• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وقف و اِبتداء

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
وقف و اِبتداء

قاری حبیب الرحمن​
ترتیل
اللہ جل شانہ‘ کاارشاد گرامی ہے : ’’وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلًا‘‘ (المزمّل:۴) ’’قرآن کوصاف اورکھول کھول کر پڑھ‘ ترتیل کا حکم اس آیت مبارکہ میں بیان کیاگیاہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تفسیر کے مطابق ترتیل کے دو جزء ہیں:’’الترتیل ھو تجوید الحروف ومعرفۃ الوقوف‘‘
’’یعنی ترتیل کا جزء اوّل تجوید الحروف ہے اورجزء ثانی معرفۃ الوقوف ہے۔‘‘
گویا جس آیت مبارکہ سے تجوید کا ثبوت ملتاہے اسی سے وقف کا بھی ثبوت ملتاہے۔ علم تجوید سے قرآن مجید کی صحت معلوم ہوتی ہے تو علم وقف سے اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔اسی وجہ سے ابوحاتم السجستانی رحمہ اللہ کا قول ہے :
’’من لم یعرف الوقف لم یعرف القرآن‘‘
’’جسے وقف کی پہچان نہیں اُسے قرآن کی پہچان نہیں۔‘‘
علم تجوید و قراء ات کے ساتھ وقف کااتنا گہرا تعلق ہے جیسے چولی دامن کا ساتھ۔ علم وقف کی اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے بعض علماء کاقول ہے کہ جب تک قاری کو وقف و ابتداء کی معرفت حاصل نہ ہوجائے اُسے سند نہ دی جائے، کیونکہ قاری کے لیے یہ بات انتہائی معیوب ہے کہ ترتیل کے جزء پرتو عمل کرے اور دوسرے سے غفلت برتے۔
مگر مقام افسوس یہ ہے کہ مجودین و قراء کی تجوید و قراء ات کی جانب توجہ ہوتی ہے اور وقف کے معاملہ میں تغافل و تساہل برتا جاتاہے۔ بعض مجودین و قراء کی تجوید و قراء ت میں پختگی اور اَدائیگی کے حسن کی وجہ سے ان کی تلاوت میںلطف آرہا ہوتاہے کہ یکایک نامناسب یا غلط وقف و ابتداء کی وجہ سے سارا مزہ جاتا رہتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اَفضلیت قراء ت
قراء ت، وقف سے افضل ہے، کیونکہ ہر حرف پرنیکیاں ملتی ہیں جتنی دیر وقف میں لگے گی اتنی دیر میں کئی نیکیاں کمائی جاسکتی ہیں۔ گویا یہ کہا جاسکتا ہے کہ قراء ت میں اصل وصل ہے حتیٰ کہ علماء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی ایک سانس میں مکمل قرآن مجید پڑھ سکے تو پڑھ لے مگر ایساچونکہ محال ہے اور وقف کی ضرورت بہرحال پڑتی ہے اور یہ ضرورت کبھی تو استراحت کی وجہ سے ہوتی ہے تاکہ قراء ت سکون سے اَداہوسکے اور کبھی یہ ضرورت اِضطراری ہوتی ہے جیسے کھانسی، چھینک وغیرہ اور کبھی یہ ضرورت کسی مسئلہ تجوید یا وجہ قراء ت کو سمجھنے کی خاطر ہوتی ہے اور کبھی یہ ضرورت جمع الجمع پڑھتے ہوئے اختلاف ِقراء ت کو پورا کرنے کی وجہ سے پیش آتی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قاری مثل مسافر
علماء نے قاری کو مثل مسافر کے کہا ہے کہ جیسے مسافر ہر ہر منزل پر نہیں ٹھہرتا، کیونکہ ہر ہر منزل پر ٹھہرنا فعل عبث اور منزل مقصود پر پہنچنے میں تاخیر کا سبب ہے،البتہ مسافر اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کہیں نہ کہیں ضرور رُکتا ہے بالخصوص جب سفر دور کا اور لمبا ہو۔ اسی طرح قاری کو بھی ہرہر موقف پرنہ ٹھہرنا چاہیے بلکہ جہاں ضرورت ہو وہاں ٹھہرنا چاہیے۔
اور جیسے مسافر کو اس جگہ رُکنا چاہئے جہاں اس کی ضروریات اُسے میسر ہوسکیں ورنہ رُکنا باعث تاخیر ہوگا اور حرج لازم ہوگا اور منزل سے پہلے یابعد میں رُکنے سے ضروریات پوری نہیں ہوتیں۔ اسی طرح قاری کو بھی اس جگہ رُکنا چاہیے جہاں کلام پورا ہو رہا ہو۔ کلام پورا ہونے سے پہلے رُکنا یاکلام پورا ہونے کے کچھ بعد رُکنا تحسین کے خلاف ہے۔
