• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

٭٭ آئمہ اربعہ ور منہج اھلحدیث ٭٭

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
٭٭٭٭٭٭ آئمہ اربعہ ور منہج اھلحدیث ٭٭٭٭٭

اللہ تعالیٰ نے کسی بھی انسان کو کسی امام کی تقلید کا حکم نہیں دیا اور نہ ہی قیامت والے دن اس بارے میں کوئی سوال ہوگا۔ سوال صرف رسولوں سے متعلق ہوگا کہ:

مَاذَا أَجَبْتُمُ الْمُرْسَلِیْنَ

(القصص:٦٠)

تم نے رسولوں کو کیا جواب دیا؟

یہی منہج اہل حدیث ہے۔

لیکن اس کا یہ معنیٰ نہیں کہ علماء اورائمہ کرام کا کوئی مقام نہیں۔ بلکہ علماء ہی وہ عظیم ہستیاں ہیں جنہوں نے قرآن وحدیث ہم تک پہنچایا اور ہمیں سمجھایا ہے لہٰذا ہم انکے مشکور اور انکے لیے دُعاگو ہیں البتہ اگر اُنکی کوئی بات کسی قرآنی آیت یا حدیث نبوی کے خلاف ہو تو پھر ہم انکی یہ بات ماننے کے مکلف نہیں کیونکہ ہمارا پہلا رشتہ اللہ اور اسکے رسول سے ہے اور باقی رشتے اسی ذریعے سے ہیں، اسی کی خاطر ہیں۔ ہماری غیر مشروط وفاداری صف اللہ اور اسکے رسولﷺ سے ہے اور بس!یہی ہمارا منہج ہے اوریہی تمام صحابہ] تابعینs اورائمہ اربعہs کا منہج تھا۔ اس مضمون کو ہم نے چند فصلوں پر تقسیم کیا ہے۔

(١) تقلید ﷲ کی حاکمیت کو چیلنج ہے۔

(٢) امام مالک رحمہ اللہ کا منہج :

(٣) امام شافعی رحمہ اللہ کا منہج :

(٤) امام احمد رحمہ اللہ کا منہج :

(٥) امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا منہج :

(٦) مقلدین کا جمود :
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
پہلی فصل: تقلید ﷲ تعالیٰ کی حاکمیت کو چیلنج ہے۔
دین اسلام ﷲ تعالیٰ کا نازل کردہ دین ہے جس کے ذریعے ﷲ تعالیٰ اپنی شرعی حاکمیت کو قائم کرنا چاہتا ہے لہٰذا جو لوگ کسی اور کی بات کو دین کا درجہ دیتے اور بلا تحقیق اسکی بات کو مان لیتے ہیں وہ دراصل ﷲ تعالیٰ کی حاکمیت کو چیلنج کررہے ہیں ﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے۔

وَلَا یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِہ اَحَداً (الکہف :٢٦)

ﷲ تعالیٰ اپنی حاکمیت میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔

جبکہ دوسری جگہ عیسائیوں کے متعلق ارشاد فرمایا:

اِتَّخُذُوْا اَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَہُمْ اَرْبَاباً مِّنْ دُوْنِ ﷲِ ( التوبہ :٣١)

(انہوں نے اپنے علماء اور بزرگوں کو ﷲ کے علاوہ اپنا رب بنالیا)
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ ﷺ کو اس آیت کی قرأت کرتے ہوئے سنا، آپ ﷺ نے اس آیت کی قرأت کے بعد ارشاد فرمایا:

أما نہم لم یکونوا یعبدونہم، ولکنہم کانوا ذااحلّوا لہم شیئاً استحلوہ، وذا حرموا علیہم شیئاً ٔ حرّموہ ]
أخرج الترمذی (٣٠٩٥) وحسنہ الالبانی فی صحیح الترمذی، وعبدﷲ بن عبدالقادر الاتلیدی فی تحقیق الترمذی، وعبدالرزاق الہدی فی تحقیق تفسیر ابن کثیر
(آگاہ ہوجاؤ! بے شک وہ لوگ انکی عبادت نہیں کرتے تھے لیکن جب وہ انکے لیے کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دیتے تو یہ (مقلدین) اُنکی بات کو (بلاتحقیق) مان لیا کرتے تھے)
ہماری اصل دلیل اس منہج کے حوالے سے صرف کتاب وسنت ہی ہے جسکا تذکرہ بطور مثال ہم کر چکے ہیں اور اس سلسلے میں ہمیں کسی اور کا قول ذکر کرنا لازم نہیں بلکہ قلم تذبذب کا شکار ہے کہ کیا ﷲ اور اسکے رسول ﷺ کی بات کو ماننے کیلئے ہمیں اماموں سے پوچھنے کی ضرورت ہے؟
لیکن کیونکہ جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ علماء کے اقوال قرآن وسنت کو سمجھنے کیلئے معاون ہوتے ہیں لہٰذا قرآن و سنت سے ثابت شدہ اس منہج کے حوالے سے ہم ائمہ اربعہ۔ کے اقوال پیش کرتے ہیں تاکہ مقلدین پر یہ بات واضح ہوجائے کہ وہ تقلید کے ذریعے ائمہ کی نہیں بلکہ دراصل شیطان کی پیروی کر رہے ہیں اور ہم ان ائمہ کا احترام اور ان سے محبت بھی اسی لیے کرتے ہیں کہ انہوں نے لوگوں کو ﷲ اور اسکے رسولﷺ کی طرف بلایا ہے۔ بالفرض اگر ان میں سے کوئی یہ دعویٰ کرتا کہ میری اطاعت تم پر واجب ہے اگرچہ قرآن و سنت کے خلاف کیوں نہ ہو۔ تو اس کا احترام تو درکنار اسکی مذمت ہم پر واجب ہوجاتی اور اُسے امام اور عالم کہنا تو دور کی بات اسے مسلمان کہنا بھی جائز نہ ہوتا

