• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وکیل شاتم رسو لﷺ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ایک اور واقعہ یوں نقل کیا گیا ہے کہ ایک دن رسول خدا ﷺ حضرت سعد﷜ بن عبادہ کی عیادت کرنے جارہے تھے، راستہ میں عبداللہ ابن اُبی کا قلعہ نما مکان تھا، وہاں اس کے پاس اس کے قبیلہ کے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ آپﷺ وہاں سواری سے اتر پڑے اور عبداللہ ابن اُبی کے پاس پہنچ کر اس کو سلام کیا۔ آپﷺ تھوڑی دیر وہاں بیٹھے اور قرآن کا ایک حصہ پڑھ کر سنایا۔ عبداللہ ابن اُبی بے پروائی کے ساتھ چپ چاپ سنتا رہا۔جب آپ فارغ ہو چکے تو عبداللہ ابن اُبی نے کہا:
’’اے شخص! آپ کی یہ بات تو اچھی ہے، لیکن اگر وہ حق ہے تو آپﷺ اپنے گھر میں بیٹھیں اور جو شخص اس کو سننے کے لئے آپﷺ کے پاس آئے اس کو سنائیں اور جو شخص آپﷺ کے پاس نہ آئے تواس کو آپﷺتکلیف نہ دیں اور ایسے شخص کی مجلس میں ا س کا ذکر نہ کریں جو اس کو ناپسند کرتاہو۔ رسول اللہ ا کو عبداللہ ابن اُبی کا یہ قول سخت ناگوار ہوا مگر آپ ؐخاموشی سے بڑھ کر آگے بڑھ گئے۔‘‘ (ص: ۱۴۵)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بلاشبہ یہ گستاخانہ کلمات تھے اور واقعہ بنی مصطلق کے بعد عبداللہ ابن اُبی کی تقریر سے مشتعل ہو کر حضرت عمر﷜ نے رسول اکرمﷺ سے اسے قتل کرنے کی اِجازت بھی طلب کی تھی مگر آپﷺنے اس کی اِجازت یہ کہ کر نہ دی کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ محمدﷺ اپنے ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں۔ عبداللہ ابن اُبی منافقین کا سردار تھا، اس کے قبیلے کے خاصے لوگ سچے مسلمان تھے، جو قبائلی قیادت میں اس کو سردار مانتے تھے۔ علاوہ اَزیں اسکی سرگرمیاں زیادہ تر خفیہ تھیں، سامنے آکر مسلمانوں کی مخالفت کی اسے جرأ ت نہ تھی۔ جنگ اُحد میں عبداللہ ابن اُبی اپنے تین سو آدمیوں کے ساتھ مسلمانوں کے لشکر سے الگ ہوگیا تھا مگر واقعات بتاتے ہیں کئی مواقع پر اس نے خلوص سے مسلمانوں کا ساتھ بھی دیا تھا۔
جنگ اُحد کے بعد بھی وہ لشکر اسلام میںشامل ہوتا رہا۔ غالباً رسول خداﷺ اس کی اسی نیم دلانہ حمایت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس سے درگزر کی پالیسی اپناتے رہے۔ اس کے جملے گستاخانہ تھے مگر ملعون رشدی کی ننگی گالیوں کے مقابلے میں وہ ’بے حد نرم‘ کہے جاسکتے ہیں۔ اگر عبداللہ ابن اُبی وہی کلمات کہتا جو ملعون رشدی نے کہے تو پھر اس بات کا قطعاً کوئی امکان نہ تھا کہ اسے معاف کر دیا جاتا، اس کی گردن اس طرح کی پہلی گستاخی پر ہی اُڑا دی جاتی۔ عبداللہ ابن اُبی نے قرآنی آیات کو سن کر ناگواری کا اظہار کیا تھا مگر ملعون رشدی نے پورے قرآن مجید کو ’شیطانی آیات‘ کا نام دے کر شدیداِہانت کا ارتکاب کیا۔ اور خود وحید الدین خان لکھ چکے ہیں:
