• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وکیل شاتم رسو لﷺ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قارئین کرام! ذرا اندازہ فرمائیے وحید الدین خان کس طرح رشدی کی بھونڈی وکالت پر اتر آئے ہیں۔ وہ بالواسطہ بتانا چاہتے ہیں کہ چونکہ ’محاونڈ‘ کا لفظ ملعون رشدی کی ذاتی ایجاد نہیں ہے لہٰذا وہ سزا کا مستحق نہیں ہے، یعنی اصل سزا تو اسے دی جائے جس نے پہلی مرتبہ یہ لفظ ایجاد کیا۔ ان کے اس پست استدلال سے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر کوئی کسی کو گالی نکالے تو اسے کچھ نہ کہو، فوراً تلاش کرو کہ یہ گالی ایجاد کرنے والا پہلا شخص کون تھا؟ اگر اس کی نشاندہی ہوجائے تو پھر یہ تشخیص کرو کہ آیا اسے اس ’ایجاد‘ پر سزا بھی ملی تھی یا نہیں؟ اگر نہیں تو پھر دوسری مرتبہ اس کی ایجاد کردہ گالی کو دہرانے والے کو خواہ مخواہ قصوروار کیوں ٹھہراتے ہو؟ ’محاونڈ‘ تو وہ غلیظ گالی ہے جسے جدید یورپ کے سنجیدہ مسیحی راہنما بھی سخت قابل اعتراض سمجھتے ہیں مگر وحید الدین خان کے نزدیک رشدی جوکہ ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا، اس قدر قصور وار نہیں ہے کہ اس کوسزا دی جائے۔ وہ تو بس اسے نظر انداز کرنے کی وکالت کرتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
وحید الدین خان کا یہ مطالبہ جتنا لغو ہے اتنا عجیب بھی ہے کہ اس وقت کے علماء نے صلیبی مصنّفین کے بارے میں اگر فتویٰ دیا تھا تو پیش کرو۔ وہ چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ علماء نے کہا ں لکھا ہے کہ’انہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کردیا جائے‘ …اس سلسلہ میں ہم وحید الدین خان سے جواباً یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ہمیں تاریخ سے ڈھونڈ کر ایک مثال دکھا دیں جب کسی مسلمان عالم دین کے سامنے کسی کا نام لے کریہ کہا گیا ہو کہ اس نے نبی اکرمﷺکے لئے لفظ ’محائونڈ‘ استعمال کیاہے اور اس عالم دین نے اس کے خلاف قتل کا فتویٰ نہ دیاہو۔ متعصّب تنگ نظر مسیحی پادریوں نے یہ بکواس اپنی مادری زبان میں کی تھی جس کے متعلق مسلمان علما کا علم صفر تھا۔ آخر انہیں کیسے پتہ چلتا کہ سمندر پار یورپ میں کسی سگ ِیورپ نے رسالت مآبﷺپر یہ بھونک لگائی ہے۔ جب انہیں اس کا علم نہیں تھا تو اس پرفتویٰ کیسے دیتے۔ آج بھی برصغیر پاک و ہند کے علماء کی اکثریت سے اگر سوال کیا جائے کہ انہوں نے یہ لفظ ’محائونڈ‘ وحید الدین خان کی کتاب کے علاوہ بھی کہیں پڑھا ہے تو ان کا جواب نفی میں ہوگا۔ تو وحید الدین خان کیا دیوانے ہوگئے ہیں، انہوں نے یقینا اپنی عقل کو وقتی طور پر رخصت پر بھیج دیا ہوگاجب وہ یہ مطالبہ مسلمانوں سے تحریری طور پر کر رہے تھے۔
دوسری بات یہ بھی غور طلب ہے کہ اس طرح کی سنگین گستاخی کے لئے فتویٰ تو ہمیشہ سے موجود رہا ہے ۔ نئے فتویٰ کے جاری کرنے کی ضرورت تو اس وقت پیش آتی ہے جب وہ مسئلہ نئے سرے سے باقاعدہ نام کے ساتھ پیش کیا جائے۔ صلیبی جنگوں کے دوران مجاہد ِاسلام صلاح الدین ایوبی﷫ کو اگر علم ہوجاتا کہ کسی صلیبی نے یہ بکواس کی ہے تو وہ ان کی گردن اڑا دیتا۔ اگر وہ اس کی پہنچ سے باہر ہوتا تب بھی وہ اس کو گرفتار کراکے قتل کرنے کے لئے تمام ذرائع استعمال میں لاتا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ایک دوسرے مقام پر وحید الدین خان ملعون رشدی کی بدترین دریدہ دہنی اور شیطانی ہفوات کو ایک ’معمول کی کارروائی‘ اور ایک محض عام سی استہزا دکھا کر اس کو معاف کرنے کے لئے لغو دلیل لے آئے ہیں:
’’سلمان رشدی نے اپنی کتاب میں پیغمبر اسلامﷺکا نام ’محاونڈ‘‘(Mahound) لکھا ہے۔ یہ ایک استہزائی نام ہے۔ جس طرح بعض لوگ وہابی کو وہابڑا اور دیوبندی کو دیوبندے وغیرہ کہتے ہیں، اسی طرح سلمان رشدی نے آپﷺ کے لئے اس بگڑے ہوئے نام کو استعمال کیا ہے جو صلیبی جنگوں کے بعد یورپ کے عیسائیوں نے آپ کے لئے گھڑا تھا… اس مجرمانہ حرکت کی مثال بھی زمانہ نبوت میں موجود ہے۔ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں بتایا گیا ہے کہ رسول اللہﷺ کا نام اگرچہ آپ کے دادا عبدالمطلب نے محمدﷺ رکھا تھا، مگر مکہ کے قریش نے استہزائی طور پر آپ کا نام مذمم رکھ دیا۔ محمدﷺکے معنی ہیں تعریف کیا ہوا جبکہ مذمم کے معنی ہیں :مذمت کیا ہوا۔‘‘ (ص: ۵۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جناب! آپ کی عقل ٹھکانے نہیں ہے۔ ’محاونڈ‘ محض ایک ’استہزائی نام‘ نہیں ہے یہ رذیل ترین گالی ہے۔ وہابی کو وہابڑا کہنے میں اور محمدﷺ کو (نعوذ باللہ) ’محاونڈ‘ کہنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ وہابڑا ایک بگڑا ہوا مہمل لفظ ہے جس کا کوئی دوسرا مطلب نہیں ہے۔ مگر ’محاونڈ‘ کا مطلب آپ خود ہی لکھ چکے ہیں۔ یہ کوئی مہمل اور بے ضرر لفظ نہیں ہے۔ یہ کوئی نام بھی نہیں ہے یہ ایک گالی ہے جو یورپ کے غلیظ پادریوں نے حضورﷺ کی سخت تحقیر کے لئے سوچی سمجھی سازش کے تحت گھڑی تھی جس کا اعتراف آپ خود کرچکے ہیں۔ نہ ہی اس کا کوئی قریبی تعلق ’دیوبند‘ کے ’دیوبندے‘ سے کوئی اشتراک ِمعانی یا مفہوم بنتا ہے۔ دیو بند ایک شہر کا نام ہے۔ اگر اس طرح آپؐ کا مذاق اڑا یا جاتا تو مدینہ یا مکہ کے نام کو بگاڑ کر آپ کو اس سے نسبت دی جاتی۔ بے حد تعجب ہے وہ اس فرق کی اہمیت کو یکسر ختم کر دینا چاہتے ہیں، کیونکہ ان کے سر پر ملعون رشدی کی صفائی کا بھوت سوار ہے جس نے ان کو قطعی طور پر مخبوط الحواس اور فاتر العقل بناکے رکھ دیا ہے۔ اب وہ مختلف الفاظ اور اشیاء کے درمیان فرق مراتب قائم کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوگئے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
وحید الدین خان نے مسلمان راہنمائوں کے خلاف لکھا ہے:
’’کچھ لوگ رنگ کے اندھے (Colour blind)ہوتے ہیں، انہیں ایک رنگ دکھائی دیتا ہے اور دوسرا رنگ بالکل نظر نہیں آتا‘‘ (ص: ۶۵)
ہمارے خیال میں اس جملے کا اصل مصداق خود وحید الدین خان سے زیادہ اور کوئی نہیں ہے۔وہ ’محاونڈ‘ اور ’وہابڑے‘ کے درمیان کوئی امتیاز اور فرق دیکھنے کی صلاحیت سے محروم دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے عقل کی اندھی آنکھ ایک رذیل ترین گالی اور ایک مہمل سے استہزائی لفظ کو ایک سطح پر دیکھتی ہے۔ ایسی صورتحال میں غالب کا یہ شعر بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے؎
دل کو روئوں یا پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں​
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یہاں علمی اعتبار سے یہ نشاندہی ضروری ہے کہ حضور اکرمﷺکے نام کو بگاڑ کر جو لفظ صلیبیوں نے گھڑا وہ تھا Mahomet یا Maumet آکسفورڈ ڈکشنری میں اس کی اٹھارہ شکلیں بتائی گئی ہیں۔ جیسا کہ پی کے ہٹی نے اپنی کتاب "Islam and The West" میں لکھا ہے:’’لفظ Mahomet خود محمدؐ کی بگڑی ہوئی صورت ہے۔‘‘
