانَ الدِّینُ بالرَّأیِ لَکانَ أسفَلُ الخفِّ أولی بالمسحِ مِن أعلاہُ، وقد رأیتُ رسولَ اللَّہِ صلَّی اللَّہُ علیہِ وسلَّمَ یمسَحُ علی ظاہرِ خُفَّیہِ . (صحیح أبی داود:162)
ترجمہ: اگر دین کا دارو مدار عقل پر ہوتا تو موزوں کے ظاہری حصے پر مسح کرنے سے بہتر ہوتا کہ باطنی حصہ پر مسح کیا جاتا، میں نے رسول اللہ ﷺ موزے کے طاہری حصے پہ مسح کرتے دیکھا۔

یہ سارے نصوص بتلاتے ہیں کہ بغیر کسی عذر کے بھی موزہ اور جراب پہ مسح کرسکتے ہیں ۔مسافر کے لئے تین دن اور تین رات اور مقیم کے لئے ایک دن اور ایک رات مسح کرنے کی اجازت ہے ۔ مسافر ومقیم کے درمیان مسح کی مدت کے اس فرق کو دھیان میں رکھنا چاہئے ۔اب یہاں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ مسح کرنا افضل ہے یا پاؤں دھونا افضل ہے ؟

اس سلسلے میں شیخ الاسلام ؒ اور ان کے شاگرد ابن القیم ؒ نے بہترین بات لکھی ہے کہ افضل صورت انسان کے لئے وہ ہے جو اس کے قدم کے موافق ہے یعنی اگر وہ موزہ پہنے ہوا ہے تو مسح کرنا افضل ہے اور اگر قدم کھلا ہوا ہے تو دھونا افضل ہے اور موزہ اس لئے نہ پہنے کہ اس پہ مسح کرنا ہے۔ (الإنصاف:1/378و زاد المعاد:1/199)

یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ موزوں پر مسح کیلئے چار شرطیں پائی جانی چاہئے :
(1) دونوں موزے؍جراب وضو کرکے پہنے گئے ہوں ۔
(2) موزے؍جراب پاک ہوں ۔
(3) مسح حدث اصغر یعنی پیشاب و پاخانہ سے کیا جائے ،حدث اکبریعنی غسل سے نہیں۔
(4) مسح مدت کے اندر کیا جائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
بغیر عذر کے موزہ یا جراب پہ مسح کرنا


شیخ @مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر شمالی طائف (مسرہ)

اسلام دین رحمت ہے اس میں بندوں کی طاقت اور زمانے وحالات کی نزاکت کی رعایت بھی پائی جاتی ہے ۔ ٹھنڈے موسم میں موزوں پر مسح کی اجازت ہمارے لئے باعث رحمت ہے ۔
نبی رحمتﷺ سے موزہ اور جراب دونوں پہ مسح کرنا ثابت ہے ۔ عمرو بن امیہ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں:
رأیتُ النبیَّ صلَّی اللہ علیہ وسلَّمَ یمسح علی عمامتہ و خفَّیہ .(صحیح مسلم:205)
ترجمہ : میں نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے (وضو میں) اپنی پگڑی اور موزوں پر مسح کیا۔
مسلم شریف کی یہ حدیث موزہ پر مسح کرنے کی دلیل ہے اور جراب (اونی یا سوتی موزے) پر مسح کرنے کی دلیل حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں :
توضَّأَ النَّبیُّ صلَّی اللَّہُ علیہِ وسلَّمَ ومسحَ علی الجَورَبینِ والنَّعلینِ((صحیح الترمذی:۹۹، صحیح ابن ماجہ :460)
ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا اور اپنی جرابوں اور جوتوں پر مسح فرمایا۔