’’اس سے بھی زیادہ لغو بات یہ ہے کہ اس کی بنیاد پر پورے قرآن مجید کو کلام خداوندی کی بجائے نعوذ باللہ کلام شیطانی قرار دینے کی کوشش کی جائے۔‘‘(ص :۴۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
2۔ھِندکی گستاخی
ہند ابوسفیان کی بیوی تھی، فتح مکہ پر یہ ایمان لے آئی تھیں۔ مگر اس سے پہلے شاعری کے ذریعے رسول اکرمﷺ کی ہجو کیا کرتی تھی۔ وحید الدین خان نے سیرت ِابن ہشام کے حوالہ سے ہند کے یہ ہجویہ اشعار نقل کئے ہیں:
مذمّما عصینا…وآشذہ أبینا…ودینہ قلینا​
یعنی:’’ محمدﷺمذمت کئے ہوئے ہیں … ہم ان کا انکار کرتے ہیں … ہم ان کے حکم کو نہیں مانتے… اور ہم کو ان کے دین سے بغض ہے۔‘‘(ص:۱۳۵)
نوٹ: وحید الدین خان نے ’محمدﷺ‘ کے لفظ کا اپنی طرف سے ترجمہ میں اضافہ کردیا ہے۔ ہند کے اشعار میں اس نے نام نہیں لیا تھا اگرچہ اس کا اشارہ آپﷺ کی طرف ہی تھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
3۔ ذوالخویصرہ کی گستاخی
وہ بنو تمیم قبیلے کا ایک شخص تھا، جنگ ِحنین کے بعد جب رسول خداﷺ غنیمت کا مال تقسیم فرما رہے تھے تو ذوالخویصرہ نے کہا : ’’میں نے نہیں دیکھا کہ آپ نے عدل کیا ہو۔‘‘ وحید الدین خان نے ذوالخویصرہ کے ان الفاظ کے جو محرکات و مضمرات بتائے ہیں وہ قطعی طور پر ان کے اپنے ذہن کے ساختہ پر داختہ ہیں۔ اگرچہ ذوالخویصرہ نے جو الفاظ ادا کئے، ظاہری طور پر اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ نبی اکرمﷺ کے ’عدل‘ سے مطمئن نہ تھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ذوالخویصرہ ایک سادہ لوح نو مسلم تھا۔ وہ رسالت مآبﷺ کی صحبت میں زیادہ نہ رہا تھا۔ مالِ غنیمت کی تقسیم کے دوران حضور اکرمﷺ نے بعض اَفراد کو ان کی تالیف ِقلب کے لئے کچھ زیادہ مال عطا کیا۔ آپﷺاس طرح کی تالیف ِقلب اکثر فرمایا کرتے تھے، مثلاً فتح مکہ اور غزوئہ ہوازن میں بھی آپﷺنے ایسا معاملہ فرمایا اور یہ دین کی عظیم مصلحتوں کے پیش نظر تھا اور واقعی اس کے مثبت نتائج برآمد ہوئے۔ جیسا کہ وحید الدین خان نے سہیل بن عمرو کے ضمن میں لکھا ہے:
’’غزوئہ ہوازن کے بعد آپ نے ان کو ایک سو اونٹ تالیف ِقلب کے طور پر دیئے۔ اس عطیہ کے بعد وہ بالکل ڈھے پڑے اور اسلام قبول کرکے رسول اللہﷺکے ساتھی بن گئے‘۔‘(ص: ۱۵۵)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مگر ذوالخویصرہ جیسا سادہ لوح بدو دین کی اِن مصلحتوں کو نہیں سمجھتا تھا۔ وہ عدل کا مفہوم دو جمع دو یا پھر ہر فرد کو مالِ غنیمت سے مساوی حصہ کا عطا کیا جانا سمجھتا تھا۔ جب آپﷺ مالِ غنیمت تقسیم فرما رہے تھے وہ آپﷺکے پاس کھڑا ہوگیا اور دیکھتا رہا۔(ص: ۱۶۰) اس نے جب دیکھا کہ سب لوگوں کو برابر حصہ نہیں مل رہا تو اس نے مذکورہ بات کی۔ اگر اس کے ذہن میں وہ بات ہوتی جس کا ذکر وحید الدین خان نے کیا ہے تو اَغلب اِمکان اس بات کا ہے کہ وہ یہ بات زبان سے نہ نکالتا۔ مگر وحید الدین خان اس واقع کوPlay- upکرکے اس پر یوں تبصرہ کرتے ہیں:
’’مذکورہ مسلمان (ذوالخویصرہ) کے معاملہ پر غور کیجئے۔ اس نے خدا کے رسولﷺ کی شان میں جو گستاخی کی وہ سادہ معنوں میں صرف ایک لفظی گستاخی نہ تھی،وہ خود آپ کی حیثیت ِرسالت پر ضرب لگانے کے ہم معنی تھی۔ اس شخص نے آپﷺ کی عدالت پر شبہ کیا تھا اور آپﷺ کو اپنے خیال کے مطابق غیر عادل بتایا تھا۔ یہ بات انتہائی حد تک سنگین ہے، کیونکہ رسول اللہﷺ کی حیثیت قرآن کے راوی کی ہے۔ ایسی حالت میں مذکورہ تمیمی مسلمان کا آپﷺکو غیر عادل بتانا گویا آپ کے راوی ٔقرآن ہونے کی حیثیت کو مشتبہ قرار دینا ہے۔ یہ بلاشبہ سب سے زیادہ سخت بات ہے جو آپﷺکے خلاف کہی جاسکتی ہے۔ مذکورہ شخص نے اتنی سنگین بات کہی، اس کے باوجود اس کو نہ کوئی سزا دی گئی اور نہ ہی اس کو قتل کیا گیا۔ کیا اس کے بعد بھی اس میں شبہ کی کوئی گنجائش باقی رہتی ہے کہ رسول اللہﷺ کی شان میں گستاخی بجائے خود کوئی واجب القتل جرم نہیں ہے۔‘‘ (ص: ۱۶۱،۱۶۲)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
وحید الدین خان نے جو نتیجہ اس واقعہ پر تبصرہ کرنے کے بعد نکالا ہے وہ محض پہلے سے بنا بنایا اور گھڑا گھڑایا (Pre-postrous)ہے۔ جس غلط فہمی کا شکار ذوالخویصرہ جیسا غیر معروف، نومسلم، سادہ لوح بدو ہواتھا، اس طرح کی غلط فہمی اس طرح کے آدمی سے غیر متوقع نہیں ہے، کیونکہ اپنی آنکھوں سے وہ مالِ غنیمت کی غیر مساوی تقسیم دیکھ رہا تھا اور تربیت کے مراحل سے نہیں گزرا تھا۔ اس طرح کی غلط فہمی تو فتح مکہ کے بعد بہت سے جید اَنصاری صحابہ کرام﷢ کو بھی ہوئی تھی۔ فتح مکہ کے بعد آپﷺنے اَبوسفیان اور دیگر مکہ کے سرداروں کی تالیف ِقلب کے لئے انہیں مالِ غنیمت سے بیش بہا مال دیا جن کا بعض انصار نے اَثر قبول کیا۔ ان میں سے بعض نے تو برملا اس کا اظہا ربھی کیا۔ ایسے ہی موقع پر حضور اکرمﷺ کا وہ مشہور اِرشاد ِمبارک ہے جس نے انصار صحابہ کو رُلا کر رکھ دیا اور رقت ِقلبی سے ان کی چیخیں نکل گئیں اور انہوں نے اس بدگمانی پر توبہ کی۔ آپﷺنے فرمایا :
’’اے گروہ انصار !کیا آپ کو یہ گوارا نہیں کہ اہل مکہ تو اَموال لے جائیں اور آپ کے ساتھ اللہ کا رسول چلاجائے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تعجب کا معاملہ ہے کہ وحید الدین خان نے بے چارے ذوالخویصرہ کی اس سادہ لوحی پر مبنی گستاخی کو تو ’سنگین ترین‘ بتلا کر باقاعدہ وہ من چاہا نتیجہ بھی نکال لیا ہے جس کو درست ثابت کرنے کے لئے انہوں نے ۱۹۲ صفحہ کی کتاب ’شتم رسول کا مسئلہ‘ لکھ ماری۔ مگر اس کتاب میں کہیں بھی اس نے ملعون رشدی کی گستاخی کو ’سنگین ترین‘ نہیں لکھا۔ بلکہ زیادہ سے زیادہ اسے ’اشتعال انگیز حد تک لغو‘ لکھاہے۔
ذوالخویصرہ کی مذکورہ گستاخی اور ملعون رُشدی کی ہفوات میں کوئی مقابلہ نہیں ہے مگر وحید الدین خان مصر ہیں کہ یہ دونوں گستاخیاں ایک ہی مرتبے کی ہیں۔ علمی بددیانتی کو اگر اپنا ’ مذہب‘ بنا لیا جائے تو پھر منطق کے نام پر ایسی یا وہ گوئیاں غیر متوقع نہیں رہتیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
