• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ولی کے بغیر نکاح باطل ہے !

musaibaziz111

رکن
شمولیت
جنوری 12، 2017
پیغامات
12
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
31
السلام علیکم ورحمتہ للّہ
بھائی جان فقہ حنفیہ کا کیا موقوف ہے ولی کے متعلق میں نے پڑھا تھا لگ بگ ایک سال پہلے کہ وہ کہتے ہے ولی ضرورت نہیں ہے.. مگر اب مجھے آپ رہنمائی فرمائے
اللہ اپکو جزاء خیر دے گا ان شاء اللہ

Sent from my SM-N9208 using Tapatalk
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ برکاتہ!
فقہ حنفیہ کا اصول ہے کہ خبر واحد سے قرآن کی آیت کی تخصیص و تقید خبر واحد سے نہیں کی جائے گے!
اور اس اصول کے تحت وہ نکاح میں ولی کی شرط کے قائل نہیں!
باقی بزعم خویش دیگر دلائل کو اس مسئلہ میں پیش کرنا، ان کی جانب سے حجت بازی ہے! اصل یہی بنیاد ہے!
جبکہ حدیث سے ولی کی اجازت شرط ثابت ہوتی ہے!
اب اگر حدیث کی اس شرط کو یہ کہہ کر نہیں مانا جائے، کہ ''خبر واحد'' ہے!
یہ انکار حدیث کا ایک رخ ہے!
 

musaibaziz111

رکن
شمولیت
جنوری 12، 2017
پیغامات
12
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
31
السلام علیکم ورحمۃ اللہ برکاتہ!
فقہ حنفیہ کا اصول ہے کہ خبر واحد سے قرآن کی آیت کی تخصیص و تقید خبر واحد سے نہیں کی جائے گے!
اور اس اصول کے تحت وہ نکاح میں ولی کی شرط کے قائل نہیں!
باقی بزعم خویش دیگر دلائل کو اس مسئلہ میں پیش کرنا، ان کی جانب سے حجت بازی ہے! اصل یہی بنیاد ہے!
جبکہ حدیث سے ولی کی اجازت شرط ثابت ہوتی ہے!
اب اگر حدیث کی اس شرط کو یہ کہہ کر نہیں مانا جائے، کہ ''خبر واحد'' ہے!
یہ انکار حدیث کا ایک رخ ہے!
تخصیص و تقید سے کیا مراد ہے بھائی جان

Sent from my SM-N9208 using Tapatalk
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مختصراً یوں سمجھیں کہ قرآن نے مردار کو حرام قرار دیا ہے، یعنی کہ عمومی حکم یہ ہے کہ مردار حرام ہیں، لیکن حدیث نے اس عمومی حکم میں مچھلی اور ٹڈی کے لئے تخصیصاً حکم بیان کیا ہے کہ دو مردار حلال ہيں، مچھلی اور ٹڈی ، یعنی کہ ان کا مردار بھی!
کیونکہ کوئی بکرا پانی میں ڈوب کر مر جانے سے مردار ہو جائے گا، خواہ از خود ہو، یا کوئی اسے ڈوبے کر مار دے، اسی طرح مچھلی پانے سے نکالے جانے پر مردار ہو جائے گی، خواہ از خود ہو یا کوئی نکالے، مردار بکرا تو حرام ہوگا، لیکن مچھلی حلال!
تقید اس معنی میں کہ ایک حکم قرآن نے بیان کیا، اور اس حکم پر مزید کوئی قید یا اضافہ حدیث بیان کرے، مثلاًطمانیت کے ساتھ رکوع و سجود کرنا!
قرآن نے رکوع اور سجدہ کرنے کا بیان کیا ہے، اور حدیث میں اس پر طمانیت کی قید لگائی ہے، یعنی کہ رکوع و سجود میں طمانیت یعنی اطمینان سے سجدہ کرنے کو لازم قرار دیا ہے!
فقہ حنفی پہلی بات یعنی مردار مچھلی والی بات جو حدیث میں وارد ہوئی ہے ، اسے مشہور حدیث کہتے ہوئے قبول کرتے ہیں!
جبکہ رکوع و سجود میں طمانیت کے لازم ہونے کو رد کردیتے ہیں، کہ یہ خبر واحد ہے!
 