مذکورہ دونوں احادیث سے ہر قسم کے موزوں (چمڑے، اونی، سوتی) پر مسح کرنے کی واضح دلیل مل گئی ، ساتھ ہی مسح سے متعلق دیگر تمام نصوص کی روشنی میں پتہ چلتا ہے کہ احادیث میں موزہ یا جراب پہ مسح کا حکم عام ہے ،اس کی کوئی علت نہیں بیان کی گئی ہے کہ صرف مجبوری میں یا ٹھنڈ کی وجہ سے یا مرض کی وجہ سے مسح کرسکتے ہیں ۔ اس وجہ سے آدمی بیمار ہو یا تندرست، مقیم ہویا مسافر، معذور ہو یا غیر معذور موزے پہ مسح کرسکتا ہے خواہ گرمی کا موسم ہو یا سردی کا اور چاہیگرم پانی موجود ہویا پھر سردی کم ہو یعنی بلاکسی عذر اور بغیر کسی مجبوری کے کسی بھی موسم میں اور کہیں بھی موزہ اور جراب پر مسح کرسکتے ہیں ۔
میرے اس موقف کی تائید میں چند احادیث پیش ہیں جن کی روشنی میں صراحت کے ساتھ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ بلاکسی عذر کے بھی موزہ ؍ جراب پر مسح کرنا جائز ہے ۔

پہلی دلیل : حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں :
کنتُ معَ النبیِّ صلَّی اللہُ علیہ وسلَّم فی سفَرٍ ، فأہوَیتُ لأنزِعَ خُفَّیہِ، فقال : دَعْہما، فإنی أَدخَلتُہما طاہِرَتَینِ . فمسَح علیہما .(صحیح البخاری:۲۰۶)
ترجمہ: میں نبی ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھا کہ (وضو کے وقت) میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں سے موزوں نکالنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:انہیں مت نکالو کیوں کہ میں نے انھیں باوضو ہوکر پہنا ہے ،پھر آپ نے ان پر مسح کیا۔

دوسری دلیل : حضرت زر بن حبیش کے متعلق وارد ہے :سألتُ صفوانَ بنَ عسَّالٍ عنِ المسحِ علَی الخفَّینِ ؟ فقالَ : کانَ رسولُ اللَّہِ یأمرنا إذا کنَّا مسافرینَ ، أن نمسحَ علَی خفافنا ، ولا ننزعَہا ثلاثۃَ أیَّامٍ من غائطٍ وبولٍ ونومٍ إلَّا من جنابۃٍ(صحیح النسائی:127)
ترجمہ: (زر بن حبیش) نے صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ سے موزے پہ مسح کے متعلق پوچھا توانہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ حکم دیا کرتے تھے کہ ہم حالت سفر میں اپنے موزوں پہ مسح کریں۔اور اسے تین دن، تین رات تک پیشاب،پاخانہ اور نیند سے نہ اتاریں الایہ کہ جنابت کی حالت(درپیش) ہو۔

تیسری دلیل: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے :لو کانَ الدِّینُ بالرَّأیِ لَکانَ أسفَلُ الخفِّ أولی بالمسحِ مِن أعلاہُ، وقد رأیتُ رسولَ اللَّہِ صلَّی اللَّہُ علیہِ وسلَّمَ یمسَحُ علی ظاہرِ خُفَّیہِ . (صحیح أبی داود:162)
ترجمہ: اگر دین کا دارو مدار عقل پر ہوتا تو موزوں کے ظاہری حصے پر مسح کرنے سے بہتر ہوتا کہ باطنی حصہ پر مسح کیا جاتا، میں نے رسول اللہ ﷺ موزے کے طاہری حصے پہ مسح کرتے دیکھا۔

یہ سارے نصوص بتلاتے ہیں کہ بغیر کسی عذر کے بھی موزہ اور جراب پہ مسح کرسکتے ہیں ۔مسافر کے لئے تین دن اور تین رات اور مقیم کے لئے ایک دن اور ایک رات مسح کرنے کی اجازت ہے ۔ مسافر ومقیم کے درمیان مسح کی مدت کے اس فرق کو دھیان میں رکھنا چاہئے ۔اب یہاں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ مسح کرنا افضل ہے یا پاؤں دھونا افضل ہے ؟

