• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وقت کی دین میں کیا اہمیت ہے ؟ (اہل علم اس پر رائے دیں)

عبدالقیوم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 25، 2013
پیغامات
825
ری ایکشن اسکور
433
پوائنٹ
142
ﻭﻗﺖ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﻟﺖ
ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﮐﮧ ﺟﻮ
ﺷﺨﺺ ﺟﮭﻮﭦ ﺑﻮﻟﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﮑﮍﺍ ﮔﯿﺎ ﺍﺱ
ﮐﻮ ﭘﺎﻧﭻ ﺩﯾﻨﺎﺭ ﺟﺮﻣﺎﻧﮧ ﮨﻮﮔﺎ، ﻟﻮﮒ ﺍﯾﮏ
ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺑﮭﯽ ﮈﺭﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﮐﮧ
ﺍﮔﺮ ﺟﮭﻮﭦ ﺑﻮﻟﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﮑﮍﮮ ﮔﺌﮯ ﺗﻮ
ﺟﺮﻣﺎﻧﮧ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ، ﺍﺩﮬﺮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺍﻭﺭ
ﻭﺯﯾﺮ ﺑﮭﯿﺲ ﺑﺪﻝ ﮐﺮ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﻮﻣﻨﮯ
ﻟﮕﮯ، ﺟﺐ ﺗﮭﮏ ﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﺁﺭﺍﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ
ﻏﺮﺽ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺗﺎﺟﺮ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﭨﮭﮩﺮﮮ،
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﭼﺎﺋﮯ ﭘﻼﺋﯽ، ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ
ﺗﺎﺟﺮ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ:
"
ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﻋﻤﺮ ﮐﺘﻨﯽ ﮨﮯ؟"
ﺗﺎﺟﺮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ 20" ﺳﺎﻝ۔ "
"
ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﺩﻭﻟﺖ ﮐﺘﻨﯽ ﮨﮯ؟ "
ﺗﺎ ﺟﺮﻧﮯ ﮐﮩﺎ۔۔۔ 70" ﮨﺰﺍﺭ ﺩﯾﻨﺎﺭ"
ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ" :ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﺑﭽﮯ ﮐﺘﻨﮯ
ﮨﯿﮟ؟ "
ﺗﺎﺟﺮ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ" :ﺍﯾﮏ"
ﻭﺍﭘﺲ ﺁﮐﺮ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﺩﻓﺘﺮ ﻣﯿﮟ
ﺗﺎﺟﺮ ﮐﮯ ﮐﻮﺍﺋﻒ ﺍﻭﺭ ﺟﺎﺋﯿﺪﺍﺩ ﮐﯽ ﭘﮍﺗﺎﻝ
ﮐﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﯿﺎﻥ ﺳﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺗﮭﯽ،
ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺗﺎﺟﺮ ﮐﻮ ﺩﺭﺑﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﻃﻠﺐ ﮐﯿﺎ
ﺍﻭﺭ ﻭﮨﯽ ﺗﯿﻦ ﺳﻮﺍﻻﺕ ُﮬﺮﺍﺋﮯ۔ ﺗﺎﺟﺮ ﻧﮯ
ﻭﮨﯽ ﺟﻮﺍﺑﺎﺕ ﺩﯾﮯ۔
ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﻭﺯﯾﺮ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ:
"
ﺍﺱ ﭘﺮ ﭘﻨﺪﺭﮦ ﺩﯾﻨﺎﺭ ﺟﺮﻣﺎﻧﮧ ﻋﺎﺋﺪ ﮐﺮ ﺩﻭ
ﺍﻭﺭ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﺧﺰﺍﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﻤﻊ ﮐﺮﺍﺩﻭ،
ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺗﯿﻦ ﺟﮭﻮﭦ ﺑﻮﻟﮯ ﮨﯿﮟ،
ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﮐﺎﻏﺬﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ 35
ﺳﺎﻝ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ 70 ﮨﺰﺍﺭ ﺩﯾﻨﺎﺭ ﺳﮯ
ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺭﻗﻢ ﮨﮯ، ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﻧﭻ ﻟﮍﮐﮯ
