• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وکیل شاتم رسو لﷺ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(ii) قتل عمد کی اسلام میں سزا موت ہے، لیکن اگر مقتول کے ورثا بعض مصلحتوں کی بنا پر قاتل سے صلح کرکے اسے معاف کردیں تو اسلامی ریاست اس قاتل پر سزائے موت کو نافذ نہیں کرسکتی۔ کیا ایک قاتل کومقتول کے ورثا سے اس طرح کی معافی کا ملنا اس کے لئے ہر بار قتل کی واردات میں معافی کا لائسنس سمجھا جاسکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ فرض کیجئے وہی قاتل دوسری بار اسی خاندان کے کسی اور فرد مثلاً پہلے مقتول کے بھائی کو قتل کردیتا ہے تو کیا مقتول کے ورثا کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ دوسری مرتبہ بھی اسی قاتل کو معافی دے دیں یا پہلے قتل میں قاتل کو ملنے والی معافی بذات ِخود دوسرے قتل کے مقدمے کے لئے بھی کافی سمجھی جائے گی؟ معمولی سی عقل و فہم رکھنے والا کوئی بھی فرد اس کا جواب یقینا نفی میں دے گا۔ تو پھر وحید الدین خان حضور اکرمﷺکی طرف سے بعض افراد کو دی جانے والی معافی کو ’معافی ٔ عام‘ کس عقلی دلیل کی بنیاد پر ٹھہرا رہے ہیں۔ وہ شاتم ِرسول کی سزائے موت سے جن دلائل کی بنیاد پر اِنکار کر رہے ہیں وہ دلائل قیاس مع الفارق کے زمرے میں آتے ہیں۔ ایسے بے جوڑ دلائل کی بنیاد پر ایک ایسی بات سے انکار کرنا جس پر امت کا اجماع ہو، یقینا خواہش نفس کی پیروی کا نتیجہ تو ہوسکتا ہے، اسلامی تعلیمات کی پیروی کا اس معاملے میں دعویٰ محض ایک خود فریبی اور جگ فریبی ہے۔ وحید الدین خان محض اپنے آپ کو روشن خیال، رواداری پر عمل پیرا اور موجودہ یورپی دانشوروں کی نگاہ میں قابل قبول بنانے کی مریضانہ خواہش کے اتباع میں اپنی عقل و دانش کو سربازار نیلام کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(iii) وحید الدین خان نے ابن تیمیہؒ کی کتاب پر مفصل تبصرہ کیا ہے او رہر بات کومحض ’لغو‘ کہہ کرجھٹلانے پر ہی اکتفا کیا ہے۔
اَحادیث کی کتابوں میں اِہانت رسول پر قتل کے متعلقوارد شدہ واقعات کے مطالعہ سے وحید الدین خان کے درج ذیل بیانات کو غورپڑھنے سے یہ فیصلہ کرنا کوئی مشکل بات نہیں کہ ان کا استنباط کس قدر لغو، کھوکھلا اور باطل ہے۔
1۔ ’’ان واضح اَسباب کی بنا پر راقم الحروف کی قطعی رائے ہے کہ قتل شاتم کے بارے میں ’جمہور فقہا‘ کا جو مسلک نقل کیا جاتاہے وہ یا تو اس معنی میں نہیں ہے جس معنی میں ابن تیمیہ﷫اوران کے ہم خیال لوگ اس کو لے رہے ہیں اور بالفرض اگر وہ اس معنی میں ہو تب بھی وہ یقینی طور پر قابل لحاظ ہیں۔ (ص: ۱۳۰)
2۔ ’’یہ مسئلہ دین میں ایک ایسا اِضافہ ہے جس کے لئے نہ قرآن و حدیث میں کوئی صریح نص موجود ہے اور نہ رسول اللہﷺکے عمل سے اس کی تصدیق ملتی ہے‘‘ (ص: ۱۳۰)
3۔ ’’اگر ایسا نہیں ہے اور یقینا ایسا نہیں ہے تو ابن تیمیہ﷫ اور ان کے تمام ہم خیال لوگوں کو وہی کہنا چاہئے اور کرنا چاہئے جس کا نمونہ رسول اللہﷺنے ہمارے لئے چھوڑا ہے… نہ کہ ایک ایسے عمل کی وکالت کریں جس کا براہِ راست ثبوت نہ قرآن میں ہے نہ رسول کے قول و عمل میں۔ ان کے اس نظریہ کی بنیاد صرف قیاس پر ہے اور قیاس اس طرح کے معاملہ میں حجت نہیں۔‘‘(ص: ۱۳۱)