اس سلسلے میں شیخ الاسلام ؒ اور ان کے شاگرد ابن القیم ؒ نے بہترین بات لکھی ہے کہ افضل صورت انسان کے لئے وہ ہے جو اس کے قدم کے موافق ہے یعنی اگر وہ موزہ پہنے ہوا ہے تو مسح کرنا افضل ہے اور اگر قدم کھلا ہوا ہے تو دھونا افضل ہے اور موزہ اس لئے نہ پہنے کہ اس پہ مسح کرنا ہے۔ (الإنصاف:1/378و زاد المعاد:1/199)

یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ موزوں پر مسح کیلئے چار شرطیں پائی جانی چاہئے :
(1) دونوں موزے؍جراب وضو کرکے پہنے گئے ہوں ۔
(2) موزے؍جراب پاک ہوں ۔
(3) مسح حدث اصغر یعنی پیشاب و پاخانہ سے کیا جائے ،حدث اکبریعنی غسل سے نہیں۔
(4) مسح مدت کے اندر کیا جائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم اسحاق سلفی صاحب
السلام علیکم

آپ نے پہلی روایت جو سنن ابو داؤد کی پیش کی ہے اس میں جرابوں کے ساتھ پگڑی کا بھی ذکر ہے ۔ ایک تو اس کی وضاحت کردیں کہ یہاں پگڑی سے مراد آج کل کی مروجہ پگڑی ہے یا امامہ ہے؟
دوسرا کیا اس کے تحت سر کسی بھی چیز سے ڈھکا ہوا ہو اور یعنی ٹوپی وغیرہ اور اس کو اتارا نہ گیا ہو تو سر کے بجائے اس کا مسح جائز ہوگا۔کیونکہ ٹوپی بھی سر کو مکمل ڈھانپ دیتی ہے؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
السلام علیکم
آپ نے پہلی روایت جو سنن ابو داؤد کی پیش کی ہے اس میں جرابوں کے ساتھ پگڑی کا بھی ذکر ہے ۔ ایک تو اس کی وضاحت کردیں کہ یہاں پگڑی سے مراد آج کل کی مروجہ پگڑی ہے یا امامہ ہے؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
محترم بھائی !
عربی میں جسے ’’ عمامہ ‘‘ کہتے ہیں ،اسے ہماری زبان میں ’’ پگڑی ،دستار ‘‘ کہا جاتا ہے ،
عمامہ (تلفظ:عِ-مَ-ا-مَ-ہ) یا پگڑی/دستار (عربی: عمامة، فارسی: دولبند/دستار/عمامه، انگریزی: Turban) سرپوش کی ایک قسم ہے، جس میں کپڑے کو سر پر پیچ دے کر لپیٹا جاتا ہے۔ اس کی کئی صورتیں ہوتی ہیں، عام طور پر عمامہ/سرپوش کا استعمال مرد کرتے ہیں ۔
نبی رحمتﷺ سے موزہ اور جراب دونوں پہ مسح کرنا ثابت ہے ۔ عمرو بن امیہ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں:
رأیتُ النبیَّ صلَّی اللہ علیہ وسلَّمَ یمسح علی عمامتہ و خفَّیہ .(صحیح بخاری:205)
ترجمہ : میں نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے (وضو میں) اپنی پگڑی اور موزوں پر مسح کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٍصحیح مسلم شریف میں پگڑی پر مسح کا مستقل باب منعقد کیا ہے ؛
بَابُ الْمَسْحِ عَلَى النَّاصِيَةِ وَالْعِمَامَةِ
پیشانی اور پگڑی پر مسح کرنا

عَنِ ابْنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: بَكْرٌ، وَقَدْ سَمِعْتَ مِنَ ابْنِ الْمُغِيرَةِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَوَضَّأَ فَمَسَحَ بِنَاصِيَتِهِ، وَعَلَى الْعِمَامَةِ وَعَلَى الْخُفَّيْنِ»
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے وضو کیا اور اپنے سر کے اگلے حصے پر اور پگڑی پر اور موزوں پر مسح کیا ۔

عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: تَخَلَّفَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَخَلَّفْتُ مَعَهُ فَلَمَّا قَضَى حَاجَتَهُ قَالَ: «أَمَعَكَ مَاءٌ؟» فَأَتَيْتُهُ بِمِطْهَرَةٍ، «فَغَسَلَ كَفَّيْهِ وَوَجْهَهُ، ثُمَّ ذَهَبَ يَحْسِرُ عَنْ ذِرَاعَيْهِ فَضَاقَ كُمُّ الْجُبَّةِ، فَأَخْرَجَ يَدَهُ مِنْ تَحْتِ الْجُبَّةِ، وَأَلْقَى الْجُبَّةَ عَلَى مَنْكِبَيْهِ، وَغَسَلَ ذِرَاعَيْهِ، وَمَسَحَ بِنَاصِيَتِهِ وَعَلَى الْعِمَامَةِ وَعَلَى خُفَّيْهِ
ترجمہ :
سیدنامغیرہؓ بن شعبہ سے مروی ہے انہوں نےکہا کہ رسول اللہ ﷺ (قافلے سے ) پیچھے رہ گئے اور میں بھی آپ کے ساتھ پیچھے رہ گیا ، جب آپ نے قضائے حاجت کر لی تو فرمایا:’’کیاتمہارے ساتھ پانی ہے ؟‘‘ میں آپ کے پاس وضو کرنے کا برتن لایا، آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اور چہرہ دھویا، پھر دونوں بازو کھولنے لگے تو جبے کی آستین تنگ پڑ گئی، آپ نے اپنا ہاتھ جبے کے نیچے سے نکالا اور جبہ کندھوں پر ڈال لیا، اپنے دونوں بازودھوئے اور اپنے سر کے اگلے حصے ، پگڑی اور موزوں پر مسح کیا، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صرف پگڑی پر مسح
پیشانی پر ہاتھ پھیرے بغیر صرف پگڑی پر مسح کرنا بھی سنت رسول اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے ۔ بعض لوگ اس سے انکاری ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ پگڑی پر مسح نہیں ہو سکتا۔ آئیے پگڑی پر مسح کے دلائل ملاحظہ فرمائیں:


دلیل نمبر ۱:
عن عمرو بن أمیہ قال : رأیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یمسح علی عمامتہ و خفیہ.
“سیدنا عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ۔ آپ نے اپنی پگڑی اور دونوں موزوں پر مسح فرمایا۔ “(صحیح بخاری ح ۲۰۵)

امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (۲۲۳۔ ۳۱۱ ھ ) اس حدیث پر یوں تبویب کرتے ہیں:
باب المرخصۃ فی المسح علی العمامۃ.
“پگڑی پر مسح کرنے کی رخصت کا بیان ۔” (صحیح ابن خزیمہ : ۹۱/۱، ح : ۱۸۱)

امام ابن حبان رحمہ اللہ (م ۳۴۵ھ) فرماتے ہیں:
ذکر الإباحۃ للمرء أن یمسح علی عمامتہ کما کان یمسح علی عمامتہ، کما کان یمسح علی خفیہ علی خفیہ سواء دون الناصیۃ.
“اس بات کا بیان کہ آدمی کے لیے صرف اپنی پگڑی پر مسح کرنا بھی جائز ہے ، اگرچہ پیشانی پر مسح نہ بھی کرے، جیسا کہ موزوں پر مسح جائز ہے۔ (صحیح ابن حبان ۱۷۳/۴، ح ۱۳۴۳)

امام ابومحمد عبداللہ بن عبدالرحمن الدارمی رحمہ اللہ (۱۸۱۔ ۲۵۵ھ) نے یوں باب بندی کی ہے:
باب المسح علی العمامۃ.
پگڑی پر مسح کا بیان۔

نیز امام دارمیؒ سے پوچھا گیا کہ آپ اس حدیث پر عمل کرتے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا جی ہاں ! اللہ کی قسم ۔ ( مسند الدارمی ۵۵۴/۱، ح ۷۳۷۰)