ﮨﯿﮟ۔"
ﺗﺎﺟﺮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ: ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ 20 ﺳﺎﻝ ﮨﯽ
ﻧﯿﮑﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﺩﺍﺭﯼ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﮮ ﮨﯿﮟ،
ﺍﺳﯽ ﮐﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﻋﻤﺮ ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﮨﻮﮞ
ﺍﻭﺭ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ 70 ﮨﺰﺍﺭ ﺩﯾﻨﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ
ﺍﯾﮏ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﺧﺮﭺ ﮐﯿﮯ
ﮨﯿﮟ، ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺩﻭﻟﺖ ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﮨﻮﮞ
ﺍﻭﺭ ﭼﺎﺭ ﺑﭽﮯ ﻧﺎﻻﺋﻖ ﺍﻭﺭ ﺑﺪ ﺍﺧﻼﻕ ﮨﯿﮟ،
ﺍﯾﮏ ﺑﭽﮧ ﺍﭼﮭﺎ ﮨﮯ، ﺍﺳﯽ ﮐﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﺑﭽﮧ
ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﮨﻮﮞ۔ "
ﯾﮧ ُ ﮐﺮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺟﺮﻣﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ
ﻭﺍﭘﺲ ﻟﮯ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺟﺮ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ:
"
ﮨﻢ ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﺟﻮﺍﺏ ﺳﮯ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ،
ﻭﻗﺖ ﻭﮨﯽ ﺷﻤﺎﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻻﺋﻖ ﮨﮯ، ﺟﻮ
ﻧﯿﮏ ﮐﺎﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﺰﺭ ﺟﺎﺋﮯ، ﺩﻭﻟﺖ ﻭﮨﯽ
ﻗﺎﺑﻞِ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺭﺍﮦِ ﺧﺪﺍ ﻣﯿﮟ ﺧﺮﭺ ﮨﻮ
ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻻﺩ ﻭﮨﯽ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﯽ ﻋﺎﺩﺗﯿﮟ ﻧﯿ

 

عبدالقیوم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 25، 2013
پیغامات
825
ری ایکشن اسکور
433
پوائنٹ
142
وقت کی اہمیت
گزرا ہوا زمانہ آتا نہیں دوبارہ
ظہوراحمد شاہ
زندگی ذات باری تعالیٰ کابیش بہا عطیہ ہے ۔ یہ محض فضلِ ربانی کی عطا کردہ ہے ۔ کسی کی زندگی اس کی اپنی حاصل کردہ نہیں بلکہ زندگی کا کوئی لمحہ وہ از خود بڑھا گھٹا نہیں سکتا۔ اس کے سارے لمحات گنے ہوئے او رایزدتعالیٰ کے مقرر کردہ ہیں ۔ لمحہ لمحہ دن ہے ، دن دن سے جڑتاہے تو ہفتہ کی شکل اختیار کرتاہے ۔ اسی طرح مہینہ اور سال بنتاہے ۔ انہی لمحوں کے مجموعے میں جینے کا نام زندگی ہے یعنی ہماری زندگی کا سارا دورانیہ لمحوں سے عبارت ہے ۔
حضرت حسن بصریؒ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ ابن آدم! زمانہ تیرا ہی تو نام ہے ، ایک روز گزرجانے کا مطلب ہے کہ تیرا ایک حصۂ زندگی گزرگیا ۔ بقول شاعر ؎
میری عمر اتنی دراز ہے یہ میری زندگی کا ایک راز ہے
پیرا ہو تو سنی اذاں مرا تو وقت نماز ہے
