پہلی فصل: تقلید ﷲ تعالیٰ کی حاکمیت کو چیلنج ہے۔
دین اسلام ﷲ تعالیٰ کا نازل کردہ دین ہے جس کے ذریعے ﷲ تعالیٰ اپنی شرعی حاکمیت کو قائم کرنا چاہتا ہے لہٰذا جو لوگ کسی اور کی بات کو دین کا درجہ دیتے اور بلا تحقیق اسکی بات کو مان لیتے ہیں وہ دراصل ﷲ تعالیٰ کی حاکمیت کو چیلنج کررہے ہیں ﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
وَلَا یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِہ اَحَداً (الکہف :٢٦)
ﷲ تعالیٰ اپنی حاکمیت میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔
جبکہ دوسری جگہ عیسائیوں کے متعلق ارشاد فرمایا:
اِتَّخُذُوْا اَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَہُمْ اَرْبَاباً مِّنْ دُوْنِ ﷲِ ( التوبہ :٣١)
(انہوں نے اپنے علماء اور بزرگوں کو ﷲ کے علاوہ اپنا رب بنالیا)
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ ﷺ کو اس آیت کی قرأت کرتے ہوئے سنا، آپ ﷺ نے اس آیت کی قرأت کے بعد ارشاد فرمایا:
أما نہم لم یکونوا یعبدونہم، ولکنہم کانوا ذااحلّوا لہم شیئاً استحلوہ، وذا حرموا علیہم شیئاً ٔ حرّموہ ]
أخرج الترمذی (٣٠٩٥) وحسنہ الالبانی فی صحیح الترمذی، وعبدﷲ بن عبدالقادر الاتلیدی فی تحقیق الترمذی، وعبدالرزاق الہدی فی تحقیق تفسیر ابن کثیر
(آگاہ ہوجاؤ! بے شک وہ لوگ انکی عبادت نہیں کرتے تھے لیکن جب وہ انکے لیے کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دیتے تو یہ (مقلدین) اُنکی بات کو (بلاتحقیق) مان لیا کرتے تھے)
ہماری اصل دلیل اس منہج کے حوالے سے صرف کتاب وسنت ہی ہے جسکا تذکرہ بطور مثال ہم کر چکے ہیں اور اس سلسلے میں ہمیں کسی اور کا قول ذکر کرنا لازم نہیں بلکہ قلم تذبذب کا شکار ہے کہ کیا ﷲ اور اسکے رسول ﷺ کی بات کو ماننے کیلئے ہمیں اماموں سے پوچھنے کی ضرورت ہے؟
لیکن کیونکہ جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ علماء کے اقوال قرآن وسنت کو سمجھنے کیلئے معاون ہوتے ہیں لہٰذا قرآن و سنت سے ثابت شدہ اس منہج کے حوالے سے ہم ائمہ اربعہ۔ کے اقوال پیش کرتے ہیں تاکہ مقلدین پر یہ بات واضح ہوجائے کہ وہ تقلید کے ذریعے ائمہ کی نہیں بلکہ دراصل شیطان کی پیروی کر رہے ہیں اور ہم ان ائمہ کا احترام اور ان سے محبت بھی اسی لیے کرتے ہیں کہ انہوں نے لوگوں کو ﷲ اور اسکے رسولﷺ کی طرف بلایا ہے۔ بالفرض اگر ان میں سے کوئی یہ دعویٰ کرتا کہ میری اطاعت تم پر واجب ہے اگرچہ قرآن و سنت کے خلاف کیوں نہ ہو۔ تو اس کا احترام تو درکنار اسکی مذمت ہم پر واجب ہوجاتی اور اُسے امام اور عالم کہنا تو دور کی بات اسے مسلمان کہنا بھی جائز نہ ہوتا
جیسا کہ امام شوکانی اپنی کتاب ''القول المفید'' میں فرماتے ہیں:
ولو فرضنا والعیاذ باﷲ ان عالما من علماء السلام یجعل قولہ کقول ﷲا و قول رسولہ ۖ لکان کافراً مرتدا فضلا عن ن یجعل قولہ قدم من قول ﷲ ورسولہ۔
(القول المفید فی دلة الاجتہاد والتقلید ص ٢٥)
