• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وہم سے علم تک

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
منقطع روایات کا دین میں حکم
ہم یہ وضاحت کر چکے ہیں کہ انقطاع سند کی تمام صورتیں ایک جیسی نہیں ہیں۔ بعض صورتوں سے خبر میں پیدا ہونے والا ضعف شدید ہوتا ہے جبکہ بعض دوسری صورتوں میں خفیف ہوتا ہے۔ انقطاع سند کی صورت میں اگر ضعف خفیف ہو تو قرائن کی بدولت ختم ہو جاتا ہے اور روایت قابل احتجاج ہو جاتی ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ متوفی 150 ھ فرماتے ہیں:
'' فمن شاھد أصحاب رسول اللہ من التابعین فحدث حدیثا منقطعا عن النبی اعتبر علیہ بأمور منھا أن ینظر الی ما أرسل من الحدیث فان شرکہ فیہ الحفاظ المأمونون فأسندوہ الی رسول اللہ بمثل معنی ما روی کانت ھذہ دلالة علی صحة من قبل عنہ وحفظہ وان انفرد بارسال حدیث لم یشرکہ فیہ من یسندہ قبل ما یفرد بہ من ذلک ویعتبر علیہ بأن ینظر ھل یوافقہ مرسل غیرہ ممن قبل العلم عنہ من غیر رجالہ الذین قبل عنھم فان وجد ذلک کانت دلالة یقوی بہ مرسلہ وھی أضعف من الاولی وان لم یوجد ذلک نظر الی بعض ما یروی عن بعض أصحاب رسول اللہ قولا لہ فان وجد یوافق ما روی عن رسول اللہ کانت ھذہ دلالة علی أنہ لم یأخذ مرسلہ لا عن أصل یصح ان شاء اللہ وکذلک ان وجد عوام من أھل العلم یفتون بمثل معنی ما روی عن النبی۔'' (الرسالة : 461-463، دار الکتب العلمیة)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی منقطع یعنی مرسل روایت بیان کریں تو چند امور کے سبب سے ان مرسل روایات کا اعتبار کیا جائے گا۔ پہلی صورت تو یہ ہے کہ اس مرسل روایت میں غور کیا جائے، پس اگر اس مرسل روایت کا معنی ومفہوم کچھ عادل اور ضابط راویوں نے کسی اور مسند روایت میں بھی بیان کیا ہو تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تابعی کی مرسل روایت صحیح اور محفوظ ہے۔ اور اگر تو صورت یہ ہو کہ تابعی اپنی مرسل روایت میں منفرد ہو اور کوئی اور راوی اس معنی کی مسند روایت نقل نہ کر رہا ہو تو پھر یہ غور کیا جائے گا کہ کیا اہل علم تابعین سے مروی کوئی اور مرسل روایت ایسی ہے جو اس پہلی مرسل روایت کی موافقت کر رہی ہو اور اس دوسری مرسل کے راوی بھی اور ہوں۔ اگر ایسا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ پہلی مرسل روایت اس دوسری مرسل سے قوی ہو جائے گی لیکن اس صورت میں مرسل کی قوت پہلی صورت کی مرسل سے کم ہو گی۔ور اگر ایسا بھی نہ ہو ( یعنی کسی مرسل کی تائید کسی دوسری مرسل سے بھی نہ ہو رہی ہو ) تو پھر صحابہ رضی اللہ عنہم کے فتاوی کو دیکھا جائے گا۔ پس اگر کسی صحابی کا قول اس مرسل روایت کے موافق ہوا تو یہ اس بات کی دلیل ہو گی کہ اس مرسل کی کوئی اصل صحیح ہے ان شاء اللہ۔ اسی طرح کا حکم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی اس مرسل کا بھی ہے کہ جس کے معنی ومفہوم کے مطابق عام اہل علم نے فتوی جاری کیا ہو ۔''