غرض ذات باری تعالیٰ نے ہمیں عبث پیدا نہیں کیا اور اس نے ہمیں بلاوجہ زندگی سے نہیں نوازا بلکہ قرآ ن کریم میں فرمایا ’’سوکیا تم خیال رکھتے ہوکہ ہم نے تم کو بنایا کھیلنے کو ‘‘۔(المومنون)بلکہ اس نے ہمیں عظیم ترین مقصد کے لئے پیدا کیاہے ۔ یہ مقصد اس کی عبادت اور بندگی ہے ۔ دوسری جگہ فرمایا ہے ’’میں نے جو بنائے جِن اور آدمی سوا پنی بندگی کو ‘‘ (الذاریات)۔ گویا ہم اس بات کے پابند ہیں کہ ہم اس بات کا خیال رکھیں کہ زندگی کا کوئی لمحہ رائیگاں نہ ہو ،بلکہ وہ بندگی طاعت اور کارِخیر میں گزرے ۔ اگرہم نے زندگی کا کوئی لمحہ بے مقصد گزار دیا تو گویاہم نے زبانِ حال اور اپنے اعمال سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ایزد تعالیٰ نے ہمیں عبث پیدا کیا تھا۔ حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ وقت کو اگر کارِ خیر میں صرف نہ کیا جائے تو وہ انسان کو شر میں مبتلا کردیتاہے ۔ اس لئے ہم اس بات کے مکلف ہیں کہ زندگی کے سارے وقفوں اور لمحوں کو سوچ سمجھ کر صرف ذات باری تعالیٰ کی رضاکے کاموں میں لگائیں اور کوشش کریں کہ اوقات کو رائیگاں ہونے نہ دیں کیونکہ ہماری زندگی کے اوقات ولمحات کو صحیح مصرف میں خرچ کرنے یا نہ کرنے پر ہی جنت یا جہنم کی ابدی زندگی کا دارومدار ہے۔ اس سے یہ بات عیاں ہوگئی کہ وقت ہی عمر ہے ۔ اگر ہم نے وقت کا کوئی حصہ ضائع کردیا تو اپنی عمر عزیز کا ایک حصہ ضائع کردیا، جس کے لئے لمحے لمحے کا ہم سے بروزِ حشر حساب لیا جائے گا ۔ بقول سعدی ؒ ؎
چہل سال عمر عزیزت گذشت
مزاجِ تو از حالِ طفلی نہ گشت
حدیث شریف میں آیاہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روزِ محشر میں حساب کی جگہ سے کسی بند ے کے قدم اس وقت تک کھسک نہیں سکیں گے ، جب تک اس سے اس کی عمر کے حوالے سے یہ نہیں معلوم کرلیا جائے گاکہ تُونے اس کو کس میں صرف کیا ہے ؟
یہاں یہ بات ذہن نشین کرنی ضروری ہے کہ ذات پاک کی بندگی واطاعت صرف ارکانِ اربعہ (نماز ، روزہ ، زکوٰۃ ، حج) تک ہی محدود نہیں،جیساکہ عام طور سے سمجھا جاتاہے بلکہ ان عبادات کے علاوہ بھی ہرحرکت وسکون عبادت ہے ، اگر وہ الٰہی اور امرونواہی کی پابندی سے عبارت ہو، گویا ایک مسلمان کی پوری زندگی عبادت واطاعت ہی ہے ۔ اگر وہ خدا کی مرضی کے مطابق گزاری جائے ۔
یہاں یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ طلب ِ علم،طلبِ رزق، افادۂ خلق کے کام ، مطالعہ وکتب بینی اور ان کی لاتعداد شکلیں، سبھی عباداتِ الٰہی ہیں اس لئے ان میں اپنی زندگی کے اوقات کو صرف کرنا ، رضائے الٰہی کا ذریعہ ہے۔
غرض وقت ایک مختصر عنوان ہے ، جس کے مختلف گوشے ہیں اور ہر گوشہ مستقل گفتگو کا متقاضی ہے کیونکہ وقت کی قیمت واہمیت سب لوگوں کے نزدیک برابر نہیں ہے ۔فلسفیوں کی نظر میںوقت کی جو قیمت ہے ، وہ تاجروںکے نزدیک نہیں ،صنعت کار کی نظر میں وقت کی جو اہمیت ہے ، وہ کسان کی نظر میں نہیں ۔اسی طرح فوجی ، سیاست دان ، عام نوجوان ،بوڑھے اور اہل علم،سبھوں کے نزدیک وقت کی قدر وقیمت کے پیمانے مختلف ہیں ۔
اس وقت ہماری گفتگو کا جو موضوع ہے وہ طلبہ اور اہل علم حضرات کے نزدیک وقت کی قدر واہمیت ہے ۔
قرآن کریم میں ذات باری تعالیٰ نے فرمایا ’’قسم ہے زمانے کی انسان بڑے خسارے میں ہے‘‘۔(العصر) ۔ مفسرین حضرات نے تفسیروں میں (عصر) کی جو تفسیر کی ہے ، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ذات باری تعالیٰ نے ’’عصر‘‘ زمانے کی قسم کھائی ہے کیونکہ وہ عجائبات کا مجموعہ ہے ، انسان کو اس میں خوشحالی وتنگ دستی ،صحت ومرض ، دولت وثروت اور غربت وافلاس کا سامنا کرنا پڑتاہے ۔ نیز عمرایک ایسی جنس گراں مایہ ہے جس کا بدل سیم وزر مال ودولت یا بیش قیمت جواہرات میں بھی تلاش نہیں کیاجاسکتا۔
