• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ووٹ کی شرعی حیثیت

deewan

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2014
پیغامات
70
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
57
ووٹ کی شرعی حیثیت
عام طور پر لوگ ووٹ دینے کو ایک ایسا معاملہ سمجھتے ہیں جس کا دین سے کوئی تعلق نہیں جس کی وجہ سے وہ کسی احساس ذمہ داری سے بے خبر اس کو استعمال کرتے ہیں۔بلکہ اکثر اوقات ایسے شخص کے حق میں استعمال کرتے ہیں جو فکر آخرت سے بے خبر ہوتا ہے جس کے اثرات اس دنیا میں بھی سب کو بھگتنے پڑتے ہیں اور آخرت میں بھی اس کی جواب دہی کرنے پڑے گی۔اس لیے ضروری ہے کہ ووٹ کی شرعی حیثیت واضح کردی جائے تاکہ ہر ووٹ دینے والا اس کی اہمیت کو سمجھے اور سوچ سمجھ کر اپنے ووٹ کو استعمال کرے۔
شرعی اعتبار سے ووٹ کی تین حیثیتیں ہیں۔
ووٹ کی ایک حیثیت شہادت، یعنی گواہی کی ہے۔ جس شخص کے حق میں انسان ووٹ ڈالتا ہے تو وہ درحقیقت اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ وہ امیدوار دیانت و امانت کے ساتھ اس کام کی قابلیت رکھتا ہے۔اگر کوئی شخص اس بات کو جانتے ہوئے کہ وہ امیدوار ان اوصاف کا حامل نہیں ہے اور پھر بھی اس کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کرتا ہے تو وہ جھوٹی گواہی کا مرتکب ہوا جو گناہ کبیرہ ہے جس کی آخرت میں جوابدہی کرنی ہوگی۔

ووٹ کی دوسری حیثیت سفارش کی ہے۔ یعنی ووٹ دینے والا امیدوار کے حق میں سفارش کرتا ہے کہ اس کی رائے میں یہ امیدوار اس منصب کا اہل ہے۔ اگر سفارش بجا اور ٹھیک ہوئی تو ایسی سفارش کا کرنے والے کو بھی کا اجر ملے گا اور اگر یہ ناجائز ہوئی ہے تو اس کا گناہ سفارش کرنے والے کو بھی ملتا ہے۔اس پہلو سے بھی ووٹ دینے والے کو یہ جان لینا چاہیے کہ اگر اس کا ووٹ کسی نااہل اور بددین کو پڑ گیا تو اس کے ذریعے ہونے والی تمام تر برائیوں میں وہ بھی اس کا شریک سمجھا جائے گا جس کا وہ آخرت میں جواب دہ ہوگا۔

ووٹ کی تیسری حیثیت کسی کو اپنا وکیل بنانے کی ہے۔یعنی ووٹ دینے والا امیدوار کو اپنا نمائندہ اور وکیل بناتا ہے۔لیکن اس وکالت کا اثر صرف اس کی ذات تک محدود نہیں ہوتا بلکہ معاشرے کے تمام افراد تک اس کا نفع اور نقصان پہنچتا ہے اس لحاظ سے بھی ووٹ دینے والے کو اپنا وکیل مقرر کرتے ہوئے دیکھ لینا چاہیے کہ وہ کسی اہل فرد کو یہ منصب سونپ رہا ہے۔ بصورت دیگر اس نااہل کی تمام بداعمالیوں میں وہ بھی اس کا شریک ہوگا۔

ووٹ کا صحیح استعمال آپ کے حق میں اجر و ثواب کا ذریعہ ہے اور اس کا غلط استعمال کرنے کی صورت میں آپ کا منتخب کردہ نااہل نمائندے کے تمام اعمال کے آپ برابر کے ذمہ دار ہیں اور وہ تمام لوگ جن کے حقوق اس نااہل نے ضائع کیے وہ بھی روز قیامت اللہ کے سامنے اس نااہل کو وٹ دینے والے سے اپنے حقوق کے طلب گار ہوں گے۔ اور یہ ایک دو نہیں بلکہ ہزاروں لاکھوں ہوں گے اس لیے اپنے ووٹ کا استعمال سوچ سمجھ کر استعمال کرنا ہر شخص کے لیے لازم ہے اس لیے کہ قیامت کے دن حقوق العباد کا معاملہ بہت سخت ہوگا۔

