• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم ولادت باسعادت اور حیاتِ طیبہ کے چالیس سال

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
ولادت باسعادت:
رسول اللہﷺ مکہ میں شِعبِ بنی ہاشم کے اندر ۹/ ربیع الاوّل ۱ عام الفیل یوم دوشنبہ کو صبح کے وقت پیدا ہوئے۔ 1اس وقت نوشیرواں کی تخت نشینی کا چالیسواں سال تھا اور ۲۰/ یا ۲۲ / اپریل ۵۷۱ ء کی تاریح تھی۔ علامہ محمد سلیمان صاحب سلمان منصور پوری ؒ کی تحقیق یہی ہے۔ 2
ابن سعد کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کی والدہ نے فرمایا: جب آپ کی ولادت ہوئی تو میرے جسم سے ایک نور نکلا جس سے ملک شام کے محل روشن ہوگئے۔ امام احمد اور دارمی وغیرہ نے بھی تقریباً اسی مضمون کی روایت نقل فرمائی ہے۔ 3
بعض روایتوں میں بتایا گیا ہے کہ ولادت کے وقت بعض واقعات نبوت کے پیش خیمے کے طور پر ظہور پذیر ہوئے، یعنی ایوانِ کسریٰ کے چودہ کنگورے گر گئے، مجوس کا آتش کدہ ٹھنڈا ہو گیا، بحیرہ ساوہ خشک ہوگیا اور اس کے گرجے منہدم ہوگئے۔ یہ طبری اور بیہقی وغیرہ کی روایت ہے۔ 4مگر اس کی سند پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتی ہے اور ان قوموں کی تاریخ سے بھی اس کی کوئی شہادت نہیں ملتی ، حالانکہ ان واقعات کو قلمبند کیے جانے کا قوی داعیہ موجود تھا۔
ولادت کے بعد آپ کی والدہ نے عبد المطلب کے پاس پوتے کی خوشخبری بھجوائی۔ وہ شاداں وفرحاں تشریف لائے اور آپ کو خانہ کعبہ میں لے جاکر اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور اس کا شکر ادا کیا۔ 5 اور آپ کا نام محمدتجویز کیا۔ یہ نام عرب میں معروف نہ تھا ، پھر عرب دستور کے مطابق ساتویں دن ختنہ کیا۔ 6
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 دیکھئے : نتائج الافہام فی تقویم العرب قبل الاسلام ص ۲۸-۳۵ ازمحمود پاشا فلکی۔ طبع بیروت۔ مگر چاند دیکھنے کے اعتبار سے ۹ کے بجائے ۸تاریخ بنتی ہے۔
2 ۲۰/اپریل قدیم عیسوی کلنڈر کے مطابق ، اور ۲۲ /اپریل جدید عیسوی کلنڈر کے مطابق۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: رحمۃ للعالمین ۱/۳۸، ۳۹، ۲/۳۶۰، ۳۶۱
3 مسند احمد ۴/۱۲۷، ۱۲۸، ۱۸۵، ۵/۱۶۲ سنن دارمی ۱/۹، ابن سعد ۱/۱۰۲
4 دلائل النبوہ للبیہقی ۱/۱۲۶، ۱۲۷، تاریخ طبری ۲/۱۶۶ ، ۱۶۷ ، البدایہ والنہایہ ۲/۲۶۸، ۲۶۹
5 ابن ہشام ۱/۱۵۹ ، ۱۶۰ تاریخ طبری ۲/۱۵۶ ، ۱۵۷ ، ابن سعد ۱/۱۰۳
6 کہاجاتا ہے کہ آپ مختون (ختنہ کیے ہوئے ) پیدا ہوئے تھے۔ دیکھئے: تلقیح الفہوم ص ۴ مگر ابن قیم کہتے ہیں کہ اس بارے میں کوئی ثابت حدیث نہیں۔ دیکھئے: زاد المعاد ۱/۱۸
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
آپ کو آپ کی والدہ کے ایک ہفتہ1 بعد سب سے پہلے ابولہب کی لونڈی ثُویبَہ نے دودھ پلایا۔ اس وقت اس کی گود میں جو بچہ تھا اس کا نام مسروح تھا۔ ثُویبَہ نے آپ سے پہلے حضرت حمزہ بن عبد المطلب کو اور آپ کے ابوسلمہ بن عبد الاسد مخزومی کو بھی دودھ پلایا تھا۔ 2
بنی سعد میں:
عرب کے شہری باشندوں کا دستور تھا کہ وہ اپنے بچوں کو شہری امراض سے دور رکھنے کے لیے دودھ پلانے والی بدوِی عورتوں کے حوالے کردیا کرتے تھے تاکہ ان کے جسم طاقتور اور اعصاب مضبوط ہوں اور اپنے گہوارہ ہی سے خالص اور ٹھوس عربی زبان سیکھ لیں۔ اسی دستور کے مطابق عبد المطلب نے دودھ پلانے والی دایہ تلاش کی اور نبیﷺ کو حضرت حلیمہ بنت ابی ذُوَیب کے حوالے کیا۔ یہ قبیلہ بنی سعد بن بکر کی ایک خاتون تھیں۔ ان کے شوہر کا نام حارث بن عبد العزیٰ اور کنیت ابو کبشہ تھی اور وہ بھی قبیلہ بنی سعد ہی سے تعلق رکھتے تھے۔
حارث کی اوّلاد کے نام یہ ہیں جو رضاعت کے تعلق سے رسول اللہﷺ کے بھائی بہن تھے: عبد اللہ ، انیسہ ، حذافہ یا جذامہ ، انہیں کالقب شَیْماَء تھا اور اسی نام سے وہ زیادہ مشہور ہوئیں۔ یہ رسول اللہﷺ کو گود کھلایا کرتی تھیں ، ان کے علاوہ ابوسفیان بن حارث بن عبد المطلب جو رسول اللہﷺ کے چچیرے بھائی تھے وہ بھی حضرت حلیمہ کے واسطے سے آپ کے رضاعی بھائی تھے۔ آپﷺ کے چچا حضرت حمزہ بن عبد المطلب بھی دودھ پلانے کے لیے بنو سعد کی ایک عورت کے حوالے کیے گئے تھے۔ اس عورت نے بھی ایک دن جب رسول اللہﷺ حضرت حلیمہ کے پاس تھے آپ کو دودھ پلادیا۔ اس طرح آپ اور حضرت حمزہ دوہرے رضاعی بھائی ہوگئے ایک ثویبہ کے تعلق سے اور دوسرے بنوسعد کی اس عورت کے تعلق سے۔ 3