امام ابن تیمیہ متوفی ٧٢٨ھ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
''والمراسیل اذا تعددت طرقھا وخلت عن المواطأة قصدا أو الاتفاق بغیر قصد کانت صحیحة قطعا.فان النقل اما أن یکون صدقا مطابقا للخبر واما أن یکون کذبا تعمد صاحبہ الکذب أو أخطأ فیہ، فمتی سلم من الکذب العمد والخطأ کان صدقا بلاریب. فاذا کان الحدیث جاء من جھتین أو جھات وقد علم أن المخبرین لم یتواطأ علی اختلافہ وعلم أن مثل ذلک لا تقع الموافقة فیہ اتفاقا بلا قصد علم أنہ صحیح مثل شخص یحدث عن واقعة جرت ویذکر تفاصیل ما فیھا من الأقوال والأفعال ویأتی شخص آخر قد علم أنہ لم یواطی ء الأول فیذکر مثل ما ذکرہ الأول من تفاصیل الأقوال والأفعال فیعلم قطعا أن تلک الواقعة حق فی الجملة فانہ لو کان کل منھما کذبھا عمدا أو خطأ لم یتفق العادة أن یأتی کل منھما بتلک التفاصیل التی تمنع العادة اتفاق الاثنین علیھا بلامواطأة من أحدھما لصاحبہ فان الرجل قد یتفق أن ینتظم بیتا وینظم الآخر مثلہ أو یکذب کذبة ویکذب الآخر مثلھا أما اذا أنشأ قصیدة طویلة ذات فنون علی قافیة وروی فلم تجر العادة بأن غیرہ ینشیء مثلھا لفظا ومعنی مع الطول المفرط بل یعلم بالعادة أنہ أخذھا منہ وکذلک اذا حدث حدیثا طویلا فیہ فنون وحدث آخر بمثلہ فنہ ما أن یکون واطأہ علیہ أو أخذہ منہ أو یکون الحدیث صدقا وبھذہ الطریق یعلم صدق عامة ما تتعددجھاتہ المختلفة علی ھذا الوجہ من المنقولات وان لم یکن أحدھا کافیا ما لرسالہ وما لضعف ناقلہ.'' (مجموع الفتاوی : جلد13، ص347-348)
'' مرسل روایات کے طرق اگر ایک سے زائد ہوں اور ارادی یا غیر ارادی اتفاقی موافقت سے خالی ہوں ( یعنی ان مرسل روایات کے راویوں کے ارادتاً یا اتفاقاً ایک بات پر متفق ہونے کا امکان نہ ہو) تو ایسی روایات قطعی درجہ میں صحیح قرار پائیں گی۔ کوئی بھی روایت یا تو امر واقعہ کے مطابق ہو گی اور سچی ہو گی یا امر واقعہ کے خلاف ہو گی اور جھوٹ ہو گی۔ (امر واقعہ کے خلاف ہونے کی صورت میں ) یا تو اس روایت کا راوی عمدا جھوٹا ہو گا یا وہ مخطی ہو گا۔ پس اگر راوی سے عمدا جھوٹ اور خطا دونوں ہی کی نفی ہو جائے تو اس کی خبر بلاشبہ سچ شمار ہو گی۔ پس اگر کوئی روایت دو یا زائد طرق سے مروی ہو اور یہ بھی معلوم ہو جائے کہ اس روایت کے مخبرین نے اس کے اختلاف پر آپس میں ملاقات نہیں کی ہے اور یہ بھی واضح ہو جائے کہ اس قسم کی روایات میں بلاقصد اتفاقی موافقت حاصل نہیں ہوتی ہے تو یہ معلوم ہو جائے گا کہ یہ روایت صحیح ہے۔ مثلاً ایک شخص کسی واقعہ کا تذکرہ کرتا ہے۔ اور اس واقعہ میں موجود اقوال وافعال کی تفصیل بیان کرتا ہے۔ اسی طرح ایک اور شخص ایسا ہے کہ جس کے بارے یہ معلوم ہے کہ اس نے پہلیسے ملاقات نہیں کی ہے۔ پس وہ بھی اس واقعے کا ذکر کرتا ہے جس کا پہلے نے کیا ہے اور اس میں موجود اقوال وافعال کی تفصیل بیان کرتاہے۔ پس اس طرح سے قطعی طور یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ واقعہ من جملہ حق ہے۔ کیونکہ اگر تو ان دونوں اشخاص نے عمدا جھوٹ بولا ہو یا خطاً، دونوں صورتوں میں عادت اس بات کو تسلیم نہیں کرتی کہ دو افراد نے بغیر باہمی ملاقات کے اس قدر تفصیلی واقعات کو ایک جیسا بیان کر دیا ہو۔ بعض اوقات ایک شاعر ایک شعر کہتا ہے اور دوسرا بھی ویسا ہی شعر کہہ دیتا ہے یا کوئی شخص ایک جھوٹ بولتا ہے اور دوسرا بھی ویسا ہی جھوٹ بول دیتا ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ایک شخص نے کئی ایک فنون پر مشتمل کسی قافیہ پرایک لمباقصیدہ کہا ہو اور وہ اس سے مروی ہو تو عادت یہ تسلیم نہیں کرتی کہ اس شخص کے علاوہ کوئی اور شخص بھی ایسا ہی قصیدہ لفظاً ومعناً اسی قدر طویل صورت میں کہے۔ بلکہ عادت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس صورت میں دوسرے نے ضرور پہلے سے وہ قصید ہ لیا ہوگا۔ پس اسی طرح اگر کوئی شخص ایک لمبی چوڑی (مرسل) روایت بیان کرے کہ جس میں کئی ایک فنون کا بیان ہو اور دوسرا بھی ایسی ہی روایت نقل کرے۔ پس یا تو دوسرے نے پہلے سے ملاقات کی ہے اور اس سے وہ (مرسل) روایت حاصل کی ہے (اور اگر دوسرے کی پہلے سے ملاقات نہ ہو) تویہ روایت سچی ہو گی ( کیونکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دونوں تابعین کا کوئی مصدر ہے جسے انہوں نے اگرچہ بیان نہیں کیا اور ان تابعین نے جھوٹ بھی نہیں بولا ہے )۔ پس اس طرح سے ایک ایسی روایت کہ جس کے طرق مذکورہ بالااعتبارسے مختلف ہوں، اس کے عمومی بیانات کی تصدیق کی جائے گی ، اگرچہ وہ روایت اپنے اکیلے طریق میں مرسل ہونے کی وجہ سے یا راوی کے ضعف کی وجہ سے کفایت کرنے والی نہ ہو گی۔''

