• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

٭٭ خواتین کی نماز اور چند مسائل اورعورت کا نماز کے لئے مسجد میں جانا ٭٭

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
شروط خروج المرأة إلى المسجد
عورت کیلئے مسجد جانے کی شرائط
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوال:
کیا خواتین مسجد میں محرم کے بغیر تہجد کی نماز کیلئے جاسکتی ہیں؟ یعنی مسجد گھر کے پڑوس میں ہے، گھر کے مرد حضرات تہجد نہیں پڑھتے۔

جواب :

الحمد للہ:

مخصوص شرائط کے ساتھ خواتین مسجد میں نماز کیلئے جا سکتی ہیں، تاہم ان شرائط میں محرم کا ساتھ ہونا شامل نہیں ہے، چنانچہ بغیر محرم کے مسجد میں جانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

جید اور مستند سعودی علماء کی دائمی فتوی کمیٹی (7/332) کے فتاوی میں ہے کہ:
"خواتین کیلئے مساجد میں نماز ادا کرنا جائز ہے، اور مرد حضرات اپنی بیویوں کو مسجد میں نماز ادا کرنے کی اجازت مانگنے پر منع نہیں کر سکتے، بشرطیکہ خاتون پردہ میں ہو، اور اس کے جسم سے کوئی ایسی جگہ نظر نہ آئے جسے اجنبی لوگوں کیلئے دیکھنا جائز نہ ہو؛ کیونکہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ : "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: (جب تمہاری بیویاں مسجد میں جانے کی اجازت مانگیں تو انہیں اجازت دے دو)" اور ایک روایت میں ہے کہ : (عورتیں اگر مسجد میں آ کر [نماز ]کی اجازت مانگیں تو انہیں مت روکو) تو بلال -یہ عبد اللہ بن عمر کے بیٹے ہیں- نے کہا : "اللہ کی قسم! ہم تو انہیں روکیں گے" تو عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: "میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور تم کہتے ہو ہم ضرور روکیں گے!!" ان دونوں روایات کو مسلم نے نقل کیا ہے۔

تاہم اگر بے پردہ ہو اور اس کے جسم کا ایسا حصہ عیاں ہو رہا ہو جو اجنبی نظروں کیلئے حرام ہو ، یا خوشبو لگائی ہوئی ہو تو اس حالت میں اس کیلئے گھر سے باہر نکلنا بھی منع ہے، مسجد میں جا کر نماز ادا کرنا تو بعد کی بات ہے؛ کیونکہ اس میں فتنے کا خدشہ ہے، اور اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ:
وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ
ترجمہ: اور اے نبی ! مومن عورتوں سے فرما دیں کہ اپنی نظریں جھکا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ، اپنا بناؤ سنگھار ظاہر نہ کیا کریں ۔ مگر جو اس میں سے ظاہر ہو جائے اور اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبان پر ڈالے رکھیں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں کے لیے۔ [النور : 31]

اسی طرح فرمایا:
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا
ترجمہ: اے نبی اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے فرما دیں کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں، یہ بہت ہی مناسب ہے تاکہ وہ پہچانی جائیں اور انہیں اذیت نہ پہنچائی جائے، اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور نہایت مہربانی فرمانے والا ہے ۔[الأحزاب : 59]

اور یہ بات ثابت ہے کہ صحابیہ سیدہ زینب ثقفیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: (جب تم میں سے کسی نے عشاء کی نماز کیلئے حاضر ہونا ہو تو اس رات خوشبو مت لگائے) اور ایک روایت میں ہے کہ: (جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے تو خوشبو مت لگائے) ان دونوں روایات کو مسلم نے نقل کیا ہے۔