رضاعت کے دوران حضرت حلیمہ نے نبیﷺ کی برکت کے ایسے ایسے مناظر دیکھے کہ سراپا حیرت رہ گئیں۔ تفصیلات انہیں کی زبانی سنیے۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ حضرت حلیمہ ؓ بیان کیا کرتی تھیں کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ اپنا ایک چھوٹا سادودھ پیتا بچہ لے کر بنی سعد کی کچھ عورتوں کے قافلے میں اپنے شہر سے باہر دودھ پینے والے بچوں کی تلاش میں نکلیں۔ یہ قحط سالی کے دن تھے اورقحط نے کچھ باقی نہ چھوڑا تھا۔ میں اپنی ایک سفید گدھی پر سوار تھی اور ہمارے پاس ایک اونٹنی بھی تھی، لیکن واللہ ! اس سے ایک قطرہ دودھ نہ نکلتا تھا۔ اِدھر بھُوک سے بچہ اس قدر بِلکتا تھا کہ ہم رات بھر سو نہیں سکتے تھے، نہ میرے سینے میں بچہ کے لیے کچھ تھا اور نہ اونٹنی اس کی خوراک دے سکتی تھی۔ بس ہم بارش اور خوشحالی کی آس لگائے بیٹھے تھے۔ میں اپنی گدھی پر سوار ہوکر چلی تو وہ کمزوری اور دُبلے پن
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 اتحاف الوردی ۱/۵۷
2 صحیح بخاری حدیث نمبر ۲۶۴۵، ۵۱۰۰، ۵۱۰۱، ۵۱۰۶ ، ۵۱۰۷، ۵۳۷۲، تاریخ طبری ۲/۱۵۸۔ طبری کی اس روایت پر کلام ہے۔ دلائل النبوہ لابی نعیم ۱/۱۵۷
3 زاد المعاد ۱/۱۹
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
کے سبب اتنی سست رفتار نکلی کہ پورا قافلہ تنگ آگیا۔ خیر ہم کسی نہ کسی طرح دودھ پینے والے بچوں کی تلاش میں مکہ پہنچ گئے۔ پھر ہم میں سے کوئی عورت ایسی نہیں تھی جس پر رسول اللہﷺ کو پیش نہ کیا گیا ہو مگر جب اسے بتایا جاتا کہ آپﷺ یتیم ہیں تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لینے سے انکار کر دیتی۔ کیونکہ ہم بچے کے والد سے داد ووہش کی امید رکھتے تھے۔
ہم کہتے کہ یہ تو یتیم ہے۔ بھلا اس کی بیوہ ماں اور اس کے دادا کیا دے سکتے ہیں ، بس یہی وجہ تھی کہ ہم آپ کو لینا نہیں چاہتے تھے۔
ادھر جتنی عورتیں میرے ہمراہ آئی تھیں سب کو کوئی نہ کوئی بچہ مل گیا صرف مجھ ہی کو نہ مل سکا۔ جب واپسی کی باری آئی تو میں نے اپنے شوہر سے کہا: اللہ کی قسم ! مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میری ساری سہیلیاں تو بچے لے لے کر جائیں اور تنہا مَیں کوئی بچہ لیے بغیر واپس جاؤں۔ میں جاکر اسی یتیم بچے کو لے لیتی ہوں۔ شوہر نے کہا: کوئی حرج نہیں ! ممکن ہے اللہ اسی میں ہمارے لیے برکت دے۔ اس کے بعد میں نے جاکر بچہ لے لیا اور محض اس بناء پر لے لیا کہ کوئی اور بچہ نہ مل سکا۔
حضرت حلیمہؓ کہتی ہیں کہ جب میں بچے کو لے کر اپنے ڈیرے پر واپس آئی اور اسے اپنی آغوش میں رکھا تو اس نے جس قدر چاہا دونوں سینے دودھ کے ساتھ اس پر اُمنڈ پڑے اور اس نے شکم سیر ہوکر پیا۔ اس کے ساتھ اس کے بھائی نے بھی شکم سیر ہوکر پیا، پھر دونوں سوگئے۔ حالانکہ اس سے پہلے ہم اپنے بچے کے ساتھ سو نہیں سکتے تھے۔ ادھر میرے شوہر اونٹنی دوہنے گئے تو دیکھا کہ اس کا تھن دودھ سے لبریز ہے، انھوں نے اتنا دودھ دوہا کہ ہم دونوں نے نہایت آسودہ ہو کر پیا اور بڑے آرام سے رات گزاری۔ ان کا بیان ہے کہ صبح ہوئی تو میرے شوہر نے کہا : حلیمہ ! اللہ کی قسم ! تم نے ایک بابرکت روح حاصل کی ہے۔ میں نے کہا : مجھے بھی یہی توقع ہے۔
حلیمہؓ کہتی ہیں کہ اس کے بعد ہمارا قافلہ روانہ ہوا۔ میں اپنی اسی خستہ حال گدھی پر سوار ہوئی اور اس بچے کو بھی اپنے ساتھ لیا۔ لیکن اب وہی گدھی اللہ کی قسم! پورے قافلے کو کاٹ کر اس طرح آگے نکل گئی کہ کوئی گدھا اس کا ساتھ نہ پکڑ سکا۔ یہاں تک میری سہیلیاں مجھ سے کہنے لگیں: او ! ابو ذویب کی بیٹی ! ارے یہ کیا ہے ؟ ذرا ہم پر مہربانی کر۔ آخریہ تیری وہی گدھی تو ہے جس پر تُو سوار ہو کر آئی تھی ؟ میں کہتی : ہاں ہاں ! اللہ کی قسم یہ وہی ہے، وہ کہتیں۔ اس کا یقینا کوئی خاص معاملہ ہے۔
