• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وَلکِنْ لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ۔ تفسیر السراج۔ پارہ:3

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
وَاِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّ اَرِنِيْ كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتٰى۝۰ۭ قَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنْ۝۰ۭ قَالَ بَلٰي وَلٰكِنْ لِّيَطْمَىِٕنَّ قَلْبِىْ۝۰ۭ قَالَ فَخُذْ اَرْبَعَۃً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرْھُنَّ اِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰي كُلِّ جَبَلٍ مِّنْہُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُہُنَّ يَاْتِيْنَكَ سَعْيًا۝۰ۭ وَاعْلَمْ اَنَّ اللہَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۝۲۶۰ۧ
جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ اے میرے رب تو کیوں کر مردے کو جلاتا ہے ۔ فرمایا۔ کیا تو ایمان نہیں لایا؟ اس نے کہا۔ ایمان تو لایا ہوں لیکن اپنے دل کا اطمینان چاہتاہوں۔ فرمایا۔ چار پرندے لے اور ان کو اپنے ساتھ ہلالے ۔ پھر ہرپہاڑ پر ان کے گوشت کا ایک ایک ٹکڑا ڈال دے پھر ان کو پکار۔وہ تیرے پاس دوڑتے آئیں گے اور جان لے کہ اللہ زبردست حکمت والا ہے ۔۱؎ (۲۶۰)
وَلکِنْ لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ
۱؎ انبیاء علیہم السلام ایک مضبوط ومحکم عقیدہ لے کر مبعوث ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں قوت تاثیر نسبتاً دوسرے لوگوں کے بہت زیادہ ہوتی ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے اس یقین واثق کی توثیق چاہی جو مشاہدات پر مبنی ہو اور جو قطعی محسوس اور غیر مشکوک ہو،تاکہ جب وہ نظام آخرت کی طرف لوگوں کو دعوت دیں تو دل کی گہرائیوں کے ساتھ خود بھی اس پر ایمان رکھتے ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا کیا اس حقیقت پر ایمان نہیں رکھتے کہ مزید مشاہدہ کی ضرورت پڑے؟ آپ علیہ السلام نے جواباً عرض کیا۔ ایمان تو موجود ہے، اطمینان خاطر مطلوب ہے ۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس پرایمان مشہود کی ایک صورت پیدا کردی۔ فرمایا چار پرندے لو، انھیں ہلالو اور ان کے ٹکڑے ہر پہاڑ پر رکھ دو ۔ پھر بلاؤ۔ دیکھو قدرت ایزدی سے دوڑے ہوئے آئیں گے۔ اس کے بعد کا واقعہ محذوف ہے اور قرآن حکیم کا عام اندازِ بیان ہے کہ وہ غیر ضروری واقعات کو حذف کردیتا ہے ، اس لیے انھیں خود سیاق کلام سے سمجھا جاسکتا ہے ۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ پرندوں کو ذبح نہیں کیا گیا۔ یونہی مانوس کرکے بلایاگیا اور وہ آگئے۔ جس سے مقصد یہ تھا کہ جس طرح وہ تھوڑے تعلق کی وجہ سے تمہارے پاس آگئے ہیں،اسی طرح ہم چونکہ ساری کائنات کے رب ہیں جب بلائیں گے تو انھیں زندہ ہونا پڑے گا ابلائیں گے تو انھیں زندہ ہونا پڑے گا اور ہماری طرف آنا پڑے گا مگر یہ تاویل دووجہ سے زیادہ قرین یقین نہیں۔ ایک اس لیے کہ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی کا سوال زندگی اور مشاہدہ طلب ہے اور ''اطمینان خاطر'' کی غرض کا تقاضایہ ہے کہ جواب سرسری نہ ہو۔

دوسرے اس لیے کہ اِجْعَلْ کا لفظ زندہ پرندوں کے لیے نہیں بولاجاتا۔ جُزْء اکے لفظ میں تو گنجائش ہے لیکن اِجْعَلْ کا لفظ قطعاً ناقابل تاویل ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ایسے بلند مرتبہ نبی طمانیت قلب کی نعمت سے کیوں محروم تھے۔ اس کا جواب اس اصول کے سمجھنے پر موقوف ہے کہ نبی باوجود جلالت قدر کے انسان ہوتا ہے اور اس میں دوطرح کی نفسیات ہوتی ہیں۔ انسانی وبشری اور نبوی وپیغمبرانہ اور دونوں تقاضوں کا باہمی اختلاف بالکل ظاہر ہے ، اس لیے گو بحیثیت نبی وپیغمبر ہونے کے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حشر ونشر کے کوائف پر پورا پورا ایمان تھا مگربحیثیت بشر وانسان کے وہ چاہتے تھے کہ ا س کو دیکھ بھی لیاجائے ۔
 
Top