musaibaziz111

رکن
شمولیت
جنوری 12، 2017
پیغامات
12
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
31
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مختصراً یوں سمجھیں کہ قرآن نے مردار کو حرام قرار دیا ہے، یعنی کہ عمومی حکم یہ ہے کہ مردار حرام ہیں، لیکن حدیث نے اس عمومی حکم میں مچھلی اور ٹڈی کے لئے تخصیصاً حکم بیان کیا ہے کہ دو مردار حلال ہيں، مچھلی اور ٹڈی ، یعنی کہ ان کا مردار بھی!
کیونکہ کوئی بکرا پانی میں ڈوب کر مر جانے سے مردار ہو جائے گا، خواہ از خود ہو، یا کوئی اسے ڈوبے کر مار دے، اسی طرح مچھلی پانے سے نکالے جانے پر مردار ہو جائے گی، خواہ از خود ہو یا کوئی نکالے، مردار بکرا تو حرام ہوگا، لیکن مچھلی حلال!
تقید اس معنی میں کہ ایک حکم قرآن نے بیان کیا، اور اس حکم پر مزید کوئی قید یا اضافہ حدیث بیان کرے، مثلاًطمانیت کے ساتھ رکوع و سجود کرنا!
قرآن نے رکوع اور سجدہ کرنے کا بیان کیا ہے، اور حدیث میں اس پر طمانیت کی قید لگائی ہے، یعنی کہ رکوع و سجود میں طمانیت یعنی اطمینان سے سجدہ کرنے کو لازم قرار دیا ہے!
فقہ حنفی پہلی بات یعنی مردار مچھلی والی بات جو حدیث میں وارد ہوئی ہے ، اسے مشہور حدیث کہتے ہوئے قبول کرتے ہیں!
جبکہ رکوع و سجود میں طمانیت کے لازم ہونے کو رد کردیتے ہیں، کہ یہ خبر واحد ہے!
السلام علیکم ورحمتہ للّہ
میرا ایک سوال ہے تکفیر کے متعلق کہ عام لوگ کسی شخص یا کسی جماعت کی تکفیر نہیں کرسکتے ہے
میں نے سنا ہے کہ یہ کام علماء کرام کا ہے کیا اسکی کوئی دلیل ہے..

Sent from my SM-N9208 using Tapatalk
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جس طرح عام لوگ کسی شرعی مسئلہ میں حکم معین لگا کر کسی پر کوئی فتوی دینے کے مجاز نہیں، اسی طرح وہ کسی کی تکفیر کے مجاز بھی نہیں، کہ تکفیر ایک شرعی حکم ہے، اور اس کا کسی شخص پر فتوی لگانے کا عامی مجاز نہیں!
 

musaibaziz111

رکن
شمولیت
جنوری 12، 2017
پیغامات
12
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
31
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جس طرح عام لوگ کسی شرعی مسئلہ میں حکم معین لگا کر کسی پر کوئی فتوی دینے کے مجاز نہیں، اسی طرح وہ کسی کی تکفیر کے مجاز بھی نہیں، کہ تکفیر ایک شرعی حکم ہے، اور اس کا کسی شخص پر فتوی لگانے کا عامی مجاز نہیں!
جی بھائی جان اگر کوئی دلیل ہوگی اس چیز کے متعلق کہ خالی علماء یا مفتی یہ کام کر سکتے ہے عام انسان نہیں


Sent from my SM-N9208 using Tapatalk
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپ کو مزید بتلانے سے قبل یہ جاننا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ پہلے یہ معلوم کیا جائے کہ آپ کی نظر میں ''عامی'' اور ''علماء'' میں کیا فرق ہے!
 

musaibaziz111

رکن
شمولیت
جنوری 12، 2017
پیغامات
12
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
31
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپ کو مزید بتلانے سے قبل یہ جاننا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ پہلے یہ معلوم کیا جائے کہ آپ کی نظر میں ''عامی'' اور ''علماء'' میں کیا فرق ہے!
جی شکریہ اب سمجھ میں آیا