خلاصہ یہ ہے کہ اپنا ووٹ کسی غلط آدمی کو دینے سے پہلے یہ سوچ لیجیے کہ آپ ایک کبیرہ گناہ میں شریک ہورہے ہیں جس کی جوابدہی آپ کو روز قیامت کرنی ہے۔اسی طرح یہ بھی واضح ہوکہ ووٹ دینا ایک شرعی ذمہ داری ہے اور کسی اہل آدمی کو ووٹ دینے سے گریز کرنا شرعی جرم ہے اور نیک قابل امیدوار کو ووٹ دینے کا فائدہ اس دنیا میں بھی آپ کو ملے گا اور آخرت میں بھی آپ کے لیے اجر کا باعث ہوگا۔

کرنے کا کام
٭ ہم میں سے ہر شخص کو چاہیے کہ اس مضمون کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچائے۔ اس کا ایک طریقہ تو ای میل ہے۔ چنانچہ ہم میں سے ہرشخص کو چاہیے کہ اپنے احباب کو اس پوسٹ کو ای میل کریں۔
٭ اپنے عزیز رشتہ داروں اور دوستوں میں اس کا ذکر کریں۔
٭ جہاں کسی سبب سے ذاتی طور پر پہنچنا ممکن نہ ہو وہاں خط کے ذریعے اس پمفلٹ کو پہنچائیں۔
٭ اپنی ویب سائٹ پر اس کو پوسٹ کریں۔
٭ اپنے محلے کی مساجد کے ائمہ تک اس کو پہنچائیں اور ان سے گزارش کریں کہ وہ حسب موقع ووٹ کے صحیح استعمال کی طرف لوگوں کو متوجہ کریں۔
٭ اپنے علاقے کے باشعور اور ذی اثر لوگوں تک بھی اس کو پہنچائیں۔
٭ اپنے علاقے سے جاری ہونے والے اخبارات تک اس کو پہنچائیں۔
 

akramali1436ram

مبتدی
شمولیت
نومبر 20، 2015
پیغامات
42
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
17
اور کیا دارالامن اور دارالحرب میں ووٹ ڈالنے کے حوالے سے کوئی فرق ہے..
جیسے پاکستان دارالامن
اور کشمیر دارالحرب
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
السلام علیکم !

شیخ محترم @اسحاق سلفی بھائی کیا ووٹ ڈالنا چاھیے ؟؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ ۔
اس سوال کا جواب کسی ایسے حاذق عالم سے لینا چاہیئے ،جو اسلام اور پاکستان دونوں کے امور سیاست کے رموز سے کما حقہ واقف ہو ۔
میری معلومات کے مطابق انتظامی امور کیلئے نمائندوں کے انتخاب کیلئے ووٹ ڈالنا چاہئے ۔
اور خلاف شریعت آئین سازی اور قانون سازی کیلئے نمائندوں کے انتخاب کیلئے ہرگز ووٹ نہیں ڈالنا چاہئے ؛
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
میری معلومات کے مطابق انتظامی امور کیلئے نمائندوں کے انتخاب کیلئے ووٹ ڈالنا چاہئے ۔
‌صحيح البخاري: كِتَابُ الأَحْكَامِ بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ الحِرْصِ عَلَى الإِمَارَةِ
7149 . حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ بُرَيْدٍ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَرَجُلَانِ مِنْ قَوْمِي فَقَالَ أَحَدُ الرَّجُلَيْنِ أَمِّرْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَقَالَ الْآخَرُ مِثْلَهُ فَقَالَ إِنَّا لَا نُوَلِّي هَذَا مَنْ سَأَلَهُ وَلَا مَنْ حَرَصَ عَلَيْهِ
حکم : صحیح
ہم سے محمد بن علاءنے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے بریدہ نے، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی قوم کے دو آدمیوں کو لے کر حاضر ہوا۔ ان میں سے ایک نے کہاکہ یا رسول اللہ! ہمیں کہیں کا حاکم بنادیجئے اور دوسرے بھی یہی خواہش ظاہر کی۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم ایسے شخص کو یہ ذمہ داری نہیں سونپتے جو اسے طلب کرے اور نہ اسے دیتے ہیں جو اس کا حریص ہو۔
 

