• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وفات کے بعد دور و نزدیک سے درود کا سننا

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ @اسحاق سلفی حفظک اللہ
ایک بھائی نے اس روایت کی تخریج و صحت کے بارے پوچھا ہے:

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ حَدَّثَنَا الْمُقْرِئُ حَدَّثَنَا حَيْوَةُ عَنْ أَبِي صَخْرٍ حُمَيْدِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ فَأَخْبَرَ أَنَّهُ يَسْمَعُ الصَّلَاةَ وَالسَّلَامَ مِنْ الْقَرِيبِ وَأَنَّهُ يَبْلُغُهُ ذَلِكَ مِنْ الْبَعِيدِ.
(ابن تیمیہ : مجموع الفتاویٰ: ج26ص70 کتاب الحج، فصل؛ واذا دخل المدینۃ.. بحوالہ سنن ابو داؤد)
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ایک بھائی نے اس روایت کی تخریج و صحت کے بارے پوچھا ہے:
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج بوجوہ انٹر نیٹ سروس منقطع رہی ، اسلئے جواب نہیں دے پایا ، عشاء کے بعد ان شاء اللہ عرض کرتا ہوں ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
ایک بھائی نے اس روایت کی تخریج و صحت کے بارے پوچھا ہے:

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ حَدَّثَنَا الْمُقْرِئُ حَدَّثَنَا حَيْوَةُ عَنْ أَبِي صَخْرٍ حُمَيْدِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ فَأَخْبَرَ أَنَّهُ يَسْمَعُ الصَّلَاةَ وَالسَّلَامَ مِنْ الْقَرِيبِ وَأَنَّهُ يَبْلُغُهُ ذَلِكَ مِنْ الْبَعِيدِ.
(ابن تیمیہ : مجموع الفتاویٰ: ج26ص70 کتاب الحج، فصل؛ واذا دخل المدینۃ.. بحوالہ سنن ابو داؤد)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
مجموع فتاوی ابن تیمیہ کی اس عبارت میں عجیب گڑبڑ کی گئی ہے ۔۔ یا کم علمی و عجلت کے سبب ہوگئی ہے ۔واللہ اعلم
اصل عبارت پیش خدمت ہے :
امام ابن تیمیہ ؒ مدینہ منورہ اور مسجد نبوی کی حاضری کے آداب بتاتے ہوئے لکھتے ہیں :
ولا يقف عند القبر للدعاء لنفسه فإن هذا بدعة ولم يكن أحد من الصحابة يقف عنده يدعو لنفسه ولكن كانوا يستقبلون القبلة ويدعون في مسجده
{فإنه صلى الله عليه وسلم قال: اللهم لا تجعل قبري وثنا يعبد}
وقال: {لا تجعلوا قبري عيدا ولا تجعلوا بيوتكم قبورا وصلوا علي حيثما كنتم فإن صلاتكم تبلغني}
وقال: {أكثروا علي من الصلاة يوم الجمعة وليلة الجمعة فإن صلاتكم معروضة علي. فقالوا: كيف تعرض صلاتنا عليك؟ وقد أرمت أي بليت. قال إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء} فأخبر أنه يسمع الصلاة والسلام من القريب وأنه يبلغه ذلك من البعيد.

(مجموع فتاویٰ شیخ الاسلام ،جلد 26 ، صفحہ 147 )
فرماتے ہیں کہ :
زائر اپنے لئے دعاء کیلئے قبرشریف کے سامنے قبر کی طرف رخ کرکے دعاء کیلئے کھڑا نہ ہو ، کیونکہ یہ بدعت ہے ،
نبی کریم ﷺ کے صحابہ میں سے کوئی صحابی اپنے لئے دعاء کے وقت قبر کے پاس اس طرح کھڑا نہیں ہوا ، بلکہ دعاء کیلئے قبلہ رخ ہوتے تھے اور دعاء مسجد میں کرتے تھے ،
کیونکہ جناب نبی اکرم ﷺ کی دعاء تھی کہ : اے اللہ میری قبر کو بت نہ بنانا جس کی عبادت کی جائے ))
اور آپ ﷺ کا ارشاد گرامی تھا کہ : لوگو ! میری قبر کو میلہ گاہ نہ بنانا ، اور نہ اپنے گھروں کو قبرستان بنانا ، اور تم جہاں کہیں بھی ہو مجھ پر درود بھیجنا ،کیونکہ تمھارا درود مجھ تک پہنچایا جاتا ہے ))
اور آپ ﷺ نے فرمایا :
جمعہ کے دن اور جمعہ کی رات مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو، کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے“۔ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہمارا درود آپ پر کیسے پیش کیا جائے گا جب کہ آپ (فوت ہونے کے بعد ) بوسیدہ ہو چکے ہوں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے زمین پر پیغمبروں کے بدن کو حرام کر دیا ہے“۔
( امام ابن تیمیہ اس کے بعد فرماتے ہیں ) تو آپ ﷺ نے بتایا کہ قریب پڑھا جانے والا درود وہ سنتے ہیں ، اور دور سے بھیجا جانے والا درود ان تک پہنچایا جاتا ہے ‘‘ انتہیٰ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تھی مجموع الفتاوی کی اصل عبارت ؛
لیکن اس میں امام صاحبؒ نے جو آخری سطر میں فرمایا کہ قریب پڑھا جانے والا درود میں خود سنتا ہوں تو یہ بات کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ؛
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔
اور دوسری بات قابل توجہ یہ ہے کہ :
آپ کی سوالیہ عبارت میں جو حدیث اور اس کی اسناد لکھی ہے وہ کتابت کی ۔۔یا۔۔ قصداً واضح غلط ہے
کیونکہ اس سند کے ساتھ سنن ابی داود میں جو متن حدیث ہے وہ یوں ہے ۔۔ غور سے دیکھیں :
حدثنا محمد بن عوف، حدثنا المقرئ، حدثنا حيوة، عن أبي صخر حميد بن زياد، عن يزيد بن عبد الله بن قسيط، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «ما من أحد يسلم علي إلا رد الله علي روحي حتى أرد عليه السلام»
ترجمہ :
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ پر جب بھی کوئی سلام بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ میری روح مجھے لوٹا دیتا ہے یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں“۔