امام ابو داود رحمہ اللہ متوفی 275 ھ لکھتے ہیں:
''وأما المراسیل فقد کان یحتج بھا العلماء فیما مضی مثل سفیان الثوری ومالک ابن أنس والأوزاعی حتی جاء الشافعی فتکلم فیھا وتابعہ علی ذلک أحمد بن حنبل وغیرہ رضوان اللہ علیھم. فاذا لم یکن مسند غیر المراسیل، ولم یوجد المسند، فالمرسل یحتج بہ ولیس ھو مثل المتصل فی القوة.'' (رسالة الی أھل مکة : ص 25-26، المکتب الاسلامی)
''جہاں تک مراسیل کا معاملہ ہے تو سابقہ علماء میں سے سفیان ثوری، امام مالک، امام اوزاعی رحمہم اللہ ان سے حجت پکڑتے تھے یہاں تک کہ امام شافعی رحمہ اللہ آئے اور انہوں نے اس بارے کلام کیا ( اور اس کی قبولیت کی کچھ شرائط مقرر کیں ) اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے بھی اس مسئلہ میں امام شافعی رحمہ اللہ کی متابعت کی (یعنی مرسل کو مطلق طور قبول نہ کیا)۔ پس جب مسند موجود نہ ہو اور صرف مرسل روایت ہو تو اس صورت مرسل روایت سے حجت پکڑی جائے گی لیکن وہ قوت میں متصل کے برابر پھر بھی نہ ہوگی۔''
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
قرائن کی تشریح وتوضیح
اب ہم اس طرف آتے ہیں کہ وہ کون سے قرائن ہے جو ایک دینی خبر کو 'وہم' سے 'ظن' اور 'ظن' سے 'علم' کے درجہ میں پہنچا دیتے ہیں۔ یہ قرائن کئی طرح کے ہیں :
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
پہلا قرینہ
مثلاً ایک قرینہ یہ ہے کہ بعض اوقات ایک ضعیف روایت امت کے ہاں خیر القرون اور فقہائے محدثین کے دور میں تلقی بالقبول کی وجہ سے قابل احتجاج اور صالح ہو جاتی ہے۔ امام زرکشی متوفی 794 ھ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''أن الحدیث الضعیف اذا تلقتہ الأمة بالقبول عمل بہ علی الصحیح حتی انہ ینزل منزلة المتواتر فی أنہ ینسخ المقطوع ولھذا قال الشافعی فی حدیث '' لاوصیة لوارث'' انہ لا یثبتہ أھل الحدیث ولکن العامة تلقتہ بالقبول وعملوا بہ حتی جعلوہ ناسخا لآیة الوصیة للوارث.'' (النکت علی ابن الصلاح : جلد1، ص390، أضواء السلف ، الریاض)
'' جب ضعیف روایت کو امت میں تلقی بالقبول حاصل ہو تو صحیح قول کے مطابق اس پر عمل کیا جائے گا یہاں تک کہ وہ روایت اس اعتبار سے متواتر کے درجہ کو بھی پہنچ جاتی ہے کہ وہ قطعی طور پر ثابت شدہ حکم کو منسوخ کرسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام شافعی متوفی 150ھ رحمہ اللہ نے 'وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں ہے' والی روایت کے بارے کہاہے کہ محدثین اسے ثابت نہیں مانتے ہیں لیکن عوام الناس کے ہاں اس روایت کو تلقی بالقبول حاصل ہے اور اس پر عمل ہے یہاں تک کہ یہ روای ت(وصیت کے بارے) آیت کریمہ کی ناسخ ہے۔''

امام ابن عبد البرمتوفی 463 ھ 'ھو الطھور ماؤہ' والی روایت پر تبصرہ کرتے ہوتے فرماتے ہیں:
''وھذا الحدیث لا یحتج أھل الحدیث بمثل اسنادہ وھو عندی صحیح لأن العلماء تلقوہ بالقبول لہ والعمل بہ.'' (التمھید : جلد16، ص219،مؤسسة القرطبة)
'' اس روایت کی سند محدثین کے نزدیک قابل احتجاج نہیں ہے لیکن میرے نزدیک یہ روایت صحیح ہے کیونکہ علماء کے ہاں یہ متلقی بالقبول ہے اور اس پر عمل ہے۔''
اس کی مثال نومولود کے کان میں اذان دینے والی ضعیف روایت بھی ہے جسے امت میں تلقی بالقبول کی وجہ سے قابل احتجاج قرار دیا گیا ہے اگرچہ یہ روایت سندا ضعیف ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
دوسرا قرینہ
اسی طرح کسی ضعیف روایت کا متعدد طرق سے مروی ہونا بھی ایسا قرینہ ہے جو بعض صورتوں میں اس کے ضعف کو ختم کر دیتا ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ متوفی 728 ھ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''والمراسیل اذا تعددت طرقھا وخلت عن المواطأة قصدا أو الاتفاق بغیر قصد کانت صحیحة قطعا.''(مجموع الفتاوی : جلد13، ص347 )
'' مرسل روایات کے طرق اگر ایک سے زائد ہوں اور ارادی یا غیر ارادی اتفاقی موافقت سے خالی ہوں (یعنی ان مرسل روایات کے راویوں کے ارادتاً یا اتفاقاً ایک بات پر متفق ہونے کا امکان نہ ہو) تو ایسی روایات قطعی درجہ میں صحیح قرار پائیں گی۔''

ایک اور مقام پر شیخ الاسلام رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''وقد یکون الرجل عندھم ضعیفا لکثرة الغلط فی حدیثہ ویکون حدیثہ اذا الغالب علیہ الصحة لأجل الاعتبار بہ والاعتضاد بہ، فان تعدد الطرق وکثرتھا یقوی بعضھا بعضا حتی قد یحصل العلم بھا ولو کان الناقلون فجارا فساقا فکیف اذا کانوا علما عدولا.'' (مجموع الفتاوی : جلد18، ص26)
''بعض اوقات ایک راوی محدثین کے نزدیک اپنی روایات میں کثرت اغلاط کی وجہ سے ضعیف ہوتا ہے اور اس کی روایت پر دوسری روایات کے اعتبار اور تقویت کی وجہ سے صحت کا حکم غالب ہوتا ہے۔ پس اگرکسی روایت کے طرق قوی اور کثیر ہوں تو یہ روایات ایک دوسرے کو قوی کرتی ہیں یہاں تک کہ ان سے علم یقینی بھی حاصل ہو جاتا ہے اگرچہ ان کے ناقلین فساق وفجار ہوں۔ پس اگر یہ ناقلین علمائے عدول ہوں تو کیسے یہ علم حاصل نہ ہوگا؟۔''