اور جس طرح مسافر صحیح منزل پر رُکے اور اُسے ضروریات میسر ہوجائیں تو وہ اگلی منزل کی جانب گامزن رہتا ہے اُسے پیچھے نہیں آنا پڑتا اسی طرح قاری صحیح مقام پر وقف کرلے تو اُسے بھی آگے پڑھنا ہوتا ہے یعنی ابتداء کرناہوتی ہے ، پیچھے سے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہوتی یعنی اِعادہ نہیں کرناپڑتا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اور اگر مسافر اُس منزل سے گذر جائے جہاں ضروریات میسر ہوتی ہیں تو بعد میں ضرورت کے وقت اُسے پیچھے آناپڑتا ہے،کیونکہ وہ اگلی منزل تک اپنی ضروریات کو پورانہیں کرسکتا ،اسی طرح قاری بھی اگر کلام تام کو چھوڑ کر آگے پڑھے اور اگلے موقف تک اس کاسانس نہ پہنچ سکے تو اُسے بھی درمیان کلام میں وقف کرکے پھر پیچھے سے پڑھنے یعنی اِعادہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
اور جیسے مسافر کے سفر میں ایسے مقامات آتے ہیں کہ وہاںرُکنا خطرے کاباعث ہوتاہے اور بعض اَوقات جان چلی جاتی ہے ایسے ہی قاری کی تلاوت میں ایسے مقامات بھی آتے ہیں کہ اگر وہاں وقف کردے تو ایہام معنی غیر مراد لازم آتا ہے اور اگر خود قاری عمداً اس غلط وقف سے پیدا ہونے والے معنی کا عقیدہ رکھے یاکوئی سامع اس کاعقیدہ رکھے تو ایمان کے چلے جانے کاخطرہ ہوتاہے یا سرے سے ایمان ہی چلاجاتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ملحقات قراء ات
جب یہ بات یقینی ہے کہ قاری کو دورانِ تلاوت کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی ضرورت کی وجہ سے وقف کرنا ہی پڑتا ہے تو وقف کی پہچان اس کے لیے از حد ضروری ہوئی۔وقف واقع ہونے کی چارحالتیں ہیں:
۱ وقف ۲ سکتہ ۳ سکوت ۴ قطع
پھر ان کے ساتھ ابتداء، اعادہ اور وصل کی معرفت کو بھی ملا دیاجائے تو وقف کی معرفت کامل ہوجاتی ہے انہیں سات کو قراء کرام ملحقات قراء ات کہتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
وقف و ابتداء
وقف کرنے کے بعد ابتداء ہوتی ہے یا اِعادہ۔لہٰذا ہر مجود وقاری کو ان تین کاجاننا ضروری ہے۔ وقف میں کیفیت وقف اور محل وقف، ابتداء میں کیفیت ابتداء اورمحل ابتداء اور اِعادہ میں کیفیت اِعادہ اورمحل اِعادہ کا جاننا ضروری ہے۔
پھر ان چھ میں سے کیفیت وقف، کیفیت ابتداء اور کیفیت اِعادہ کی جانب کسی نہ کسی درجہ میں توجہ ہوتی ہے اور اس پرچنداں عمل بھی ہوتا ہے۔ مگر محل وقف، محل ابتداء اور محل اعادہ کی طرف توجہ نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے اور اکثر انہی تینوں میں کوتاہی ہوتی ہے حالانکہ مذکورہ بالاچھ باتوں میں سے مؤخر الذکر تین (محل وقف، محل ابتداء، محل اِعادہ) کے متعلق ائمہ وقف خاص طور پربحث کرتے ہیں۔
اِعادہ چونکہ ابتداء کے ساتھ بعض باتوں میں مشترک بھی ہے اس لیے وقف و ابتداء کو زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا جاتاہے کہ ابتداء میں اِعادہ بھی شامل ہوجاتا ہے۔ محل اِعادہ اور محل ابتداء میں صرف قبلیت و بعدیت کا فرق ہے اسی وجہ سے وقف کے موضوع پر لکھی گئی اکثر کتب کے ناموں میں وقف و ابتداء کا ہی ذکر ہوتاہے۔جس طرح قراء کرام کے نزدیک قرآن مجید میں کلمہ و کلام کی تصحیح اصل مقصود ہے اور مفسرین کے نزدیک توضیح و تصحیح معنی اصل مقصود ہے ایسے ہی ائمہ وقف کے نزدیک لفظ و معنی دونوں مقصود ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
محل وقف
