• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وہم سے علم تک

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
پیش لفظ

حدیث، روایت یا خبر کو ایک اعتبار سے تین اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
۱۔خبر صحیح یا حسن
۲۔ خبر ضعیف
۳۔ خبر موضوع
صحیح یا حسن حدیث جمیع اہل علم کے نزدیک دینی مسائل میں قابل احتجاج اور حجت ہے جبکہ موضوع روایت بالاتفاق علماء کے نزدیک مردود ہے۔ خبر کی تیسری قسم ضعیف روایت کے ِمختلف احوال میں حجت ہونے یا نہ ہونے کے بارے اہل علم کے ہاں تفصیل ہے۔ ہماری اس تحریر کا موضوع یہ ہے کہ ایک ضعیف روایت یا خبر کتاب و سنت اور سلف صالحین کے فکر کی روشنی میں کن قرائن و شواہد یا حالات و کیفیات یا شروط و قیود کی روشنی میں صالح یا حسن یا قابل احتجاج قرار پاتی ہے۔

آسان فہم الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک موضوع روایت کی مثال ایک مردہ شخص کی سی ہے کہ جس میں حیات کو امکان کے درجہ میں پانے کی بھی امید نہیں ہوتی ہے جبکہ ضعیف روایت کی مثال ایک بیمار شخص کی سی ہے کہ جس کے بعض احوال و کیفیات میں تندرستی اور صحت کے امکانات ہوتے ہیں۔ زیر نظر تحریر میں ان قرائن و شواہد کو موضوع بحث بنایا گیا ہے کہ جن کی روشنی میں ایک خبر کے بارے وہم، ظن غالب یا علم کے درجہ کو پہنچ جاتا ہے یعنی ضعیف روایت قابل احتجاج یا حسن درجہ کو پہنچ جاتی ہے۔ یہ مضمون سہ ماہی حکمت قرآن کے آئندہ شمارہ میں اشاعت کے لیے بھی دیا گیا ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
'وہم' سے 'علم' تک

دین ودنیا میں عام طور پر کسی بھی علم کے حصول کے لیے معتبر بنیادی ذرائع صرف دو ہی ہیں:
١۔ براہ راست مشاہدہ و حواس خمسہ(five senses) سے حاصل شدہ علم
٢۔ خبر سے حاصل شدہ علم


پہلا ذریعہ سائنس اور اہل مغرب کے ہاں اصل اور معتبر ذریعہ شمار ہوتاہے اگرچہ وہ دوسرے ذریعہ کو بھی استعمال کرتے ہیں مثلاً بازار میں جاتے ہوئے آپ نے دیکھا کہ ایک شخص کو سرعام کچھ افرادنے قتل کر دیاہے، اب آپ کو اس شخص کے قتل ہونے کا علم براہ راست مشاہدے سے ہوا ہے۔

دوسرا ذریعہ اہل دین و مذہب کے ہاں بنیادی ذریعہ شمار ہوتا ہے اگرچہ وہ پہلے ذریعہ سے بھی حجت پکڑتے ہیں۔ درج بالا مثال میں یہ بھی ممکن ہے کہ آپ جائے وقوعہ پر موجودنہ ہوں اور آپ کو متعلقہ شخص کے قتل کی خبر مل جائے۔ یہ خبر بعض اوقات ایک شخص کے ذریعے پہنچتی ہے اور بعض اوقات دو، تین، چار یا ایک بہت بڑی تعداد کے ذریعے۔ بعض اوقات اس اطلاع کے آپ تک پہنچانے والے قابل اعتماد یا متقی وپرہیزگار یا صادق ہوتے ہیں جبکہ بعض صورتوں میں یہ ناقلین ناقابل اعتماد یا جھوٹے یا مشکوک ہوتے ہیں۔ مخبرین کی تعداد یا اوصاف کیسے ہی کیوں نہ ہوں،دنیا اس کو خبر ہی کہتی ہے۔

حصول علم کے مذکورہ بالا ذرائع کے علاوہ دو اور ذرائع بھی بہت معروف ہیں:
٣۔ وحی والہام یا کشف وجدان
٤۔ عقل


انبیا پر نازل کی جانے والی وحی بھی اللہ ہی کی طرف سے ایک خبر ہوتی ہے۔ اکثر اوقات یہ وحی حضرت جبرئیل علیہ السلام کی طرف سے بطور خبر نازل ہوتی تھی جبکہ بعض اوقات یہ وحی خواب کی صورت میں بھی ہوتی ہے۔ کسی نبی کا خواب بھی مشاہدہ و خبر ہی کی ایک ملی جلی قسم ہے جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب دیکھا تھا کہ آپ صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ عمرہ کر رہے ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو خواب میں ذبح کرتے دیکھا۔ اسی طرح بعض اوقات ایک عام شخص کو بھی بذریعہ خواب کسی بات کا علم ہو جاتا ہے جسے 'رویا صادقہ' یا 'مبشرات' کہا جاتا ہے لیکن ایک نبی اور عامی کے خواب میں اصل فرق یہ ہے کہ نبی کا خواب دوسروں کے حق میں بھی وحی وحجت کا درجہ رکھتا ہے جبکہ ایک عامی کا خواب خود اس کے لیے تو کسی اہمیت کا حامل ہو سکتاہے لیکن دین میں کسی دوسرے شخص کے لیے کوئی شرعی دلیل نہیں بن سکتا۔

انبیا کے لیے علم کے حصول کی ایک خاص شکل 'الہام' بھی ہے یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کسی نبی کے دل میں کوئی بات ڈال دیں۔ انبیا کا یہ الہام وحی ہونے کی حیثیت سے ایک شرعی دلیل ہے۔ عام افراد کے لیے بھی اس عمل کو اصطلاحاً وجدان یا الہام ہی کہتے ہیں۔ دین اسلام میں غیر ِ نبی کے وجدان یا الہام کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے اگرچہ صوفیاکے ایک قلیل طبقے نے اس کو ایک مستند ذریعہ علم قرار دیا ہے۔ مثلاً اگرکوئی شخص یہ کہتا ہے کہ مجھے اللہ سبحانہ و تعالیٰ یا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات الہام کی ہے تو اس حقیقت کو معلوم کرنا کہ واقعتاً اس شخص کووہ بات اللہ یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرف سے الہام کی گئی ہے، ایک ناممکن أمر ہے اور اس کا کوئی معیار(criteria) اس دنیا میں موجود نہیں ہے کہ جس پر اس کو پرکھا جا سکے کہ یہ بات اللہ ہی کی طرف سے الہام ہے یا شیطانی وساوس ہیں۔ لہٰذا کسی بھی بڑے سے بڑے عالم دین یا بزرگ وصوفی کا وجدان امت مسلمہ کے حق میں کسی شرعی دلیل کے مترادف نہیں ہے۔

دنیاوی علوم کے حصول کا ایک اور ذریعہ 'عقل' بھی ہے۔ علم فلسفہ میں اس ذریعہ علم کو حصول علم میں بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ فلاسفہ، عقل محض کی رہنمائی اور تفکر وتعقل کی روشنی میں امور غیبیہ اور ما بعد الطبعی(metaphysical) امور کی تشریح کرتے ہیں، اللہ کے وجود او ر عدم وجود، انسانی مبدا ومعاد، تخلیق کائنات، ربط الحادث بالقدیم، خیر وشر اور اخلاقی اقدار پر گفتگو کرتے ہیں۔ علم کلام اور علم منطق میں بھی کافی حد تک عقل کو ذریعہ علم تسلیم کیا گیا ہے۔ دین میں عقل، احکام الٰہی کوحاصل کرنے کا ذریعہ تو نہیں ہے لیکن ان کو سمجھنے میں اس کی حیثیت مسلم ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
دین اسلام کے حصول کے ذرائع
ہمارا موضوع اس وقت دین اسلام ہے۔ اس دنیا میں اس وقت دین اسلام کے تنہا ماخذ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اللہ کا دین قرآن کی صورت میں ہو یا قرآن کے علاوہ، وہ ہمیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ہی ملا ہے۔ جب تک آپ کتاب اللہ کو قرآن قرار نہ دیں تو اس وقت تک وہ قرآن نہیں بنتا، یعنی قرآن بھی آپ کے بتانے سے ہی قرآن بنا ہے۔