أبو داو،2041 ۔ وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۵۲۷) قال الشیخ الالبانیؒ (حسن )

علامہ البانیؒ نے اگرچہ اسے حسن کہا ہے ،لیکن شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے سنن ابوداود معہ انگریزی ترجمہ ط دارالسلام میں اس کی تحقیق میں لکھا ہے :

(( اسنادہ ضعیف ، اخرجہ احمد عن المقریء وصححہ ابن الملقن فی تحفۃ المحتاج ،
یزید بن عبد بن قسیط ثبت سماعہ من ابی ھریرۃ عند البیہقی ، ولکنہ یروی عن التابعین عن الصحابۃ ، ولم یصرح ھاھنا بالسماع ،فالسند شبہ الانقطاع ))​

یعنی اسکی سند ضعیف ہے ، علامہ ابن ملقن نے گو اسے تحفۃ المحتاج میں صحیح کہا ہے ، اور یزید بن عبداللہ کا سماع ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیہقی کی ایک روایت میں ثابت ہوتا ہے ، تاہم وہ تابعین کے حوالہ سے صحابہ سے روایات بیان کرتا ہے ،اور یہاں اس سند میں اس نے سماع کی تصریح نہیں کی جس سے سند میں انقطاع کا شبہ ہے ))

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مزید وضاحت مطلوب ہو تو بندہ حاضر ہے ، ان شاء اللہ
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جزاکم اللہ خیرا کثیرا
اللہ تعالی آپ کے علم و عمل و عمر اور مال و اولاد میں برکتیں دے..آمین
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مزید وضاحت مطلوب ہو تو بندہ حاضر ہے ، ان شاء اللہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ!
موصوف بھائی غالبا آپ کی پیش کش سے مزید مستفید ہونا چاہتے ہیں...ابتسامہ

مجھے کہتے ہیں:
اس حدیث بارے بھی دریافت فرمائیے گا

IMG-20170622-WA0018.jpg
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ!
موصوف بھائی غالبا آپ کی پیش کش سے مزید مستفید ہونا چاہتے ہیں...ابتسامہ
مجھے کہتے ہیں:
اس حدیث بارے بھی دریافت فرمائیے گا
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی نے جو سکین امیج سوال میں بھیجا ہے ، وہ علامہ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کی مشہور کتاب ( جلاء الافہام ) کا ہے ،
ہم اصل عبارت پیش کئے دیتے ہیں :
وَقَالَ أَبُو الشَّيْخ فِي كتاب الصَّلَاة على النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم حَدثنَا عبد الرَّحْمَن بن أَحْمد الْأَعْرَج حَدثنَا الْحسن بن الصَّباح حَدثنَا أَبُو مُعَاوِيَة حَدثنَا الْأَعْمَش عَن أبي صَالح عَن أبي هُرَيْرَة رَضِي الله عَنهُ قَالَ قَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم من صلى على عِنْد قَبْرِي سمعته وَمن صلى عَليّ من بعيد أعلمته وَهَذَا الحَدِيث غَرِيب جدا‘‘
”جو آدمی مجھ پر میری قبر کے پاس درود پڑھے گا، میں اسے سنوں گا اور جو دور سے مجھ پر درود بھیجے گا، مجھے اس کا درود پہنچا دیا جائے گا۔‘‘