جس جگہ وقف کیا جاسکے اُسے محل وقف کہتے ہیں۔ محل وقف کی رعایت سے قرآن مجید کے معنی میں تفہیم اور قراء ت میں تحسین پیداہوتی ہے اور غیر محل پروقف سے معنی کی وضاحت نہیں ہوتی یا ابہام معنی غیر مراد لازم آتا ہے۔
سورۃ الشمس کے شروع میں شمس و قمر، نھارولیل، سماء وارض تین جوڑے ہیں۔ اگر ان کو ایک ہی سانس میں پڑھا جائے اور تیسرے جوڑے کے بعد وقف کیا جائے یا ہر جوڑے پروقف کیاجائے یا دو جوڑے ایک سانس میں اور ایک جوڑا الگ سانس میں پڑھا جائے تو معنی میں تفہیم اور تحسین قراء ت ہوتی ہے۔
اور اگر دوسرے جوڑے میں سے نہار(تیسری آیت)کو شمس و قمر والے جوڑے کے ساتھ اور لیل (چوتھی آیت) کوسماء و ارض کے ساتھ پڑھا جائے تو وہ تحسین نہیں رہتی جو پہلی ترتیب کے وقت تھی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اسی طرح ’’وَرَبُّکَ یَخْلُقُ مَا یَشَآئُ وَیَخْتَارُ‘‘ (القصص:۶۸)پر وقف کرنے سے تحسین پیداہوتی ہے۔ اور مذہب اہل السنۃ والجماعۃ کی ترجمانی ہوتی ہے اور معتزلہ کی نفی ہوتی ہے۔اسی طرح آیاتِ رحمت اور آیاتِ عذاب کوالگ الگ سانس میں پڑھنا چاہئے تاکہ تفہیم معنی اور تحسین قراء ت حاصل ہو۔ محل وقف کو اختیار کرنے میں قراء کا اختلاف ہے چند اَقوال درج ذیل ہیں:
٭ بعض قراء صرف حسن وقف کو پسند کرتے ہیں۔
٭ بعض قراء صرف حسن ابتداء کو پسند کرتے ہیں۔
٭ بعض قراء ختم کلام کوپسند کرتے ہیں۔
٭ بعض قراء مطلقاً آیت پر وقف پسند کرتے ہیں۔
٭ بعض قراء ختم سانس کو پسند کرتے ہیں۔
امام عاصم رحمہ اللہ ختم کلام کوپسند فرماتے تھے ،کیونکہ اُس میں حسن وقف بھی ہے اور حسن ابتداء بھی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
غیر محل وقف
غیرمحل پر وقف کرنے سے بسا اوقات جملہ کا معنی ظاہر نہیں ہوتا یاکلام الٰہی کا مقصودی معنی ظاہرنہیں ہوتا اور بعض دفعہ معنی غیر مراد کا وہم پیدا ہوجاتاہے۔وما من الہ إلا اﷲ میں لفظ إلہ پر وقف اور إن اﷲ لایستحی اور إن اﷲ لا یھدی وغیرہ پر وقف کرنے سے معنی فاسد ہوجاتاہے۔ غیر محل پر وقف کرنے کے چند مواقع درج ذیل ہیں:
(١) وقف مضاف پر بلا مضاف الیہ کے
(٢) فعل پر بلافاعل یا نائب فاعل کے
(٣) فاعل پر بلا مفعول کے
(٤) مبتدا پر بلاکسی خبرکے
(٥) کان و إن وغیرہ کے اسم پربلا خبر کے۔
(٦) موصول پر بغیرصلہ کے
(٧) موصوف پر بلا صفت کے
(٨) شرط پر بلا جزا کے
(٩) معطوف علیہ پربلا معطوف مفرد کے
(١٠) قسم پر بلا جواب قسم کے
(١١) اسم اشارہ پر بلا مشار الیہ کے
(١٢) مستثنیٰ منہ پر بلا مستثنیٰ کے
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١٣) ممیز پر بلا تمیز کے
(١٤) مفسر پربلا تفسیر کے
(١٥) ذوالحال پربلا حال کے
(١٦) مؤکد پر بلاتاکید کے
(١٧) مبدل منہ پربلا بدل کے
(١٨) افعال متعدی (دو مفعول والے) میں، پہلے مفعول پربلا دوسرے مفعول کے
(١٩) تمنی و استفہام اور امر و نہی پربلا ان کے جوابات کے
(٢٠) ہرعامل پر بلااس کے معمول کے
(٢١) ہر متبوع پربلا اس کے تابع کے
(٢٢) ہرمنفی پربلا ایجاب کے (معرفۃ الوقوف)
اُردو کی ایک مثال سے محل وقف اور غیر محل وقف کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔
ایک جملہ بولا جاتاہے ’اُٹھو مت بیٹھو‘۔ مت کا تعلق ’اُٹھو‘ کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور ’بیٹھو‘ کے ساتھ بھی۔
اگر بولا جائے اُٹھو مت، بیٹھو۔ اس کا مطلب ہے کہ اٹھنا نہیں بیٹھے رہو (اُٹھنے کی نفی اور بیٹھنے کا حکم) اوراگر بولا جائے اُٹھو، مت بیٹھو۔ تو اس کا مطلب ہے کہ اُٹھ جاؤ، بیٹھنا نہیں ہے (اُٹھنے کا حکم اور بیٹھنے کی نفی) مت کو اُٹھو یا بیٹھو کے ساتھ بولاجائے تو معنی الگ الگ واضح طور پر سمجھ میں آجاتے ہیں۔
 
Top