آپ کے زمانہ میں یہ دین اسلام، کتاب و سنت کی صورت میں موجود تھا اورآپ اس دین کو اپنے اقوال، افعال اور تقریرات کے ذریعے صحابہ رضی اللہ عنہم تک پہنچا رہے تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم تک یہ دین کیسے منتقل ہوا ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ دوسرا قابل غور نکتہ یہ ہے کہ کیا ہمارا دین اس بارے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے کتاب و سنت کی صورت میں جو دین اسلام حاصل کیا ہے، وہ قیامت تک آنے والے آپ کے ہر ہر امتی تک کن ذرائع سے پہنچے گا؟

پہلے سوال کا جواب یہ ہے :
١۔ کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آج ہمارے مابین موجود نہیں ہیں لہٰذا ہم آپ کے اقوال و افعال کے براہ راست مشاہدے سے اس دین کا علم حاصل نہیں کر سکتے جو آپ پر کتاب وسنت کی صورت میں نازل ہواہے یا جسے آپ کے اجتہاد کی صورت میں اللہ کی تصویب و تائید حاصل ہوئی ہے۔
٢۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی شخص محض اپنی عقل سے غور و فکر کرتے ہوئے اس دین کو معلوم کر لے کہ جو آپ پر نازل ہوا تھا تو یہ بھی ناممکن ہے۔
٣۔ اسی طرح اگر کوئی شخص یہ کہے کہ وہ دین جو آج سے چودہ سو سال پہلے محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہواتھا، میں اپنے وجدان سے معلوم کر لوں تو دین اسلام کے حصول کی یہ صورت بھی قابل عمل نہیں ہے کیونکہ اس کا کوئی معیار نہیں ہے کہ جس کو وہ اپنے دل میں محسوس کر رہا ہے وہ واقعتا وہی ہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا یا شیطانی وساوس ہیں۔
٤۔ پس دین کے حصول کا ایک ہی ذریعہ ہمارے پاس باقی رہ جاتا ہے اور وہ خبر ہے۔ اب یہ خبر متواتر بھی ہو سکتی ہے اور آحاد بھی، قطعی بھی ہی ہو سکتی ہے اور ظنی بھی۔ لہٰذا خبر اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ مجھے اور آپ کو اس خبر کے ذریعے ہی دین اسلام حاصل ہوتا ہے۔


دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ بات دین کا بنیادی موضوع ہے کہ دین آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت تک آنے والے ہر ہر امتی تک کیسے پہنچے گا اور دین نے اس کو بیان بھی کیا ہے۔ جس طرح کسی چیز کا دین ہونا یا نہ ہونا ایک اہم بحث ہے، اتنی ہی اہمیت کی حامل یہ بات بھی ہے کہ وہ دین ہم تک کیسے پہنچے گا؟ دین ہو یا دین کے ہر ہر امتی تک پہنچنے کا ذریعہ ہو، دونوں کی اہمیت عقلی ومنطقی اعتبار سے برابر ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
دین اسلام کے حصول کا بنیادی ذریعہ خبر ہے
ہم یہ بات اوپر واضح کر چکے ہیں کہ جو دین اسلام، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر کتاب وسنت کی صورت میں نازل ہوا تھا، آج ہمارے پاس اس دین کے حصول کا بنیادی ذریعہ خبر ہے۔ کتاب اللہ بھی ہمیں خبر سے ملی ہے اور یہ قراء کی خبر ہے جبکہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیاد بھی خبر ہی ہے اور یہ محدثین کی خبر ہے۔ ہر دور میں مصاحف قرآنیہ کی تصحیح قراء کرتے رہے ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ مصاحف میں لکھا ہوا بھی اپنی تصحیح میں قراء کی خبر کا محتاج ہے اور کتاب اللہ میں ان قراء کی خبر اصل ہے۔ اسی طرح کتب احادیث میں املا وکتابت کی اغلاط پر محدثین عظام متنبہ کرتے رہے ہیں جو حدیث میں محدثین کی خبر کے اصل ہونے کی دلیل ہے۔

دین اسلام نے اپنے نسل در نسل انتقال کے لیے جب خبر کو بنیادی ذریعہ بنایا تو انتقال علم کایہ کوئی نیا ذریعہ نہیں تھا جسے سب سے پہلے دین اسلام نے استعمال کیا ہو بلکہ حضرت آدم علیہ السلام کی اس دنیا میں آمد ہی سے علم کے منتقل ہونے کے ذرائع میں ذریعہ خبر کو ایک بنیادی اور معتبر ذریعہ کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ پس خبر ہر دور میں دینی ودنیاوی علوم مثلاً کتب سماویہ اور تاریخ انسانی وغیرہ کے منتقل ہونے کا بنیادی ذریعہ رہی ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
خبر کا تجزیاتی مطالعہ
جب خبر دین اسلام کے حصول کا بنیادی ذریعہ قرار پائی تو ا س کا ایک تجزیاتی مطالعہ ازبس ضروری ہے۔ خبر کیا ہے یا اس کی اصطلاحی تعریف کیا ہے؟ ہم اس بارے علوم قرآن یا علم النحو یا بلاغت یا اصول فقہ کی کتب کھنگال کر اس کی متفرق اصطلاحی تعریفوں اور ان کی ردوقدح کی بحث میں نہیں پڑنا چاہتے۔ اس دنیا میں ہر شخص جانتا ہے کہ خبر کیا شیء ہے۔ اگر کسی چیز کی وضاحت کی ضرورت ہے تووہ خبر کی مختلف صورتیں اور ان سے حاصل ہونے والے علم کے درجات ہیں۔

یہ امر واضح ہے کہ خبر میں جھوٹ اور سچ دونوں امکان پائے جاتے ہیں۔ کسی خبر میں سچ اور جھوٹ کے امکانات کی نسبت وتناسب(ratio) کو ہم یوں سمجھ سکتے ہیں :
0 10 20 30 40 50 60 70 80 90 100
یعنی جب ہمیں کوئی خبر ملتی ہے تو اس خبر کے سچا یا جھوٹ ہونے کے بارے اطمینان قلب ونفس کے پہلو سے ہم صفر سے 100 تک کے درجات میں سے کسی ایک درجہ میں ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی خبر کے بارے ہم تقریباً 100 فی صد مطمئن ہوں کہ وہ سچی یا جھوٹی ہے تو اس آخری درجہ کے اطمینان نفس کو اہل منطق کی اصطلاح میں علم یقینی یا علم قطعی یا علم کہتے ہیں۔ اور اگر تو یہ اطمینان قلب صفر درجہ سے زائد اور 50 سے کم ہو تو اسے 'وہم' کہتے ہیں ۔ اسی طرح اگر 50 سے اوپر اور 100 سے نیچے ہو تو اسے 'ظن غالب' یا صرف 'ظن' بھی کہہ دیتے ہیں۔ اگر اطمینان قلب تقریباً 50 درجہ پر ہو یعنی دونوں طرف برابر کا احتمال ہو تو اسے 'شک' کہتے ہیں۔

قرآن مجید ایک ایسی قطعی خبر ہے کہ جس کے سچ ہونے کا اطمینان 100 فی صد ہے اور اس میں جھوٹ ہونے کا پہلو صفر درجہ میں ہے۔ اسی طرح اگر کسی روایت کے موضوع ہونے پر محدثین کا اتفاق ہو تو اس روایت کی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت میں سچ ہونے کا پہلو صفر درجہ میں ہوتا ہے اور جھوٹ ہونے کا امکان 100 درجہ میں ثابت ہوتا ہے۔ مذکورہ بالا بحث کی روشنی میں ہم درج ذیل نتائج نکال رہے ہیں:

١۔ بعض اوقات ایک خبر میں اس کے جھوٹ یا سچ کے امکانات میں سے ایک امکان قطعی طور پر ثابت ہو جاتا ہے تو اسے خبر قطعی کہتے ہیں یعنی خبر میں سے ایک پہلو قطع ہو گیا یا ختم ہو گیا اور دوسرا یقینی طور متعین ہو گیا ہے۔ ایسی خبر کہ جس میں ایک پہلو ختم ہو گیا ہو، علم یقینی کا فائدہ دیتی ہے۔ خبر متواترسے علمی قطعی حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح محدثین کے ہاں موضوع، روایت سے بھی علم قطعی حاصل ہوتا ہے یعنی اس خبر میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹ کا پہلو قطعیت کے ساتھ متعین ہو جاتا ہے۔