"Mahound" تو صریحاً غلیظ اور خبیث گالی ہے۔ یہ نام محمد کی بگڑی صورت نہیں ہے۔اسی طرح’مذمم‘ بھی لفظ محمدﷺ کی بگڑی ہوئی صورت نہیں ہے۔ یہ لفظ ’محمد‘ﷺکا ہم وزن ضرور ہے مگر اس کا الگ اپنا مطلب ہے۔ اس کو بھی ’وہابی اور وہابڑے‘ جیسے لفظی بگاڑ میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔ وحید الدین خان ’مدعی سست گواہ چست‘ کی قابل ِرحم تصویر بنے ہوئے ہیں۔ خود ملعون رُشدی نے ایسی کوئی بھی وضاحت اپنے بیان میں نہیں کی۔ اس نے اپنے ایک بیان میں محض اتناکہا ’’یہ کتاب مذہب اور الہام کے بارے میں ایک سیکولر آدمی کا نقطہ نظر بیان کرنے کی کوشش ہے‘‘ (ٹائمز آف انڈیا، ۸؍ اکتوبر ۱۹۸۸ء)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رُشدی اور دیگر گستاخانِ رسول کے الفاظ کاموازنہ
رُشدی بدمعاش کی طوائف القلمی اور دیگر گستاخانِ رسول کے جسارت آمیز الفاظ میں وہی فرق ہے جو ایک شعلۂ جوالہ اور ایک معمولی سی چنگاری میں ہوتا ہے۔ ایک چنگاری لباس کے جس حصے پر پڑے گی، تو یقینا وہاں سوراخ کردے گی مگر ایک شعلہ جوالہ یا آگ کا لنبعہ لباس کو ہی نہیں اس جسم کو بھی خاکستر کرکے رکھ دے گا، لیکن ہمارے ’ممدوح‘ وحیدالدین خان نے اسلامی تاریخ سے بزعم خویش بہت سے گستاخانِ رسول کی فہرستیں نکال کر پیش کی ہیں، جو ان کے خیال میں رشدی کی ہی سطح کے گستاخ تھے۔ اور ان تمام افراد کو بوجوہ سزا نہ ملنے کو وہ اپنے مؤقف کے حق میں ’برہانِ قاطع‘ سمجھتے ہیں اور پھر سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر ان کو معاف کردیا گیا تھا تو پھر رشدی کا جرم کون سا نرالا ہے کہ اس کے خلاف اس قدر اشتعال کا مظاہرہ کیا جارہا ہے؟ ہم اوپر وحید الدین خان کی کتاب سے ہی رشدی ملعون کی ہفوات نقل کرچکے ہیں۔ ذیل کی سطور میں انہی کے پیش کردہ دیگر گستاخان کے الفاظ اور کلمات کو درج کرتے ہیں اور پھر فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیں گے کہ وہ خود ہی انصاف سے کام لیں کہ رشدی کے ہفوات اور دیگر افراد کے کلمات کیا ایک سطح کے ہیں؟اور پھر وحید الدین خان کو بھی چیلنج کریں گے کہ وہ گذشتہ چودہ صدیوں کے دوران کسی نام نہاد مسلمان گھرانے میں پیدا شدہ ’مسلمان‘ تو ایک طرف، کسی مسیحی گستاخ کو تاریخ کے کونے کھدرے سے ڈھونڈ کر لائیں جس کی تحریرمیں اس قدر کثرت سے رذیل الفاظ کا استعمال،اس دیدہ دلیری اور دریدہ دوہنی کے ساتھ کیا گیا ہو۔ اگر نہیں تو پھر وحید الدین خان کو اپنے تجزیہ کی اس فاش غلطی پر امت ِمسلمہ سے معافی مانگنی چاہئے اور خداوند کے حضور توبہ کرنی چاہئے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رسول اکرمﷺ کی نبوت کے ابتدائی سالوں کے دوران قریش مکہ کے سلوک کا ذکر کرتے ہوئے وحید الدین خان رقم طراز ہیں:
’’ واقعات بتاتے ہیں کہ آپؐ نے جب عربوں کے سامنے اپنی پیغمبرانہ دعوت پیش کی تو انہوں نے آپؐ کے ساتھ نہایت برا سلوک کیا۔ انہوں نے آپ ؐ کو عملی طور پر ستانے کے علاوہ آپؐ پر طرح طرح کے برے القاب چسپاں کئے۔ ان میں سے چند اَلقاب نعوذ باللہ یہ تھے:
متقول، بات بنانے والا…ساحر ،جادوگر…مجنون،دیوانہ…کذاب، بہت جھوٹ بولنے والا