اسی طرح صحیح احادیث میں ثابت ہے کہ صحابہ کرام کی خواتین فجر کی نماز کیلئے اپنی چادروں میں لپٹ کر اور چہرہ ڈھانپ کر حاضر ہوتی تھیں، اور انہیں کوئی پہچان نہیں پاتا تھا، یہ بھی ثابت ہے کہ عمرہ بنت عبد الرحمن کہتی ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے ہوئے سنا: "اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج عورتوں کی کارستانیاں دیکھ لیتے تو انہیں مسجد میں آنے سے منع فرما دیتے جیسے بنی اسرائیل کی خواتین کو منع کیا گیا تھا" راوی کہتے ہیں میں نے عمرہ سے پوچھا: "کیا بنی اسرائیل کی خواتین کو مسجد میں آنے سے روکا گیا تھا؟" تو انہوں نے کہا: "ہاں !" اسے بھی مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔

ان تمام نصوص میں واضح دلالت ہے کہ مسلمان عورت اپنے لباس سے متعلق اسلامی آداب ملحوظِ خاطر رکھے، اور ایسی چیزوں سے اجتناب کرے جن کی وجہ سے کمزور ایمان لوگوں کی نظروں اور دلوں کیلئے کشش پیدا ہو تو اسے مسجد میں نماز پڑھنے سے روکا نہیں جا سکتا، اور اگر کوئی خاتون دوسروں کی نظروں میں پرکشش اور دلکش انداز میں سامنے آئے تو انہیں مسجد میں داخل نہ ہونے دیا جائے، بلکہ گھروں سے نکلنے کی اجازت نہ دی جائے" انتہی

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ "مجموع الفتاوى" (14/211) میں کہتے ہیں:
"خواتین نماز تراویح میں شرکت کیلئے مسجد میں آسکتی ہیں، بشرطیکہ فتنے سے محفوظ رہیں، چنانچہ انہیں پر وقار ، مکمل پردے کا اہتمام کرتے ہوئے بغیر خوشبو لگائے مسجد کی طرف آنا چاہیے" انتہی

شیخ بکر ابو زید رحمہ اللہ نے اپنی کتاب: "حراسة الفضيلة" (ص86) میں خواتین کے مسجد میں حاضر ہونے کی شرائط جمع کی ہیں چنانچہ آپ کہتے ہیں:
"خواتین کو مسجد جانے کیلئے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت درج ذیل احکام کی روشنی میں دی جائے گی:

1- خواتین خود بھی اور دوسرے لوگ بھی فتنے سے محفوظ رہیں۔

2- خواتین کے حاضر ہونے سے کوئی شرعی قباحت پیدا نہ ہو۔

3- راستے میں اور جامع مسجد میں مردوں کے سامنے مت آئیں۔

4- خوشبو مت لگائیں۔

5- مکمل پردے میں اور اپنی زینت چھپا کر گھر سے باہر نکلیں۔

6- مساجد میں خواتین کیلئے الگ سے دروازہ ہو، اور وہیں سے خواتین آئیں جائیں، جیسے کہ اس بارے میں سنن ابو داود وغیرہ میں خصوصی ارشاد بھی ہے۔

7- عورتوں کی صفیں مردوں کے پیچھے ہوں۔

8- مردوں کے بر عکس خواتین کیلئے آخری صف بہتر ہے۔

9- اگر امام نماز میں بھول چوک جائے تو مرد سبحان اللہ کہے، جبکہ عورت ہاتھ پر ہاتھ مارے۔

10- مسجد سے خواتین مردوں سے قبل چلی جائیں، اور مرد خواتین کے گھروں تک پہنچ جانے کا انتظار کریں، جیسے کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی صحیح بخاری وغیرہ میں موجود حدیث میں ہے"

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
عورت کےلیے با جماعت نماز ادا کرنے کا حکم