٢۔ بعض اوقات ایک خبر میں سچ یا جھوٹ کا پہلو غالب ہوتا ہے یعنی 50 درجہ سے اوپر ہوتا ہے تو ایسی خبر سے 'ظن' حاصل ہوتا ہے۔ محدثین کے ہاں 'ظن' سے مراد محض ظن نہیں ہوتا بلکہ 'ظن غالب' ہوتا ہے جس کا سادہ سا معنی ومفہوم آسان الفاظ میں ہم یہ بیان کر سکتے ہیں کہ کسی روایت میں سچ یا جھوٹ کے پہلو کا ظن 75 سے اوپر درجہ کا ہے۔ اور ایسی خبر دین میں مفید علم وعمل ہے۔

٣۔ بعض اوقات ایک خبر میں سچ یا جھوٹ کا پہلو مغلوب ہوتا ہے یعنی 50 فی صد سے کم درجہ میں ہوتا ہے تو ایسی خبر سے 'وہم' حاصل ہوتا ہے اور محدثین کی اصطلاح میں ایسی روایت کہ جس کی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کی سچائی 50 کے درجہ سے کم ہو تو 'ضعیف' کہلاتی ہے۔

٤۔ بعض اوقات ایک خبر میں سچ یا جھوٹ کا پہلوغالب ہوتا ہے یعنی 50 فی صد سے کافی زائد ہوتا ہے اور اس خبر سے 'ظن غالب' حاصل ہو رہا ہوتا ہے لیکن اس خبر کے حق میں کچھ مزید قرائن مل جانے کی وجہ سے وہ خبر 'ظن غالب' سے 'علم' کے درجہ میں پہنچ جاتی ہے۔ اسے محدثین کے ہاں 'خبر الواحد المحتف بالقرائن' کا نام دیا جاتا ہے مثلاً صحیح بخاری وصحیح مسلم کی اخبار آحاد سے قرائن کی وجہ سے 'علم یقینی' حاصل ہوتا ہے۔

٥۔ بعض اوقات ایک خبر میں سچ یا جھوٹ کا پہلو مغلوب ہوتا ہے یعنی 50 فی صد سے کم ہوتا ہے اور اس سے 'وہم' حاصل ہو رہا ہوتا ہے لیکن قرائن وشواہد کے مل جانے کی وجہ سے اس خبر کا 'وہم' بڑھ کر 'ظن' کے د رجہ میں تبدیل ہو جاتا ہے اور اگر کسی خبر کی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت میں سچائی کا پہلو قرائن کی وجہ سے 'وہم' سے 'ظن' کے درجہ میں منتقل ہو جائے تو اسے محدثین کی اصطلاح میں بعض اوقات 'حسن' اور بعض اوقات 'صالح' اور بعض اوقات 'حسن لغیرہ' وغیرہ کہہ دیتے ہیں۔

اس دنیا میں بسنے والے انسان اپنی روزمرہ زندگی میں مختلف اخبار میں 'وہم' سے 'ظن' اور 'ظن' سے 'ظن غالب' اور 'ظن غالب' سے 'علم' تک کا سفر اس کثرت سے کرتے ہیں کہ یہ ایک بدیہی امر بن چکا ہے کہ جس کا انکار کسی انسان کے لیے ناممکن ہے۔ اس بات کو ایک سادہ سی مثال سے یوں سمجھیں کہ زید 15 سال کا ایک نوجوان لڑکا ہے اور اس کے بچپن کے دو دوست حامد اور احمد ہیں۔ حامد کی سال میں ایک آدھ دفعہ زید سے ملاقات ہو جاتی ہے جبکہ احمد اس سے مستقل طور پر رابطے میں ہے۔ اچانک ایک دن معلوم ہوا کہ زید کو کینسر ہے اور اس کو ہسپتال میں داخل کروادیاجاتا ہے۔ حامد کو زید کی اس بیماری کا علم نہیں ہے جبکہ احمد، زید کی عیادت کے لیے ہسپتال جاتا رہتا جاتا ہے۔ اچانک ایک دن حامد اور احمد دونوں کو کسی تیسرے شخص کی طرف سے صرف اتنی خبر ملتی ہے کہ زید کی وفات ہو گئی ہے تو حامد کو ملنے والی خبر، صرف خبر واحد ہے جبکہ احمد کوملنے والی خبر 'خبر الواحد المحتف بالقرائن' ہے لہذ ا اس خبر کو سننے کے بعد دونوں کو حاصل ہونے والا علم مختلف ہوگا۔

اس دنیا میں رہتے ہوئے بہت سی خبروں کے بارے ہم 'وہم' میں مبتلا ہوتے ہیں اور ان میں سے اکثر خبریں ایسی ہوتی ہیں جو ساری زندگی 'وہم' ہی رہتی ہیں لیکن اس سے کسی انسان کو انکار ممکن نہیں ہے کہ بعض 'وہم' قرائن کی وجہ سے 'ظن' اور بعض اوقات 'ظن' سے بھی بڑھ کر 'علم' کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں۔ مثلاً جب نائین الیون کا واقعہ ہوا تو یہ خبر 'وہم' کے درجہ میں موجود تھی کہ امریکہ نے ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹا گون پر خود حملے کروائے ہیں جبکہ آج قرائن کی کثرت نے انسانی دنیا کی اکثریت کے اس'وہم' کو 'ظن غالب' اور بعض خواص و ماہرین کے وہم کو 'علم' کے درجہ تک پہنچا دیا ہے کہ ان حملوں میں خود امریکی حکومت اور سی۔آئی۔اے بھی ملوث تھی۔ اس خبر میں 'وہم' کو 'ظن' یا'علم' کے درجہ تک پہنچانے والے وہ قرائن یعنی ویڈیوز، انٹرویوز، تبصرے، ٹاک شوز، سائنسی حقائق، کتب، رسائل وجرائد اور صحافیوں کے سوالات ہیں ، جنہیں مغربی اور مشرقی میڈیا میں پچھلے دس سالوں میں بڑے پیمانے پر عام کیا گیاہے۔اس طرح حال ہی میں امریکہ کی طرف سے شیخ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا دعوی بعض کے لیے 'وہم' اور بعض کے لیے 'ظن' کا درجہ رکھتا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ قرائن اور حالات وواقعات کی روشنی میں ماضی کی اس خبر کا 'وہم' اور 'ظن' علم کے درجہ میں منتقل ہو گیا ہے کہ امریکہ اپنے اس دعوی میں صادق ہے یا کاذب۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
محدثین کے نزدیک خبر کی صحت و ضعف کا تجزیہ
محدثین نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کردہ روایت کی تحقیق دو اعتبارات سے کی ہے:
١۔ سند کے اعتبار سے
٢۔ متن کے اعتبار سے


محدثین عظام پہلے اللہ کے رسول کی طرف نسبت کردہ روایت کی سند کی تحقیق کرتے ہیں اور پھر متن کی تحقیق کرتے ہیں۔ سند کی تحقیق سے مراد ان کے ہاں دو چیزیں ہیں:
١۔ رواة کی تحقیق یعنی روایت کے جمیع راویوں کی عدالت اور ضبط کی تحقیق
٢۔ اتصال سند کی تحقیق یعنی سند میں موجود ظاہری اور خفی انقطاع کی تحقیق


محدثین نے اصول حدیث میں شریعت کے نقل کرنے کی ایک اہلیت مقرر کی ہے اور وہ کسی شخص کا عادل اور ضابط ہونا ہے۔ یعنی جس شخص میں یہ بنیادی معیار موجود ہو گا وہ شریعت کو نقل کرنے کا اہل ہو گا۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ فقہا نے بھی اصول فقہ میں شریعت پر عمل کے لیے اہلیت وجوب اور اہلیت ادا کی ابحاث کی ہیں۔ پس شریعت اسلامیہ کے نقل کی بحث ہو یا اس پر عمل کی، دونوں کے لیے الگ الگ معیارات اصول کی کتابوں میں موجود ہیں۔ شریعت کے نقل میں محدثین نے راوی کی عدالت اور ضبط کو بہت اہمیت دی ہے کیونکہ کسی خبر میں جھوٹ وخطا کا امکان یا تو تزکیہ نفس اور تقوی وتدین کی کمی سے ہو سکتا ہے یا پھرحافظہ وکتابت کے ناقص ہونے سے ہو سکتا ہے۔