جیسا کہ امام شوکانی اپنی کتاب ''القول المفید'' میں فرماتے ہیں:
ولو فرضنا والعیاذ باﷲ ان عالما من علماء السلام یجعل قولہ کقول ﷲا و قول رسولہ ۖ لکان کافراً مرتدا فضلا عن ن یجعل قولہ قدم من قول ﷲ ورسولہ۔

(القول المفید فی دلة الاجتہاد والتقلید ص ٢٥)
(اور نعوذ باﷲ اگر ہم فرض کرلیں کہ علمائے اسلام میں سے کوئی اپنے قول کو ﷲ اور اسکے رسول ﷺ کے قول جیسا قرار دیتا ہے تو اپنے اس عقیدے کی وجہ سے وہ کافر اور مرتد ہوجائے گا چہ جائیکہ اسکا قول ﷲ اور اسکے رسول کے قول پر مقدم مانا جائے)

اسی طرح امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
من یری ن قول ھٰذا المعین ہو الصواب الذی ینبغی اتباعہ دون قول المام الذی خالفہ۔ من فعل ھٰذا کان جاھلاً ضالا، بل قد یکون کافراً۔فنہ متی اعتقد انہ یجب علی الناس اتباع واحد بعینہ من ھؤلاء الأ ئمة دون المام الآخر فنہ یجب ن یستتاب فن تاب ولا قتل۔

(مختصر الفتاوی المصریہ ، ص: ٤٢)
(جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ فلان معین امام کا قول ہی درست ہے اور باقی تمام ائمہ کو چھوڑ کر ایک ہی کی بات کی پیروی کرنی چاھیئے تو جو بھی یہ عقیدہ رکھے وہ جاہل اور گمراہ ہے بلکہ بعض اوقات تو کافر بھی ہو جاتا ہے(یعنی اگر متشدد ومتعصب ہے) اس لیے جب کوئی یہ عقیدہ بنالے کہ لوگوں پر تمام ائمہ میں سے ایک ہی امام کی پیروی کرنا واجب ہے تو ضروری ہے کہ اس شخص سے توبہ کروائی جائے، توبہ کرلے تو ٹھیک ورنہ قتل کردیا جائے)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی مراد یہ ہے کہ جہاں سے حق مل جائے اُسے قبول کرلینا چاہیے جس امام کا قول دلیل کی بنیاد پر ہو اُس کی بات مان لی جائے اور اگر کوئی ایسا نہیں کرتا بلکہ ایک ہی کو پکڑ لیتا ہے کہ صحیح کہے تب بھی، غلط کہے تب بھی اُسی کی بات ماننی ہے ابن تیمیہرحمہ اللہ کے نزدیک وہ جاہل، گمرا ہ اور واجب القتل ہے۔ اسی بات کو آپکے ذہن کے قریب کرنے کیلئے میں ایک مثال دونگا کہ مثلاً قرآن مجید ﷲ کا دین ہے لہٰذا ﷲ تعالیٰ نے اسکی حفاظت کا بندوبست کیا ہے اسی طرح حدیث ہے یہ بھی سند کے ساتھ ہم تک پہنچی ہے اب اگر کوئی قرآن مجید میں ایک حرف کا اضافہ کردے یا ایک حرف کی کمی کردے تو آپ اس کے بارے میں کیا کہیں گے؟

یا قرآن مجید کی ایک آیت کو ماننے سے انکار کردے؟
یقینا آپ ایسے شخص کو بے دین، ملحد اور مرتد جیسے القاب دیں گے لیکن کیوں؟ اس لیے کہ قرآن ﷲ کا دین ہے اور وہ دین میں اضافہ یا کمی کر رہا ہے اور ﷲ تعالیٰ کا قانون اس حوالے سے بہت سخت ہے۔ ﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر محمد رسول ﷲ ﷺ کے بارے میں بھی فرمایا ہے کہ:

وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِیْلِ لَأَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ

(الحآقہ :٤٤،٤٥،٤٦)