جہاں تک حدیث شریف کا تعلق ہے تو اس میں زمانے کی قدر واہمیت اور بھی واضح طور پر بیان کی گئی ہے ۔حضرت ابن عباسؓ سےمنقول ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے : ’’دونعمتیں ایسی ہیں ،جن کے سلسلے میں بہت سے لوگ دھوکے میں ہیں : ایک صحت وتندرستی دوسرے فارغ اوقات‘‘۔
غرض وقت ذات باری تعالیٰ کی ایک عظیم ترین نعمت اور اس کا بے بہا عطیہ ہے ،لیکن دنیا میں اس کے قدر داں اور اس سے پورے طور پر مستفید ہونے والے وہی لوگ ہوتے ہیں جو خالق کائنات کی طرف سے باتوفیق اور یکتائے روزگار ہوتے ہیں ۔ حدیث شریف کے الفاظ ’’اُن دونوں کے سلسلے میں بہت سے لوگ دھوکے میں ہیں‘‘سے بھی یہی پتہ چلتاہے ۔ معلوم ہواکہ وقت کی منفعتوں سے بہرہ اندوز ہونے والے لوگ بہت تھوڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں اور اکثریت ان لوگوں کی ہے جو کوتاہ کار اور مبتلائے فریب ہیں ۔ اس حقیقت کو شاعر نے بڑے اچھے انداز میں اس طرح سے بیان کیاہے ؎
تمام عمر نہ سمجھے وہ وقت کی قیمت
قدم قدم پر جو رُک رُک کے بار بار چلے
غرض ضائع کئے گئے وقت پر غیرت وندامت جان لیوا ہوتی ہے ، اس لئے کہ وقت تیزی کے ساتھ ختم ہوجاتاہے ۔ وہ بڑا غیور وخوددارہے کبھی لوٹ کر واپس نہیں آتاہے ۔ وقت نکل جانے کے بعد اس کی تلافی کی کوئی صورت نہیں ہوسکتی ۔
جو وقت برباد ہوگیا اس پر غیرت کے جان لیوا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس تاسف وندامت کا اثر انسان پر تلوار کی طرح ہوتاہے کیونکہ وقت کی بربادی پر ہونے والے حسرت اس کے لئے سوہانِ روح بن جاتی ہے ، خاص کر جب کہ اس کو یہ یقین ہوکہ اب تلافی کی کوئی شکل نہیں ہے ۔پھر وقت کے زیاں پر ندامت وافسوس کے اظہار میں بجائے خود وقت کی بربادی ہے اس لئے عربی کی کہاوت ہے ’’وقت تلوار کی مانند ہے ، اگر تم اس کو نہ کاٹو گے تو وہ تمہیں کاٹ دے گا۔‘‘
وقت بذاتِ خود فنا پذیر شئے ہے ،غافل شخص کے اوقات رائیگاں جاتے ہیں اس کا خسارہ غیر معمولی او راس ضائع شدہ وقت کی مقدار وقیمت کا انسان کو علم ہوگا تو اس پر کیا گزرے گی ؟ اس کی خواہش ہوگی کہ دُنیا میں اس کو دوبارہ بھیج دیا جائے مگر اس کی خواہش کو ردّکردیا جائے گا ، وہ دوبارہ ایک اور موقع حاصل کرنے کا متمنی ہوگا جس کو وہ اپنے ہاتھوں کھو چکاہوگا۔ اس لئے شاعر نغمہ زن ہے ؎
غافل منشیں نہ وقت بازیست
وقت ہنر است وکار سازیست
مگر غورکیجئے گزشتہ ایام کی واپسی اس دن کیسے ممکن ہوگی ؟
’’اتنی دور جگہ سے ، ان کے ہاتھ آنا کہاں ممکن ہے ‘‘ ۔(سبا) ۔ انسان کی خواہش کی تکمیل روک دی جائے گی اور اس کیگ زشتہ زندگی کی کوئی حیثیت نہ ہوگی ۔ انسانی احوال وکیفیات کو کوئی قرار وثبات نہیں ، وہ تیز رفتاری کے ساتھ تغیر پذیر ہیں ۔انسان کا وقت کسی نہ کسی حالت میں گزر ہی جاتاہے ، تاہم وہ اپنے بعد اپنا اثر ضرور چھوڑجاتاہے ۔
اس لئے انسان کو وقت کے مفید آثار ونتائج پر نظر رکھنی چاہئے کیونکہ لامحالہ وقت گذر جانے کے بعد اچھا یا بُرا نتیجہ سامنے آکر رہتاہے ؎