کسی شخص کے عادل ہونے سے مراد یہ ہے کہ دینی خبر کا راوی کذب، تہمت کذب، فسق وفجور، بدعت اور جہالت (ذات یا حالات کے مجہول ہونے) کے طعن سے پاک ہو۔ اور کسی شخص کے ضابط ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ فحش الغلط، کثرت غفلت، وہم، مخالفت ثقات اور سوئے حفظ کے طعن سے پاک ہو۔ یہاں ایک اہم نقطہ یہ ہے کہ عدالت میں طعن اختیاری اور کسبی ہے یعنی ایک راوی کا عادل ہونے یا نہ ہونے میں مکمل اختیار ہوتا ہے جبکہ ضبط میں طعن اختیاری نہیں ہے یعنی ایک راوی ضابط ہے یا نہیں؟ اس میں اس کا اپنا اختیار نہیں ہوتا بلکہ یہ اللہ کی طرف سے ایک آزمائش ہے۔ پس پہلی قسم کا طعن یعنی عدالت کا طعن دوسری قسم کے طعن یعنی ضبط کے طعن سے بہت بڑھ کر ہے۔ پس ایک غیرعادل ضابط راوی ، ایک عادل غیرضابط راوی سے درجہ میں برابر نہیں ہے۔

یہ بھی واضح رہے کہ کسی راوی میں کذب کی وجہ سے عدالت کا جس درجے کا طعن ثابت ہوتا ہے، وہ عام فسق وفجور یا راوی کے مجہول ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والے طعن کے برابر نہیں ہوتا ہے۔ اسی طرح کسی راوی کے فحش غلطیاں کرنے کی وجہ سے اس کے ضبط میں جو طعن پیدا ہوتا ہے وہ اس کے وہم کی وجہ سے ضبط میں پیدا ہونے والے طعن کے برابر نہیں ہوتا ہے۔ مقصود کلام یہ ہے کہ عدالت میں طعن کے پانچ اسباب ہوں یا ضبط میں طعن کے پانچ اسباب، ان دس اسباب سے پیدا ہونے والا ضعف ایک جیسا نہیں ہوتا۔ بعض اسباب طعن سے خبر میں شدید ضعف پیدا ہوتا ہے کہ جس کو دور کرنے کے لیے قوی قرائن کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ بعض اسباب طعن سے خبر میں خفیف ضعف پیدا ہوتا ہے کہ جس کا ضعف عمومی قرائن سے بھی دور ہو جاتا ہے۔

اگر کسی دینی خبر کے جمیع راوی عادل اور ضابط ہوں تو اس کے بعد ان رواة کے باہمی اتصال کو دیکھتے ہیں کہ سند (chain of narrators)میں کوئی انقطاع(discontinuance) تو موجود نہیں ہے۔ محدث سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک کی سند میں درمیان میں کوئی ایک یا زائد راوی گرا تو نہیں ہوا ہے۔ جس طرح عدالت اور ضبط میں طعن کی وجہ سے خبر کا ضعف ایک جیسا نہیں ہوتا اسی طرح انقطاع سند کی مختلف صورتوں کی وجہ سے خبر میں پیدا ہونے والا ضعف بھی ایک جیسا نہیں ہوتا ہے۔مثلاً انقطاع سند کی ایک صورت تو یہ ہے کہ کسی سند میں دو یا زائد راوی پے درپے گرے ہو جسے محدثین کے ہاں 'عضل' کہتے ہیں اور دوسری صورت یہ ہے کہ ایک جلیل القدر تابعی، صحابی کا نام لیے بغیر براہ راست اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی روایت نقل کر دے جسے محدثین کی اصطلاح میں 'ارسال' کہتے ہیں۔ انقطاع کی یہ دونوں قسمیں عقل و منطق کی نظر میں برابر نہیں ہیں لہٰذا ان دونوں صورتوں میں خبر میں پیدا ہونے والا ضعف بھی برابر نہیں ہے۔

ان تین اعتبارات یعنی عدالت، ضبط اور اتصال سے سند کی تحقیق کے بعد متن کی تحقیق کے لیے محدثین عظام متن میں شذوذ اور علل پر نظر دوڑاتے ہیں اور اگر کسی روایت کا متن شاذ ہو یا اس کے متن میں کوئی خفیہ علت ہو تو اس کی سند صحیح ہونے کے باوجود اس روایت کو بحثیت مجموعی ضعیف قرار دیتے ہیں۔

پس کسی دینی خبر کی روایت کی صحت کا دارومدار صرف سند یا صرف متن نہیں ہے۔ ہم آسانی کی خاطر دینی خبرکی چار صورتیں بنا سکتے ہیں:
١۔ سنداً صحیح متناً صحیح یعنی جس روایت کی سند اور متن دونوں صحیح ہوں۔
٢۔ سنداً صحیح متناً ضعیف یعنی جن روایات کی سند صحیح ہو لیکن متن میں شذوز یا خفیہ علت کی وجہ سے وہ ضعیف ہوں۔ اس کی مثال میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ والی روایت ہے کہ جس کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے حالت احرام میں نکاح کیا تھا۔ اس قسم کے علم کو محدثین کے ہاں 'علل الحدیث' کا نام دیا جاتا ہے۔
٣۔ سنداً ضعیف متناً ضعیف یعنی جس کی سند اور متن دونوں ضعیف ہوں۔
٤۔ سنداً ضعیف متناً صحیح یعنی جس کی سند ضعیف ہو لیکن اس کا متن صحیح ہو اور یہی روایات ہمارے اس مضمون کا موضوع ہے۔ یعنی وہ روایات جو اپنا اسنادی ضعف خارجی قرائن کی بدولت کم کر کے 'وہم' سے 'ظن' کے درجہ میں پہنچ جاتی ہوں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
محدثین کے نزدیک ضعیف روایت کا مقام
ضعیف روایت کے بارے ایک غلط فہمی یہ بھی عام ہے کہ اس کادرجہ وہی ہے جو موضوع روایت کا ہے حالانکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ ایک موضوع روایت تو اپنی نسبت الی الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ثبوت میں zero level پر ہو تی ہے لیکن ضعیف روایت کو ثبوت کے اعتبار سے zero کے برابر رکھنا عقل ونقل کے خلاف ہے۔ ہم واضح کر چکے ہیں ضعیف روایات میں ضعف کے خفیف اور شدید ہونے کے اعتبار سے نسبت الی الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ثبوت کا پہلو مغلوب ہوتا ہے ، اگرچہ اس کے درجات 50 سے نیچے کچھ بھی ہو سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اہل علم کی ایک بڑی جماعت نے ضعیف روایت کو موضوع کی طرح کالعدم نہیں سمجھا ہے بلکہ اس سے بھی اس کی حیثیت و ثبوت کے مطابق کہیں نہ کہیں استفادہ کیا ہے، چاہے اس استفادے کی نوعیت کسی کپڑے میں پیوند لگانے کے درجہ ہی کی کیوں نہ ہو۔

امام احمد بن حنبل اور امام ابو داود رحمہما اللہ کے نزدیک اگر حدیث کا ضعف خفیف ہو تو ایسی ضعیف روایات کو 'قیاس' پر ترجیح دیتے ہوئے قابل احتجاج سمجھا جائے گا۔ (منھج النقد فی علوم الحدیث : ص 291،دار الفکر، دمشق) امام عبد اللہ بن مبارک،عبد الرحمن بن مہدی ، سفیان بن عیینہ اور سفیان ثوری، امام نووی، امام ابن کثیر، امام سیوطی وغیرہ رحمہم اللہ سے بھی مروی ہے کہ وہ فضائل وزہد کے باب میں ضعیف رواة کی روایات قبول کر لیتے تھے۔ (الحدیث الضعیف وحکم الاحتجاج بہ للدکتور عبد الکریم بن عبد اللہ الخضیر : ص278-279، دار المسلم، الریاض)

بعض اہل علم کا کہنا یہ ہے کہ ان مذکورہ بالا ائمہ کے نزدیک ضعیف روایت کی کتابت اور روایت جائز ہے نہ کہ اس پر عمل۔ بعض اہل علم کے نزدیک ان مذکورہ بالا ائمہ کے ضعیف روایات کے بارے مروی اقوال کا معنی ومفہوم یہ ہے کہ ان کے نزدیک رقائق کے باب میں یعنی دلوں کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں ضعیف روایت قابل احتجاج ہے نہ کہ فضائل اعمال میں۔