دلیل نمبر ۲:
عن بلال : أن رسول اللہ ﷺ مسح علی الخفین و الخمار.
“سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے اپنے موزوں اور پگڑی پر مسح فرمایا ۔” ( صحیح مسلم ح ۲۷۵)

امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اس حدیث ( صحیح مسلم ۲۷۵) سے بھی صرف پگڑی پر مسح کرنا ثابت کیا ہے۔ ( صحیح ابن خزیمہ ۹۱/۱، ح ۱۸۰ )

امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
باب ماجاء فی المسح علی العمامۃ.
“ان روایات کا بیان جو پگڑی پر مسح کے بارے میں وارد ہوئی ہیں۔” (جامع ترمذی ح ۱۰۱)

دلیل نمبر ۳:
عن ثوبان قال: بعث رسول اللہ ﷺ سریۃ، فأصابھم البرد، فلما قدموا علی رسول اللہ ﷺ أمرھم أن یمسحوا علی الغصائب و التساخین.
“سیدنا ثوبان  سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ایک لشکر بھیجا، ان کو سردی لگی، جب وہ رسول اکرم ﷺ کے پاس آئے تو آپ ﷺ نے ان کو پگڑیوں اور موزوں پر مسح کرنے کا حکم دیا۔ ” (مسند الامام احمد : ۲۷۷/۵، سنن أبی داود : ۱۴۶، وسندہ صحیح)

اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ (۱۶۹/۱) نے “صحیح” کہا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے ۔ نیز جناب تقی عثمانی دیوبندی صآحب نے بھی اس کی سند کے “صحیح” ہونے کا اعتراف کیا ہے ۔ (درس ترمذی از تقی عثمانی : ۳۳۷/۱)

دلیل نمبر ۴:
عن المغیرۃ بن شعبۃ، عن أبیہ قال : توضأالنبی ﷺ، ومسح علی الخفین، والعمامۃ.
“سیدنا مغیرہ بن شعبہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے وضو فرمایا اور اپنےموزوں اور پگڑی پر مسح کیا ۔ “
(مسندالامام احمد: ۲۴۸/۴، جامع الترمذی : ۱۰۰)

اس حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (۱۵۱۴) اور امام ابن حبا ن رحمہ اللہ (۱۳۴۷) نے “صحیح ” کہاہے ۔ نیز جناب تقی عثمانی صاحب نے اس کی سند کے “صحیح” ہونے کا اعتراف کیا ہے ۔ (درس ترمذی از تقی : ۳۳۷/۱)

امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حدیث المغیرۃ بن شعبۃ حدیث حسن صحیح ، وھو قول غیر واحد من أھل من أصحاب النبی ﷺ، منھم أبوبکر ، و عمر، وأنس، وبہ یقول الأوزاعی، وأحمد، وإسحاق، قالوا: یمسح علی العمامۃ.
“سیدنا مغیرہ بن شعبہ کی حدیث حسن صحیح ہے ۔ بہت سے اہل علم صحابہ کرام کا یہ قول ہے ۔ ان میں سے سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا عمر فاروق اور سیدنا انس رضی اللہ عنہم اجمعین بھی ہیں۔ امام اوزاعی ، امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ پگڑی پر مسح کیا جاسکتا ہے ۔”
(جامع الترمذی : تحت حدیث : ۱۰۰)

دلیل نمبر ۵:
عن عاصم قال: رایت انس بن مالک بال، ثم توضا، ومسح علی عمامتہ، وخفیہ.
“عاصم رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : میں نے دیکھا کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے پیشاب کیا ، پھر وضو کیاا ور اپنی پگڑی پر اور موزوں پر مسح کیا ۔” (مصنف ابن ابی شیبہ : ۱۸۲/۱، مصنف عبدالرزاق : ۱۸۹/۱، وسندہ صحیح)