پھر ہم بنو سعدمیں اپنے گھروں کو آگئے۔ مجھے معلوم نہیں کہ اللہ کی روئے زمین کا کوئی خطہ ہمارے علاقے سے زیادہ قحط زدہ تھا۔ لیکن ہماری واپسی کے بعد میری بکریاں چرنے جاتیں تو آسودہ حال اور دودھ سے بھرپور واپس آتیں۔ ہم دوہتے اور پیتے۔ جبکہ کسی اور انسان کو دودھ کا ایک قطرہ بھی نصیب نہ ہوتا۔ ان کے جانوروں کے تھنوں میں دودھ سرے سے رہتا ہی نہ تھا۔ حتیٰ کہ ہماری قوم کے شہری اپنے چرواہوں سے کہتے کہ کم بختو ! جانور وہیں چرانے لے جایا کرو جہاں ابو ذویب کی بیٹی کا چرواہا لے جاتا ہے...لیکن تب بھی ان کی بکریاں بھوکی واپس آتیں۔ ان کے اندر ایک قطرہ دودھ نہ رہتا، جبکہ میری بکریاں آسودہ اور دودھ سے بھر پور پلٹتیں۔ اس طرح ہم اللہ کی طرف سے مسلسل اضافے اور خیر کا مشاہدہ کرتے رہے۔ یہاں تک کہ اس بچے کے دوسال پورے ہوگئے اور میں نے دودھ چھڑادیا۔ یہ بچہ دوسرے بچوں کے مقابلے میں اس طرح بڑھ رہاتھا کہ دوسال پورے ہوتے ہوتے وہ کڑا اور گٹھیلا ہو چلا۔ اس کے بعد ہم اس بچے کو اس کی والدہ کے پاس لے گئے ، لیکن ہم اس کی جو برکت دیکھتے آئے تھے۔ اس کی وجہ سے ہماری انتہائی خواہش یہی تھی کہ وہ ہمارے پاس رہے۔ چنانچہ ہم نے اس کی ماں سے گفتگو کی۔ میں نے کہا : کیوں نہ آپ میرے بچے کو میرے پاس ہی رہنے دیں کہ ذرا مضبوط ہوجائے۔ کیونکہ مجھے اس کے متعلق مکہ کی وباء کا خطرہ ہے۔ غرض ہمارے مسلسل اصرار پر انھوں نے بچہ ہمیں واپس دے دیا۔ 1
واقعۂ شق صدر:
اس طرح رسول اللہﷺ مدت رضاعت ختم ہونے کے بعد بھی بنو سعد ہی میں رہے یہاں تک کہ ولادت کے چوتھے یا پانچویں2 سال شَقّ ِ صَدر (سینہ مبارک چاک کیے جانے) کا واقعہ پیش آیا۔ اس کی تفصیل حضرت انسؓ سے صحیح مسلم میں مروی ہے کہ رسول اللہﷺ کے پاس حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے۔ آپ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ حضرت جبریل نے آپ کو پکڑ کر پٹخا اور سینہ چاک کر کے دل نکالا، پھر دل سے ایک لوتھڑا نکال کر فرمایا: یہ تم سے شیطان کا حصہ ہے، پھر دل کو طشت میں زمزم کے پانی سے دھویا اور پھر اسے جوڑکر اس کی جگہ لوٹا دیا۔ ادھر بچے دوڑ کر آپ کی ماں، یعنی دایہ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے: محمد قتل کر دیا گیا۔ ان کے گھر کے لوگ جھٹ پٹ پہنچے ، دیکھا تو آپ کا رنگ اترا ہوا تھا۔ 3
ماں کی آغوشِ محبت میں:
اس واقعے سے حلیمہ ؓ کو خطرہ محسوس ہوا اور انھوں نے آپ کو آپ کی ماں کے حوالے کردیا۔ چنانچہ آپ چھ سال کی عمر تک والدہ ہی کی آغوشِ محبت میں رہے۔ 4
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۱/۱۶۲ ، ۱۶۳، ۱۶۴، تاریخ طبری ۲/۱۵۸ ، ۱۵۹، ابن حبان (مرتب ) ۸/۸۲-۸۴ ، ابن سعد ۱/۱۱۱ سب نے الفاظ کے تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ ابن اسحاق کے طریق سے روایت کیا ہے۔
2 عام سیرت نگاروں کا یہی قول ہے۔ دیکھئے: ابن سعد ۱/۱۱۲ ، مروج الذہب للمسعودی ۲/۲۸۱ ، دلائل النبوہ لابی نعیم ۱/۱۶۱، ۱۶۲ ، ان کے نزدیک ابن عباس کے بقول پانچویں سال کا واقعہ ہے۔ ۱/۱۶۲، البتہ ابن اسحاق کے بقول یہ آپ کی واپسی کے صرف چند ماہ بعد کا واقعہ ہے۔ ( دیکھئے: ابن ہشام ۱/۱۶۴ ، ۱۶۵ ، تاریخ طبری ۲/۱۶۰ ) مگر ابن اسحاق کا قول تقریباً متناقض ہے۔ کیونکہ صرف دوسال چند ماہ کے بچے سے بکری چرانے کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔
3 صحیح مسلم، باب الاسراء ۱/۹۲
4 تلقیح الفہوم ص ۷ ، ابن ہشام ۱/۱۶۸
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
ادھر آمنہ کا ارادہ ہوا کہ وہ اپنے متوفی شوہر کی یادِ وفا میں یثرب جاکر ان کی قبر کی زیارت کریں۔ چنانچہ وہ اپنے یتیم بچے محمدﷺ اپنی خادمہ اُمِّ ایمن اور اپنے سر پرست عبد المطلب کی معیت میں کوئی پانچ سو کیلو میٹر کی مسافت طے کر کے مدینہ تشریف لے گئیں اور وہاں ایک ماہ تک قیام کر کے واپس ہوئیں۔ لیکن ابھی ابتداء راہ میں تھیں کہ بیماری نے آلیا۔ پھر یہ بیماری شدت اختیار کرتی گئی یہاں تک کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان مقام اَبْوَاء میں پہنچ کر رحلت کر گئیں۔ 1