جمہور محدثین اور فقہاکے نزدیک ضعیف روایت پر فضائل اعمال میں عمل کیا جا سکتا ہے بلکہ امام نووی، ملا علی القاری اور ابن حجر ہیثمی رحمہم اللہ نے اس بات پر اتفاق نقل کیا ہے کہ ضعیف روایات پر فضائل اعمال میں عمل جائز ہے۔ (منھج النقد فی علوم الحدیث: ص292-293)

امام ابن حجر رحمہ اللہ نے اگرچہ ضعیف روایت پر عمل کی کچھ شرائط مقرر کی ہیں اور ان شرائط کا بیان بہت ہی خوبصورت اور عمدہ ہے جو درج ذیل ہیں:
١۔ راویت کا ضعف قوی نہ ہویعنی کسی راوی پر راوی کذب یا تہمت کذب یا فحش الغلط کا طعن نہ ہو۔
٢۔ وہ خفیف الضعف روایت شریعت اسلامیہ میں ثابت شدہ کسی اصل عام کے تحت داخل ہو۔
٣۔ اس خفیف الضعف روایت پر عمل کرتے وقت نسبت الی الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عقیدہ نہ ہو۔ (ایضا)


اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ متقدمین سلف صالحین کے نزدیک اگرچہ ترغیب وترہیب سے متعلق ضعیف روایات کا بیان اور ان پر عمل جائز ہے لیکن ضعیف روایت سے کوئی شرعی حکم وجوب یا استحباب ثابت نہیں ہوتا ہے۔ شیخ الاسلام رحمہ اللہ کی اپنی رائے بھی یہی ہے۔ (مجموع الفتاوی: جلد 18، ص 250-251)

امام ابو حنیفہ متوفی 150ھ ، امام مالک متوفی 179ھ ، سفیان ثوری متوفی 161ھ اور امام اوزاعی متوفی 157ھ اور امام ابن جریر طبری متوفی 310ھ رحمہم اللہ وغیرہ مرسل روایت سے حجت پکڑتے ہیں۔ امام شافعی متوفی 204 ھ رحمہ اللہ نے بھی چند شرائط کے ساتھ مرسل روایات کو قبول کیا ہے جبکہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ متوفی 241 ھ 'مسند' کی غیر موجودگی میں 'مرسل' سے حجت پکڑنے کے قائل ہیں اور یہی موقف امام ابوداؤد رحمہ اللہ متوفی 257 ھ کا بھی ہے۔ ائمہ جرح وتعدیل میں سے یحی بن سعید القطان متوفی 198ھ اور علی بن مدینی متوفی 234 ھ رحمہما اللہ وغیرہ کا موقف یہ ہے کہ اگر ارسال کرنے والی کی عادت ہو کہ ثقہ راوی سے ارسال کرتا ہے تو اس کی مرسل قابل قبول ہے۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ کے بقول اگر مرسل روایت پر اجماع ہو جائے تو وہ قابل قبول ہے اور اس کی سند کی احتیاج ختم ہو جائے گی وغیر ذلک۔ (مباحث فی تحریر اصطلاح الحدیث المرسل وحجیتہ عند السادة المحدثین للشیخ حاتم بن عارف العونی : ص 17-36، جدة)

بعض اہل علم مثلاً ابن حزم، ابن العربی، شہاب خفاجی، جلال دوانی، یحی بن معین، ابو زرعہ رازی، ابو حاتم رازی ، ابن ابی حاتم رازی اور امام شوکانی وغیرہ رحمہم اللہ کے نزدیک ضعیف روایت کسی بھی اعتبار سے قابل احتجاج نہیں ہے۔ بعض معاصر اہل علم اور فن حدیث کے محققین مثلا شیخ احمد شاکر اور علامہ البانی رحمہ اللہ وغیرہ نے بھی اس موقف کو اختیار کیا ہے۔ امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ کی طرف بھی اس موقف کی نسبت کی جاتی ہے۔ (الحدیث الضعیف وحکم الاحتجاج بہ : ص 261-272) لیکن ترغیب وتشویق کی روایات پر مبنی امام بخاری رحمہ اللہ کی کتاب 'الأدب المفرد' سے معلوم ہوتا ہے کہ امیر المومنین فی الحدیث رحمہ اللہ کی طرف اس موقف کی نسبت درست نہیں ہے کیونکہ اس میں ضعیف روایات بھی موجود ہیں۔

یہاں اس بحث کے کرنے سے مقصود یہ ثابت کرنا نہیں ہے کہ احکام یا فضائل اعمال میں ضعیف روایت پر عمل جائز ہے کیونکہ یہ ایک تفصیل طلب مسئلہ ہے اور ضعیف روایت پر عمل کی بحث کی تفصیل میں ایک متوازن موقف کو ہم کسی اور وقت کے لیے چھوڑے دیتے ہیں۔ اہل علم کے اس اختلاف کو نقل کرنے سے اس وقت مقصود صرف یہی ہے کہ جمہور اہل علم اور محدثین کے نزدیک ضعیف روایت کا درجہ zeroنہیں ہے لہٰذا وہ اسے اس کے کچھ نہ کچھ درجہ کی وجہ سے کسی نہ کسی جگہ کسی نہ کسی مقصد مثلاً کتابت، روایت، متابعت ، بطور شاہد، بطوراحتجاج،فضائل میں عمل کے لیے، قیاس پر ضعیف روایت کو ترجیح دینا یا رقائق میں وعظ ونصیحت یا تفسیرمیں یا مغازی وسیرت کے بیان یا مسند کی عدم موجودگی وغیرہ میں استعمال کرنے کے قائل ہیں۔ مقصود کلام یہ ہے کہ موضوع اور ضعیف روایت کا درجہ ایک نہیں ہے۔ موضوع روایت کی نسبت الی الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے تو یہ دعوی صحیح ہے کہ وہ zero درجہ پر ہوتی ہے لیکن ضعیف روایات کے بارے ہمیں سلف صالحین میں یہ طرز عمل نہیں ملتا ہے کہ انہوں نے انہیں موضوع سمجھ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ہو بلکہ کہیں نہ کہیں ان سے کسی نہ کسی صورت میں کسی نہ کسی درجہ میں استفادہ کیا ہے اگرچہ اس استفادہ کی صورتوں اور حدود وقیود کی تفصیل میں بحث ممکن ہے اور ہونی بھی چاہیے۔

یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ موضوع روایت کے بارے تو قرآن کا طرز عمل یہ ہے کہ اسے سنتے ہی رد کردینے کا حکم دیا ہے یا دوسرے الفاظ میں ایسی روایت کوپھینک دینے کا کہا ہے جیسا کہ واقعہ افک کے بارے سورہ نور ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَّوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنفُسِهِمْ خَيْرً‌ا وَقَالُوا هَـٰذَا إِفْكٌ مُّبِينٌ ﴿١٢
'' کیوں نہ ایسا ہوا کہ جب تم نے اس خبر کو سنا تو مومن مردوں اورعورتوں نے اپنوں کے بارے اچھا گمان کیا اور انہوں نے کہا: یہ تو صریح جھوٹ ہے۔''

اسی سورۃ میں آگے چل کر ایک جگہ ارشاد ہے:
وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُم مَّا يَكُونُ لَنَا أَن نَّتَكَلَّمَ بِهَـٰذَا سُبْحَانَكَ هَـٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ ﴿١٦
'' اور کیوں نہ ایسا ہوا کہ جب تم نے اس خبر کو سنا تو تم نے کہا ہوتا ہمارے لیے تو یہ درست نہیں ہے کہ ہم ایسی بات کریں۔ ہم اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور یہ تو بہتان عظیم ہے۔''

جبکہ ضعیف روایت کے بارے کلام الہٰی کا رویہ ایسا نہیں ہے کہ اسے سنتے ہی رد کر دو یا پھینک دو جیسا کہ سورہ حجرات کی آیت 6 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا
'' اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آ ئے تو تم تحقیق کر لیا کرو (اس خبر کی)''۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
کذوب یا کذاب کی خبر کا دین میں مقام
ایک کذوب یا کذاب کی خبر کے بارے عام حالات میں عقل عام کا فیصلہ یہی ہے کہ وہ اسے رد کرتی ہے۔ اسی طرح دین میں بھی عمومی طور کذوب یا کذاب کی خبر کے بارے اصل اصول یہی ہے کہ وہ ناقابل قبول اور مردود ہے لیکن چونکہ ایک کذوب بلکہ کذاب سے بھی یہ عقلی ومنطقی امکان ہوتا ہے کہ وہ کسی خبر میں صادق ہو لہٰذا بہت ہی قوی قرائن کی بدولت کذوب یا کذاب کی خبر بھی بعض مخصوص حالات میں قابل قبول ہوتی ہے۔