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتاہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی ایک اورگھٹا دی
آپ اندازہ کرو جب وقت ہی وہ خام مواد ہے جس سے مالی فائدہ اٹھایا جاتاہے ، علم حاصل کیا جاتاہے ، مطالعہ وکتب بینی کے ذریعے بلند مقام پر پہنچ سکتاہے اور صحت بنائی جاتی ہے تو سوچئے ہم نے کتنا ایسا موادضائع کردیا؟ کتنی عمریں بیکاری میں گنوا دیں؟ نہ دنیا کا کوئی کام سدھارا نہ آخرت بنائی ۔
وقت کے زیاں کا ایک نتیجہ دولت وثروت کے بہت سے سرچشموں کو کھودیتاہے ۔ ان سے فائدہ اٹھایاجاسکتاہے اگر وقت سے غفلت اور اس کے صحیح استعمال سے ناواقفیت کی بیماری نہ لگی ہو ۔ کتنی ہی ناقابل کاشت زمین کو کاشت کے قابل بنایا جاسکتا تھا ، خالی وقت کے کسی بھی حصے میں مختلف قسم کے بہت سے کارخانے قائم کرکے چلا جاسکتے تھے ۔
اگرچہ دورِ حاضر علوم جدید ہ کے میدان میں انتہائی تیزی کے ساتھ اتنی محیرالعقول تبدیلیاں لاتا ہے جن کو ایک دھماکہ خیزصورت حال سے تعبیر کرنا غلط نہ ہوگا،ان علمی کمالات کے جہاں مثبت پہلو ہیں وہیں منفی اور نقصان دہ پہلو بھی ہیں ۔
اس لئے علماء کرام اور دینی تنظیموں کے اکابرین سے دردمندانہ گذارش ہے کہ وہ قوم کو گہری نیند سے بیدا کریں اور قوم کو اچھی طرح ذہن نشین کرائیں کہ وقت کے صحیح استعمال اور ذہنی صلاحیتوں کے تعمیری پہلوؤں کی پرداخت کرنے میں قوم کی ترقی کا راز مضمرہے ۔

 

عبدالقیوم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 25، 2013
پیغامات
825
ری ایکشن اسکور
433
پوائنٹ
142
وقت کی قدر کیجئے !
وقت کی قدر کیجئے!

شنید ہے کہ بھلے وقتوں میں کسی دانشور نے یاران نکتہ داں کیلئے یوں صلائے عام کی کہ بتاؤ! اس کائنات میں مہنگی ترین چیز کیا ہے؟ اس سوال کا جواب دینے والے مختلف ہوگئے، کسی نے سونے کو مہنگی چیز کہا، کسی نے ہیرے کو مہنگی شئ قرار دیا، کسی نے کچھ کہا اور کسی نے کچھ، الغرض جتنے منہ اتنی باتیں تھیں، دانشور صاحب کو کسی کا بھی جواب درست نہیں لگا تو خود ہی جواب ارشاد فرمایا کہ دنیا میں قیمتی ترین شئ ”وقت“ ہے۔
درست ارشاد فرمایا موصوف نے، واقعی دنیا میں وقت سے زیادہ قیمتی کوئی شئ نہیں، انسان دنیا میں کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ ہر طرح کی ترقی کی راہوں پر وقت کے بغیر گامزن نہیں ہوسکتا، اگر آدمی کے پاس وقت نہیں تو وہ ایک سوئی بھی حاصل نہیں کرسکتا، اور اگر وقت ہو اور آدمی اپنی کوشش بھی جاری رکھے تو سونے کی کان تک بھی رسائی حاصل کرسکتا ہے۔
چنانچہ جب انسان دنیا میں وقت کو غنیمت جان کر رضائے الٰہی کے حصول میں لگ جاتا ہے تو وہ جنت جیسی ابد الآباد نعمتوں کا مستحق قرار پاتاہے، یہی انسان جب وقت کو صرف عیش کوشی اور خرمستیوں میں ضائع وبرباد کردیتا ہے تو جہنم کا ایندھن بن کے رہ جاتا ہے۔ نبی کریم رحمت عالم ا نے فراغ (وقت فرصت) کو عظیم نعمت فرمایا اور اس سے فائدہ نہ اٹھانے والوں کو ”گھاٹے میں پڑنے والے“ فرمایا، چنانچہ مشہور صحابی رسول حضرت ابن عباس  آپ اسے نقل کرتے ہیں:
”عن ابن عباس قال: قال رسول اللہ ا نعمتان مغبون فیہما کثیر من الناس الصحة والفراغ“۔ (بخاری، ص:۹۴۹)