akramali1436ram

مبتدی
شمولیت
نومبر 20، 2015
پیغامات
42
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
17
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ ۔
اس سوال کا جواب کسی ایسے حاذق عالم سے لینا چاہیئے ،جو اسلام اور پاکستان دونوں کے امور سیاست کے رموز سے کما حقہ واقف ہو ۔
میری معلومات کے مطابق انتظامی امور کیلئے نمائندوں کے انتخاب کیلئے ووٹ ڈالنا چاہئے ۔
اور خلاف شریعت آئین سازی اور قانون سازی کیلئے نمائندوں کے انتخاب کیلئے ہرگز ووٹ نہیں ڈالنا چاہئے ؛
کیا ایسا حکم ہر ایک ملک کے لیے ہوگا یا صرف پاکستان کے لیے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
‌صحيح البخاري: كِتَابُ الأَحْكَامِ بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ الحِرْصِ عَلَى الإِمَارَةِ
7149 . حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ بُرَيْدٍ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَرَجُلَانِ مِنْ قَوْمِي فَقَالَ أَحَدُ الرَّجُلَيْنِ أَمِّرْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَقَالَ الْآخَرُ مِثْلَهُ فَقَالَ إِنَّا لَا نُوَلِّي هَذَا مَنْ سَأَلَهُ وَلَا مَنْ حَرَصَ عَلَيْهِ
حکم : صحیح
ہم سے محمد بن علاءنے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے بریدہ نے، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی قوم کے دو آدمیوں کو لے کر حاضر ہوا۔ ان میں سے ایک نے کہاکہ یا رسول اللہ! ہمیں کہیں کا حاکم بنادیجئے اور دوسرے بھی یہی خواہش ظاہر کی۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم ایسے شخص کو یہ ذمہ داری نہیں سونپتے جو اسے طلب کرے اور نہ اسے دیتے ہیں جو اس کا حریص ہو۔
نمائندہ اور حاکم کافرق ملحوظ رکھیں ؛
میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اس کا جواب کسی ماہر امور سیاست عالم سے لیں ؛
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
میری معلومات کے مطابق انتظامی امور کیلئے نمائندوں کے انتخاب کیلئے ووٹ ڈالنا چاہئے ۔
السلام علیکم !

جزاک اللہ شیخ محترم !

اسی بات کے پیش نظر میں نے آج ووٹ ڈالا ہے -
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
فیس بک سے پوسٹ کیا ہیں :

کیا ووٹ شرعی مشورہ ہے ؟

آج بعض حضرات اس کفر کو اسلام ثابت کرنے کے چکر میں جمہوری انتخابات کو اسلام کے عطاء کردہ تصور شورائیت کا مترادف ثابت کرنا چاہتے ہیں اور عام مسلمانوں کو قرآن کریم کی یہ آیت سناتے ہیں کہ :

"اللہ تعالی تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم امانتوں کو انکے حقدار تک پہنچاؤ." (النساء : ۵۸)

چنانچہ ووٹ بھی ایک امانت ہے اسلیۓ یہ انکے حقداروں تک پہنچاؤ. آئیے انتخابات اور شریعت کے عطاء کردہ تصور مشورہ کے مابین چند بنیادی فرق دیکھتے ہیں تاکہ ہم جان سکیں کہ آیا ووٹ واقعی امانت یا مشورہ یا ایک یکسر فرق تصور :

۱. اسلام میں مشورہ ایک راۓ ہوتی ہے اسکو تسلیم بھی کیا جاسکتا ہے اور رد بھی کیا جاسکتا ہے. جبکہ جمہوریت میں جو ووٹنگ کی جاتی ہے اس میں اکثریت کی راۓ کو رد نہیں کیا جاسکتا.

۲. اسلام میں جن لوگوں سے مشورہ کا کہا گیا ہے وہ ایسے لوگ ہیں جنکو اللہ تعالی نے مشورہ اور راۓ کی صلاحیت سے نوازا ہے. جبکہ جمہوریت میں ووٹ کا حق ہر ایک کو حاصل ہے. عالم و جاہل، ولی اللہ و زانی ، مسلمان و کافر..... یہاں سب ایک جیسے ہیں .

۳. شریعت کی رو سے مسلمانوں کے معاملات میں کافر، مرتد یا زندیق مشورہ نہیں دے سکتا، جبکہ جمہوریت ان سب کو ایک جیسا بنادیتی ہے.

۴. اسلام میں یہ بات بھی طے ہے کہ مشورہ کن امور میں کیا جاسکتا ہے مثلا دین کے بنیادی اصولوں پر مشورہ نہیں کیا جاتا بلکہ ان اصولوں پر جوں کا توں عمل کیا جاتا ہے. جبکہ انتخابات میں تو ایک طرف اسلام لانے کے دعویدار اور دوسری طرف خالص سیکولرزم کے علمبردار کھڑے ہوتے ہیں اور عوام اگر سیکولر منشور قبول کر لیں اور سیکولر جماعت کو زیادہ ووٹ دے دیں تو اس "عوامی مینڈیٹ" کا احترام لازم ہوجاتا ہے، والعیاذباللہ!
 
Top