امام بیہقی متوفی 458 ھ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
'' ونحن انما لا نقول بالمنقطع اذا کان منفردا، فاذا انضم الیہ غیرہ، أو انضم الیہ قول بعض الصحابة، أو ما تتأکد بہ المراسیل، ولم یعارضہ ما ھو أقوی منہ فانا نقول بہ.'' (معرفة السنن والآثار، باب الوضوء من مس الذکر)
'' اور اگر تو منقطع روایت منفرد ہو تو ہم اس کی بنیاد پر کوئی فتوی جاری نہیں کرتے لیکن اگر اس کے ساتھ کوئی اور روایت یا بعض صحابہ کا قول مل جائے یا اس منقطع روایت کی تائید کچھ مرسل روایات سے ہو جائے اور کوئی زیادہ قوی روایت اس کے مخالف بھی نہ ہو تو ہم ایسی منقطع روایت کی بنیاد پر فتوی جاری کرتے ہیں۔''

امام ابن حجر متوفی 852 ھ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''ومتی توبع السیء الحفظ بمعتبر کأن یکون فوقہ أو مثلہ لادونہ وکذا المختلط الذی لم یتمیز، والمستور، والاسناد المرسل، وکذا المدلس اذا لم یعرف المحذوف منہ، صار حدیثھم حسنا، لا لذاتہ، بل وصفہ بذلک باعتبار المجموع، من المتابع والمتابع، لأن کل أحد منھم احتمال أن تکون روایتہ صوابا، أو غیر صواب، علی حد سواء، فاذا جاء ت من المعتبرین روایة موافقة لأحدھم رجح أحد الجانبین من الاحتمالین المذکورین، ودل ذلک علی أن الحدیث محفوظ، فارتقی من درجة التوقف الی درجة القبول.'' (نزھہ النظر فی توضیح نخبة الفکر : ص 130، مطبعة سفیر،الریاض)
'' اور اگر سیء الحفظ کی متابعت کسی ایسے معتبر سے ہو جو اس کے برابر یا اس کے اوپر درجے کا ہو اور اس سے کم تر نہ ہو۔ اسی طرح وہ مختلط جو متمیز نہ ہو۔ اور مستور الحال اور مرسل اسناد اور اسی طرح مدلس جبکہ اس میں گرا ہوا راوی معلوم نہ ہو تو ان کی حدیث (معتبر کی متابعت سے) حسن بن جاتی ہے۔ یہ حسن لذاتہ نہیں ہے بلکہ اس کا یہ (حسن ہونا ) وصف مجموعی کے اعتبار سے ہے یعنی متابِع اور متابَع کے پہلو سے۔ کیونکہ ان میں سے ہر ایک میں (یعنی متابِع اور متابَع ) برابر کی سطح پر یہ احتمال موجود ہوتا ہے کہ اس کی روایت صواب یا غیر صواب ہو۔ پس جب معتبرین سے کسی ایک راوی کی موافقت میں کوئی روایت مل جائے تو دونوں احتمالات یعنی صواب وغیر صواب میں سے ایک کو ترجیح دے دی جائے گی۔ اور یہ اس بات کی دلالت ہو گی کہ یہ روایت محفوظ ہے اور درجہ توقف سے درجہ قبول میں چلی گئی ہے۔''