ترجمہ:…”حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ آپ انے ارشاد فرمایا: دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں بہت سے لوگ غبن کرتے ہیں، ۱…صحت، ۲…فرصت کے لمحات“۔
اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے علامہ بدر الدین عینی المتوفی ۸۵۲ھ رقمطراز ہیں:
فکأنہ قال: ہذان الامران اذا لم یستعملا فیما یبنغی فقد غبن صاحبہا ای باعہا یبخس لاتحمد عاقبتہ“۔ (عمدة القاری:۲۳/۳۱)
یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دونوں چیزیں جب اپنے مصرف میں استعمال نہ کی جائیں تو گویا اس کے مالک نے غبن کیا، یعنی اس نے معمولی قیمت کے بدلہ میں اسے بیچا جس کے انجام کار تعریف نہیں کی جاسکتی۔
وقت کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ رب تعالیٰ نے قرآن کریم میں دن رات کے مختلف اوقات کی قسم کھائی ہے اور ایک جگہ زمانہ کی قسم کھائی فرمایا ”والعصر، ان الانسان لفی خسر“ آیات بالا کی تفسیر کرتے ہوئے مشہور مفسر علامہ فخر الدین الرازی المتوفی ۶۰۶ھ لکھتے ہیں:
”فکان الدہر والزمان من جملة اصول النعم فلذلک اقسم بہ ونبّہ علی ان اللیل والنہار فرصة یضیعہا المکلف“۔ (التفسیر الکبیر،ص:۶۷۴)
یعنی دہر اور زمانہ من جملہ نعمتوں میں سے ہے، اسی لئے اللہ نے اس کی قسم کھائی اور متنبہ کیا کہ رات اور دن فرصت کے لمحات ہیں جسے مکلف (انسان) ضائع کرتا ہے۔
بروز قیامت جب جہنمی مدد کو پکاریں گے تو ان کو وقت ضائع کرنے پر حسرت دلاکر ملامت کیا جائے گا اور ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوگی، اس حقیقت کو قرآن کریم نے یوں بیان کیا۔
”وہم یصطرخون فیہا ربنا اخرجنا نعمل صالحا غیر الذی کنا نعمل، اولم نعمرکم ما یتذکر فیہ من تذکر وجاء کم النذیر، فذوقوا فما للظالمین من نصیر“۔ (الفاطر:۳۷)
ترجمہ:…”اور وہ چلائیں اس میں اے ہمارے رب ہم کو نکال کہ ہم کچھ بھلا کام کرلیں وہ نہیں جو کرتے رہے، کیا ہم نے عمر نہ دی تھی تم کو اتنی کہ جس میں سوچ لے جس کو سوچنا ہو اور پہنچا تمہارے پاس ڈرانے والا اب چکھو کہ کوئی نہیں گناہ گاروں کا مددگار“۔
اسی مضمون کو آقائے نامدار انے اپنے مبارک ارشاد میں یوں بیان فرمایا:
”عن ابی ہریرة  قال: قال رسول اللہ ا اعذر اللہ امرئ اخر اللہ عمرہ حتی بلغہ ستین سنة“۔ (بخاری،ص:۹۵۰)
اندازہ فرمایئے کہ وقت ضائع کرنے کا نتیجہ کتنا بھیانک ہے، لیکن اس کے باوجود ہمارے اس دور میں اگر یوں سوال کیا جائے کہ دنیا میں سستی ترین چیز کیا ہے؟تو وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ ستر فیصد لوگ وقت کو سستی اشیاء کی فہرست میں شامل کریں گے۔
وقت کی رفتار معلوم ہو یہ مشکل ہے
یہ زمین گھومتی ہے پر ہلتی نہیں
ہماری نوجوان نسل جس بے دردی سے اپنے اوقات ضائع کرنے میں لگی ہوئی ہے، اس کو دیکھ کر بے حد افسوس ہوتا ہے کہ ہم منزل سے کیسے بہکے جارہے ہیں؟ شیخ سعدی متوفی ۶۹۱ھ نے ایسے ہی موقع کیلئے ارشاد فرمایا تھا:
ترسم نہ رسی بکعبہ اے اعرابی
کیں رہ کہ تومی روی بترکستان است