اس کتاب یعنی جلاء الافہام کے محقق نے اس حدیث کی تعلیق میں لکھا ہے کہ :

هذا الحديث موضوع لانه معروف من رواية محمد بن مروان فلعل الخطأ من عبدالرحمن بن أحمد الاعرج فانه غير معروف - قال ابن عبد الهادي فى الصارم المنكي : وقد روى بعضهم هذا الحديث من رواية أبي معاوية عن الأعمش وهو خطأ فاحش، وإنما هو حديث محمد بن مروان تفرد به وهو متروك الحديث متهم بالكذب. ‘‘
یعنی یہ حدیث موضوع ( جھوٹی ) ہے ،کیونکہ یہ اصل میں محمد بن مروان السدی کی روایت سے منقول ہے ،( لیکن ابو الشیخ کی سند میں اس کا ذکر نہیں ) تو شاید یہ عبدالرحمن الاعرج کی غلطی ہے ، کیونکہ وہ معروف راوی نہیں ، امام عبدالھادی اپنی لاجواب تصنیف (الصارم المنکی ) میں فرماتے ہیں : کہ کچھ رواۃ نے اس حدیث کو ۔۔ ابومعاویہ عن الاعمش نقل کیا جو واضح غلطی ہے ، جبکہ حقیقت میں یہ حدیث محمد بن مروان سے منقول ہے
اور وہ متروک الحدیث ،جھوٹ بولنے سے متہم ہے ))
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے یہ حدیث درج ذیل کتابوں میں منقول ہے :
[شعب الإيمان للبيهقي : 1481، حياة الأنبياء فى قبورهم للبيهقي : 19، الضعفاء الكبير للعقيلي : 136/4-137، تاريخ بغداد للخطيب : 292/3، الترغيب والترهيب لأبي القاسم الأصبهاني :1666]
ان کتب میں موجود اسناد ( محمد بن مروان السدي، عن الأعمش، عن أبي صالح، عن أبي هريرة، )
کی حالت یہ ہے کہ :
یہ روایت سخت ترین ”ضعیف“ ہے، کیونکہ :
① اس کے راوی محمد بن مروان سدی (صغیر) کے ”کذاب“ اور ”متروک“ ہونے پر محدثین کرام کا اجماع ہے۔
امام احمد بن حنبل، امام ابو حاتم رازی، امام یحیٰی بن معین، امام بخاری، امام نسائی، امام جوزجانی اور امام ابن عدی رحمہ اللہ وغیرہ نے اس پر سخت جرح کر رکھی ہے۔
② اس کی سند میں سلیمان بن مہران اعمش ”مدلس“ ہیں اور انہوں نے سماع کی تصریح نہیں کی۔
↰ محدثین کرام اعمش کی ابو صالح سے عن والی روایت کو ”ضعیف“ ہی سمجھتے ہیں۔
◈ امام عقیلی رحمہ اللہ اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں:
لا أصل له من حديث الأعمش، وليس بمحفوظ، ولا يتابعه إلا من هو دونه۔
”یہ حدیث اعمش کی سند سے بے اصل ہے۔ یہ محفوظ بھی نہیں۔ محمد بن مروان کی متابعت اس سے بھی کمزور راوی کر رہا ہے۔“ [الضعفاء الكبير : 137/4]
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
یزید بن عبد بن قسیط ثبت سماعہ من ابی ھریرۃ عند البیہقی ، ولکنہ یروی عن التابعین عن الصحابۃ ، ولم یصرح ھاھنا بالسماع ،فالسند شبہ الانقطاع
محترم بھائی! کیا یہ جرح عجیب سی نہیں ہے؟ جب یزید بن عبد اللہ مدلس نہیں ہیں اور ان کا سماع ابو ہریرہ رض سے ثابت ہے جسے ذہبیؒ نے بھی تسلیم کیا ہے تو پھر صرف اس بنیاد پر کہ یہ تابعین سے روایت کرتے ہیں، ان کی صحابی سے کی ہوئی روایت کو کیسے رد کیا جا سکتا ہے؟
کیا ہر ایسے راوی پر سماع کی تصریح لازم ہے؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
محترم بھائی! کیا یہ جرح عجیب سی نہیں ہے؟ جب یزید بن عبد اللہ مدلس نہیں ہیں اور ان کا سماع ابو ہریرہ رض سے ثابت ہے جسے ذہبیؒ نے بھی تسلیم کیا ہے تو پھر صرف اس بنیاد پر کہ یہ تابعین سے روایت کرتے ہیں، ان کی صحابی سے کی ہوئی روایت کو کیسے رد کیا جا سکتا ہے؟
کیا ہر ایسے راوی پر سماع کی تصریح لازم ہے؟
ان شاء اللہ عید کے بعد دیکھتے ہیں ؛
 
Top