دلیل نمبر ۶:
عن ابی غالب قال : رأیت أبا أمامۃ یمسح علی العمامۃ.
“ابو غالب رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوامامہ کو پگڑی پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ۔ “
(مصنف ابن ابی شیبہ : ۲۱/۱، الاوسط لا بن المنذر : ۴۶۸/۱، وسندہ صحیح)

امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وسمعت الجارود بن معاذ یقول: سمعت وکیع بن الجراح یقول: إن المسح علی العمامۃ یجزئہ الاثر.
“میں نے جارود بن معاذ کو سنا، وہ بیان کررہے تھے کہ میں نے وکیع بن جراح رحمہ اللہ کو یہ کہتے ہوئے سنا : پگڑی پر مسح کو حدیث نبوی ﷺ جائز قرار دیتی ہے ۔ ” (جامع الترمذی ، تحت حدیث : ۱۱۰، وسندہ صحیح إلی الامام وکیع)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
محترم اسحاق صاحب
تفصیلی اور مدلل جواب دینے کا شکریہ، صرف ایک بات کی اور وضاحت فرمادیں ۔ کہ ٹوپی پگڑی کی قائم مقام ہوسکتی ہے جیسا کہ آج کل چمڑے کے موزوں کی جگہ نائیلون یا اونی موزے استعمال ہوتے ہیں۔
کیوں کہ پگڑی یا عمامہ کی جگہ آج کل ٹوپی زیادہ مستعمل ہے۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
محترم بھائی !
عربی میں جسے ’’ عمامہ ‘‘ کہتے ہیں ،اسے ہماری زبان میں ’’ پگڑی ،دستار ‘‘ کہا جاتا ہے ،
عمامہ (تلفظ:عِ-مَ-ا-مَ-ہ) یا پگڑی/دستار (عربی: عمامة، فارسی: دولبند/دستار/عمامه، انگریزی: Turban) سرپوش کی ایک قسم ہے، جس میں کپڑے کو سر پر پیچ دے کر لپیٹا جاتا ہے۔ اس کی کئی صورتیں ہوتی ہیں، عام طور پر عمامہ/سرپوش کا استعمال مرد کرتے ہیں ۔
نبی رحمتﷺ سے موزہ اور جراب دونوں پہ مسح کرنا ثابت ہے ۔ عمرو بن امیہ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں:
رأیتُ النبیَّ صلَّی اللہ علیہ وسلَّمَ یمسح علی عمامتہ و خفَّیہ .(صحیح بخاری:205)
ترجمہ : میں نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے (وضو میں) اپنی پگڑی اور موزوں پر مسح کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٍصحیح مسلم شریف میں پگڑی پر مسح کا مستقل باب منعقد کیا ہے ؛
بَابُ الْمَسْحِ عَلَى النَّاصِيَةِ وَالْعِمَامَةِ
پیشانی اور پگڑی پر مسح کرنا

عَنِ ابْنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: بَكْرٌ، وَقَدْ سَمِعْتَ مِنَ ابْنِ الْمُغِيرَةِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَوَضَّأَ فَمَسَحَ بِنَاصِيَتِهِ، وَعَلَى الْعِمَامَةِ وَعَلَى الْخُفَّيْنِ»
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے وضو کیا اور اپنے سر کے اگلے حصے پر اور پگڑی پر اور موزوں پر مسح کیا ۔

عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: تَخَلَّفَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَخَلَّفْتُ مَعَهُ فَلَمَّا قَضَى حَاجَتَهُ قَالَ: «أَمَعَكَ مَاءٌ؟» فَأَتَيْتُهُ بِمِطْهَرَةٍ، «فَغَسَلَ كَفَّيْهِ وَوَجْهَهُ، ثُمَّ ذَهَبَ يَحْسِرُ عَنْ ذِرَاعَيْهِ فَضَاقَ كُمُّ الْجُبَّةِ، فَأَخْرَجَ يَدَهُ مِنْ تَحْتِ الْجُبَّةِ، وَأَلْقَى الْجُبَّةَ عَلَى مَنْكِبَيْهِ، وَغَسَلَ ذِرَاعَيْهِ، وَمَسَحَ بِنَاصِيَتِهِ وَعَلَى الْعِمَامَةِ وَعَلَى خُفَّيْهِ
ترجمہ :
سیدنامغیرہؓ بن شعبہ سے مروی ہے انہوں نےکہا کہ رسول اللہ ﷺ (قافلے سے ) پیچھے رہ گئے اور میں بھی آپ کے ساتھ پیچھے رہ گیا ، جب آپ نے قضائے حاجت کر لی تو فرمایا:’’کیاتمہارے ساتھ پانی ہے ؟‘‘ میں آپ کے پاس وضو کرنے کا برتن لایا، آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اور چہرہ دھویا، پھر دونوں بازو کھولنے لگے تو جبے کی آستین تنگ پڑ گئی، آپ نے اپنا ہاتھ جبے کے نیچے سے نکالا اور جبہ کندھوں پر ڈال لیا، اپنے دونوں بازودھوئے اور اپنے سر کے اگلے حصے ، پگڑی اور موزوں پر مسح کیا، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صرف پگڑی پر مسح
پیشانی پر ہاتھ پھیرے بغیر صرف پگڑی پر مسح کرنا بھی سنت رسول اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے ۔ بعض لوگ اس سے انکاری ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ پگڑی پر مسح نہیں ہو سکتا۔ آئیے پگڑی پر مسح کے دلائل ملاحظہ فرمائیں:


دلیل نمبر ۱:
عن عمرو بن أمیہ قال : رأیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یمسح علی عمامتہ و خفیہ.
“سیدنا عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ۔ آپ نے اپنی پگڑی اور دونوں موزوں پر مسح فرمایا۔ “(صحیح بخاری ح ۲۰۵)

امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (۲۲۳۔ ۳۱۱ ھ ) اس حدیث پر یوں تبویب کرتے ہیں:
باب المرخصۃ فی المسح علی العمامۃ.
“پگڑی پر مسح کرنے کی رخصت کا بیان ۔” (صحیح ابن خزیمہ : ۹۱/۱، ح : ۱۸۱)

امام ابن حبان رحمہ اللہ (م ۳۴۵ھ) فرماتے ہیں:
ذکر الإباحۃ للمرء أن یمسح علی عمامتہ کما کان یمسح علی عمامتہ، کما کان یمسح علی خفیہ علی خفیہ سواء دون الناصیۃ.
“اس بات کا بیان کہ آدمی کے لیے صرف اپنی پگڑی پر مسح کرنا بھی جائز ہے ، اگرچہ پیشانی پر مسح نہ بھی کرے، جیسا کہ موزوں پر مسح جائز ہے۔ (صحیح ابن حبان ۱۷۳/۴، ح ۱۳۴۳)

امام ابومحمد عبداللہ بن عبدالرحمن الدارمی رحمہ اللہ (۱۸۱۔ ۲۵۵ھ) نے یوں باب بندی کی ہے:
باب المسح علی العمامۃ.
پگڑی پر مسح کا بیان۔

نیز امام دارمیؒ سے پوچھا گیا کہ آپ اس حدیث پر عمل کرتے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا جی ہاں ! اللہ کی قسم ۔ ( مسند الدارمی ۵۵۴/۱، ح ۷۳۷۰)

دلیل نمبر ۲:
عن بلال : أن رسول اللہ ﷺ مسح علی الخفین و الخمار.
“سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے اپنے موزوں اور پگڑی پر مسح فرمایا ۔” ( صحیح مسلم ح ۲۷۵)

امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اس حدیث ( صحیح مسلم ۲۷۵) سے بھی صرف پگڑی پر مسح کرنا ثابت کیا ہے۔ ( صحیح ابن خزیمہ ۹۱/۱، ح ۱۸۰ )

امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
باب ماجاء فی المسح علی العمامۃ.
“ان روایات کا بیان جو پگڑی پر مسح کے بارے میں وارد ہوئی ہیں۔” (جامع ترمذی ح ۱۰۱)