نوخیز بچے اور نوجوان لڑکے سب ہی کھیل کود اور خرمستیوں میں بدمست ہیں اور تعلیمی اداروں کی حالت زار بھی دگرگوں ہے، والدین بچوں کا مستقبل روشن دیکھنے کی خاطر انہیں جن تعلیمی اداروں میں بھیجتے ہیں وہاں دینی تربیت مفقود ہونے کے بسبب یہ شتر بے مہار بن جاتے ہیں ، جس کے نتیجہ میں نوجوان نسل میں بے راہ روی فروغ پاتی ہے، پھر یہی نوجوان جب تعلیمی اداروں سے نکلتے ہیں تو لٹیروں کا ایک اچھا خاصا گروپ تیار ہوتا ہے، جن کے ہاں گن پوائنٹ پر لوگوں کا مال چھیننا ، بے قصور لوگوں کی جانیں ضائع کرنا کسی چیونٹی پر پاؤں رکھنے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا، یہ تمام تر خرابیاں وقت ضائع کرنے کے نتیجہ میں وجود میں آئیں۔
اب تو وقت ضائع کرنا اور آسان ہوگیا کہ انٹرنیٹ کھول کر بیٹھ کر وقت ضائع کیا جاتا ہے، اگر گھر میں انٹرنیٹ نہیں ہے تو کیمرے والا موبائل تو ہر آدمی کے پاس موجود ہوتا ہے، جس میں بے حیائی کا اچھا خاصا سامان محفوظ کرنا اور اس سے لطف اندوز ہونا بالکل آسان اور سستا گناہ بنادیا گیا ہے۔
بڑے بڑے لوگ بچوں کی طرح موبائل لئے خود کھلونا بنے بیٹھے نظر آتے ہیں اور بہت کچھ اس سے آگے بھی ہے۔ الغرض وقت ضائع کرنے کے مواقع ہرانسان کے ہاتھ اور جیب میں موجود ہوچکے ہیں۔جس کو بھی دیکھو موبائل ہاتھ میں لئے مسیج لکھنے یا پڑھنے میں مصروف ہے، یہاں تک کہ کھانا سامنے رکھا ہواہو اور معزز لوگ بیٹھے ہوں تو بھی لاپروا ہوکر دھڑادھڑ میسجز کے تبادلوں میں مصروف رہتے ہیں اور اب تو بعض لوگوں نے اپنی تجارت بڑھانے اور محض پیسہ کی حرص وہوس میں الٹی سیدھی باتوں اور لطیفوں پر مشتمل رسائل سے بازار بھر دیئے، جس کی وجہ سے جو لوگ موبائل پر مسیج لکھنا نہیں جانتے تھے، وہ بھی اب آسانی سے اپنا وقت برباد کرتے ہیں۔لیکن رونا اس پر ہے کہ اس موذی مرض میں اچھا خاصا دیندار طبقہ بھی مبتلا ہے، ہم طلبہ کی اچھی خاصی تعداد اس کو معمولات کا حصہ جانتی ہے جبکہ اس میں وقت اور پیسہ کی بربادی کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا، حالانکہ دیندار تو کم از کم جانتے ہیں کہ زندگی کا حساب دینا ہے، اسراف کسی بھی چیز میں ہو، وہ مذموم ہے اور اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے، ان جدید آلات میں ہمارے قیمتی وقت کے ضیاع کے ساتھ مال ودولت کا بے جا استعمال اور ضیاع بھی ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس مرض سے بچائے اور وقت کی قدر دانی نصیب فرمائے، آمین
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی ایک اور گھٹادی
اشاعت
۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , شعبان المعظم:۱۴۳۱ھ - اگست: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ
 
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"انسان کا وقت ہی حقیقت میں اس کی عمر ہوتی ہے، چنانچہ دائمی نعمتوں والی ابدی زندگی کا جوہر اور درد ناک عذاب والی تکلیفوں اور سختی والی زندگی کا جوہر بھی یہی وقت ہے، یہ بادلوں کی رفتار سے بھی تیزی سے گزرتا ہے۔
انسان کا جو وقت اللہ کیلیے ہو، اور اللہ کی یاد میں ہی گزرے، تو حقیقت میں وہی زندگی ہے ، اس کے علاوہ کہیں بھی وقت گزارے تو وہ اس کی زندگی میں شمار نہیں ہوتا، اگرچہ وہ زندہ بھی ہو تو اس کی زندگی حیوان کی زندگی جیسی ہوتی ہے وہ اپنے وقت کو یادِ الہی سے غافل رہ کر شہوت اور باطل خواہشات میں گزار دیتا ہے، حالانکہ اگر وہ اپنا وقت سو کر یا فارغ رہ کر گزار لیتا یہ اس کیلیے قدرے بہتر تھا، یہی وجہ ہے کہ اس کیلیے زندگی کی بجائے موت بہتر ہو گی"