دادا کے سایۂ شفقت میں:
بوڑھے عبد المطلب اپنے پوتے کو لے کر مکہ پہنچے۔ ان کا دل اپنے اس یتیم پوتے کی محبت وشفقت کے جذبات سے تپ رہا تھا۔ کیونکہ اب اسے ایک نیا چرکا لگا تھا جس نے پرانے زخم کرید دیئے تھے۔ عبد المطلب کے جذبات میں پوتے کے لیے ایسی رِقّت تھی کہ ان کی اپنی صُلبی اوّلاد میں سے بھی کسی کے لیے ایسی رقت نہ تھی۔ چنانچہ قسمت نے آپ کو تنہائی کے جس صحرا میں لا کھڑا کیا تھا عبد المطلب اس میں آپ کو تنہا چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے بلکہ آپ کو اپنی اوّلاد سے بھی بڑھ کر چاہتے تھے اور بڑوں کی طرح ان کا احترام کرتے تھے۔ ابن ہشام کا بیان ہے کہ عبد المطلب کے لیے خانہ کعبہ کے سائے میں فرش بچھایا جاتا۔ ان کے سارے لڑکے فرش کے ارد گرد بیٹھ جاتے۔ عبد المطلب تشریف لاتے تو فرش پر بیٹھتے۔ ان کی عظمت کے پیش نظر ان کا کوئی لڑکا فرش پر نہ بیٹھتا، لیکن رسول اللہﷺ تشریف لاتے تو فرش ہی پر بیٹھ جاتے۔ ابھی آپ کم عمر بچے تھے۔ آپ کے چچا حضرات آپ کو پکڑ کر اتار دیتے لیکن جب عبد المطلب انہیں ایسا کرتے دیکھتے تو فرماتے : میرے اس بیٹے کو چھوڑ دو، اللہ کی قسم ! اس کی شان نرالی ہے، پھر انہیں اپنے ساتھ اپنے فرش پر بٹھا لیتے۔ اپنے ہاتھ سے پیٹھ سہلاتے اور ان کی نقل وحرکت دیکھ کر خوش ہوتے۔ 2
آپ کی عمر ابھی ۸ سال دو مہینے دس دن کی ہوئی تھی کہ دادا عبد المطلب کا بھی سایۂ شفقت اُٹھ گیا۔ ان کا انتقال مکہ میں ہوا اور وہ وفات سے پہلے آپﷺ کے چچا ابوطالب کو...جوآپ کے والد عبد اللہ کے سگے بھائی تھے...آپ کی کفالت کی وَصیت کر گئے تھے۔ 3
شفیق چچا کی کفالت میں:
ابو طالب نے اپنے بھتیجے کا حق کفالت بڑی خوبی سے ادا کیا۔ آپ کو اپنی اوّلاد میں شامل کیا۔ بلکہ ان سے بھی بڑھ کر مانا۔ مزید اعزاز واحترام سے نوازا۔ چالیس سال سے زیادہ عرصے تک قوت پہنچائی اپنی حمایت کا سایہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۱/۱۶۸ 2 ابن ہشام ۱/۱۶۸
3 تلقیح الفہوم ص ۷ ابن ہشام ۱/۱۴۹
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
دراز رکھا اور آپ ہی کی بنیاد پر دوستی اور دشمنی کی۔ مزید وضاحت اپنی جگہ آرہی ہے۔
روئے مبارک سے فیضانِ باراں کی طلب:
ابن عساکر نے جلہمہ بن عرفطہ سے روایت کی ہے کہ میں مکہ آیا۔ لوگ قحط سے دوچار تھے۔ قریش نے کہا : ابوطالب ! وادی قحط کا شکار ہے۔ بال بچے کال کی زد میں ہیں۔ چلیے بارش کی دعا کیجیے۔ ابوطالب ایک بچہ ساتھ لے کر برآمد ہوئے۔ بچہ ابر آلود سورج معلوم ہوتا تھا۔ جس سے گھنا بادل ابھی ابھی چھٹا ہو۔ اس کے ارد گرد اور بھی بچے تھے۔ ابوطالب نے اس بچے کا ہاتھ پکڑ کر اس کی پیٹھ کعبہ کی دیوار سے ٹیک دی۔ بچے نے ان کی انگلی پکڑر کھی تھی۔ اس وقت آسمان پر بادل کا ایک ٹکڑا نہ تھا۔ لیکن (دیکھتے دیکھتے ) اِدھر اُدھر سے بادل کی آمد شروع ہوگئی اور ایسی دھواں دھار بارش ہوئی کہ وادی میں سیلاب آگیا اور شہر وبیاباں شاداب ہوگئے۔ بعد میں ابوطالب نے اسی واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے محمدﷺ کی مدح میں کہا تھا:


وأبیض یستسقی الغمام بوجہہ
ثمال الیتامی عصمۃ للأرامل 1


''وہ خوبصورت ہیں ، ان کے چہرے سے بارش کا فیضان طلب کیا جاتا ہے۔ یتیموں کے ماویٰ اور بیواؤں کے محافظ ہیں۔ ''
بحیرا راہب:
بعض روایات کے مطابق... جو تحقیق کے رو سے مجموعی طور پر ثابت اور مستند ہیں... جب آپ کی عمر بارہ برس اور تفصیلی قول کے مطابق بارہ برس دومہینے دس دن 2کی ہوگئی تو ابوطالب آپ کو ساتھ لے کر تجارت کے لیے ملک شام کے سفر نکلے اور بصریٰ پہنچے بصریٰ ملک شام کا ایک مقام اور حوران کا مرکزی شہر ہے۔ اس وقت یہ جزیرۃ العرب کے رومی مقبوضات کا دار الحکومت تھا۔ اس شہر میں جرجیس نامی ایک راہب رہتا تھا ، جو بحیرا کے لقب سے معروف تھا۔ جب قافلے نے وہاں پڑاؤ ڈالا تو یہ راہب اپنے گرجا سے نکل کر قافلے کے اندر آیا اور اس کی میزبانی کی حالانکہ اس سے پہلے وہ کبھی نہیں نکلتا تھا۔ اس نے رسول اللہﷺ کو آپ کے اوصاف کی بنا پر پہچان لیا اور آپ کا ہاتھ پکڑ کر کہا : یہ سید العالمین ہیں۔ اللہ انہیں رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجے گا۔ ابوطالب نے کہا : آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا ؟ اس نے کہا: تم لوگ جب گھاٹی کے اس جانب نمودار ہوئے تو کوئی درخت یا پتھر ایسا نہیں تھا جو سجدہ کے لیے جھک نہ گیا ہو اور یہ چیزیں نبی کے علاوہ کسی انسان کو سجدہ نہیں کرتیں۔ پھر میں انہیں مہر نبوت سے پہچانتا ہوں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 مختصر السیرۃ شیخ عبد اللہ ص ۱۵، ۱۶ ، ہیثمی نے مجمع الزوائد میں طبرانی سے اسی طرح کا واقعہ کتاب علامات النبوۃ ۸/۲۲۲ میں نقل کیا ہے۔
2 یہ با ت ابن جوزی نے تلقیح الفہوم ص ۷ میں کہی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
جو کندھے کے نیچے کری (نرم ہڈی) کے پاس سیب کی طرح ہے اور ہم انہیں اپنی کتابوں میں بھی پاتے ہیں۔اس کے بعد بحیرا راہب نے ابوطالب سے کہا کہ انہیں واپس کر دو ملک شام نہ لے جاؤ۔ کیونکہ یہود سے خطرہ ہے۔ اس پر ابوطالب نے بعض غلاموں کی معیت میں آپ کو مکہ واپس بھیج دیا۔ 1
جنگ فجا ر:
آپ کی عمر کے بیسویں سال عکاظ کے بازار میں قریش وکنانہ...اور قیس عیلان کے درمیان ماہ ذی قعدہ میں ایک جنگ پیش آئی جو جنگ فجار کے نام سے معروف ہے۔ 2اس کی وجہ یہ ہوئی کہ براض نامی بنو کنانہ کے ایک شخص نے قیس عیلان کے تین آدمیوں کو قتل کردیا تھا۔ اس کی خبر عکاظ پہنچی تو فریقین بھڑک اٹھے اور لڑ پڑے۔ اس جنگ میں قریش اور کنانہ کا کمانڈر حرب بن امیہ تھا۔ کیونکہ وہ اپنے سن وشرف کی وجہ سے قریش وکنانہ کے نزدیک بڑا مرتبہ رکھتا تھا۔ پہلے پہر کنانہ پر قیس کا پلہ بھاری تھا لیکن دوپہر ہوتے ہوتے قیس پر کنانہ کا پلہ بھاری ہوا چاہتا تھا کہ اتنے میں صلح کی آواز اٹھی اور یہ تجویز آئی کہ فریقین کے مقتولین گن لیے جائیں۔ جدھر زیادہ ہوں ان کو زائد کی دیت دے دی جائے، چنانچہ اسی پر صلح ہوگئی۔ جنگ ختم کردی گئی اورجو شر وعداوت پیدا ہوگئی تھی اسے نیست ونابود کر دیا گیا۔ اسے حرب فجار اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں حرام مہینے کی حرمت چاک کی گئی۔ اس جنگ میں رسول اللہﷺ بھی تشریف لے گئے تھے اور اپنے چچاؤں کو تیر تھماتے تھے۔ 3
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 دیکھئے: جامع ترمذ ی ۵/۵۵۰، ۵۵۱ حدیث نمبر ۳۶۲۰ تاریخ طبری ۲/۲۷۸ ، ۲۷۹ ، مصنف ابن ابی شیبہ ۱۱/۴۸۹ حدیث نمبر ۱۱۷۸۲، دلائل النبوۃ بیہقی ۲/۲۴، ۲۵ ، ابونعیم ۱/۱۷۰ ، اس روایت کی سند قوی ہے۔ البتہ اس کے آخر میں یہ مذکور ہے کہ آپ کو حضرت بلال کی معیت میں روانہ کیا گیا لیکن یہ فاش غلطی ہے۔ بلال تو اس وقت غالباً پیدا بھی نہیں ہوئے تھے اور اگر پیدا تھے بھی تو بہرحال ابو طالب یاابوبکر ؓ کے ساتھ نہ تھے۔ زاد المعاد ۱/۱۷۔ اس واقعے میں مزید تفصیلات بھی مروی ہیں جنھیں ابن سعد نے واہیات سندوں سے روایت کیا ہے۔ (۱/۱۳۰) اور ابن اسحاق نے بلا سند ذکر کیا ہے۔ جسے ابن ہشام ۱/۱۸۰ - ۱۸۳ ،طبری ۲/۲۷۷ ، بیہقی نے روایت کیا ہے۔
2 ان دونوں گروہ میں فجار کے واقعات چار مرتبہ پیش آئے ، پہلے تین میں کچھ جھگڑا فساد ہوا۔ لیکن جنگ کے بغیر صلح ہوگئی۔ پہلے کی وجہ یہ تھی کہ ایک قیسی کا ایک کنانی پر قرض تھا اور وہ ٹال مٹول کررہا تھا۔ دوسرے کی وجہ یہ تھی کہ عکاظ کے بازار میں ایک کنانی اپنی بڑائی جتا رہا تھا اور تیسرے کی وجہ یہ تھی کہ مکہ کے کچھ جوان قیس کی ایک خوبصورت عورت سے چھیڑ چھاڑ کررہے تھے۔ چوتھے کی وجہ براض کا واقعہ تھا جسے ہم نے کتاب میں ذکر کیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: المنمق فی اخبار قریش ص ۱۶۰-۱۶۴ الکامل لابن الاثیر ۱/۴۶۷ ، ابن اثیر نے سب کو ایک ہی قرار دے دیا ہے۔