شیخ صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''ومن القرائن أن یأتی الخبر نفسہ من طر ق متعددة، ولوکانت ھذہ الطرق عن من ھذة صفتھم ولکن بدون مواطأة واتفاق، ھذہ من القرائن. اذ کیف یعقل أناس مختلفین بلا اتفاق وکلا فی جھة وکلافی مکان وکلا فی بلد لم یلتقوا ولم یتصلوا ببعض، کلھم یأتی وینقل نفس القضیة اما بلفظھا أو بمعناھا، ألیست ھذہ قرینة علی صدقھم، وان کانوا فی الأصل کذابین؟! اذا ھذہ من القرائن التی یتثبت فیھا، فقد یقبل بھا خبر الفاسق؟'' (شرح مقدمہ اصول التفسیر للعثیمین : ص 158)
'' اور ان قرائن میں سے یہ بھی ہے کہ خبر کئی ایک طرق سے مروی ہو۔ پس جب یہ طرق ان لوگوں سے مروی ہوں کہ جن کی یہ صفات ہوں اور ان کے راویوں میں کوئی ملاقات اور اتفاق نہ ہو تو یہ قرائن ہیں۔ کیونکہ عقل میں یہ بات نہیں آتی ہے کہ کچھ لوگ بغیر کسی ارادی اتفاق کے، ایک ہی قضیہ کو ایک جیسے الفاظ یا معانی کے ساتھ نقل کر رہے ہوں جبکہ وہ لوگ مختلف مقامات، شہروں یا جہات میں ہوں اور وہ آپس میں ملے بھی نہ ہوں کیا یہ ان افراد کے سچا ہونے کا قرینہ نہیں ہے؟ اگرچہ وہ حقیقت میں جھوٹے ہی کیوں نہ ہوں؟ پس یہ وہ قرائن ہیں کہ جن سے ایک خبر ثابت ہوتی ہے۔ پس ان قرائن کے ساتھ فاسق کی خبر مقبول ہے۔''
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
تیسرا قرینہ
بعض اوقات ایک ضعیف روایت پر اجماع کا قرینہ بھی اسے درجہ قبولیت تک لے جاتا ہے اور اس روایت کا معنی صحیح ہو جاتا ہے اور وہ سند سے بے نیاز ہو جاتی ہے۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
'' قال علی وقد یرد خبر مرسل لا أن الاجماع قد صح بما فیہ متیقنا منقولا جیلا فجیلا فن کان ھذا علمنا أنہ منقول نقل کافة کنقل القرآن فاستغنی عن ذکر السند فیہ وکان ورود ذلک المرسل وعدم ورودہ سواء ولا فرق وذلک نحو لا وصیة لوارث وکثیر من أعلام نبوتہ صلی اللہ علیہ وسلم...وأما المرسل الذی لا اجماع علیہ فھو مطروح علی ما ذکرنا لأنہ لا دلیل عن قبولہ البتة.'' (الاحکام فی أصول الأحکام : جلد2، ص200، دار الحدیث ، القاھرة)
'' امام ابن حزم رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ خبر مرسل مرودد ہے الا یہ کہ اس مرسل روایت کے معنی ومفہوم پر اجماع متقین ہو جو نسل درنسل منقول ہو۔ پس اگر کوئی مرسل روایت ایسی ہو کہ اسے ایک بہت بڑی تعداد نقل کر رہی ہو جس طرح کہ قرآن منقول ہے تو اس کی سند کی ضروت باقی نہیں رہتی۔ پس اس صورت میں اس مرسل روایت کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہے اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔اور اس کی مثال 'لاوصیة لوارث' والی روایت ہے یا آپ کی نبوت کی نشانیوں سے متعلق روایات ہیں... اور جہاں تک اس مرسل روایت کا معاملہ ہے کہ جس پر اجماع نہ ہو تووہ مردود ہے جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کیونکہ اسے قبول کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔''
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
چوتھا قرینہ
اس کے علاوہ بھی بہت سے قرائن بیان کیے جا سکتے ہیں لیکن اس وقت مقصود ان قرائن کا احاطہ نہیں ہے جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے بعض قرائن کی طرف اشارہ کیا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
'' فمن شاھد أصحاب رسول اللہ من التابعین فحدث حدیثا منقطعا عن النبی اعتبر علیہ بأمور منھا أن ینظر الی ما أرسل من الحدیث فان شرکہ فیہ الحفاظ المأمونون فأسندوہ الی رسول اللہ بمثل معنی ما روی کانت ھذہ دلالة علی صحة من قبل عنہ وحفظہ وان انفرد بارسال حدیث لم یشرکہ فیہ من یسندہ قبل اما یفرد بہ من ذلک ویعتبر علیہ بأن ینظر ھل یوافقہ مرسل غیرہ ممن قبل العلم عنہ من غیر رجالہ الذین قبل عنھم فن وجد ذلک کانت دلالة یقوی بہ مرسلہ وھی أضعف من الاولی وان لم یوجد ذلک نظر لی بعض ما یروی عن بعض أصحاب رسول اللہ قولا لہ فان وجد یوافق ما روی عن رسول اللہ کانت ھذہ دلالة علی أنہ لم یأخذ مرسلہ لا عن أصل یصح ان شاء اللہ وکذلک ان وجد عوام من أھل العلم یفتون بمثل معنی ما روی عن النبی۔'' (الرسالة : ص461-463، دار الکتب العلمیة)
'' پس جن تابعین کی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے ملاقات ہے اور وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی منقطع یعنی مرسل روایت بیان کریں تو چند امور کے سبب سے ان مرسل روایات کا اعتبار کیا جائے گا۔ پہلی صورت تو یہ ہے کہ اس مرسل روایت میں غور کیا جائے، پس اگر اس مرسل روایت کا معنی ومفہوم کچھ عادل اور ضابط راویوں نے کسی اور مسند روایت میں بھی بیان کیا ہو تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تابعی کی مرسل روایت صحیح اور محفوظ ہے۔ اور اگر تو صورت یہ ہو کہ تابعی اپنی مرسل روایت میں منفرد ہو اور کوئی اور راوی اس معنی کی مسند روایت نقل نہ کر رہا ہو تو پھر یہ غور کیا جائے گا کہ کیا اہل علم تابعین سے مروی کوئی اور مرسل روایت ایسی ہے جو اس پہلی مرسل روایت کی موافقت کر رہی ہو اور اس دوسری مرسل کے راوی بھی اور ہوں۔ اگر ایسا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ پہلی مرسل روایت اس دوسری مرسل سے قوی ہو جائے گی لیکن اس صورت میں مرسل کی قوت پہلی صورت کی مرسل سے کم ہو گی۔اور اگر ایسا بھی نہ ہو ( یعنی کسی مرسل کی تائید کسی دوسری مرسل سے بھی نہ ہو رہی ہو ) تو پھر صحابہ رضی اللہ عنہم کے فتاوی کو دیکھا جائے گا۔ پس اگر کسی صحابی کا قول اس مرسل روایت کے موافق ہوا تویہ اس بات کی دلیل ہو گی کہ اس مرسل کی کوئی اصل صحیح ہے ان شاء اللہ۔ اسی طرح کا حکم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی اس مرسل کا بھی ہے کہ جس کے معنی ومفہوم کے مطابق عام اہل علم فتوی جاری کیا ہو۔''