4۔ قرآن اور سنت کے سارے ذخیرہ ٔ حدیث میں کوئی بھی ایسی نص موجود نہیں جس میں صراحتًا یہ حکم دیا گیا ہو کہ جو شخص گستاخی یا شتم کا عمل کرے اس کو فوراً قتل کردو۔‘‘ (ص: ۱۲۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تبصرہ

مولانا وحید الدین خان خود لکھتے ہیں:
’’یہ صحیح ہے کہ فقہا اسلام کی اَکثریت اس رائے پر ہے کہ شاتم رسول کی سزا قتل ہے‘‘ (ص: ۵۶۔۱۲۳)ایک اور جگہ پر ایسی ہی رائے کا اظہار کرتے ہیں: ’’تاہم قتل شاتم کے بارہ میں یہ کہنا صحیح نہیں کہ اس پر علمائِ اُمت کا اِجماع ہے۔ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ جمہور علماء نے اسی رائے کا اظہار کیا ہے۔‘‘ (ص: ۱۲۲)
اِجماع کے متعلق وحید الدین خان کا تصور مغالطہ آمیز ہے، ہم اس پر الگ اظہارِ خیال کریں گے۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ وہ خود بھی تسلیم کرتے ہیں کہ جمہور علما کے نزدیک شاتم ِ رسول کی سزا قتل ہے، گویا اس رائے کے ساتھ وہ خود اِعتراف کر رہے ہیں کہ ان کی رائے جمہور علما کی رائے سے مختلف اور منفرد ہے۔ سوال پیداہوتا ہے کہ اسلامی تاریخ کے مستند فقہا و علما اور علوم و فنون کے عظیم ستونوں کی آرا کو وحید الدین خان کی رائے پرترجیح کیوں نہ دی جائے۔ وحید الدین خان نہ تو روایتی عالم ہیں اور نہ ہی ان کا علم فقہ و حدیث کے متعلق مطالعہ زیادہ وسیع ہے۔ وہ ایک اوسط درجہ کے اسلامی سکالر ہیں، جنہیں ایک صاحب ِعلم نے بجا طور پر ’فکری بالشتیہ‘ قرار دیاہے۔ اگر وحید الدین خان کی رائے کو درست مان لیا جائے تو جمہور علماء کے تفقہ في الدین کو ’ناقص‘ تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں رہے گا اور پھر ظاہر ہے کہ محض اس شتم رسول پر ہی موقوف نہیں، دیگر تمام امور میں بھی ان کی آرا ساقط الاعتبار قرار پائیں گی۔ یہ ایک عظیم فتنہ سے کم نہیں ہوگا۔ اس عظیم فتنہ کا دروازہ بند کرنے کا مؤٔثر طریقہ یہی ہے کہ وحید الدین خان جیسے اوسط درجہ کے اسلامی سکالر کی مجہول اور مردود رائے کو باطل سمجھ کر ٹھکرا دیا جائے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرآن میں عدمِ تذکرہ دلیل انکار نہیں
وحید الدین خان نے قتل شاتم سے اِنکار کی ایک ایسی دلیل پیش کی ہے جوبالعموم منکرین حدیث کی طرف سے پیش کی جاتی ہے۔ یعنی اگر کسی بات کا قرآن مجید میں صریحاً ذکر موجود نہیں ہے تو اس کا انکار کر دیا جائے۔ یہ بہت بڑا فتنہ ہے جس کی نشاندہی اور مضمرات علماء کرام نے تفصیل سے بیان کئے ہیں یہاں ان کے اعادہ کی گنجائش نہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’قرآن میں استہزا کے جرم کا ذکر تو بار بار آیاہے مگر اس کے مجرم کے لئے سزائے قتل کا اعلان سارے قرآن میں کہیں بھی موجود نہیں۔‘‘(ص: ۱۵۲)