3 ابن ہشام ۱/۱۸۴ تا ۱۸۶ ، المنمق فی اخبار قریش ص ۱۶۴-۱۸۵۔ کامل ابن اثیر ۱/۴۶۸ -۴۷۲ عموما ًمؤرخین نے کہا ہے کہ یہ شوال میں پیش آئی تھی، مگر یہ صحیح نہیں کیونکہ شوال کا مہینہ حرام کا مہینہ نہیں اور عکاظ حرم سے باہر ہے۔ تو پھر حرمت کون سی چاک ہوئی۔ علاوہ ازیں عکاظ کا بازار ذی قعدہ کے شروع سے لگتا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
حلف الفضول:
اس جنگ کے بعد اسی حرمت والے مہینے ذی قعدہ میں حلف الفضول پیش آئی۔ چند قبائل قریش ، یعنی بنی ہاشم ، بنی مُطّلب ، بنی اَسَدَ بن عبد العزیٰ بنی زہرہ بن کلاب اور بنی تَیم بن مُرّہ نے اس کا اہتمام کیا۔ یہ لوگ عبداللہ بن جُدْعان تیمی کے مکان پر جمع ہوئے...کیونکہ وہ سن وشرف میں ممتاز تھا ...اور آپس میںعہد وپیمان کیا کہ مکہ میں جو بھی مظلوم نظر آئے گا۔ خواہ مکے کا رہنے والا ہو یا کہیں اور کا ، یہ سب اس کی مدد اور حمایت میں اُٹھ کھڑے ہوں گے اور اس کا حق دلوا کر رہیں گے۔ اس اجتماع میں رسول اللہﷺ بھی تشریف فرما تھے اور بعد میں شرفِ رسالت سے مشرف ہونے کے بعد فرمایا کرتے تھے۔ میں عبداللہ بن جدعان کے مکان پر ایک ایسے معاہدے میں شریک تھا کہ مجھے اس کے عوض سُرخ اونٹ بھی پسند نہیں اور اگر (دور) اسلام میں اس عہد وپیمان کے لیے مجھے بلا یا جاتا تو میں لبیک کہتا۔ 1
اس معاہدے کی روح عصبیت کی تہہ سے اٹھنے والی جاہلی حمیت کے منافی تھی۔ اس معاہدے کا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ زبید کا ایک آدمی سامان لے کر مکہ آیا اور عاص بن وائل نے اس سے سامان خریدا لیکن اس کا حق روک لیا۔ اس نے حلیف قبائل عبد الدار ، مخزوم ، جمح ، سہم اور عَدِی سے مدد کی درخواست کی لیکن کسی نے توجہ نہ دی۔ اس کے بعد اس نے جَبَلِ ابو قُبَیس پر چڑھ کر بلند آواز سے چند اشعار پڑھے۔ جن میں اپنی داستانِ مظلومیت بیان کی تھی۔ اس پر زبیر بن عبد المطلب نے دوڑ دھوپ کی اور کہا کہ یہ شخص بے یار ومدد گار کیوں ہے ؟ ان کی کوشش سے اوپر ذکر کیے ہوئے قبائل جمع ہوگئے ، پہلے معاہدہ طے کیا اور پھر عاص بن وائل سے زبیدی کا حق دلایا۔ 2
جفاکشی کی زندگی:
عنفوانِ شباب میں رسول اللہﷺ کا کوئی معین کام نہ تھا۔ البتہ یہ خبر متواتر ہے کہ آپ بکریاں چراتے تھے۔ آپﷺ نے بنی سعد کی بکریاں چرائیں۔3اور مکہ میں بھی اہل مکہ کی بکریاں چند قیراط کے عوض چراتے تھے۔4اور غالباً جوان ہوئے تو تجارت کی طرف منتقل ہوگئے۔ کیونکہ یہ روایت آتی ہے کہ آپ سائب بن یزید مخزومی کے ساتھ تجارت کرتے تھے اور بہترین شریک تھے ، نہ ہیر پھیر نہ کوئی جھگڑا۔ چنانچہ سائب فتح مکہ کے دن آپ کے پاس آئے تو آپ نے انہیں مرحباً کہا اور فرمایا کہ میرے بھائی اور میرے شریک کو مرحبا۔5پچیس سال
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۱/۱۳۳ ، ۱۳۵ ، مختصر السیرہ شیخ عبد اللہ ص ۳۰ ، ۳۱۔
2 طبقات ابن سعد ۱/۱۲۶-۱۲۸ نسب قریش للزبیر ی ص ۲۹۱
3 ابن ہشام ۱/۱۶۶
4 صحیح بخاری۔ الاجارات ، باب رعی الغنم علی قراریط ۱/۳۰۱
5 سنن ابی داؤد ۲/۶۱۱ ، ابن ماجہ ح ۲۲۸۷ (۲/۷۶۸)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
کی عمر ہوئی توحضرت خدیجہ ؓ کا مال لے کر تجارت کے لیے ملک شام تشریف لے گئے۔ ابن اسحاق کا بیان ہے کہ خدیجہ بنت خویلد ایک معزز مالدار اور تاجر خاتون تھیں۔ لوگوں کو اپنا مال تجارت کے لیے دیتی تھیں اور مضاربت کے اصول پر ایک حصہ طے کرلیتی تھیں۔ پورا قبیلۂ قریش ہی تاجر پیشہ تھا۔ جب انہیں رسول اللہﷺ کی راست گوئی ، امانت اور مکارمِ اخلاق کا علم ہوا تو انھوں نے ایک پیغام کے ذریعے پیش کش کی۔ آپ ان کا مال لے کر تجارت کے لیے ان کے غلام مَیْسَرہ کے ساتھ ملک شام تشریف لے جائیں۔ وہ دوسرے تاجروں کو جوکچھ دیتی ہیں اس سے بہتر اجرت آپ کو دیں گی۔ آپ نے یہ پیش کش قبول کر لی اور ان کا مال لے کر ان کے غلام مَیْسَرہ کے ساتھ ملک شام تشریف لے گئے۔ 1
حضرت خدیجہ ؓ سے شادی:
جب آپ مکہ واپس تشریف لائے اور حضرت خدیجہ ؓ نے اپنے مال میں ایسی امانت وبرکت دیکھی جو اس سے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی اور ادھر ان کے غلام مَیْسَرہ نے آپ کے شریں اخلاق ، بلند پایہ کردار موزوں اندازِ فکر ، راست گوئی اور امانت دارانہ طور طریق کے متعلق اپنے مشاہدات بیان کیے تو حضرت خدیجہ کو اپنا گم گشتہ گوہرِ مطلوب دستیاب ہوگیا۔ اس سے پہلے بڑے بڑے سردار اور رئیس ان سے شادی کے خواہاں تھے، لیکن انھوں نے کسی کا پیغام منظور نہ کیا تھا۔ اب انھوں نے اپنے دل کی بات اپنی سہیلی نفیسہ بنت منبہ سے کہی اور نفیسہ نے جاکر نبیﷺ سے گفت وشنید کی۔ آپﷺ راضی ہوگئے اور اپنے چچاؤں سے اس معاملے میں بات کی۔ انھوں نے حضرت خدیجہ ؓ کے چچا سے بات کی اور شادی کا پیغام دیا۔ اس کے بعد شادی ہوگئی۔ نکاح میں بنی ہاشم اور رؤسائے مضر شریک ہوئے۔
یہ ملک شام سے واپسی کے دو مہینے بعد کی بات ہے۔ 2آپﷺ نے مہر میں بیس اونٹ دیے۔ اس وقت حضرت خدیجہ ؓ کی عمر چالیس سال اور کہا جاتا ہے کہ اٹھائیس سال تھی اور وہ نسب ودولت اور سوجھ بوجھ کے لحاظ سے اپنی قوم کی سب سے معزز اور افضل خاتون تھیں ، یہ پہلی خاتون تھیں جن سے رسول اللہﷺ نے شادی کی اور ان کی وفات تک کسی دوسری خاتون سے شادی نہیں کی۔ 3
ابراہیم کے علاوہ رسول اللہﷺ کی بقیہ تمام اوّلاد انہی کے بطن سے تھیں۔ سب سے پہلے قاسم پیدا ہوئے اور انہی کے نام پر آپ کی کنیت ابوالقاسم پڑی۔ پھر حضرت زینب ؓ ، رقیہ ؓ ، اُم کلثوم ؓ ، فاطمہؓ اور عبد اللہ پیدا ہوئے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۱/۱۸۷ ، ۱۸۸
2 مسعودی نے تعیین کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ آپ جنگ فجار کے چار سال نومہینہ ، چھ دن کے بعد ملک شام کے لیے نکلے اور حضرت خدیجہ ؓ سے آپ کی شادی ملک شام روانگی کے دومہینہ چو بیس دن کے بعد ہوئی دیکھئے: مروج الذہب ۲/۲۷۸
3 ابن ہشام ۱/۱۸۹، ۱۹۰
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
عبد اللہ کا لقب طیب اور طاہر تھا۔ آپﷺ کے سب بچے بچپن ہی میں انتقال کر گئے۔ البتہ بچیوں میں سے ہر ایک نے اسلام کا زمانہ پایا۔ مسلمان ہوئیں اور ہجرت کے شرف سے مشرف ہوئیں ، لیکن حضرت فاطمہ ؓ کے سوا باقی سب کا انتقال آپ کی زندگی ہی میں ہوگیا۔ حضرت فاطمہ ؓ کی وفات آپ کے چھ ماہ بعد ہوئی۔ 1
کعبہ کی تعمیر اور حجر اسود کے تنازعہ کا فیصلہ:
آپﷺ کی عمر کا پینتیسواں سال تھا کہ قریش نے نئے سرے سے خانہ کعبہ کی تعمیر شروع کی۔ وجہ یہ تھی کہ کعبہ صرف قد سے کچھ اونچی چہار دیوار کی شکل میں تھا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے زمانے ہی سے اس کی بلندی ۹ہاتھ تھی اور اس پر چھت نہ تھی۔ اس کیفیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ چوروں نے اس کے اندر رکھا ہوا خزانہ چرالیا... اس کے علاوہ اس کی تعمیر پر ایک طویل زمانہ گزر چکا تھا۔ عمارت خستگی کا شکار ہوچکی تھی اور دیوار یں پھٹ گئی تھیں۔ ادھر اسی سال ایک زور دار سیلاب آیا۔ جس کے بہاؤ کا رخ خانہ کعبہ کی طرف تھا۔ اس کے نتیجے میں خانہ کعبہ کسی بھی لمحے ڈھہ سکتا تھا ، اس لیے قریش مجبور ہوگئے کہ اس کا مرتبہ ومقام بر قرار رکھنے کے لیے اسے ازسرِ نو تعمیر کر یں۔
اس مرحلے پر قریش نے یہ متفقہ فیصلہ کیا کہ خانۂ کعبہ کی تعمیر میں صرف حلال رقم ہی استعمال کریں گے۔ اس میں رنڈی کی اُجرت ، سود کی دولت اور کسی کا ناحق لیا ہوا مال استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