یہ واضح رہے کہ ہر قرینہ کا درجہ یا وقعت ایک جیسی نہیں ہوتی ہے لہذا ہر قرینہ ہر قسم کے ضعف کو دور کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے۔ کون سا قرینہ کس قدر ضعف کو دور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو اس بارے کبار ائمہ و فقہائے محدثین مثلاً امام شافعی، امام بیہقی، امام ابن عبد البر، امام ابن تیمیہ اور امام ابن حجر رحمہم اللہ وغیرہم کے اقوال کا اعتبار ہو گا جنہیں ہم نقل کر چکے ہیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
'وہم' سے 'ظن' کا سفر طے کرنے والی خبر میں الفاظ و معانی کا ثبوت
کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ فر ق ہے کہ کتاب اللہ میں الفاظ ومعانی دونوں اللہ تعالیٰ کے ہیں جبکہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں معانی تو اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں جبکہ الفاظ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں۔ اسی طرح ان دونوں میں ایک اور فرق یہ بھی ہے کہ کتاب اللہ میں لفظاً روایت ہوئی ہے یعنی اس میں ایک ایک حرف محفوظ ہے جبکہ احادیث میں لفظاً ومعناً روایت ہوئی ہے یعنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ بھی منتقل ہوئے ہیں جیسا کہ عموماً قولی سنن کا معاملہ ہے اور صحابہ رضوان اللہ اجمعین کے الفاظ بھی نقل ہوئے ہیں جیسا کہ فعلی اور تقریری سنن کا بیان ہے۔

پس کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے معنی ومفہوم کے اعتبار سے تو دونوں سے ایک جیسا علم حاصل ہو گا لیکن کتاب اللہ کے الفاظ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ سے استدلال و استنباط سے حاصل شدہ علم کے درجہ میں کچھ فرق ہو گا مثلاً کتاب اللہ میں حروف عطف واؤ اور فاء وغیرہ سے جو مسائل اخذ کیے جائیں گے یعنی واؤ جمع کے لیے اور فاء تعقیب کے لیے ہے، تو ان سے تو علم یقینی حاصل ہو گا لیکن سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حروف عطف سے اگر کوئی مسئلہ اخذ کیا جائے گا تواس سے علم ظنی حاصل ہو گا کیونکہ اگر یہ سوال ہو کہ سنت رسول میں وہ حرف عطف اسی طرح باقی ہے جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا تھا تو یہ ایک ظنی معاملہ ہے یعنی اس حرف عطف کے بارے ظن غالب تو ہو سکتا ہے کہ وہ ویسے ہی ہم تک پہنچا ہے جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے استعمال کیا تھا لہٰذا اس ظن غالب کی بنا پر ثابت ہونے والے حرف سے ثابت مسئلہ بھی ظنی ہو گا اور اسے قطعی یا علم کا درجہ دینا مناسب نہیں ہے۔

اسی طرح قرائن کی بدولت 'وہم' سے 'ظن' تک کا سفر کرنے والی روایت مثلا حسن لغیرہ وغیرہ سے من جملہ مسئلہ تو ثابت ہو جائے گا لیکن اس کے الفاظ ثابت نہ ہوں گے اور ان سے استدلال بھی درست نہیں ہو گا۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
'' لکن مثل ھذا لا تضبط بہ الألفاظ والدقائق.'' (مجموع الفتاوی : جلد13، ص347-348)
'' لیکن اس قسم کی روایت سے الفاظ کا اثبات اور دقیق نکات نکالنا مناسب امر نہیں ہے۔''

شیخ صالح العثیمین رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
'' لکن مثل ھذا لا انضبط بہ الألفاظ والدقائق، فلو کان الخبر یتوقف علی لفظة حکم أو تقریر قضیة، فنقول : مادام ھذہ سبیلہ لا یثبت بہ لفظ، فان ھذہ الطریقة فی ثبات الأخبار یثبت بھا أصل الحدیث أو الخبر أو القضیة أو القصة، لکن لا نستطیع أن ندیر حکما علی اللفظ، وھذہ نقطة مھمة جدا خاصة للفقیہ الذی یرید أن یستنبط الأحکام.(شرح مقدمہ اصول التفسیر للعثیمین : ص 158)
'' لیکن اس قسم کی روایت سے الفاظ اور دقیق نکات ثابت نہیں ہوتے۔ پس اگر خبر کسی حکم یا قضیے کے اثبات لفظی پر متوقف ہو تو ہم یہی کہیں گے: جب تک اس خبر کا معاملہ ایسا ہے ( یعنی یہ قرائن سے قوت پکڑ رہی ہے ) تو ا س سے روایت کے الفاظ ثابت نہیں ہوتے۔ کسی خبر کو اس طرح ثابت کرنے کے طریق کار میں حدیث یا خبر یا قضیہ یا قصہ کی اصل تو ثابت ہو جاتی ہے لیکن ہم اس بات کی استطاعت نہیں رکھتے کہ حکم کو اس روایت کے الفاظ کے گرد گھمائیں۔ یہ بہت ہی اہم نقطہ ہے، خاص طور پر اس فقیہ کے لیے جو احکام کو مستنبط کرنا چاہتا ہے۔''

اس کی مثال وہ روایت ہے جو سنن ترمذی میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ روایت کے الفاظ ہیں:
'' فقال کیف تقضی فقال أقضی بما فی کتاب اﷲ قال فان لم یکن فی کتاب اﷲ قال فبسنة رسول اﷲ قال فان لم یکن فی سنة رسول اﷲ قال اجتھد رأیی.''(سنن الترمذی، کتاب الأحکام عن رسول اللہ،باب ما جاء فی القاضی کیف یقضی)
''آپ نے کہا :تم کیسے فیصلہ کرو گے تو حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : جو کتاب اللہ میں ہے' اس کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : اگروہ کتاب اللہ میں نہ ہو۔حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا : میں سنت رسول کے مطابق فیصلہ کروں گا ( کیونکہ اس میں صراحت اور تفصیل قرآن کی نسبت زیادہ ہے)۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر وہ سنت رسول میں بھی نہ ہو۔ حضرت معاذ نے جواب دیا : میں اپنی رائے سے اجتہادکروں گا۔''

