• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وقت کی دین میں کیا اہمیت ہے ؟ (اہل علم اس پر رائے دیں)

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
وقت کی دین میں کیا اہمیت ہے ؟ (اہل علم اس پر رائے دیں)
1452537_582977291757688_800620711_n.jpg
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
وقت کی اہمیت !!!

السلام علیکم و رحمہ اللہ و برکاتہ

دوستو وقت کی اہمیت سے تو ہر کوئ واقف ہوگا۔ کہتے ہیں کہ گیا وقت ہاتھ نہیں آتا۔ اسی طرح یہ بھی مشہور ہے کہ اگر آپ وقت کی قدر نہ کریں تو وقت آپ کو روندتا ہوا آگے چلا جاتا ہے اور آپ کے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں رہتا۔ اور یہ کہ ناکام لوگ وقت کی کمی کا رونا روتے رہتے ہیں اور کامیاب لوگ جو وقت میسر ہو اسے بھرپور طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اور کامیابی ان کے قدم چومتی ہے۔

اگر ہم ایک مسلمان کی حیثیت سے اس بات پر غور کریں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ یہاں بھی وقت کی بہت اہمیت ہے۔

نماز ہمارے دین کا ایک بنیادی ستون۔ نماز کو اپنے وقت پر ادا کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اگر نہ کرے تو گناہ گار ہوگا۔

زکات کے قابل ادا ہونے کا انحصار بھی دولت کا ایک معینہ وقت تک آپ کے پاس موجود ہونے پر ہے۔ اور اگر اس مقررہ مدت یعنی ایک سال پورا ہونے پر ادا نہ کی تو بھی وہ گناہ گار ٹھرے گا۔

اسی طرح ہم روزوں کے حوالے سے دیکھیں تو روزے ہم پر سال کے ایک خاص مہینے یعنی رمضان کے مہینے میں رکھنے فرض ہیں اور سحر و افطار کا ایک خاص وقت معین ہے۔

حج بھی سال کے ایک معین مہینہ یعنی ذی الحج میں ہی ادا کرنا فرض قرار دیا گیا ہے۔

اگر ہم عام اور روز مرہ زندگی کا جائزہ لیں تو ہمارے تمام امور کا انحصار وقت پر ہی ہے۔

اگر ہم کوئ نوکری وغیرہ کرتے ہیں تو ہماری روزانہ ڈیوٹی کی ایک خاص وقت متعین ہوتا ہے۔ اگر ہم اس مقررہ وقت سے زیادہ ڈیوٹی انجام دیں تو اوور ٹائم کے حقدار ٹھرتے ہیں ۔ اور اگر کم کریں گے تو ہماری تنخواہ کاٹی بھی جاسکتی ہے۔

اسی طرح جب کسی بھی کمپنی کو کوئ پروجیکٹ وغیرہ اوارڈ کیا جاتا ہے تو اس پروجیکٹ کو ایک خاص وقت تک مکمل کرنا ضروری ہوتا ہے اور اگر نہ کیا جاۓ تو اس جرمانے وغیرہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اسی طرح عام زندگی کی بہت سی مثالیں وقت کی اہمیت کے حوالے سے دی جاسکتی ہیں۔ اب دیکھیۓ نا کل ہی کی بات ہے جمعہ کے اردو نیوز کی خبر کے مطابق ہماری ایک محترم وزیر نے چینی وفد کو ملاقات کا ٹائم دیا اور وفد تقریبا ڈیڑھ گھنٹا انتظار کرنے کے بعد ناراض ہو کر واپس چلا گیا۔ محترمہ جب اپنے آفس پہنچی تو انہوں نے اپنے اسٹاف ہے کہا کہ انہیں دوبارہ بلائیں۔ جب انہوں نے چین کے سفارت خانے فون کیا تو جواب ملا کہ اب ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔ یہ سب اس لیۓ ہوا کہ محترمہ وزیر صاحبہ نے وقت کی پابندی نہیں کی۔