محترم حافظ اخترعلی حفظہ اللہ

ہمارے ہاں عورت کا مسجد میں جاکر نماز باجماعت اداکرنے کے بارے میں مختلف لوگوں میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں لہذا ان تمام آراء کو مدنظر رکھتے ہوئے اور ان کے دلائل کوملحوظ خاطر رکھتے ہوئے غیرجانبدرانہ موقف کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے لہذا درخواست یہ ہے کہ اس کوشش کو تقلیدی ذہن یا تعصب کی وجہ سے رد کرنے کی بجائے سوچ وبچار کی اگر زحمت کی جائے گی تو ان شاء اللہ فائدہ ہو گا۔

عورتوں کے لیے با جماعت نمازکی ادائیگی کے حوالے سے دو مسئلے سامنے آتے ہیں :
1- عورتوں کا مسجد میں با جماعت نماز کی ادائیگی کا حکم
2- عورتوں کا گھرمیں نمازکی ادائیگی کے لیے جماعت کا حکم

عورتوں کا مسجد میں با جماعت نماز کی ادائیگی کا حکم
عورتوں کاجامع مسجد میں با جماعت نماز کی ادائیگی کے لیے گھروں سے نکلنے کےبارے میں جائز ناجائزکاحکم لگانے سے پہلےفقہائے کرام کی رائے اور ان کے نقطۂِ نظر کا اجمالی خاکہ پیش خدمت ہے:
فقہائے کرام کی ایک جماعت عورت کی عمر کو مد نظر رکھتے ہوے یہ تفریق کرتی ہے کہ عورت بوڑھی عمر رسیدہ ہے یا جواں سال اور اگر بوڑھی ہےتوفقہاء کی ایک جماعت اسے با جماعت نمازکی ادائیگی کے لیے مسجد جانے کی اجازت دیتی ہے۔ اور اگر جوان ہے تو اسے جانے کی اجازت نہیں۔ بلکہ بعض فقہاء نے تو بوڑھی عورت کو بھی مسجد جانے کی اجازت نہیں دیتے۔اور فقہائے کرام کی ایک جماعت عورتوں کو مسجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی کی حجاب اور آداب شریعت کو مد نظر رکھ کر نکلنے سے مشروط اجازت دیتے ہیں ۔
در اصل اس اختلاف کے پیچھے عورت کے گھر سے نکلنے سے پیدا ہونے والے مفاسد کا انسداداور کسی فتنہ کے جنم لینے سے پہلے حفظ ماتقدم کا جذبہ کارفرماہے۔

فقہائے کرام کے نقطۂِ نظرکے اجمال کی تفصیل درج ذیل ہے:
پہلاقول: فقہائے احناف جوان عورت کوکلی طور پرمسجد جانے سےبالاتفاق منع کرتے ہیں ۔لیکن اگرعورت بوڑھی ہے تو صاحبین کے نزدیک تمام نمازیں اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک صرف نماز ظہر ،عصر اور جمعہ مسجدمیں ادا کرسکتی ہے ۔( )

دوسرا قول: فقہائے مالکیہ کہتے ہیں کہ بڑی عمرکی عورت جس میں مردوں کے لیےدلچسپی اور آرزو نہیں رہی وہ مسجد جا سکتی ہے، اگر مردوں کے لیے اس میں کوئی آرزو اور دلچسپی باقی ہے تو وہ وقتا فوقتا جاسکتی معمول نہیں بنا سکتی اور جوان عورت اگر زیب و زینت کا اظہارنہیں کرتی تو مسجد جاسکتی ہے لیکن اس کے لیے اولی یہ ہے کہ وہ گھر میں نماز پڑھے اور اگروہ زیب و زینت کا اظہار کرتی تو اس کے لیےمسجد جانا جائزنہیں۔( )