(اگر آپ ﷺ بھی بالفرض اپنی سے کچھ باتیں بناکر ہماری طرف منسوب کردیں تو ہم آپکو اہنے ہاتھ سے پکڑ لیں گے اور پھر آپکی شہ ر گ کاٹ ڈالیں گے)
اگرچہ آپ ﷺ نے ایسا کرنا نہیں تھا لیکن آپ کی امت کو سبق دیا گیا کہ محتاط رہیں اب بھی اگر کوئی اپنے امام کے قول کو دین سمجھتا ہے تو کیا وہ دین میں اضافہ نہیں کر رہا جبکہ دین پہلے ہی مکمل ہے۔؟
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
دوسری فصل: امام مالک رحمہ اللہ کا منہج

امام مالک بن انس رحمہ اللہ مدینہ کے مشہور مام ہیں آپکی پیدائش ٩٣ھ ہجری کی ہے آپکی کتاب ''موطا'' ہے جس میں آپ نے نبی کریم ﷺ کی احادیث نہایت اعلیٰ اسانید کیساتھ جمع کی ہیں البتہ اس میں آپکے فتاوٰی بھی موجود ہیںاسی وجہ سے جب خلیفہ منصور نے امام مالک رحمہ اللہ کے سامنے اپنا ارادہ ظاہر کیا کہ میں چاھتا ہوں کہ آپ کی کتاب پر لوگوں کو جمع کردوں اور اسکے نسخے لکھوا کر ہر شہر میں ایک نسخہ بھجوادوں اور لوگوں کو حکم دے دوں کہ ''مؤطا'' پر عمل کریں۔ تو امام مالک رحمہ اللہ نے اُسے منع کیا اور کہا :

ن الناس قد جمعوا واطلعو علی اشیاء لم نطلع علیہا

(بے شک لوگ بہت سی روایات کو جمع کرچکے اور بہت سی چیزوں پر مطلع ہوچکے کہ جن پر ہم مطلع نہیں)

(ذکرہ ابن کثیر فی اختصار علوم الحدیث ص ٤٠ طبع دارالسلام مع الباعث الحثیث، وذکرہ الشاہ ولی اﷲ الدہلوی فی حجة اﷲ البالغہ بزیادت نقلاً عن السیوطی۔ حجة اﷲ البالغہ ١/١٤٥)

یعنی میرا علم کامل نہیں کہ میں لوگوں کو اپنے فتاویٰ کا پابند بناؤں۔ اس سے معلوم ہو اکہ امام مالک رحمہ اللہ نے لوگوں کو اپنی تقلید سے روکا ہے۔انکا مشہور قول ہے:

لیس احد بعد النبی ۖ لا ویؤخذ من قولہ ویترک لاّ النبی ۖ۔

(جامع بیان العلم ٢/٩١ فتاویٰ الدین الخالص ١/١٢، عقد الجید لشاہ ولی اﷲ ص ١٢٢ طبع محمد سعید اینڈ س

نز)(نبی کریم ﷺکے علاوہ ہر ایک کی بات لی بھی جا سکتی ہے اور چھوڑی بھی جاسکتی ہے)

یعنی دلیل کے ساتھ ہو تو لی جائے گی ورنہ چھوڑدی جائے گی۔

اسی طرح آپ فرمایا کرتے تھے:

انما انا بشراخطیٔ وأصیب، فانظروا فی رأیی کل ما وافق الکتاب والسنة فخذوا بہ، وما لم یوافق الکتاب والسنة فاترکوہ۔

(القول المفید للشوکانی ص ٢٣٥، فتاویٰ الدین الخالص ١/١٢)

(بے شک میں بشر ہوں غلطی بھی کرسکتا ہوں اور درست بات بھی کہہ سکتا ہوں لہٰذا تم میری آراء پر تحقیقی نظر ڈال لیاکرو ، جو بات بھی کتاب وسنت کے موافق ہو اُسے لے لو، اور جو بات کتاب وسنت کے مخالف ہو اُسے چھوڑ دو۔)

ثابت ہوا کہ امام صاحب اندھی تقلید کے مخالف ہیں اور انکا منہج یہی ہے کہ کتاب وسنت کی پیروی کی جائے۔
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
(٣) تیسری فصل: امام شافعی رحمہ اللہ کا منہج

امام صاحب کا پورا نام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ ہے آپکی پیدائش ١٥٠ھ کی ہے۔ آپ بھی بہت پائے کے امام ہیں آپ رحمہ اللہ نے امام مالک رحمہ اللہ سے کئی مرتبہ مؤطا پڑھی، آپ حدیث رسول ﷺکے بہت بڑے حامی تھے اور تقلید کے بہت بڑے مخالف۔آپکی کئی تصانیف ہیں جن میں حدیث کی کتاب مسند الشافعی، اصول فقہ کی پہلی کتاب ''الرسالہ'' اور کئی جلدوں پر مشتمل مسائل کی''کتاب الأم'' شامل ہیں۔آپ رحمہ اللہ سے بھی بہت سے اقوال نقل کئے گئے ہیں جو آپکے منہج کی وضاحت کرتے ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔

(١) آپکے شاگرد اسماعیل بن یحییٰ المزنی نے امام صاحب سے منقول مسائل کو اختصار کیساتھ ایک کتاب میں جمع کیا ہے اس کتاب کا نام ''مختصر المزنی'' ہے اسکے پہلے صفحہ پر ہی آپکے شاگرد لکھتے ہیں:

اختصرت ہٰذا الکتاب من علم محمد بن دریس الشافعی ومن معنی قولہ لأقربہ علی من رادہ مع علامہ نہیہ عن تقلیدہ وتقلید غیرہ

(مختصر المزنی ص ١، علام الموقعین ٢/٢٠٠)

(میں نے اس کتاب کو محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ کے علم اور اقوال میں سے مختصراً لکھا ہے تاکہ انکے علم کو چاہنے والوں کے قریب کردوں اس کے باوجود کہ امام صاحب نے لوگوں کو اپنی اور اپنے علاوہ دوسرے ائمہ کی تقلید سے منع کیا ہے)

(٢) امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

'' مثل الذی یطلب العلم بلا حجة کمثل حاطب لیل، یحمل حزمة حطب وفیہ فعی تلدغہ وہو لا یدری

( علام الموقعین ٢/٢٠٠)

(جو شخص بغیر دلیل کے علم حاصل کرتا ہے وہ اس شخص کی طرح ہے جو رات کو لکڑیاں جمع کرتا ہے۔ لکڑیوں کا ایک گٹھا باندھ کر اٹھاتا ہے جبکہ اُس میں سانپ ہے جو اُسے ڈس لیتا ہے اور اسے خبر بھی نہیں ہوتی)

(٣) شاہ ولی اﷲ الدہلویرحمہ اللہ اپنی معروف کتاب حجة اﷲ البالغہ میں امام شافعی رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

وروی الحاکم والبیہقی عن الشافعی انہ کان یقول: ذا صح الحدیث فھو مذھبی

(حجة اﷲ البالغہ ١/١٥٧)

(جب حدیث صحیح ثابت ہوجائے تو وہی میرا مذہب ہے)

(٤) اسی طرح امام شافعی رحمہ اللہ کا قول ہے :

کل مسألة صحّ فیہا الخبر عن رسول اﷲ ۖ عن اھل النقل بخلاف ماقلت فأنا راجع عنہا فی حیاتی وبعد موتی

(فتاویٰ الدین الخالص ١/١٣)

(ہر وہ مسئلہ جس میں میرے قول کے خلاف صحیح حدیث ثابت ہوجائے تو میں اُس قول سے رجوع کرتا ہوں اپنی زندگی میں بھی اور موت کے بعد بھی)
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
چوتھی فصل: امام احمد رحمہ اللہ کا منہج

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ بھی بہت بڑے محدث اور فقیہہ تھے اور عمل بالحدیث کے بے لاگ داعی تھے، آپکی پیدائش ١٦٤ھ میں ہوئی۔ آپ کی پوری زندگی ہی آپ کے منہج کی وضاحت کرتی ہے آپ نے حدیث کا بہت بڑا ذخیرہ جمع کیا جو کہ ''مسندأحمد'' کے نام سے معروف ہے اور اس میں تیس ہزار کے قریب احادیث ہیں آپ رحمہ اللہ سے بھی بہت سے اقوال ذکر کیئے گئے ہیں اختصار کے پیش نظر چند پیش خدمت ہیں۔

(١) آپ نے فرمایا:

لاتقلد نی ولا تقلد مالکاً ولا الثوری ولا الأوزاعی، وخذوا من حیث اخذوا

(علام الموقعین ٢/٢٠١، القول المفید ص ٢٦)

(نہ میری تقلید کرو، نہ مالک کی، نہ ثوری، نہ اوزاعی کی، بلکہ احکام کو وہاں سے لو جہاں سے انہوں نے لیا) یعنی کتاب وسنت سے۔

(٢) نیزفرمایا:

من قلة فقہ الرجل ان یقلد دینہ الرجال

(علام الموقعین ٢/٢٠١، القول المفید ص ٢٦)

(کسی شخص کی بے وقوفی کی یہ دلیل ہے کہ وہ اپنے دین کے بارے میں لوگوں کی تقلید کرے)

(٣) امام احمد رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ آپ کو مؤطا مالک زیادہ پسند ہے یا ''جامع سفیان'' تو آپ نے فرمایا:

لاذا ولاذا علیک بالأثر

(نہ یہ، نہ وہ، بلکہ لازم پکڑو حدیث کو)

(مناقب المام احمد لابن الجوزی ص ١٩٣، ١٩٤ بدعة التعصب المذھبی۔ ص ٩٩)

(٤) امام صاحب سے کسی نے سوال پوچھا کہ کیا میں رائے پر مشتمل کتاب لکھ سکتا ہوں؟

تو آپ نے اسے منع فرمایا۔ اُس نے کہا کہ ابن المبارک نے تو لکھی ہیں۔ آپ نے جواب دیا:

ابن المبارک لم ینزل من السمآئ، نماامرناان نأخذ العلم من فوق

(ابن مبارک کوئی آسمان سے نہیں اترے، ہمیں تو صرف اس بات کا حکم ہے کہ اوپر والوں سے علم حاصل کریں)

(بدعة التعصب المذھبی ص ٩٩)
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
(٥) پانچویں فصل: امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا منہج

آپکا پورا نام نعمان بن ثابترحمہ اللہ ہے۔ آپ کوفہ کے رہنے والے تھے، آپکی پیدائش ٨٠ ھ میں ہوئی آپکے زمانے تک حدیثیں ابھی جمع نہیں ہوئی تھیں اور نہ ہی آپ نے محدثین کے طرز پر سفر وغیرہ اختیار کیئے لہٰذا تقویٰ اور ذہانت وباریک بینی کے باوجود آپکے بیان کردہ مسائل میں سقم رہا، اگرچہ بہت سے مسائل جو تفریعات کے طور پر آپکے نام سے مشہور کیئے گئے، آپ اُن سے بری ہیں، البتہ آپکا منہج سلف والا ہی تھا اور آپ نے اپنے شاگردوں کی تربیت اسی منہج پر کی، حتی کہ ابو یوسف اور محمد بن الحسن نے اپنے استاذ ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے دوتہائی مسائل میں اختلاف کیا ہے۔ (نافع الکبیر ص ٤ لعبدالحی الکھنوی)

دیگرائمہ کی طرح آپ سے بھی بہت اقوال ملتے ہیں جن میں عمل بالحدیث کی طرف دعوت دی گئی ہے۔

(١) آپ رحمہ اللہ سے بھی یہ قول منقول ہے کہ:

اذا صح الحدیث فھو مذھبی

(رد المختار ١/٥٠، فتاویٰ دیوبند ١/٦٥)

(جب حدیث صحیح ثابت ہوجائے تو وہی میرا مذہب ہے)

ثابت ہوا کہ آپکا مذہب حدیث پر مبنی تھا۔

(٢) آپ رحمہ اللہ نے فرمایا:

لاینبغی لمن لم یعرف دلیلی ان یفتی بکلامی

(حجة اﷲ البالغہ ١/١٥٧، عقدالجید ١٢٢،١٢٣)

(جو شخص میری دلیل سے واقف نہیں اُس کیلئے یہ لائق نہیں کہ میرے کلام کے مطابق فتویٰ دے) یعنی میری تقلید نہیں کرنی بلکہ دلیل کی پیروی کرنی ہے۔

(٣) امام صاحب یہ بھی فرمایا کرتے تھے:

ان توجہ لکم دلیل فقولوا بہ

( در المختار ١/٥٠)

(اگر دلیل تمہارے سامنے آجائے تو اُسی کو اختیار کرو)

(٤) امام صاحب جب کوئی فتویٰ دیتے تو یہ بھی کہتے تھے:

ہٰذا رأی النعمان بن ثابت یعنی نفسہ وہواحسن ماقدرنا علیہ فمن جآء بأحسن فھواولیٰ بالصواب

(حجة اﷲ البالغة ١ /١٥٧ طبع :میر محمد)

(یہ نعمان بن ثابت کی رائے ہے اور یہ بہترین بات ہے جسکی ہم قدرت رکھتے ہیں البتہ جو اس سے بھی بہتر بات لے آئے تو اسکی بات صواب( یعنی درست) کہلائے جانے کی زیادہ حقدار ہے)

اور یہ بات یقینی ہے کہ قرآن وحدیث زیادہ بہتر ہیں لہٰذا اگر قرآن وحدیث امام صاحب کی بات سے ٹکرا جائیں تو انہیں ہی لیا جائے گا یہی امام صاحب کا منہج ہے باقی رہی یہ بات کہ امام صاحب نے قرآن وحدیث کے مطابق فتویٰ کیوں نہیں دیا؟ تو اسکا جواب یہ ہے کہ آپ معصوم عن الخطا نہیں تھے۔ آپ بھول بھی سکتے ہیں، غلطی بھی کرسکتے ہیں اور اس دلیل سے ناواقف بھی ہوسکتے ہیں لہٰذا آپ رحمہ اللہ معذور ہیں لیکن بعد میں آنے والے معذور نہیں کیونکہ اُن تک حدیثیں پہنچ چکی ہیں۔ اور بھی بہت سے اقوال ہیں لیکن ہم صرف اسی پر اکتفاء کرتے ہیں اور آخر میں مقلدین کا طرز عمل بھی بیان کرنا چاہتے ہیں کہ جو اپنے ائمہ کی ان تمام باتوں کو پس پشت ڈال کر انکی اندھی تقلید کیئے جارہے ہیں۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
چھٹی فصل: مقلدین کا جمود

(١) احناف کے مشہور امام کرخی اپنے چھوٹے سے رسالے '' صول کرخی '' میں رقمطراز ہیں:

الأصل ان کل آیة تخالف قول صحابنا فنہا تحمل علی النسخ او علی الترجیح والأولی ن تحمل علی التأویل من جہة التوفیق۔''