یہ واضح رہے کہ مخبر جس قدر زیادہ کذب میں مبتلا ہو گا، اس کی خبر کے درجہ قبولیت تک پہنچنے کے لیے اسی قدر قوی قرائن مطلوب ہوں گے۔ مثلاً شیطان کذاب ہے اور اس کی خبر مردود ہے لیکن جب اس کی خبر کواللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کا قرینہ مل گیا تو اس کی خبر مقبول ہوگئی جیسا کہ صحیح بخاری میں شیطان کا حضرت ابوہریرة رضی اللہ عنہ کو آیت الکرسی بتلانے کا واقعہ ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
'' عن أبی ھریرة قال وکلنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بحفظ زکاة رمضان فأتانی آت فجعل یحثو من الطعام فأخذتہ فقلت لأرفعنک الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقص الحدیث فقال اذا أویت الی فراشک فاقرأ آیة الکرسی لن یزال معک من اللہ حافظ ولایقربک شیطان حتی تصبح قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم صدقک وھو کذوب ذاک شیطان.'' (صحیح البخاری، کتاب فضائل القرآن، باب فضل سورة البقرة)
'' حضرت ابو ہریرة رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے رمضان کے مہینہ کی زکوة کی حفاظت پر مامور کیا۔ پس میرے پاس ایک آنے والا آیا اور (زکوة کے) کھانے میں سے کچھ اٹھانے لگا تو میں نے اس کو پکڑ لیا اور کہا کہ میں تمہیں لازما اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک لے کر جاؤں گا۔ پس اس کے بعد انہوں نے مکمل قصہ نقل کیا (اور اس کے آخر میں) شیطان نے(حضرت ابوہریرة رضی اللہ عنہ سے) کہا: جب آپ اپنے بستر پر جائیں تو آیت الکرسی پڑھ لیا کریں۔ اس طرح اللہ کی طرف سے آپ کے ساتھ ایک نگران ہمیشہ رہے گا اور شیطان آپ کے قریب بھی نہ آ سکے گا یہاں تک کہ صبح ہو جائے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے (حضرت ابوہریرة رضی اللہ عنہ سے) فرمایا : اس نے تجھ سے سچ کہا حالانکہ وہ بہت بڑا جھوٹا ہے اور (اے ابوہریرة !) وہ شیطان تھا۔''

ایک کذاب کی خبر کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق نے مقبول درجہ تک پہنچا دیا حالانکہ وہ خبر عام اصول کے مطابق عادتاً مردود تھی۔ لیکن یہ واضح رہے کہ تصدیق ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوئی کم درجہ کا قرینہ نہیں ہے جو راہ چلتے حاصل ہو جائے بلکہ یہ بہت ہی قوی، نادر اور مفقود قرینہ ہے۔اب ہمارے پاس کوئی ایسا قرینہ موجود نہیں ہے کہ جس سی حدیث میں کسی کذاب کی روایت مقبولیت کے درجہ کو پہنچ جائے لہٰذا کذاب یا کذوب کی روایت ہر صورت مردود ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
فاسق یا متہم بالکذب کی خبر کا دین میں حکم
جہاں تک فاسق یا متہم بالکذب کا معاملہ ہے تو اس کی خبر کے بارے بھی اصل اصول یہی ہے کہ وہ قابل اطمینان نہیں ہے لیکن اگر اس کی خبر کو کچھ قوی قرائن مل جائیں تو وہ بعض اوقات قبولیت کے درجہ کو پہنچ جاتی ہے۔ سورہ حجرات ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ ﴿٦
'' اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آ ئے تو تم تحقیق کر لیا کرو (اس خبر کی)''۔

اس آیت مبارکہ میں دین و دنیا سے متعلق کسی بھی خبرواحد کو قبول کرنے کے لیے یہ حکم دیا گیا ہے کہ اس خبر کی تحقیق کر لیا کرو یعنی فاسق کی خبر کو رد کرنے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ تحقیق کے بعد قبول ورد کا اختیار دیا گیا ہے۔ علامہ ابن عاشور متوفی 1393ھ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
''وتنکیر الفاسق ونبأ، فی سیاق الشرط یفید العموم فی الفساق بأی فسق اتصفوا، وفی الأنباء کیف کانت.'' (التحریر والتنویر : الحجرات : 6)
'' نفی کے سیاق میں لفظ 'فاسق' اور 'نبا' کو نکرہ لانے سے عموم کا فائدہ حاصل ہو رہا ہے اور اس سے مراد ہر قسم کے فاسق ہیں، چاہے وہ کسی قسم کے بھی فسق وفجور میں مبتلا ہوں اور اس سے مراد ہر قسم کی خبریں ہیں۔''

امام ابن قیم متوفی 751 ھ رحمہ اللہ آیت مبارکہ مذکورہ بالا آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
'' وھھنا فائدة لطیفة وھی أنہ سبحانہ لم یأمر برد خبر الفاسق وتکذیبہ ورد شھادتہ جملة وانما أمر بالتبین فان قامت قرائن وأدلة من خارج تدل علی صدقہ عمل بدلیل الصدق ولو أخبر بہ من أخبر فھکذا ینبغی الاعتماد فی روایة الفاسق وشھادتہ وکثیر من الفاسقین یصدقون أخبارھم وروایاتھم وشھاداتھم بل کثیر منھم یتحری الصدق غایة التحری وفسقہ من جھات أخرفمثل ھذا لا یرد خبرہ ولا شھادتہ ولوردت شھادة مثل ھذا وروایتہ لتعطلت أکثر الحقوق وبطل کثیر من الأخبار الصحیحة ولا سیما من فسقہ من جھة الاعتقاد والرأی وھو متحر للصدق فھذا لا یرد خبرہ ولا شھادتہ.'' (التفسیر القیم : جلد 2، ص 128-129)
'' یہاں ایک نہایت ہی لطیف نقطہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فاسق کی خبر کو رد کرنے یا اس کی تکذیب کا حکم نہیں دی ااور نہ ہی اس کی شہادت کو من جملہ رد کرنے کا حکم جاری کیا ہے بلکہ چھان پھٹک کا حکم دیا ہے۔ پس اگر فاسق کے صدق پرخارجی قرائن اور دلائل قائم ہو جائیں تو صدق کی دلیل پر عمل ہو گا، اگرچہ اس کی خبر دینے والاکوئی بھی ہو۔ پس اس طرح فاسق کی خبر اور گواہی پر اعتماد جائز ہو گا۔ پس (قرائن اور دلائل کی روشنی میں) اکثر فساق کی اخبار، روایات اور گواہیوں کی تصدیق کی جائے گی کیونکہ ان فساق کی اکثریت ایسی ہوتی ہے جو سچائی کو انتہائی درجہ میں تلاش کرتی ہے اور ان کا فسق وفجور (جھوٹ کے علاوہ) بعض دوسری قسم کا ہوتا ہے ( یعنی عموماً فساق وفجار دنیا کا ہر گناہ کر لیں گے لیکن جھوٹ سے بچیں گے، کیونکہ اس سے ان کے دھندے کا اعتماد خراب ہوتا ہے) ۔''
یہ تو کذب یاجھوٹ کے علاوہ فسق وفجور کے حامل فساق وفجار کی روایات کا معاملہ ہے۔ اب کذب یاجھوٹ بھی تو درحقیقت تو فسق وفجور ہی کی ایک قسم ہے۔ پس اگر تو انسان کی زندگی میں غالب طور پر جھوٹ نہ ہو تو ایسے شخص کو فساق وفجار میں شمار کریں گے اور اگر جھوٹ کسی شخص کی زندگی میں غالب طور پر موجود ہو تو اسے کذوب اور کذاب کے درجہ میں رکھیں گے جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
'' وأما فسقہ من جھة الکذب فان کثر منہ وتکرر بحیث یغلب کذبہ علی صدقہ فھذا لا یقبل خبرہ ولا شھادتہ وان ندر منہ مرة ومرتین ففی رد شھادتہ وخبرہ بذلک قولان للعلماء وھما روایتان عن الامام أحمد رحمہ اللہ والمقصود ذکر الفسق الذی لا یخرج الی الکفر.'' (التفسیر القیم : جلد 2، ص 129)
'' اور جہاں تک ایسے فسق کا معاملہ ہے جو جھوٹ ہو تو اگر تو جھوٹ اس سے اس قدر کثرت سے صادر ہو کہ اس کی سچائی پر غالب آ جائے تو اس کی خبر قبول نہیں کی جائے گی ]کیونکہ وہ فاسق سے کذوب یا کذاب کے درجہ میں داخل ہو گیا ہے[ اور اگر تو اس سے جھوٹ شاذ ونادر صادر ہوتو اس کی خبر اور شہادت کے قبول ورد میں علماء کے دو اقوال ہیں]یعنی اس کی خبر وشہادت قابل قبول ہے یا قابل قبول نہیں ہے[ اور یہ دونوں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے مروی ہیں۔ یہاں ہمارا مقصود ایسا فسق وفجور ہے جو کفر تک نہ پہنچاتا ہو۔''