دوستو یہ ساری تمہید اس لیۓ باندھی کہ وقت کے حوالے سے ایک نہایت اہم امر کی طرف توجہ دلا سکوں۔ عام طور پر میں گھر سے آفس کے لیۓ 9 بجے تک نکلتا ہوں اور اس کے بعد دوبجے گھر واپس آکر 30۔4 بجے دوبارہ گھر سے نکلتا ہوں اور رات 9 بجے تک واپسی ہوتی ہے۔ صبح گھر سے نکلنے ہے پہلے ہی ذہن میں دن کی مصروفیت کے حوالے سے کی ترتیب دی ہوتی ہے اور عام طور پر اسی ترتیب پر عمل کرتا ہوں۔ بدھ کے روز میں اپنے آفس میں کام میں مصروف تھا اور کچھ پیپرز مجھے ایک بجے سے پہلے مکمل کرنے تھے۔ صبح تقریبا 10 بجے میرے ایک جاننے والے بغیر اطلاع میرے آفس آ پہنچے۔ میں کچھ حیران ہوا کہ یہ اپنی اور میری ڈیوٹی کے وقت کیسے ملنے آگۓ۔ آتے ہی کہنے لگے کہ میں ادھر سے گذر رہا تھا سوچا آپ سے ملتا چلوں۔ میں نے دل میں سوچا کہ کوئ بات نہیں تھوڑی دیر بیٹھیں گے اور چلے جائیں گے۔ خیر باتیں شرو‏ع ہوئیں آدھا گھنٹہ گذرا، ایک گھنٹہ بھی گذر گیا اب میں سوچنے لگا کہ کام کیسے مکمل کروں گا۔ تو جناب ہوا یہ کہ وہ صاحب تین گھنٹے سے زیادہ میرے پاس بیٹھے رہے۔ کام کرنا تو درکنار میں یہ سوچنے لگا کہ یہ اب واپس جائیں گے بھی یا نہیں۔ باتوں باتوں میں ان کے اتنی دیر تک بیٹھنے کی وجہ بھی سمجھ میں آگئ وہ یہ کہ موصوف ایک کمپنی میں سیلز مینیجر ہیں۔ اور انہوں نے اپنا اس مہینے کا ٹارگیٹ پورا کردیا تھا۔ اب ان کے پاس وقت کی فراغت تھی۔ تو انہوں نے سوچا کہ میرے پاس بیٹھ کر وقت پاس کیا جاۓ۔ میں نے ایک اور بات سوچی وہ یہ کہ آج یہ میرے پاس آۓ ہیں کل کسی اور کا وقت بھی اسی طرح ضائع کریں گے۔ خیر وہ تو چلے گۓ مگر مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر گۓ۔ اور چند باتیں میرے ذہن میں آئیں جنہیں میں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں اور ان پر آپ کی راۓ کا منتظر رہوں گا۔

1- کسی بھی دوست یا ملنے والے کے پاس بغیر اطلاع کے نہ جایا جاۓ۔

2- اور اگر اطلاع دے کر بھی جائیں تو اتنی دیر تک نہ بیٹھیں کا آپ کا میزبان یہ سوچنے لگے کہ اب یہ جائیں گے بھی یا نہیں۔

3- جانے کا وقت ایسا منتخب کیا جاۓ جو میزبان کے آرام یا کسی اور مصروفیت کا وقت نہ ہو۔

4- اگر بچوں کے امتحان وغیرہ کے دن ہوں تو کسی کے ہاں جانے سے اجتناب کیا جاۓ تاکہ بچوں کی پڑھائ میں حرج نہ ہو۔

5- کسی دوست وغیرہ کے کام کے اوقات میں مخل نہ ہوا جاۓ اور اس کے یا کام کی جگہ جانے سے پرہیز کیا جاۓ۔ اور اگر جانا ضروری ہو تو مختصر وقت تک ٹھرا جاۓ تاکہ آپ کے دوست کے کام کا حرج نہ ہو۔

6- آخری اور بہت ضروری بات وہ یہ کہ آپ نے اپنے کسی دوست کو فون کیا کہ میں آرہا ہوں مگر آپ کے دوست نے کوئ عذر پیش کر دیا تو اس بات پر ناراض ہونے کے بجاۓ اس کے عذر کو تسلیم کیا جاۓ۔

یہ چند باتیں میرے ذہن میں تھیں جنہیں میں نے آپ کے سامنے رکھ دیا۔ اگر دوستوں کے ذہن میں کوئ اور بات ہو تو وہ بھی سب کی معلومات کے لیۓ یہاں شئر کر دیں


http://www.urduvb.com/forum/showthread.php?t=21846
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
سمجھدار وہ ہے جو اپنے رب کی توفیق سے فائدہ اٹھائے ۔

لہٰذا اے مسلمان بھائی ! بیماری میں مبتلا ہونے سے قبل اٹھ کھڑا ہو! فراغت کے لمحات کو قیمتی بنا لے! اور دار آخرت کے لیے اپنے آپ کو تیار کر لے! اور فنا ہو جانے والے گھر میں گم نہ ہو جا!

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ (9) وَأَنْفِقُوا مِنْ مَا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُنْ مِنَ الصَّالِحِينَ [المنافقون: 9، 10]

''اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے مال اور تمہاری اولادیں تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں جو لوگ ایسا کریں وہی خسارے میں رہنے والے ہیں (9) جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرو قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جائے اور اُس وقت وہ کہے کہ "اے میرے رب، کیوں نہ تو نے مجھے تھوڑی سی مہلت اور دے دی کہ میں صدقہ دیتا اور صالح لوگوں میں شامل ہو جاتا''
، حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ (99) لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ [المؤمنون: 99، 100].

''یہ لوگ اپنی کرنی سے باز نہ آئیں گے) یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آ جائے گی تو کہنا شروع کرے گا کہ "اے میرے رب، مجھے اُسی دنیا میں واپس بھیج دیجیے جسے میں چھوڑ آیا ہوں (99) امید ہے کہ اب میں نیک عمل کروں گا" ہرگز نہیں، یہ بس ایک بات ہے جو وہ بک رہا ہے اب اِن سب (مرنے والوں) کے پیچھے ایک برزخ حائل ہے دوسری زندگی کے دن تک۔''
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم حساب کو پس پشت ڈالنے سے ڈرایا ہے۔

صحیح بخاری میں فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

«نِعمتانِ مغبونٌ فيهما كثيرٌ من الناسِ: الصحةُ والفراغُ».

''دو نعمتیں ایسی ہیں جن کی اکثر لوگ ناقدری کرتے ہیں :
1۔صحت اور 2۔فراغت۔
 
Top