" الجواب الكافی" ( ص 109 )
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
علامہ شمس الدین ابن قیمؒ (المتوفی 751ھ )
اپنی مفید کتاب "الجواب الكافي لمن سأل عن الدواء الشافي " میں لکھتے ہیں :

فوقت الإنسان هو عمره في الحقيقة، وهو مادة حياته الأبدية في النعيم المقيم، ومادة المعيشة الضنك في العذاب الأليم، وهو يمر أسرع من السحاب، فما كان من وقته لله وبالله فهو حياته وعمره، وغير ذلك ليس محسوبا من حياته، وإن عاش فيه عاش عيش البهائم، فإذا قطع وقته في الغفلة والسهو والأماني الباطلة، وكان خير ما قطعه به النوم والبطالة، فموت هذا خير له من حياته "
https://archive.org/stream/WAQ90079s/90079s#page/n358/mode/2up
ترجمہ :
"انسان کا وقت ہی حقیقت میں اس کی عمر ہوتی ہے، چنانچہ دائمی نعمتوں والی ابدی زندگی کا جوہر اور درد ناک عذاب والی تکلیفوں اور سختی والی زندگی کا جوہر بھی یہی وقت ہے، یہ بادلوں کی رفتار سے بھی تیزی سے گزرتا ہے۔
انسان کا جو وقت اللہ کیلئے ہو، اور اللہ کی یاد میں ہی گزرے، تو حقیقت میں وہی زندگی ہے ، اس کے علاوہ کہیں بھی وقت گزارے تو وہ اس کی زندگی میں شمار نہیں ہوتا، اگرچہ وہ زندہ بھی ہو تو اس کی زندگی حیوان کی زندگی جیسی ہوتی ہے وہ اپنے وقت کو یادِ الہی سے غافل رہ کر شہوت اور باطل خواہشات میں گزار دیتا ہے، حالانکہ اگر وہ اپنا وقت سو کر یا فارغ رہ کر گزار لیتا یہ اس کیلیے قدرے بہتر تھا، یہی وجہ ہے کہ اس کیلیے زندگی کی بجائے موت بہتر ہو گی"
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
علامہ شمس الدین ابن قیمؒ (المتوفی 751ھ )
اپنی مفید کتاب "الجواب الكافي لمن سأل عن الدواء الشافي " میں لکھتے ہیں :

فوقت الإنسان هو عمره في الحقيقة، وهو مادة حياته الأبدية في النعيم المقيم، ومادة المعيشة الضنك في العذاب الأليم، وهو يمر أسرع من السحاب، فما كان من وقته لله وبالله فهو حياته وعمره، وغير ذلك ليس محسوبا من حياته، وإن عاش فيه عاش عيش البهائم، فإذا قطع وقته في الغفلة والسهو والأماني الباطلة، وكان خير ما قطعه به النوم والبطالة، فموت هذا خير له من حياته "
https://archive.org/stream/WAQ90079s/90079s#page/n358/mode/2up
ترجمہ :
"انسان کا وقت ہی حقیقت میں اس کی عمر ہوتی ہے، چنانچہ دائمی نعمتوں والی ابدی زندگی کا جوہر اور درد ناک عذاب والی تکلیفوں اور سختی والی زندگی کا جوہر بھی یہی وقت ہے، یہ بادلوں کی رفتار سے بھی تیزی سے گزرتا ہے۔
انسان کا جو وقت اللہ کیلئے ہو، اور اللہ کی یاد میں ہی گزرے، تو حقیقت میں وہی زندگی ہے ، اس کے علاوہ کہیں بھی وقت گزارے تو وہ اس کی زندگی میں شمار نہیں ہوتا، اگرچہ وہ زندہ بھی ہو تو اس کی زندگی حیوان کی زندگی جیسی ہوتی ہے وہ اپنے وقت کو یادِ الہی سے غافل رہ کر شہوت اور باطل خواہشات میں گزار دیتا ہے، حالانکہ اگر وہ اپنا وقت سو کر یا فارغ رہ کر گزار لیتا یہ اس کیلیے قدرے بہتر تھا، یہی وجہ ہے کہ اس کیلیے زندگی کی بجائے موت بہتر ہو گی"
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء ، میں نے یہ سنہرا قول الإسلام و الجواب ویب سائٹ سے کاپی کیا تھا. عربی متن کے لیے بہت شکریہ.
 
Top