امام ابن تیمیہ متوفی 728 ھ رحمہ اللہ آیت مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
'' وفیہ أیضا أنہ متی اقترن بخبر الفاسق دلیل آخر یدل علی صدقہ فقد استبان الأمر وزال الأمر بالتثبت فتجوز صابة القوم وعقوبتھم بخبر الفاسق مع قرینة.'' (مجموع الفتاوی : جلد 15، ص307)
'' اس آیت مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی اخذہوتا ہے کہ جب فاسق کی خبر کے ساتھ کوئی اور ایسی دلیل مل جائے جو فاسق کے سچا ہونے پر دلالت کر رہی ہو تو معاملہ واضح ہو جاتا ہے اور پختگی سے شبہ زائل ہو جاتا ہے پس اس صورت میں اگر فاسق کی خبر کے ساتھ کوئی قرینہ مل جائے تو (ایسے فاسق کی خبر کی بنیاد پر کسی) قوم پر چڑھائی کرنا یا اس کو سزا دینا جائز ہو جاتا ہے۔''

شیخ صالح العثیمین آیت مبارکہ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
'' والمعنی : خبر الفاسق اذا جاء کم انظروا فی القرئن، فاذا دلت القرائن علی قبول خبرہ اقبلوہ، واذا دلت القرائن علی رد خبر ردوا.'' (شرح مقدمہ اصول التفسیر للعثیمین : ص 157)
'' آیت کا معنی ومفہوم یہ ہے کہ جب تمہارے پاس فاسق کی خبر آئے تو قرائن میں غور کرو، پس جب قرائن اس کی خبر کی قبولیت پر دلالت کر رہے ہوں تو اس کی خبر کو قبول کر لو اور جب قرائن اس کی خبر کے رد پر دلالت کر رہے ہوں تو اس کی خبر کو رد کر دو۔''

قرآن کریم میں ایک اور جگہ غیر مسلم کی شہادت بھی قبول کی گئی ہے۔ سورہ المائدہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ‌ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ أَوْ آخَرَ‌انِ مِنْ غَيْرِ‌كُمْ إِنْ أَنتُمْ ضَرَ‌بْتُمْ فِي الْأَرْ‌ضِ فَأَصَابَتْكُم مُّصِيبَةُ الْمَوْتِ ۚ تَحْبِسُونَهُمَا مِن بَعْدِ الصَّلَاةِ فَيُقْسِمَانِ بِاللَّـهِ إِنِ ارْ‌تَبْتُمْ لَا نَشْتَرِ‌ي بِهِ ثَمَنًا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْ‌بَىٰ ۙ وَلَا نَكْتُمُ شَهَادَةَ اللَّـهِ إِنَّا إِذًا لَّمِنَ الْآثِمِينَ ﴿١٠٦﴾ فَإِنْ عُثِرَ‌ عَلَىٰ أَنَّهُمَا اسْتَحَقَّا إِثْمًا فَآخَرَ‌انِ يَقُومَانِ مَقَامَهُمَا مِنَ الَّذِينَ اسْتَحَقَّ عَلَيْهِمُ الْأَوْلَيَانِ فَيُقْسِمَانِ بِاللَّـهِ لَشَهَادَتُنَا أَحَقُّ مِن شَهَادَتِهِمَا وَمَا اعْتَدَيْنَا إِنَّا إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ ﴿١٠٧﴾ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يَأْتُوا بِالشَّهَادَةِ عَلَىٰ وَجْهِهَا أَوْ يَخَافُوا أَن تُرَ‌دَّ أَيْمَانٌ بَعْدَ أَيْمَانِهِمْ ۗ وَاتَّقُوا اللَّـهَ وَاسْمَعُوا ۗ وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ ﴿١٠٨
'' اے اہل ایمان! جب تم میں سے کسی ایک کو وصیت کرتے وقت موت آئے تو (اس وقت ) تمہاری باہمی شہادت تم میں سے دو عادل افراد ہیں یا تمہارے علاوہ (یعنی غیر مسلموں میں سے ) دو افراد ہیں جبکہ تم سفر میں ہو اور تمہیں موت آ پہنچے۔ تم ان دونوں غیر مسلم گواہوں کو نماز کے بعد (مسجد میں) روک کر رکھو گے۔ پس اگر تمہیں شک ہو ( کہ ان دونوں نے شہادت میں ڈنڈی ماری ہے تو ) وہ دونوں اللہ کی قسمیں اٹھائیں کہ ہم اس گواہی کے عمل کے بدلہ میں کوئی قیمت حاصل نہیں کریں اور اگرچہ جس کے خلاف گواہی جا رہی ہو، وہ ہمارا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔ اور ہم اللہ کی گواہی کو نہ چھپائیں گے۔ بے شک (اگر ہم ایسا کریں گے تو ) لازما گناہ گاروں میں سے ہو جائیں گے۔ پس اگر کسی طرح اطلاع ہو جائے کہ ان دونوں غیر مسلم گواہوں نے گناہ کمایا ہے ( یعنی غلط گواہی دی ہے ) تو میت کے ان قریبی رشتہ داروں میں سے کہ جن کے خلاف گواہی جا رہی ہے، دو افراد ان دو غیرمسلم گواہوں کی جگہ کھڑے ہو کر اللہ کی قسمیں اٹھائیں گے کہ ہماری گواہی ان دونوں غیر مسلموں کی گواہی سے زیادہ سچی ہے اور ہم نے زیادتی نہیں کی۔ بے شک (اگر ہم زیادتی کریں گے ) تو لازما ظالمین میں سے ہو جائیں گے۔ یہ طریقہ کار زیادہ قریب ہے اس بات کے وہ غیر مسلم لوگ اپنی گواہی کو صحیح رخ پر پیش کریں یا وہ اس سے ڈر جائیں کہ ان کی قسمیں کچھ دوسری قسموں سے رد کر دی جائیں گی۔ اللہ سے ڈرو اور سنو۔ اور اللہ تعالیٰ فاسق قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔''

اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے سفر کی حالت میں مسلمان عادل گواہ نہ ملنے کی صورت میں دو غیر مسلموں کی گواہی بھی معتبر قرار دی ہے لیکن ساتھ ہی ایسا طریق کار بتلا دیا کہ جس سے ان غیر مسلموں کی گواہی میں ان کے فسق و فجو ر یا عدالت کے مجروح ہونے کی وجہ سے جو طعن پیدا ہوتاہے، اس کا ازالہ ہو سکے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ضرورت کے وقت غیر مسلموں کی شہادت رد کرنے کی بجائے ایسے قرائن کی طرف رہنمائی کی ہے کہ جن سے ان کی شہادت کی تصدیق یا تکذیب ہو سکے۔