یہ روایت اپنی سند کے اعتبار سے 'ضعیف' ہے لیکن جن علماء نے اس حدیث کو قابل احتجاج قرار دیا ہے، وہ درج ذیل ہیں۔ امام طحاوی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو 'صحیح' کہا ہے(شرح مشکل الآثار : جلد9، ص212)۔ امام ابن عبد البر رحمہ اللہ نے 'صحیح مشہور' کہا ہے(جامع بیان العلم وفضلہ : جلد2، ص844)۔ امام ابن العربی رحمہ اللہ نے بھی اسے 'صحیح مشہور' کہا ہے(عارضة الأحوذی : جلد3، ص300)۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اسے 'اسنادہ جید' کہا ہے( مجموع الفتاوی : جلد13، ص364)۔ امام ابن کثیررحمہ اللہ نے بھی اسے 'اسنادہ جید' کہا ہے (تفسیر القرآن : جلد1، ص13)۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو 'قابل احتجاج' قرار دیا ہے۔(اعلام الموقعین : جلد1، ص 183)۔ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اسے 'حسن الأسناد ومعناہ صحیح' کہا ہے(تلخیص العلل المتناھیة : جلد9، ص 26)۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے اس کو 'حسن لغیرہ معمول بہ' کہا ہے ( الفتح الربانی : جلد59، ص448)۔ امام ابن حجررحمہ اللہ نے اسے 'غریب وموقوف' کہا ہے(موافقة الخبر الخبر:جلد1، ص 119)۔

اصل نقطہ یہ ہے کہ ان اہل علم کے نزدیک اس روایت کا متن درست ہے اور اس روایت سے اس قدر استدلال کرنا صحیح ہے کہ کتاب وسنت کے علاوہ استنباط احکام میں اجتہاد کا بھی ایک مقام ہے لیکن اس روایت کے الفاظ سے کوئی نقطہ نکالنا درست نہیں ہے کیونکہ قرائن سے اس روایت کے الفاظ ثابت نہیں ہوتے بلکہ من جملہ مفہوم ثابت ہو جاتا ہے۔

بعض متجددین نے اس روایت کے الفاظ 'اجتھد رأیی'سے یہ اخذ کیا ہے کہ اجتہاد کی بنیاد انسان کی کتاب وسنت کے علاوہ ذاتی رائے ہوتی ہے تو یہ استدلال اصولا ً بھی غلط ہے اور معنا ً بھی۔ اصولا ً اس لیے کہ قرائن کی بنیاد پر قوی ہونے والی روایت کے الفاظ ثابت نہیں ہوتے لہٰذا الفاظ سے استدلال درست نہیں ہے اور معناً اس لیے کہ 'اجتھد رأیی' کا صحیح معنی ہے میں (کتاب وسنت) میں اپنی پوری کوشش صرف کروں گا اپنی رائے بنانے میں۔ واللہ اعلم بالصواب
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
چند شبہات کا ازالہ
ضعیف روایت کے قرائن کی تائید سے قابل احتجاج ہونے کے بارے چند معروف شبہات کے جوابات یوں دیے جا سکتے ہیں :
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
پہلا اعتراض
بعض حضرات یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جب تعدد طرق سے ایک ضعیف روایت قابل احتجاج ہو جاتی ہے تو ہر جگہ ایسا کیوں نہیں کیا جاتا کہ تعدد طرق کی بنیاد پر کسی روایت کو قابل احتجاج قرار دیا جائے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ ہم یہ واضح کر چکے ہیں کہ قرائن یعنی تلقی بالقبول یا تعدد طرق وغیرہ سے بعض ضعیف روایات کا ضعف ختم ہو جاتا ہے اور وہ قابل احتجاج ہو جاتی ہیں لیکن اس میں ان کے الفاظ قابل احتجاج نہیں ہوتے بلکہ معنی قابل احتجاج ہوتا ہے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ ضعیف روایت کا یہ معنی بھی اس صورت قرائن کی تائید سے قابل احتجاج ہوتا ہے جبکہ وہ معنی دیگر شرعی احکام کے خلاف نہ ہو۔ پس اگر ایک ضعیف روایت کچھ طرق سے مروی ہو تو اس کا معنی قابل احتجاج ہو جائے گا لیکن اگر اس روایت کا معنی کتاب اللہ یا صحیح سنت رسول سے ثابت شدہ عقائد واحکام کے خلاف ہو گا تو اس صورت میں ہم یہی کہیں گے کہ کتاب اللہ اور سنت صحیحہ کا مفہوم ان قرائن میں مانع ہے جو متعدد طرق سے مروی ضعیف کو درجہ توقف سے درجہ قبولیت تک پہنچاتے ہیں۔ پس اس مانع کی موجودگی میں اس روایت پر قابل احتجاج ہونے کا حکم نہیں لگایا جائے گا۔

مثلاً قصہ غرانیق والی روایت کئی ایک ضعیف طرق سے مروی ہے۔ پس اہل علم کی ایک جماعت اس روایت کے متعدد طرق کے باوجودا س کو قابل احتجاج قرار نہیں دیتی ہے، ان کے نزدیک اس کے درجہ توقف سے درجہ قبولیت میں پہنچنے میں عصمت انبیا اور حفاظت کلام الہٰی کا بنیادی عقیدہ مانع ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : لَّا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ ۖ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ ﴿٤٢ یعنی باطل اس کلام الہٰی کے نہ تو آگے سے آسکتا ہے اور نہ ہی پیچھے سے، لہٰذا اس ضعیف روایت کے متعدد طرق ہونے کے باوجود اس کا معنی ثابت نہیں ہو گا اور اس کے قرائن اسے کوئی فائدہ نہیں دیں گے۔