پھر اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ’’جب ہم اس اعتبار سے دورِ اول کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ قسم کی گستاخی کرنے والے غیر مسلموں کے خلاف کبھی بھی اس طرح کی کارروائی نہیں کی گئی جو موجودہ مسلمانوں نے کی یا کر رہے ہیں۔‘‘ (ص: ۲۱،۲۲)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
1۔ عبداللہ ابن اُبی
عبداللہ ابن اُبی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگانے والوں میں شامل تھا۔ تین مجرموں کو قذف کی سزا دی گئی۔ عبداللہ بن اُبی کو سزا نہ دی گئی۔ اس کی ایک وجہ تو حضور اکرمﷺ کی اس سے ’خصوصی رعایت‘ تھی۔ حضور اکرمﷺکے مدینہ آنے سے پہلے وہ مدینہ کے حاکم بننے کی تیاری مکمل کرچکاتھا، جب آپؐ آگئے تو اسے سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ اسلامی تاریخ کے بعض مؤرخین نے حضور ِاکرمﷺ کی اسے نظر انداز کرنے کی وجہ یہی بیان کی ہے کہ آپ اس کی تالیف ِقلب کرنا چاہتے تھے۔ لیکن واقعہ اِفک میں بھی جو روایات کتب اَحادیث میں مذکور ہوئی ہیں۔ اس میں عبداللہ ابن اُبی کاجو گستاخانہ جملہ بیان ہوا ہے وہ اس واقعہ کے شروع میں ہے۔ایک ماہ تک افواہوں اور پروپیگنڈہ کا بازار گرم رہا، لیکن اس دوران میں عبداللہ ابن اُبی سے منسوب کوئی بات روایت نہیں ہوئی۔ دوسری بات یہ ہے کہ واقعہ اِفک میں ملوث عبداللہ ابن اُبی کے علاوہ کل چھ اَفراد کے نام بیان کئے گئے ہیں۔ ان میں تین منافق اور تین مسلمان تھے۔ رسولِ اکرمﷺنے تین منافقوں پر قذف کی حد لاگو نہ کی جبکہ تین مسلمانوں مثلاً حسان بن ثابت، مسطح اور حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا پر نافذ کی گئی۔ امام ابن تیمیہ﷫نے لکھا ہے کہ اس وقت تک قذف کی حد منافقین پر لاگو کرنے کا حکم وارد نہیں ہوا تھا۔ اس اعتبار سے واقعہ افک میں عبداللہ ابن اُبی کو جو رعایت ملی وہ اس کے منافق ہونے کی وجہ سے ملی۔ راقم کی نظر میں یہ رائے راجح ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سلمان رُشدی کی غلیظ ہفوات کو محض ’بے ہودہ‘ لغو وغیرہ‘ کہنے پر اکتفا کرنے والے وحید الدین خان نے عبداللہ ابن اُبی کی واقعہ ٔ افک میں گستاخی کو تفصیل کے ساتھ متعدد مقامات پر بیان کیا اور اسے ’شدید ترین گستاخی‘ کہا ہے۔ وحید الدین خان نے اس کے علاوہ عبداللہ ابن اُبی کی دو اور گستاخیوں کو بھی نقل کیا ہے۔ ایک موقع وہ تھا جب غزوہ بنی مصطلق (سن ۵ہجری) سے واپسی پر ایک چشمہ پر پانی لینے کے لئے ایک مہاجر اور ایک انصاری آپس میں لڑگئے۔ رسول اکرمﷺنے مداخلت فرما کر اس مسئلہ کو ختم کر دیا۔ البتہ اس موقع پر عبداللہ ابن اُبی نے اپنے قبیلہ کے لوگوں کے سامنے اشتعال انگیز تقریر کی۔ اس نے کہا’’خدا کی قسم، اگر ہم مدینہ واپس پہنچ گئے تو عزت والاذلت والے کو وہاں سے نکال دے گا‘‘ (ص: ۱۴۶) اگرچہ عبداللہ ابن ابی کی اس بات کا اشارہ حضور اکرم ﷺ اور تمام مہاجرین کی طرف تھا، مگر غور کیا جائے تو عبداللہ ابن اُبی نے اپنے اس جملہ میں کسی کا نام نہ لیا تھا اور اس کا بالخصوص نام نہ لینا بھی حکمت ِخداوندی تھا۔ اللہ پاک نے اس منافق کی زبان سے واقعی ایک سچی بات نکلوائی تھی، کیونکہ مدینہ پہنچنے کے بعد عزت والوں نے ذلت والوں کو نکال دیا۔ مسلمانوں کو خدا نے عزت عطا کی۔ یہود اور منافقین مدینہ کے نصیب میں بدترین ذلت آئی۔
 
Top