معلوم ہوتا ہے کہ وحید الدین خان چودہ سو سال کے بعد بزعم خویش یہ انکشاف فرما رہے ہیں کہ ’سارے قرآن میں‘ اس کا ذکر ’کہیں بھی موجود نہیں‘ حالانکہ یہ ایسی بات ہے جس کا علم شروع سے لے کر اب تک کے علماء کو ہے۔ اہل سنت کے ائمہ اربعہ میں سے عظیم امام، امام مالک﷫ کو بھی یقینا یہ علم تھا مگر انہوں نے شاتم رسول کے متعلق فرمایا:
’’جو شخص حضورﷺکو یا کسی اور نبی کو گالی دے ، اسے قتل کیاجائے اور ا س کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی چاہے وہ مسلمان ہو یا کافر۔‘‘ حضرت امام مالکa کا ایک اور معروف قول ہے، فرماتے ہیں کہ ’’اُمت کو زندہ رہنے کا کیا حق ہے جب اس کے رسول کو گالیاں دی جائیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرآنِ مجید میں دیگر دو اَہم معاملات میں بھی ’سزائے موت‘ کا واضح ذکر موجود نہیں ہے۔ مگر ان کے متعلق جمہور علماء کا اِتفاق رائے ہے کہ ان جرائم کی سزا موت ہے۔ ایک تو معاملہمحصن زانی کے رجم کا ہے۔ چونکہ اس کا ذکر قرآن مجید میں نہیں مگر اَحادیث میں متواتر یہ احکامات ملتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دورِ جدید کے بعض منکرین حدیث بالخصوص پرویزی اور اس قبیل کے لوگ اس سزا کے قائل نہیں ہیں۔ اس طرح دوسرا معاملہ مرتد کی سزا کا ہے۔ مرتد کی سزا کا قرآن میں تو ذکر نہیں ہے مگر حدیث میں یہ حکم آیا ہے کہ جو شخص اپنے دین کو بدل ڈالے اس کو قتل کردو «من بدّل دینه فاقتلوه»قتل مرتد کا اقرار تو وحید الدین خان نے بھی کیا ہے(ص ۱۱۷) مگر وہ اِرتداد اور شتم کو ہم پلہ نہیں سمجھتے۔
قتل مرتد کے لئے تو وہ بلا چون و چرا موت کی سزا کو تسلیم کر لیتے ہیں چاہے ’سارے قرآن‘ میں اس کا ذکر موجود نہیں مگر قتل شاتم کے لئے وہ قرآن میں ایسا ’اعلان‘ ڈھونڈتے پھر رہے ہیں کہ جس میں اس کا ذکر موجو د ہو۔ موصوف کے ان دوہرے معیارات کی کوئی عقلی توجیہ نہیں کی جاسکتی سوائے اس کے کہ وہ اس نقطہ پر ایک خاص رائے پہلے قائم کرچکے ہیں اور اس کو ثابت کرنے کی جدوجہد میں انہیں خواہ کتنے ہی ’غیر عقلی‘ دلائل کا سہارا لینا پڑے اور تضاد ِنفسی کے مرحلے سے گزرنا پڑے۔ انہیں اس کی پروا نہیں ہے۔ شتم رسول کے مسئلہ پر وحید الدین خان منکرین حدیث کی ’بینڈ ویگن‘ پر بغیر سوچے سمجھے چھلانگ لگا کر سوار ہوگئے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوئے تاویل ، غلط بیانی اور حقائق کا ’قتل‘
وحید الدین خان نے مضحکہ خیز اِستدلال اور سوئے تاویل کے علاوہ اپنی کتاب کے بعض مقامات پر واضح طور پر غلط بیانی اور حقائق کو مسخ کرکے پیش کیا ہے۔ بعض صورتوں میں وہ مختلف اُمور اور اَحکامات کے متعلق فرقِ مراتب قائم نہیں رکھ سکے۔اس حصہ میں ان کی ژولیدگی ٔ فکر کی جراحی کرتے ہوئے ان کی فکر کے سرطانی حصوں کو کاٹ کر نمایاں دکھایا گیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
1۔کعب بن اشرف کا واقعہ