4۔ عکرمہ بن ابوجہل کو معافی ملنے کی وجہ
وحید الدین خان نے رسول اللہﷺکے ابتدائی مخالفین میں عکرمہ بن ابوجہل کاذکر بے حد تفصیل سے کیاہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ فتح مکہ سے پہلے وہ رسول اکرمﷺکا سخت مخالف تھا اور اپنے باپ ابوجہل کے ساتھ تھا۔ گستاخی اور جارحیت کی کوئی قسم نہ تھی جو اس نے آپﷺکے خلاف اختیار نہ کی ہو۔غزوہ اُحد میں وہ مشرک فوج کے میسرہ کا سردار تھا۔ فتح مکہ کے بعد وہ مکہ کو چھوڑ کر یمن کی طرف بھاگ گئے۔ ان کی بیوی جو مسلمان ہوگئی تھی۔ وہ یمن جاکر باصرار انہیں واپس لے آئیں۔ وہ انتہائی شرمساری کے ساتھ اپنا سرجھکائے ہوئے رسول اللہﷺکے پاس آئے اور پوچھا:کیا مجھے اَمان ہے۔ آپﷺنے فرمایا کہ ہاں، تم کو امان ہے۔ آخر کار انہوں نے کلمہ شہادت اَدا کرکے اسلام قبول کر لیا… عکرمہ نے ہر جرم رسول اللہﷺکے خلاف کیا تھا بظاہر وہ اس قابل تھے کہ ا نہیں قتل کردیا جائے مگر رسول اللہ ﷺقاتل نہیں تھے، داعی تھے، آپﷺنے انہیں یکطرفہ طور پر معاف کردیا۔(ص: ۱۵۸ـتا۱۶۰)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
وحید الدین خان کتاب کا پیٹ بھرنے کے لئے ایسے واقعات بھی لکھتے چلے گئے ہیں جن کا موضوعِ بحث سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ عکرمہ کا معاملہ درحقیقت عسکری مخالفت کا تھا۔ وہ کفار ِمکہ کے سب سے بڑے سردار یعنی ابوجہل کا بیٹا تھا۔ جنگ لڑنا ایک بہادرانہ فعل ہے چاہے وہ کسی بھی طرف سے لڑی جائے۔ جنگی بہادروں کو مخالف بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ آج بھی کسی فوج کا سپہ سالار گرفتار ہوجائے، اسے فوراً قتل نہیں کیا جاتا۔ بلکہ بالعموم بعض شرائط کے ساتھ چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جنگ ِبدر کے بعد ۷۰ کفار کو رسول اللہﷺنے گرفتار کرنے کے بعد معاف کردیاتھا۔ فتح مکہ کے بعد ابوسفیان جس نے مسلمانوں کے خلاف غزوئہ اُحد میں کفار کی قیادت کی تھی، آپﷺنے اعلان فرمایا کہ جو کوئی ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے گا، اسے امان دے دی جائے گی۔ اس طرح کی وسعت ِظرفی کا اظہار ہمیشہ مخالفین کو متاثر کرنے کا باعث بنتا ہے۔ جیسا کہ وحید الدین خان نے لکھا ہے کہ عکرمہ کے جرم میں ’گستاخی اور جارحیت‘ دونوں چیزیں شامل تھی۔ مگر جارحیت کا پلہ بھاری تھا اوریہ عسکری جارحیت تھی۔ عکرمہ ایک انتہائی بہادر سپہ سالار تھے۔ اسلام لانے کے بعد انہوں نے اسلامی لشکر کی قیادت کرتے ہوئے بہادری کے عظیم کارنامے سرانجام دیئے تھے۔ آپﷺکے سامنے عکرمہ کا یہ پہلو بھی چھپا ہوا نہیں تھا۔ اسی لئے جب یمن سے ان کی بیوی انہیں واپس لائیں تو بقول وحید الدین خان: ’’عکرمہ جب آپﷺکے پاس پہنچے تو رسول اللہﷺنہایت خوش ہو کر اِن کی طرف تیزی سے بڑھے، حتیٰ کہ آپ کی چادر آپﷺکے اوپر سے گر پڑی۔‘‘ (ص: ۱۵۹)
 
Top