کلام مجید میں ایک اور جگہ سورۃ نمل میں حضرت سلیمان علیہ السلام کا قصہ نقل کرتے ہوئے کہا گیا ہے:
وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ‌ فَقَالَ مَا لِيَ لَا أَرَ‌ى الْهُدْهُدَ أَمْ كَانَ مِنَ الْغَائِبِينَ ﴿٢٠﴾ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذَابًا شَدِيدًا أَوْ لَأَذْبَحَنَّهُ أَوْ لَيَأْتِيَنِّي بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ ﴿٢١﴾ فَمَكَثَ غَيْرَ‌ بَعِيدٍ فَقَالَ أَحَطتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ وَجِئْتُكَ مِن سَبَإٍ بِنَبَإٍ يَقِينٍ ﴿٢٢﴾إِنِّي وَجَدتُّ امْرَ‌أَةً تَمْلِكُهُمْ وَأُوتِيَتْ مِن كُلِّ شَيْءٍ وَلَهَا عَرْ‌شٌ عَظِيمٌ ﴿٢٣﴾ وَجَدتُّهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِن دُونِ اللَّـهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَ ﴿٢٤﴾ أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّـهِ الَّذِي يُخْرِ‌جُ الْخَبْءَ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ ﴿٢٥﴾ اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ رَ‌بُّ الْعَرْ‌شِ الْعَظِيمِ ۩ ﴿٢٦﴾ قَالَ سَنَنظُرُ‌ أَصَدَقْتَ أَمْ كُنتَ مِنَ الْكَاذِبِينَ ﴿٢٧﴾ اذْهَب بِّكِتَابِي هَـٰذَا فَأَلْقِهْ إِلَيْهِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْهُمْ فَانظُرْ‌ مَاذَا يَرْ‌جِعُونَ ﴿٢٨
''حضرت سلیمان علیہ السلام نے پرندوں کا جائزہ لیا تو کہا: مجھے کیا ہو گیا ہے، میں ہدہد کو دیکھ نہیں پا رہا ہوں یا وہ غائب ہے۔ میں اسے لازما شدید سزادوں گا یا اسے ذبح ہی کر ڈالوں گا یا وہ میرے پاس کوئی واضح دلیل (عذر) لے کر آئے۔ پس حضرت سلیمان علیہ السلام نے زیادہ دیر نہیں گزاری ( کہ ہدہد آ گیا)۔ پس ہدہدنے کہا : میں نے اس چیز کا احاطہ کیا ہے جس کا آپ احاطہ نہیں کرسکے اور میں آپ کے پاس قوم سبا سے ایک یقینی خبر لے کر آیا ہوں۔ میں نے ایک عورت کو دیکھا ہے وہ ان پر حکمرانی کرتی ہے اور اسے ہر چیز دی گئی ہے اور اس کے پاس ایک بہت بڑا تخت ہے۔ میں نے اس عورت اور اس کی قوم کے لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ اللہ کے علاوہ سورج کو سجدہ کرتے ہیں اور شیطان نے ان کے لیے ان کے اعمال کو مزین کر دیا ہے پس اس نے انہیں سیدھے رستے سے روک دیا ہے۔ پس وہ اس بات کی طرف رہنمائی نہیں پا سکے کہ وہ اس اللہ کو سجدہ کریں جو زمین یا آسمانوں میں چھپی ہوئی ہر چیز کو نکالتا ہے اور ہ جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو یا ظاہر کرتے ہو۔ اللہ' اس کے سوا کوئی بھی معبود نہیں ہے اور وہ عرش عظیم کا رب ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہا : ہم عنقریب دیکھیں گے کہ تم نے سچ بولا یا تم جھوٹوں میں سے ہو۔ تو میرا یہ خط لے جا اور ان کی طرف ڈال دے پھر ان سے منہ موڑ لے پس دیکھ وہ کیا کیا چیزلوٹاتے ہیں۔''

اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہدہد کی بلا اجازت غیرحاضری نے اس کی خبر اور روایت کو مشکوک بنا دیا تھا۔ پس آیت مبارکہ کے الفاظ سَنَنظُرُ‌ أَصَدَقْتَ أَمْ كُنتَ مِنَ الْكَاذِبِينَ میں حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہدہد کی خبر کی تصدیق و تکذیب کی بنیاد خارجی قرائن کو بنایا ہے اور بالآخر ایک قرینہ ہی کی بدولت ہدہد کی خبر کی تصدیق کی گئی اور وہ قرینہ ملکہ سبا کی طرف خط کا ڈالنا اور اس کی طرف سے ایلچی کا آنا تھا۔

اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ایک روایت کے الفاظ ہیں:
'' عن أبی ھریرة قال کان أھل الکتاب یقرؤون التوراة بالعبرانیة ویفسرونھا بالعربیة لأھل الاسلام فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا تصدقوا أھل الکتاب ولاتکذبوھم (وقولوا آمنا باللہ وماأنزل ) الآیة.'' (صحیح بخاری، کتاب التوحید، باب ما یجوز تفسیر التوراة وغیرھا من کتب اللہ بالعربیة)
'' حضرت ابو ہریرة رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اہل کتاب تورات کو عبرانی میں پڑھتے تھے اور اس کی تفسیر وتوضیح اہل اسلام کے لیے عربی میں کرتے تھے۔ پس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اہل کتاب کی نہ تو تصدیق کرو اور نہ ہی تکذیب کرو۔ اور کہو ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس پر جو نازل کیا گیا...۔''

یہاں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلقا اہل کتاب کی خبر یا نقل کو مردود قرار نہیں دیا ہے اگرچہ وہ فساق وفجار تھے۔ اس بحث کا نتیجہ یہ ہے کہ دینی خبر میں عدالت میں طعن کی صورت میں بعض حالات میں بعض خارجی قرائن کی موجودگی میں مخبر کی خبر کو اس قدر تقویت مل جاتی ہے کہ وہ قابل احتجاج ہو جاتی ہے اور ' وہم' سے 'ظن' یا'علم' کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
سیء الحفظ اور واہم کی خبر کا دین میں حکم
کسی دینی خبر کی صحت کا دوسرا معیار ضبط ہے۔ ضبط میں بھی طعن کی بعض صورتیں ایسی ہیں کہ اگر خارجی قرائن میسر ہوں تو ایسی اخبار قابل احتجاج یا صالح کے درجہ تک تقویت پا جاتی ہیں۔ سورۃ البقرۃ کی آیت 272 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِن رِّ‌جَالِكُمْ ۖ فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَ‌جُلَيْنِ فَرَ‌جُلٌ وَامْرَ‌أَتَانِ مِمَّن تَرْ‌ضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَن تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ‌ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَ‌ىٰ ۚ
'' اور تم (قرض کے معاملات میں) اپنے دو مردوں کو گواہ بنا لیا کرو۔ پس اگر دو مرد میسر نہ ہوں توایک مرد اور دوعورتیں کافی ہیں تا کہ ایک عورت بھول جائے تو دوسری اسے یاد کروا دے۔''

اس آیت مبارکہ میں قرض کے لین دین کے معاملات میں گواہی کا نصاب بیان ہواہے۔ شہادت یا گواہی کا معیار عام خبر سے بڑھ کر ہوتا ہے کیونکہ شہادت کی بنیاد پر دینی مسائل میں قضا اور عدالتی فیصلے ہوتے ہیں جبکہ عام خبر کا معاملہ عموماً ایسا نہیں ہوتا ہے۔ شہادت کے باب میں اگر ایک عورت اس قدر خفیف الضبط ہے کہ قرض کے ایک معاملہ میں اپنی گواہی دینے کو بھی بھول گئی ہے۔ اب دوسری عورت نے اسے کوئی ایسا اشارہ دیا کہ پہلی عورت کو اپنی گواہی دینے کا فعل یاد آ گیا تو اس سے معلوم ہوا کہ ایک عورت کے نسیان کی کوتاہی اور عیب کسی دوسری عورت کے یاد کرا دینے سے دور ہو سکتا ہے۔

مالی معاملات میں عورت کی شہادت میں تو کم ازکم دو عورتوں کی گواہی معتبر ہے جبکہ خبر میں ایک عورت کی بھی خبر مقبول ہے۔ مالی معاملات میں دو عورتوں کی گواہی لازم کرنے کی وجہ یہ تھی کہ تجارت اور مالی لین دین ان کا میدان نہیں تھا لہٰذا عدم دلچسپی کی وجہ سے نسیان کا امکان زیادہ تھا۔ اس کے برعکس دین اسلام کو اگلی نسل تک منتقل کرنا مرد وعورت دونوں کا میدان اور دلچسپی کا موضوع ہے لہذا وہاں اکیلی عورت کی روایت بھی قابل قبول ہے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top