وحید الدین خان نے علامہ ابن تیمیہ﷫ کی اس رائے کہ کعب بن اشرف یہودی کو شتم رسول کی بنا پر قتل کیا گیا، کو قبول نہیں کیا۔ وہ ابن تیمیہ﷫پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ابن تیمیہ﷫ نے زمانہ رسالت کے کچھ واقعات جمع کئے ہیں جب کہ کسی کو قتل کیا گیا۔ انہوں نے لکھا ہے کہ یہ سب لوگ سب و شتم کی بنا پر قتل کئے گئے۔ مگر یہ صحیح نہیں۔ مثلاً انہوں نے کعب بن اَشرف کے قتل کا ذکر کیاہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اس کو سب و شتم کی بنا پر قتل کیا گیا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ کعب بن اشرف کو بار بار نقض عہد (غداری) کرنے کی بنا پر قتل کیا گیا۔ اس کے قتل کا سبب اس کا نقض عہد تھا کہ نہ کہ سادہ طور پر صرف سب و شتم۔‘‘ (ص۱۲۰:۱۲۱)
نجانے وحید الدین خان ’حقیقت ‘یہ ہے، کا دعویٰ کس بنیاد پر کرتے ہیں۔ انہوں نے اس ’حقیقت‘ کی تائید میں ذخیرہ ٔ حدیث یا اسلامی تاریخ سے کوئی مستند حوالہ نہیں دیا اور شاید دے بھی کیسے سکتے تھے کہ ’یہ حقیقت‘ بھی درحقیقت ان کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، وہ بڑی ڈھٹائی سے کعب بن اشرف کے قتل کا سبب اس کی عہد شکنی قرار دے رہے ہیں۔ مگر اَحادیث کے مستند اور ناقابل تردید ذخائر میں اس کے قتل کا اَصل سبب سب و شتم اور ہجو قرار دیا گیا ہے۔ صحیح بخاری میں کتاب المغازي کے تحتکعب بن اشرف کے قتل کا واقعہ موجود ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کی ہجو کرکے اور قریش کو آپﷺکے خلاف بھڑکا کر آپﷺ کو اِیذا دیتا تھا۔ اس لئے آپﷺنے محمد بن مسلمہ انصاری﷜کے ہاتھوں اسے قتل کرا دیا۔سنن ابو داود میں کعب بن اشرف کے قتل کی وجہ یہ بتائی گئی ہے ’’کہ وہ نبیﷺکی ہجو کرتا اور کفار ِقریش کو آپ کے خلاف جوش دلاتا تھا‘‘ امام قسطلانی﷫ نے ’صحیح بخاری‘ کی مذکورہ حدیث کی شرح میں لکھاہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسولﷺکو ایذا دیتا تھا، اس طرح کہ رسول اکرم ﷺاور مسلمانوں کی ہجو کرتا اور قریش کو ان کے خلاف اشتعال دلاتا۔ ابن سعد نے بھی اس کے قتل کی یہ وجہ بیان کی ہے کہ ’’وہ ایک شاعر آدمی تھا۔ نبیﷺاور آپﷺکے صحابہ کی ہجو کرتا تھا اور ان کے خلاف لوگوں کے جذبات بھڑکاتا تھا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اب بتائیے کوئی شخص ان مستند حوالہ جات کی موجودگی میں وحید الدین خان کی رائے سے جو اس کی ساختہ پرداختہ ہے، اتفاق کرسکتا ہے؟ موصوف مذکورہ بالا حضرات سے اپنے آپ کو شاید زیادہ باخبر، اور ثقہ سمجھتے ہیں اور اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ ان کی ہر غلط بیانی کو ’حقیقت‘ سمجھ کر قبول کر لیا جائے گا۔ چونکہ انہوں نے تہیہ کیا ہوا ہے کہ ’سب و شتم‘ کے مسئلہ کو کم اہم کرکے دکھانا ہے۔ اسی لئے انہوں نے ایسے واقعات کو بھی (Play Down)کیاہے جو اس مسئلہ میں واضح اور صریح راہنمائی کرتے ہیں۔ جن کی ایک روشن مثال ان کی وہ رائے ہے جو انہوں نے کعب بن اشرف کے قتل کے بارے میں دی ہے۔ وحید الدین خان کی کتاب پر ایسی ’حقیقتیں‘ جابجا بکھری پڑی ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
2۔ واقعہ افک سے غلط اِستنباط