(أصول الکرخی ص ١٢)

اصول یہ ہے کہ ہر وہ آیت جو ہمارے ائمہ کے قول کے خلاف ہو اس آیت کو منسوخ سمجھا جائے گا یا اسے مرجوح قرار دیں گے ، اور بہتر یہ ہے کہ اس آیت کی ایسی تاویل کی جائے کہ وہ ہمارے ائمہ کے قول کے مطابق ہوجائے ۔

اسی پر بس نہیں بلکہ آگے لکھتے ہیں :

'' الاصل ن کل خبر یجئی بخلاف قول اصحابنا فنہ یحمل علی النسخ و علی نہ معارض بمثلہ ثم صار الی دلیل آخر، و ترجیح فیہ بما یحتج بہ صحابنا من وجوہ الترجیح ، و یحمل علی التوفیق ''

( صول الکرخی : ص ١٢)

(اصول یہ ہے کہ ہر وہ حدیث جو ہمارے ائمہ کے قول کی مخالف ہو اُسے نسخ پر محمول کیا جائے گا یا اس بات پر کہ وہ اپنی جیسی کسی حدیث کے معارض ہے اور امام صاحب دوسری دلیل کی طرف گئے ہونگے یا پھر اسی انداز سے اس حدیث کو مرجوح ثابت کیا جائے گا جس طرح ہمارے ائمہ کرتے آئے ہیں یا پھر اُس حدیث کا وہ معنی کیا جائے گا جو امام صاحب کے قول کے مطابق ہو)۔

اس پر تبصرے کی ضروت نہیں!!!

(٢)احناف کی مشہور کتاب ''درالمختار'' کے حاشیے 'ردالمختار'' میں اتنی جرأت کا مظاہرہ کیا گیا کہ عیسیٰ علیہ السلام کو بھی گویا کہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مقلد قرار دیا گیا جو کہ بہت بڑی گستاخی ہے۔ ''ردالمختار'' کے الفاظ کچھ یوں ہیں:

قد جعل اﷲ الحکم لصحابہ وأتباعہ من زمنہ لیٰ ہٰذاالأیام لیٰ ن یحکم بمذھبہ عیسیٰ علیہ السلام۔

(ردالمختار ١/٤٢)

''ثابت شدہ بات ہے کہ ﷲ تعالیٰ نے حکومت اور قضاء ابوحنیفہ کے شاگردوں اور ماننے والوں کو عطا فرمادی ہے آپکے زمانے سے لیکر آج تک قضاء وغیرہ کے محکمے انہی کے پاس رہے ہیں حتیٰ عیسیٰ علیہ السلام بھی آکر ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے فقہی مذھب کے مطابق ہی حکومت کریں گے'' ۔

نعوذ باﷲ من ذٰلک اس سے زیادہ تبصرہ ہم نے نہیں کرسکتے۔

نوٹ: اس بات سے اُن لوگوں کے مؤقف کی تائید بھی ہوتی ہے، جن کا کہنا ہے کہ مذہب حنفی کے فروغ سبب اسکا ذاتی کمال نہیں بلکہ حکومتی سرپرستی ہے اور اگرابویوسفرحمہ اللہ نہ ہوتے تو حنفی مذہب کا جاننے والا بھی کوئی نہ ہوتا۔ اور حقیقت بھی یہی کہ فقہ حنفی باقی تین مسالک کے مقابلے میں حدیث سے زیادہ دور اور اسکے ماننے والوں کی حالت بھی ایسی ہی ہے کہ صحیح ترین احادیث مل جانے کے بعد بھی ''میں نہ مانوں'' کی رٹ لگاتے ہیں۔ لا من ہداہ ﷲ۔

(٣) حنفی فقہ کی معتبر کتاب ''ردالمختار'' ہی میں لکھا ہے:

فلعنة ربنا عداد رمل علی من رد قول ابی حنیفة

(ردالمختار ١/٤٧)

(ہمارے رب کی لعنتیں ہوں ریت کی ذرات کے برابر اس شخص پر جو ابو حنیفہ کے قول کو رد کرے۔)

اس قول کے تبصرے میں ہم یہی کہیں گے کہ:

ﷲ کی لعنتیں ہوں ریت کے ذرات سے زیادہ، آسمان کے تاروں سے زیادہ، پانی کے قطرات سے زیادہ، درختوں کے پتوں سے زیادہ، تمام مخلوقات کی تعداد سے زیادہ اس شخص پر جو جان بوجھ کر محمد رسولﷲ ﷺ کے قول کو رد کرے۔ آمین

(٤) احناف کے جمود کا اندازہ مولانا محمودالحسن صدر مدرس مدرسہ دیوبند کے اس قول سے بھی ہوتا ہے جو انہوں نے اپنی کتاب ایضاح الادلہ میں تحریر کیا ہے، کہتے ہیں:

سوائے امام اور کسی کے قول سے ہم پر حجت قائم کرنا بعید از عقل ہے۔

(ایضاح الادلہ ص: ٢٧٦ مطبع قاسمی مدرسہ دیوبند نیز ایچ ایم۔ سعید سنز کراچی کی مطبوعہ ایضاح الادلہ کے ص: ٢٨٩ پر یہ عبارت موجود ہے)

یعنی ہم مقلد ہیں اور ہمارے لئے امام کا قول ہی حجت ہے، دوسرے امام کا قول اگر صحیح بھی ہو تو ہم نہیں مانیں گے اور عملی طور پر محمودالحسن دیوبندی صاحب نے ایسا کیا بھی ہے اور یہ ہمارا پانچواں پوائنٹ ہے۔

(٥) التقریر للترمذی میں مولانا محمودالحسن دیوبندی کا قول ہے کہ وہ ایک مسئلہ بیان کرنے کے بعد کہ جس میںامام شافعی اورامام ابو حنیفہ کا باہمی اختلاف ہے، مسئلہ یہ ہے کہ شافعی کہتے ہیں کہ خرید و فروخت کرنے والے جب تک ایک مجلس میں ہوں تو دونوں کو اختیار ہے کہ مجلس برخواست ہونے سے پہلے اس سودے کو منسوخ کردیں، جبکہ ابو حنیفہ کا موقف یہ ہے کہ جب سودا طے ہو گیا تو اختیار ختم۔ امام شافعی کا مؤقف احادیثِ کثیرہ و صحیحہ کے مطابق ہے جس کا اعتراف محمودالحسن صاحب بھی کرتے ہیں، ان کے الفاظ یہ ہیں:

''الحق والانصاف ن الترجیح للشافعی فی ہٰذہ المسلة و نحن مقلدون یجب علینا تقلید امامنا بی حنیفہ''

(التقریر للترمذی ص: ٤٩، مکتبہ رحمانیہ لاہور)

(حق اور انصاف کی بات یہ ہے کہ امام شافعی کو اس مسئلہ میں ترجیح حاصل ہے لیکن ہم کیونکہ مقلد ہیں لہٰذا ہم پر اپنے امام ابو حنیفہ کی تقلید واجب ہے۔)

اس بات پر تبصرہ صرف اس آیت سے ہوگا:

فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ ِلَّا الضَّلَالَ (یونس/٣٢)

(حق کے بعد صرف گمراہی ہے)

(٦) یہی مولانا محمودالحسن صاحب فرماتے ہیں:

قولِ مجتہد بھی قول رسولﷲ ﷺ ہی شمار ہوتا ہے۔

(تقاریر حضرت شیخ الہند ص: ٧٤ طبع ادارة تالیفات اشر فیہ ملتان)

کیا یہ بات مجتہد کو رسول ﷲ ﷺ کا مقام دینے کے مترادف نہیں؟

(٧) حنفی فقہ کی معتبر ترین کتاب کنزالدقائق میں لکھا ہے کہ اگر کوئی ذمی کافر جزیہ دینے سے انکار کردے یا مسلمان عورت سے زنا کرے یا مسلمان کو قتل کرے یا نبی ﷺ کو گالی دے تو اس کا ذمہ نہیں ٹوٹتا۔ حالانکہ صحیح بات یہ ہے کہ مذکورہ صورتوں میں خصوصاً نبی کریم ﷺ کو گالی دینے سے ذمہ ٹوٹ جاتا ہے۔ ابن تیمیہ نے ایک جامع کتاب ''السیف المسلول علی شاتم الرسول'' کے عنوان سے تحریر فرمائی ہے۔ کنز الدقائق کے شارح ابن نجیم نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے وہ کہتے ہیں:

نعم نفس المؤمن تمیل لیٰ قول المخالف فی مسئلة السب لکن تباعنا للمذہب واجب۔

(البحرالرائق شرح کنزالدقائق ٥/١١٥)

ہاں! مؤمن کا دل تو اس گالی والے مسئلہ میں قولِ مخالف کی طرف مائل ہوتا ہے لیکن مذہب (فقہ حنفی) کی اتباع کرنا ہمارے لئے واجب ہے)

جب ان کے بڑے ہی تقلیدِ جامد کا شکار ہیں تو چھوٹوں کا کیا حال ہوگا؟ جیسا کہ اشرف علی تھانوی صاحب بھی اقرار کرتے ہیں اور یہ ہمارا آٹھواں نکتہ ہے۔

(٨) تھانوی صاحب لکھتے ہیں:

اکثر مقلد عوام بلکہ خواص اس قدر جامد ہوتے ہیں کہ اگر قولِ مجتہد کے خلاف کوئی آیت یا حدیث بھی کان میں پڑتی ہے تو ان کے قلب میں انشراح و انبساط نہیں رہتا بلکہ اول استنکارِقلب پیدا ہوتا ہے، پھر تاویل کی فکر ہوتی ہے خواہ کتنی ہی بعید کیوں نہ ہو، خواہ دوسری دلیل قوی اس کے معارض ہو بلکہ مجتہد کی دلیل اس مسئلہ میں بجز قیاس کے کچھ بھی نہ ہو بلکہ خود دل میں اس تاویل کی وقعت نہ ہو مگر نصرت مذہب کے لئے تاویل ضروری سمجھتے ہیں، دل یہ نہیں مانتا کہ قولِ مجتہد کو چھوڑ کر حدیث صحیح صریح پر عمل کریں۔