(اور نعوذ باﷲ اگر ہم فرض کرلیں کہ علمائے اسلام میں سے کوئی اپنے قول کو ﷲ اور اسکے رسول ﷺ کے قول جیسا قرار دیتا ہے تو اپنے اس عقیدے کی وجہ سے وہ کافر اور مرتد ہوجائے گا چہ جائیکہ اسکا قول ﷲ اور اسکے رسول کے قول پر مقدم مانا جائے)
اسی طرح امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
من یری ن قول ھٰذا المعین ہو الصواب الذی ینبغی اتباعہ دون قول المام الذی خالفہ۔ من فعل ھٰذا کان جاھلاً ضالا، بل قد یکون کافراً۔فنہ متی اعتقد انہ یجب علی الناس اتباع واحد بعینہ من ھؤلاء الأ ئمة دون المام الآخر فنہ یجب ن یستتاب فن تاب ولا قتل۔
(مختصر الفتاوی المصریہ ، ص: ٤٢)
(جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ فلان معین امام کا قول ہی درست ہے اور باقی تمام ائمہ کو چھوڑ کر ایک ہی کی بات کی پیروی کرنی چاھیئے تو جو بھی یہ عقیدہ رکھے وہ جاہل اور گمراہ ہے بلکہ بعض اوقات تو کافر بھی ہو جاتا ہے(یعنی اگر متشدد ومتعصب ہے) اس لیے جب کوئی یہ عقیدہ بنالے کہ لوگوں پر تمام ائمہ میں سے ایک ہی امام کی پیروی کرنا واجب ہے تو ضروری ہے کہ اس شخص سے توبہ کروائی جائے، توبہ کرلے تو ٹھیک ورنہ قتل کردیا جائے)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی مراد یہ ہے کہ جہاں سے حق مل جائے اُسے قبول کرلینا چاہیے جس امام کا قول دلیل کی بنیاد پر ہو اُس کی بات مان لی جائے اور اگر کوئی ایسا نہیں کرتا بلکہ ایک ہی کو پکڑ لیتا ہے کہ صحیح کہے تب بھی، غلط کہے تب بھی اُسی کی بات ماننی ہے ابن تیمیہرحمہ اللہ کے نزدیک وہ جاہل، گمرا ہ اور واجب القتل ہے۔ اسی بات کو آپکے ذہن کے قریب کرنے کیلئے میں ایک مثال دونگا کہ مثلاً قرآن مجید ﷲ کا دین ہے لہٰذا ﷲ تعالیٰ نے اسکی حفاظت کا بندوبست کیا ہے اسی طرح حدیث ہے یہ بھی سند کے ساتھ ہم تک پہنچی ہے اب اگر کوئی قرآن مجید میں ایک حرف کا اضافہ کردے یا ایک حرف کی کمی کردے تو آپ اس کے بارے میں کیا کہیں گے؟
یا قرآن مجید کی ایک آیت کو ماننے سے انکار کردے؟
یقینا آپ ایسے شخص کو بے دین، ملحد اور مرتد جیسے القاب دیں گے لیکن کیوں؟ اس لیے کہ قرآن ﷲ کا دین ہے اور وہ دین میں اضافہ یا کمی کر رہا ہے اور ﷲ تعالیٰ کا قانون اس حوالے سے بہت سخت ہے۔ ﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر محمد رسول ﷲ ﷺ کے بارے میں بھی فرمایا ہے کہ:
وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِیْلِ لَأَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ
(الحآقہ :٤٤،٤٥،٤٦)
(اگر آپ ﷺ بھی بالفرض اپنی سے کچھ باتیں بناکر ہماری طرف منسوب کردیں تو ہم آپکو اہنے ہاتھ سے پکڑ لیں گے اور پھر آپکی شہ ر گ کاٹ ڈالیں گے)
اگرچہ آپ ﷺ نے ایسا کرنا نہیں تھا لیکن آپ کی امت کو سبق دیا گیا کہ محتاط رہیں اب بھی اگر کوئی اپنے امام کے قول کو دین سمجھتا ہے تو کیا وہ دین میں اضافہ نہیں کر رہا جبکہ دین پہلے ہی مکمل ہے۔؟