رسولِ اکرمﷺ کی حیاتِ طیبہ کے دوران کے جن واقعات کو دحید الدین خان نے اپنے غلط موقف کے ’ثبوت‘ کے لئے"exploit"(استحصال) کیاہے، ان میں واقعہ ٔ افک خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ اس واقعہ کے بارے میں متعدد مقامات پر گھما پھرا کر موصوف نے ایک ہی نتیجہ نکالنے کی سعی ناکام فرمائی ہے کہ سب و شتم پر قتل کی سزا غیر اسلامی ہے۔ انہوں نے واقعہ افک کو صحیح تناظر میں بیان کرنے کی بجائے اپنی نفسانی خواہشات اور باطل تحقیقی معیارات کی میزان پر رکھ کر جانچا ہے۔
وحید الدین خان نے واقعہ ٔ افک کے متعلق متعدد صفحات (۹۳،۹۴،۱۴۶،۱۶۲،۱۶۳،۱۶۴) میں ذکر کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالا ہے کہ عبداللہ ابن اُبی کو اس کے جرم کی سزا نہیں دی گئی۔ مولانا موصوف کی رائے میں جھول کی نشاندہی سے پہلے مناسب ہوتا ہے کہ ان کی رائے کے اصل اقتباسات دے دیئے جائیں۔وہ لکھتے ہیں:
’’اسلام کے دورِ اول میں مدینہ کے منافقین نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر نعوذ باللہ بدکاری کا الزام لگایا اور اس کو عوام کے درمیان خوب پھیلایا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نہ صرف پیغمبر اسلامﷺکی اہلیہ تھیں، بلکہ ان کی حیثیت اُم المو ٔمنین کی تھی۔ وہ تمام مسلمانوں کے لئے مقدس ماں کا درجہ رکھتی تھیں، مگر مدینہ میں اقتدار و اختیار کے باوجود ایسا نہیں کیا گیا کہ اس جرم کا ارتکاب کرتے ہی تمام مجرموں کو پکڑا جائے اوران کا سرکاٹ کر شہر کے دیواروں پر لٹکا دیا جائے۔ پھر جب رسول اور اَصحاب ِرسول نے ایسا نہیں کیا تو بعد کے مسلمان کس دلیل سے اس قسم کا فعل کرنے کا حق رکھتے ہیں۔‘‘ (ص ۹۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
’’اس معاملہ میں عبداللہ ابن اُبی سب سے بڑا مجرم تھا۔ قرآن میں اس کے ابلیسی جرم کا اعلان کیا گیا، مگر اس کے لئے کوئی قانونی سزا تجویز نہیں کی گئی۔ اس کی سزا کے معاملہ کو تمام تر آخرت پر چھوڑ دیا گیا۔‘‘
اس بارے میں درج ذیل اُمور خصوصی توجہ کے قابل ہیں:
1۔ یہ درست ہے کہ واقعہ اِفک میں ملوث مدینہ کے سردار عبداللہ ابن ابی کو سزا نہیں دی گئی۔ جیسا کہ پہلے وضاحت سے لکھا جاچکا ہے کہ اس کی معافی حضور اکرمﷺکی جانب سے ’خصوصی رعایت‘ اور ان کے ذاتی استحقاق کے استعمال کانتیجہ تھی۔ عبداللہ ابن اُبی کے سزا سے بچ جانے کو عام اصول قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اور بقول وحید الدین خان، ’’ اس معاملہ کو آخرت پر چھوڑ دیا گیا‘‘… اگر یہ بات مطلق اصول ہوتی تو واقعہ افک کے دیگر مجرموں کو سزا ہرگز نہ دی جاتی۔ اَحادیث کی تمام قابل ذکر کتابوں اور قرآن کی معروف تفاسیر میں واضح طور پر موجود ہے کہ واقعہ افک کے تین ملزموں پر قذف کی حد جاری کی گئی۔ یہ دو مرد تھے اور ایک عورت۔ مردوں میں معروف شاعر حسان بن ثابت اور حضرت ابوبکر صدیق﷜کے ایک رشتہ دار مسطح تھے۔ عورت حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا تھی جو رسول اکرمﷺ کی زوجہ زینب رضی اللہ عنہا بنت جحش کی بہن تھی۔ وحید الدین خان عبداللہ ابن ابی کی معافی کی تکرار تو بہت کرتے ہیں مگر ان تین اَفراد کو دی جانے والی سزا کا ذکر جان بوجھ کر گول کر گئے۔
 
Top