Sent from my SM-N9208 using Tapatalk
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
السلام علیکم ورحمۃ اللہ برکاتہ!
فقہ حنفیہ کا اصول ہے کہ خبر واحد سے قرآن کی آیت کی تخصیص و تقید خبر واحد سے نہیں کی جائے گے!
اور اس اصول کے تحت وہ نکاح میں ولی کی شرط کے قائل نہیں!
باقی بزعم خویش دیگر دلائل کو اس مسئلہ میں پیش کرنا، ان کی جانب سے حجت بازی ہے! اصل یہی بنیاد ہے!
جبکہ حدیث سے ولی کی اجازت شرط ثابت ہوتی ہے!
اب اگر حدیث کی اس شرط کو یہ کہہ کر نہیں مانا جائے، کہ ''خبر واحد'' ہے!
یہ انکار حدیث کا ایک رخ ہے!
اسے کہتے ہیں غلط ترجمانی!
یاتو ابن داؤد دیدۂ ودانستہ غلط بیانی کررہے ہیں یاپھر انہوں نے خود ہی اس مسئلہ کو غلط سمجھاہے
احناف کے یہاں خبرواحد سے قرآن کی کسی آیت کی تخصیص یاتقیید کا نہ ہونا رکن کے درجہ میں ہے،وجوب،سنیت، استحباب وغیرہ کے درجہ میں خبر واحد سے اضافہ کیاجاسکتاہے،آسان لفظوں میں کہیں تو قرآن سے یاقرآن کے مثل سے جوچیز ثابت ہوگی وہ فرض کے درجہ میں ہوگی اوراس سے کم تر سے جوچیز ثابت ہوگی وہ وجوب کے درجہ میں سنیت کے درجہ میں اوراستحباب یاجواز کے درجہ میں ثابت ہوگی۔
نماز میں طمانینت کی ہی مثال لیتے ہیں۔
احناف کے یہاں نماز مین طمانینت فرض اس لئے نہیں ہے کہ کیونکہ اس کا ذکر نہ قرآن میں ہے اورنہ ہی خبر مشہور میں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ طمانینت کاان کے یہاں کوئی مقام نہیں یاوہ سرے سے اس حدیث کو رد کردیتے ہیں، وہ نماز میں طمانینت کوواجب کہتے ہیں، آپ فقہ حنفی کی کسی بھی کتاب کو اٹھاکر دیکھ لیں،اس میں طمانینت کو واجب لکھاگیاہوگا،لیکن وہ غیرمقلد کیا جو تقلید کے خلاف ہنگامہ کرے اور خود کسی دوسرے کی تقلید سے بازآجائے، بس یار لوگوں نے جوکچھ طمانینت کی مثال لکھ دی ہے،اسی کو بھی دوہراتے چلے آرہے ہیں، یہ توفیق نہیں ہوتی کہ خودکبھی احناف کے موقف کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
ابن دائود بڑے اطمینان سے کہتے ہیں کہ یہ انکار حدیث کا ایک رخ ہے،صراحتاًمنکر حدیث کہنے کی ہمت نہیں ہوئی توتعبیر بدل دیا،اب وہ ذرا یہ بتائیں کہ حدیث سے اگرکسی چیز کو واجب قراردیاجائے توکیا یہ اس کا انکار ہے یااس کو مانناہے؟کیا حدیث پر عمل تبھی مکمل ہوگاجب اس کو فرض قراردیاجائے،واجب قراردینے کی صورت میں انکارہوجائے گا؟
مثلارکوع کا مسئلہ ہے، قرآن مین آیاہے کہ رکوع کرو ،ہم نے اس بنیاد پر رکوع کو فرض مانا،اب رہ گئی یہ بات کہ رکوع میں اطمینان بھی کیافرض ہے، ہم نے حدیث کی بناء پر اس کو واجب قراردیاکہ قرآن کا بھی لحاظ رکھا اور حدیث کابھی پورا لحاظ اورخیال رکھا۔
قرآن نے کہاکہ رکوع کرو، وارکعوا رکوع کے معنی جھکنے کے ہیں اورایک خاص کیفیت میں جھکناتواتر کے ساتھ ثابت ہے تو ہم نے اتنے کو فرض کہا،اب رہی یہ بات کہ رکوع اطمینان کے ساتھ کیاجائے، ہم نے حدیث کی وجہ سے اس کو واجب اورضروری قراردیا،توکیاکسی چیز کو واجب اورضروری قراردینا انکار حدیث کا ایک رخ ہے۔
غیرمقلدوں کی نئی پود سے اللہ بچائے،ان کی سب سے نمایاں خصوصیت خود رائی ہے، جو دماغ میں آیا فوراًتحریر وتقریر کی صورت مین ڈھال دیا، نہ اس پر غورکرنے کی ضرورت ،نہ اس کو مزید سمجھنے کی کوشش کچھ نہیں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کبھی ان میں یہ احساس تک نہیں جاگتاکہ ایک مرتبہ کسی موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے سوچیں کہ شاید ہم غلط ہوں یاہم نے غلط سمجھاہو،جب انسان کسی درجہ میں خود کوعقل کل نہیں سمجھتا تواس کےانداز میں افہام وتفہیم کی جھلک ہوتی ہے لیکن جب کوئی خود کوعقل کل سمجھے اوراپنی بات کو قطعی اوریقینی باور کرے توپھر انداز میں قطعیت کاآنالازمی ہے اوریہ وہی خارجیوں والی قطعیت ہے کہ اپنی رائے سب سے بالاتر اوراس میں کسی شک وشبہ کو اورخود کے غلط ہونے کا ذرہ برابر بھی احساس نہیں۔
 
Top