(نئی تعمیر کے لیے پرانی عمارت کو ڈھانا ضروری تھا) لیکن کسی کو ڈھانے کی جرأت نہیں ہوتی تھی۔ بالآخر ولید بن مغیرہ مخزومی نے ابتداء کی اور کدال لے کر یہ کہا کہ اے اللہ ! ہم خیر ہی کا ارادہ کرتے ہیں۔ اس کے بعد دو کونوں کے اطراف کو کچھ ڈھا دیا۔ جب لوگوں نے دیکھا کہ اس پر کوئی آفت نہیں ٹوٹی تو باقی لوگوں نے بھی دوسرے دن ڈھانا شروع کیا اور جب قواعد ابراہیم تک ڈھاچکے تو تعمیر کا آغاز کیا۔ تعمیر کے لیے الگ الگ ہر قبیلے کا حصہ مقرر تھا اور ہر قبیلے نے علیحدہ علیحدہ پتھر کے ڈھیر لگا رکھے تھے، تعمیر شروع ہوئی۔ باقوم نامی ایک رومی معمار نگراں تھا۔ جب عمارت حجر اسود تک بلند ہو چکی تو یہ جھگڑا اٹھ کھڑا ہوا کہ حجر اسود کو اس کی جگہ رکھنے کا شرف وامتیاز کسے حاصل ہو، یہ جھگڑا چار پانچ روز تک جاری رہا اور رفتہ رفتہ اس قدر شدت اختیار کر گیا کہ معلوم ہوتا تھا سر زمینِ حرم میں سخت خون خرابہ ہوجائے گا ، لیکن ابو اُمَیہ مخزومی نے یہ کہہ کر فیصلے کی ایک صورت پیدا کردی کہ مسجد حرام کے دروازے سے جو شخص پہلے داخل ہو اسے اپنے جھگڑے کا حَکَم مان لیں۔ لوگوں نے یہ تجویز منظور کرلی۔ اللہ کی مشیت کہ اس کے بعد سب سے پہلے رسول اللہﷺ تشریف لائے۔ لوگوں نے آپ کو دیکھا تو چیخ پڑے کہ ھذا الأمین رضیناہ ھذا محمدﷺ ''یہ امین ہیں۔ ہم ان راضی ہیں یہ محمدﷺ ہیں۔'' پھر جب آپ ان کے قریب پہنچے اور
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۱/۱۹۰ ، ۱۹۱ صحیح بخاری ، فتح الباری ۷/۱۰۵ ، تلقیح الفہوم ص ۷
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
انھوں نے آپ کو معاملے کی تفصیل بتائی تو آپ نے ایک چادر طلب کی بیچ میں حجر اسود رکھا اور متنازعہ قبائل کے سرداروں سے کہا کہ آپ سب حضرات چادر کا کنارہ پکڑ کر اوپر اٹھائیں۔ انھوں نے ایسا ہی کیا ، جب چادر حجر اسود کے مقام تک پہنچ گئی تو آپ نے اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو اس کی مقررہ جگہ پر رکھ دیا، یہ بڑا معقول فیصلہ تھا۔ اس پر ساری قوم راضی ہوگئی۔
ادھر قریش کے پاس مال حلال کی کمی پڑ گئی اس لیے انھوں نے شمال کی طرف سے کعبہ کی لمبائی تقریبا ً چھ ہاتھ کم کردی۔ یہی ٹکڑا حجر اور حطیم کہلاتا ہے۔ اس دفعہ قریش نے کعبہ کا دروازہ زمین سے خاصا بلند کر دیا تاکہ اس میں وہی شخص داخل ہوسکے جسے وہ اجازت دیں۔ جب دیواریں پندرہ ہاتھ بلند ہوگئیں تو اندر چھ ستون کھڑے کر کے اوپر سے چھت ڈال دی گئی اور کعبہ اپنی تکمیل کے بعد قریب قریب چوکور شکل کا ہو گیا۔ اب خانہ کعبہ کی بلندی پندرہ میٹر ہے۔ حجر اَسْوَد والی دیوار اور اس کے سامنے کی دیوار، یعنی جنوبی اور شمالی دیواریں دس دس میٹر ہیں۔ حجرِ اسود مطاف کی زمین سے ڈیڑھ میٹر کی بلندی پر ہے۔ دروازے والی دیوار اور اس کے سامنے کی دیوار یعنی پورب اور پچھم کی دیواریں ۱۲ - ۱۲ میٹر ہیں۔ دروازہ زمین سے دومیٹر بلند ہے۔ دیوار کے گرد نیچے ہر چہار جانب سے ایک بڑھے ہوئے کرسی نما ضلعے کا گھیرا ہے، جس کی اوسط اونچائی ۲۵ سینٹی میٹر اور اوسط چوڑائی ۳۰ سینٹی میٹر ہے۔ اسے شاذروان کہتے ہیں۔ یہ بھی دراصل بیت اللہ کا جزو ہے لیکن قریش نے اسے بھی چھوڑ دیا تھا۔1
نبوت سے پہلے کی اجمالی سیرت:
نبیﷺ کا وجود ان تمام خوبیوں اور کمالات کا جامع تھا جو متفرق طور پر لوگوں کے مختلف طبقات میں پائے جاتے ہیں۔ آپﷺ اصابتِ فکر ، دُور بینی اور حق پسندی کا بلند مینار تھے۔ آپﷺ کوحسنِ فراست ، پختگی فکر اور وسیلہ ومقصد کی درستگی سے حظِ وافر عطا ہوا تھا۔ آپﷺ اپنی طویل خاموشی سے مسلسل غور وخوض ، دائمی تفکیر اور حق کی کرید میں مدد لیتے تھے۔ آپﷺ نے اپنی شاداب عقل اور روشن فطرت سے زندگی کے صحیفے، لوگوں کے معاملات اور جماعتوں کے احوال کا مطالعہ کیا اور جن خرافات میں یہ سب لت پت تھیں۔ ان سے سخت بیزاری محسوس کی۔ چنانچہ آپﷺ نے ان سب سے دامن کش رہتے ہوئے پوری بصیرت کے ساتھ لوگوں کے درمیان زندگی کا سفر طے کیا۔ یعنی لوگوں کا جو کام اچھا ہوتا اس میں شرکت فرماتے۔2 ورنہ اپنی مقررہ تنہائی کی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : ابن ہشام ۱/۱۹۲ تا ۱۹۷ ، تاریخ طبری ۲/۲۸۹، اور اس کے بعد صحیح بخاری باب فضل مکۃ ونبیانہا۔ ۱/۲۱۵، تحکیم کی یہ خبر مسند ابی داؤد طیالسی میں بھی ہے۔ نیز دیکھئے : تاریخ خضری ۱/۶۴، ۶۵۔
2 مثلاً: قریش جاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے۔ رسول اللہﷺ بھی عہد جاہلیت میں یہ روزہ رکھتے تھے۔ دیکھئے: صحیح بخاری حدیث نمبر ۲۰۰۲ ، فتح الباری ۴/۲۸۷
 
Top