• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وہم سے علم تک

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
تیسرا اعتراض
ایک اعتراض یہ بھی وارد کیا جاتا ہے کہ 0 + 0 = 0 ہوتا ہے لہذا ضعیف + ضعیف = 0 ہے۔

ہم اس بات کی وضاحت تفصیل سے کر چکے ہیں کہ ضعیف = 0 والی بات عقل ونقل کے خلاف ہے۔ موضوع روایت کے بارے zero کہنا تو درست ہو سکتا ہے لیکن ضعیف کے بارے یہ کہنا صحیح نہیں ہے ورنہ تو موضوع اور ضعیف میں فرق کیا ہوا ؟ اور جب ہر ضعیف روایت zero کے برابر ٹھہری تو اس کی سترہ وغیرہ قسموں میں فرق کرنے کاکیا مقصدہے؟

ہم یہ بات تفصیل سے بیان کر چکے ہیں کہ ضعیف روایات zero سے 50 کے درمیان کسی درجہ میں ہوتی ہے اور اس میں سچ کے پہلو کے مرجوح ہونے کی وجہ سے قائل کی طرف اس کی نسبت ضعیف اور کمزور ہوتی ہے یا وہم کے درجہ میں ہوتی ہے۔ لیکن بعض صورتوں میں یہ وہم مختلف قرائن کی وجہ سے تقویت حاصل کر لیتا ہے اور درجہ وہم سے 'ظن غالب' یا 'علم' کے درجہ تک بھی پہنچ جاتا ہے۔لیکن اس کا فیصلہ کون کرے گا کہ اس خبر میں وہم 'ظن غالب' یا 'علم' کے درجہ کو پہنچا ہے یا نہیں؟ اس کا فیصلہ ماہرین فن یعنی محققین محدثین کریں گے کیونکہ یہ ان کا میدان ہے اور ان کی زندگیاں حدیث کی خدمت میں کھپ جاتی ہے۔ پس محدثین کے بالمقابل عوام یا طلبة العلم یا اہل فقہ کے ہاتھ میں یہ اختیار دے دینا ایسا ہی ہے جیساکہ کسی مہلک بیماری کی تشخیص میں کسی عطائی یا ڈسپنسریا انجینئر کی رائے پر عمل کیا جائے۔ جس طرح یہ کہنا درست نہیں ہے کہ سب سے بڑا محدث ہی سب سے بڑا فقیہ ہوتا ہے ، اسی طرح کسی فقیہ کو سب سے بڑامحدث مان لینا بھی ایک ظلم عظیم ہے۔ یہاں مختلف علوم وفنون ہیں، ہر فن کے اپنے رجال کار ہیں اور اس فن کی باریکیوں میں انہی کی رائے معتبر ہوگی جنہوں نے اس فن کی خدمت میں اپنی زندگیاں کھپائی ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
چوتھا اعتراض
ایک ممکنہ اعتراض یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم نے سابقہ صفحات میں جو حوالہ جات پیش کیے ہیں، ان کی روشنی میں فاسق اور متہم بالکذب کی روایت بھی بعض صورتوں میں قابل قبول ہو سکتی ہے جبکہ محدثین عظام مثلاً ابن حجر رحمہ اللہ نے اس بات کا انکار کیا ہے کہ ایک فاسق یا متہم بالکذب کی روایت حسن لغیرہ کے درجہ تک پہنچ سکتی ہے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارا اس وقت موضوع 'حسن لغیرہ' نہیں ہے بلکہ ہمارا موضوع عام ہے اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ مختلف درجات کی ضعیف روایات متفرق قرائن کی روشنی میں قابل احتجاج ہو جاتی ہیں۔ اس لیے ہم نے اس کا عنوان 'وہم سے علم تک' رکھا ہے کہ بعض اوقات ایک خبر 'وہم' کے درجہ میں ہوتی ہے لیکن قرائن متفرقہ کی تائید کے بعد 'ظن غالب' یا 'علم' کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے۔ شرعی دلائل کی روشنی میں ایک فاسق اور متہم بالکذب کی روایت بھی قابل احتجاج ہوجاتی ہے لیکن اس کے لیے مضبوط قرائن کی ضرورت ہے۔ اب کیا ایک فاسق یا متہم بالکذب کی روایت کا ضعف ایک دوسرے ضعیف طریق سے دور ہو جاتا ہے؟ یعنی کیاعدالت میں طعن کی بنیاد پر ایک ایسی ضعیف روایت کے لیے ایک دوسری ضعیف روایت ایسا قرینہ ہے کہ وہ پہلی روایت کو 'وہم' سے 'ظن غالب' کے درجہ میں پہنچا دے تو امام ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی نفی فرمائی ہے۔ یعنی انہوں نے اس کی نفی نہیں فرمائی ہے کہ متہم بالکذب یا فاسق کی روایت کبھی قابل احتجاج ہو ہی نہیں سکتی ہے بلکہ انہوں نے ایک سے زائد طرق سے مروی قرینے کی قوت کے بارے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ وہ قوت اس درجہ کی نہیں ہوتی ہے کہ اس سے ایک متہم بالکذب یا فاسق کی ضعیف روایت میں ضعف کا انجبار ممکن ہو۔

پس امام ابن حجر رحمہ اللہ اس فن ومیدان کے رجال میں سے ہیں اور یہ طے کرنا کہ کسی حدیث کا ضعف کس قدر یا درجہ کا ہے اور اس کے اس ضعف کو ختم کرنے کے لیے کس قدر قوی قرینے کی ضرورت ہے، اس بارے امام صاحب رحمہ اللہ اور ان جیسے محدثین عظام کی رائے ہمارے نزدیک بہت ہی محترم اور قابل اعتماد ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
حرف آخر
آخر میں ہم اس بات کی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ مضمون ایک علمی مسئلہ میں اہل علم کی ایک غالب جماعت کی ترجمانی کے لیے تحریرکیا گیا اور اس سے مقصود کسی مناظرہ ومباحثہ کا آغاز کرنا نہیں ہے جیسا کہ ہمارے ہاں بعض رسائل میں اس موضوع سے متعلق ایک بحث 'حسن لغیرہ' کے ضمن میں فریقین کی جانب سے شدید نقد وتعاقب اور بعض اوقات تو طعن وطنز بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ امکان ہے بعض اصحاب علم وفضل کو اس نقطہ نظر سے اختلاف بھی ہو اور ان کے پاس اپنے موقف کے اثبات کے دلائل بھی ہوں۔

پس اس مسئلہ میں ضرورت اس امر کی ہے کہ جانبین ایک دوسرے کے موقف کے لیے تحمل اور برداشت کا رویہ پید اکریں اورممکن حد تک کسی مناظرانہ اور مباحثانہ فضا سے اجتناب کرتے ہوئے اپنے موقف اور اس کے دلائل کو مثبت انداز میں بیان کر دیا جائے، جس کے موقف اور استدلال میں جان ہو گی، وہ اہل علم اور خواص میں عام ہو جائے گا۔اور اپنا موقف واضح کر دینے کے بعد اتنا کہہ دینا کافی ہے:
اللَّـهُ رَ‌بُّنَا وَرَ‌بُّكُمْ ۖ لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ ۖ لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ ۖ اللَّـهُ يَجْمَعُ بَيْنَنَا ۖ وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ‌ ﴿١٥
٭٭٭٭٭
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top