جبکہ اہل علم کی ایک دوسری جماعت اس روایت کے معنی کا اثبات کرتی ہے اور ان کے نزدیک اس روایت کے الفاظ ثابت نہیں ہیں اگرچہ اس واقعہ کی کوئی اصل موجود ہے۔ یہ اہل علم اس واقعہ کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ'تلک الغرانیق العلی' والے الفاظ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ادا نہیں ہوئے تھے لیکن کفار نے ان الفاظ کو شیطان کی طرف سے سنا تھا اور ان الفاظ کو سنانے میں مقصود مشرکین کی آزمائش تھی اور فَيَنسَخُ اللَّـهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ کے ذریعے شیطان کی ملاوٹ کو ختم کر کے کلام الہٰی کی حفاظت کر دی گئی ہے۔علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس قصہ کی بعض اسناد کو ابو العالیہ، قتادة اور سعید بن جبیر رحمہم اللہ اجمعین تک صحیح قرار دیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
دوسرا اعتراض
ایک اعتراض یہ بھی وارد کیا جاتا ہے کہ متقدمین محدثین نے 'حسن لغیرہ' کی اصطلاح استعمال نہیں کی ہے اور یہ متاخرین کی اصطلاح ہے۔

ہمارے خیال میں یہ اعتراض درست نہیں ہے کیونکہ اصول کے علوم کی تدوین درجہ بدرجہ ہوئی ہے مثلاً صحابہ، تابعین اور تبع تابعین اصول فقہ کی ان اصطلاحات کا نام استعمال نہیں کرتے تھے جو اصول فقہ کے دور تدوین میں اس کی امہات الکتب میں مدون ہوئیں۔ البتہ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے ہاں اصول فقہ کی ان اصطلاحات اور اصول وقواعدکے تصورات ضرور موجود تھے۔ اسی طرح اصول حدیث کا علم بھی درجہ بدرجہ مدون ہوا ہے اور اس میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ معانی اور تصورات کے لیے اصطلاحات وضع ہوئی ہے بلکہ اصطلاح تو کہتے ہی اسے ہیں جس پر ایک جماعت کی صلح ہوئی ہو۔ یعنی اصطلاح ایک جماعت کے اتفاق کے بعد اصطلاح قرار پاتی ہے اور جماعت کا اتفاق ایک دن، مہینے یا سال میں حاصل نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے صدیاں لگتی ہیں۔

پس حسن لغیرہ کا تصور تو متقدمین حدیث میں موجود تھا جیسا کہ امام مالک متوفی 179ھ اور بعض متقدمین علماء مرسل روایت کو قبول کرتے تھے جبکہ ثقہ تابعی سے اس کی روایت کا قرینہ موجود ہوتا تھا۔ اسی طرح امام شافعی متوفی 150ھ رحمہ اللہ بھی بعض شرائط کے ساتھ مرسل روایت کو قبول کرتے تھے۔ علاوہ ازیں احمد بن حنبل متوفی 241 ھ رحمہ اللہ فضائل یا رقائق سے متعلق ضعیف روایات پر عمل کو جائز سمجھتے تھے جبکہ قرائن سے ان کو تقویت پہنچ رہی ہوتی تھی۔ اسی طرح امام ترمذی متوفی 279 ھ رحمہ اللہ بعض اوقات ایسی ضعیف روایات کو جو کئی طرق سے مروی ہوں، حسن کا نام دے دیتے ہیں۔ اس طرح امام ابو داؤدمتوفی 275 ھ بعض اوقات ایسی ضعیف روایات کو جو ایک سے زائد طرق سے مروی ہوں، صالح کا نام دیتے ہیں۔

اس کے بعد امام ابن الصلاح متوفی 643 ھ نے 'الحدیث الحسن قسمان' کے نام سے 'حسن' کی دو قسمیں بنائیں اور بعض ضعیف روایات کو تعدد طرق کی بنا پرقابل احتجاج قرار دیا جبکہ امام ابن حجر متوفی852 ھ رحمہ اللہ نے باقاعدہ 'حسن لغیرہ' کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ ہمارا یہاں یہ دعوی ہر گز نہیں ہے کہ امام مالک و امام شافعی رحمہما اللہ کی مرسل، امام احمد کی ضعیف، امام ترمذی رحمہ اللہ کی حسن، امام ابو داؤد رحمہ اللہ کی صالح، امام ابن الصلاح کی حسن اور امام ابن حجر رحمہ اللہ کی حسن لغیرہ ایک ہی شیء ہیں۔ ہمارا مقصود یہاں صرف یہ ہے کہ قرائن کی بنیاد پر ضعیف روایت کے قابل احتجاج ہونے کا نقطہ نظر مختلف اصطلاحات، کیفیات اور حالات کے ساتھ ہر دور میں محدثین کے ہاں مقبول رہاہے جیسا کہ ہم اصول فقہ میں دیکھتے ہیں کہ 'اجتہاد' کے سب قائل ہیں لیکن امام شافعی رحمہ اللہ سے لے کر امام شوکانی رحمہ اللہ تک 'اجتہاد' کی تعریف اور تصورات میں فرق بھی مختلف مکاتب فکر میں ملحوظ ہیں مثلاً امام شافعی، امام ابن حزم اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا نظریہ اجتہاد ہر اعتبار سے ایک نہیں ہے اگرچہ اجتہادکے بنیادی تصور کے قائل سب ہی ہیں۔ یہی معاملہ اس ضعیف روایت کا بھی ہے جو قرائن کی بدولت قوی ہو جاتی ہے کہ اس کے قائل سب ہی ہیں اگرچہ تفصیلات میں اختلاف ہے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top