(تذکرة الرشید ص: ١٣٠، ١٣١)

(٩) یہی بات علامہ محمد حیات سندھی لکھتے ہیں:

وتراہم یقرؤون کتب الحدیث و یطالعونہا ویدرسونہا لا لیعملوا بھا بل لیعلموا دلائل من قلد وہ و تاویل ما خالف قولہ و یبالغون فی المحامل البعیدة، و ذا عجزوا عن المحمل قالوا من قلدنا علم منا بالحدیث۔

(تحفة النام ص: ٢٦، الیقاظ ص: ٧١)

(آپ دیکھیں گے کہ یہ لوگ احادیث کی کتابیں پڑھتے ہیں، ان کا مطالعہ کرتے ہیں انہیں پڑھاتے بھی ہیں لیکن اس لئے نہیں کہ ان احادیث پر عمل کریں بلکہ اس لئے کہ ان کے امام کے دلائل معلوم ہوجائیں اور جو احادیث امام کے قول کے خلاف ہوں ان کی تاویل کریں اور تاویلیں بھی بڑی دور کی کرتے ہیں اور جب تاویل سے عاجز آجائیں تو کہتے ہیں کہ ہمارا امام ہم سے زیادہ حدیث کو جانتا تھا۔)

(١٠) مقلدین کے نزدیک ان کے امام اور اس کے قول کی اہمیت آپ نے گذشتہ اقوال سے معلوم کر لی، اب ذرا حدیث رسول ﷺ کی حیثیت بھی ان سے معلوم کرتے ہیں کہ امام صاحب کے قول کا تو بہت پاس اور لحاظ ہے۔ قول رسول اﷲ ﷺ کا جناب کے ہاں کیا مقام ہے! فتاویٰ عالمگیری (جسے پانچ سو حنفی علماء نے مل کر لکھا ہے) اس میں تحریر ہے کہ:

طلب الاحادیث حرفة المفالیس۔

(فتاویٰ عالمگیری ٥/٢٧٧)

(احادیث کو طلب کرنا اور سیکھنا مفلسوں کا پیشہ ہے۔)

انہی دس نکات پر ہم اپنی بات ختم کرتے ہیں۔


اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی

ہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا


ہماری دعا کہ ﷲ تعالیٰ ہمارے ان معصوم بھائیوں کو تقلید سے نجات دے جو محض اس گمان پر تقلید کر رہے ہیں کہ ہمارا امام ہمیں ﷲ اور اس کے رسول ﷺ ہی کی بات بتلاتا ہے، بلاشبہ ائمہ اور علماء دین کے روشن چراغ ہیں لیکن محمد رسول ﷺ تو آسمانِ ہدایت کے آفتاب ہیں۔ جس طرح سورج کی موجودگی میں چراغوں سے روشنی طلب کرنا بے وقوفی ہے اسی طرح احادیث کے ہوتے ہوئے ائمہ کے اقوال کی پیروی کرنا بے عقلی ہے جیسا کہ ہم نے تمہید میں عرض کیا کہ ہماری وفاداریاں غیر مشروط طور پرﷲ اور اس کے رسول ﷺ کیلئے ہیں اور ہمیں صحیح حدیث پر عمل کرنے کیلئے کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں کہ یہ حدیث کی توہین ہے۔ اگر حدیث پر عمل کرنے کی وجہ سے دنیا والوں کی مخالفت اور دشمنی کا خطرہ ہو تو ﷲ اور اس کے رسولﷺ کی خاطر اس دشمنی کو برداشت کیجئے اور عربی شاعر کا یہ قول گنگناتے ہوئے دنیا و ما فیہا کو لات مار دیجئے۔ ع


فلیتک تحلو و الحیاة مریرة

ولیتک ترضی والنام غضاب

ولیت الذی بینی و بینک عامر

وبینی و بین العالمین خراب

ذا صح منک الود فالکل ہین

وکل الذی فوق التراب تراب۔


(اے ﷲ!) کاش کہ تو میرے لئے میٹھا ہوجائے جبکہ میری زندگانی کڑوی ہو چکی ہے۔ اور کاش کہ تو مجھ سے راضی ہوجائے جبکہ لوگ ناراض ہو چکے ہیں۔ اور کاش میرا تعلق تیرے ساتھ بنا رہے جبکہ میرے اور دنیا والوں کے تعلقات بگڑ چکے ہیں، جب تیری محبت مجھے حاصل ہوجائے تو سب آسان ہے اور مٹی پر بسنے والی ہر چیز میرے لئے مٹی(بے حیثیت) ہے۔

بشکریہ ماہنامہ دعوت اھل حدیث
 
Top