دلیل نمبر ۳:
عن ثوبان قال: بعث رسول اللہ ﷺ سریۃ، فأصابھم البرد، فلما قدموا علی رسول اللہ ﷺ أمرھم أن یمسحوا علی الغصائب و التساخین.
“سیدنا ثوبان  سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ایک لشکر بھیجا، ان کو سردی لگی، جب وہ رسول اکرم ﷺ کے پاس آئے تو آپ ﷺ نے ان کو پگڑیوں اور موزوں پر مسح کرنے کا حکم دیا۔ ” (مسند الامام احمد : ۲۷۷/۵، سنن أبی داود : ۱۴۶، وسندہ صحیح)

اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ (۱۶۹/۱) نے “صحیح” کہا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے ۔ نیز جناب تقی عثمانی دیوبندی صآحب نے بھی اس کی سند کے “صحیح” ہونے کا اعتراف کیا ہے ۔ (درس ترمذی از تقی عثمانی : ۳۳۷/۱)

دلیل نمبر ۴:
عن المغیرۃ بن شعبۃ، عن أبیہ قال : توضأالنبی ﷺ، ومسح علی الخفین، والعمامۃ.
“سیدنا مغیرہ بن شعبہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے وضو فرمایا اور اپنےموزوں اور پگڑی پر مسح کیا ۔ “
(مسندالامام احمد: ۲۴۸/۴، جامع الترمذی : ۱۰۰)

اس حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (۱۵۱۴) اور امام ابن حبا ن رحمہ اللہ (۱۳۴۷) نے “صحیح ” کہاہے ۔ نیز جناب تقی عثمانی صاحب نے اس کی سند کے “صحیح” ہونے کا اعتراف کیا ہے ۔ (درس ترمذی از تقی : ۳۳۷/۱)

امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حدیث المغیرۃ بن شعبۃ حدیث حسن صحیح ، وھو قول غیر واحد من أھل من أصحاب النبی ﷺ، منھم أبوبکر ، و عمر، وأنس، وبہ یقول الأوزاعی، وأحمد، وإسحاق، قالوا: یمسح علی العمامۃ.
“سیدنا مغیرہ بن شعبہ کی حدیث حسن صحیح ہے ۔ بہت سے اہل علم صحابہ کرام کا یہ قول ہے ۔ ان میں سے سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا عمر فاروق اور سیدنا انس رضی اللہ عنہم اجمعین بھی ہیں۔ امام اوزاعی ، امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ پگڑی پر مسح کیا جاسکتا ہے ۔”
(جامع الترمذی : تحت حدیث : ۱۰۰)

دلیل نمبر ۵:
عن عاصم قال: رایت انس بن مالک بال، ثم توضا، ومسح علی عمامتہ، وخفیہ.
“عاصم رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : میں نے دیکھا کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے پیشاب کیا ، پھر وضو کیاا ور اپنی پگڑی پر اور موزوں پر مسح کیا ۔” (مصنف ابن ابی شیبہ : ۱۸۲/۱، مصنف عبدالرزاق : ۱۸۹/۱، وسندہ صحیح)

دلیل نمبر ۶:
عن ابی غالب قال : رأیت أبا أمامۃ یمسح علی العمامۃ.
“ابو غالب رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوامامہ کو پگڑی پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ۔ “
(مصنف ابن ابی شیبہ : ۲۱/۱، الاوسط لا بن المنذر : ۴۶۸/۱، وسندہ صحیح)

امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وسمعت الجارود بن معاذ یقول: سمعت وکیع بن الجراح یقول: إن المسح علی العمامۃ یجزئہ الاثر.
“میں نے جارود بن معاذ کو سنا، وہ بیان کررہے تھے کہ میں نے وکیع بن جراح رحمہ اللہ کو یہ کہتے ہوئے سنا : پگڑی پر مسح کو حدیث نبوی ﷺ جائز قرار دیتی ہے ۔ ” (جامع الترمذی ، تحت حدیث : ۱۱۰، وسندہ صحیح إلی الامام وکیع)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جزاک اللہ خیرا
 
Top