تيسرا قول: فقہائے شوافع کہتے ہیں کہ عورتوں پر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا فرض ہے نہ فرض کفایہ لیکن بوڑھی عورتوں کے لیے مردوں کی جماعت کے ساتھ مسجدمیں نماز ادا کرنا مستحب ہے اور نوجوان عورتوں کے لیے مکروہ ہے اور مزید اس کی تفصیل یوں بیان کرتے ہیں کہ عمررسیدہ اور ایسی عورتوں کے لیےمسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا جائز ہے جن کی شخصیت پر کشش نہ ہو کہ وہ مردوں کےلیےکسی میلان کا باعث بنیں ،لیکن اگر وہ کسی توجہ کا مرکز بنتی ہیں تو پھر ان کانماز کر لیے گھروں سے نکلنااور اس کو معمول بنا لینا مکروہ ہے ۔ ( )

بعض فقہاء عیدین کی نمازوں کے علاوہ بقیہ تمام نمازوں کے لیے نوجوان عورت کامسجد جانا مکروہ جانتے ہیں۔ ( )
چوتھا قول: اور فقہائے حنابلہ کے مشہور مذہب کے مطابق نوجوان عورت کے لیے مسجد میں با جماعت نماز پڑھنا مکروہ اور بوڑھی عورت کے لیے جائز ہے، ایک روایت کے مطابق بغیر کسی امتیاز اور تقسیم کے تمام عورتوں کے لیےمساجد میں با جماعت نماز پڑھنا مباح ہے ۔( )
عورتوں کا مسجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی کے بارے میں فقہاء کا درجہ بالا نقظۂِ نظرسے ایک چیز قدرے مشترک ہے کہ اگر عورت بوڑھی ہے تو اس کے لیے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد جانا جائز ہے اور اگر وہ جوان ہے تو اس کے لیے مسجد جانا مکروہ ہے۔فقہاء نے جن اپنے مذکورہ موقف کو جن دلائل سے استدلال کیا ہے،درج ذیل ہیں:
1- عن ابن عُمَرَ رضي الله عنهما عن النبي صلي الله عليه وسلم قال إذا اسْتَأْذَنَكُمْ نِسَاؤُكُمْ بِاللَّيْلِ إلى الْمَسْجِدِ فَأْذَنُوا لَهُنَّ. ( )
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رسو ل اللہ ﷺسے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا : جب تم سے تمہاری عورتیں رات کے وقت مسجد جانے کی اجازت مانگیں تو انھیں اجازت دے دو۔‘‘

2- عن أبي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ الله صلي الله عليه وسلم قال لَا تَمْنَعُوا إِمَاءَ الله مَسَاجِدَ الله وَلَكِنْ لِيَخْرُجْنَ وَهُنَّ تَفِلَاتٌ( )
’’حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺے فرمایا: اللہ کی لونڈیوں کو مسجدوں سے نہ روکو لیکن انہیں چاہیے کہ وہ خوشبو کے بغیر نکلیں۔‘‘

3- عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَتْ قَالَ لَنَا رَسُولُ الله -صلى الله عليه وسلم- « إِذَا شَهِدَتْ إِحْدَاكُنَّ الْمَسْجِدَ فَلاَ تَمَسَّ طِيبًا ( )
’’حضرت زینب زوجہ عبداللہ روایت کرتی ہیں کہ رسو ل اللہﷺنے ہم سےفرمایا: جب تم میں سے کوئی مسجدآنے کا ارادہ کرے تو وہ خوشبو نہ لگائے ۔‘‘
4- عن أبي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم أَيُّمَا امْرَأَةٍ أَصَابَتْ بَخُورًا فلا تَشْهَدْ مَعَنَا الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ ( )
’’حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺنے فرمایا کہ جو عورت خوشبو لگائے وہ ہمارے ساتھ عشاء کی نماز میں حاضر نہ ہو۔‘‘
5- عن بن عُمَرَ رضي الله عنه قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم لَا تَمْنَعُوا نِسَاءَكُمْ الْمَسَاجِدَ وَبُيُوتُهُنَّ خَيْرٌ لَهُنَّ. ( )
’’حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺنے فرمایا : اپنی عورتوں کو مسجدوں میں سے نہ روکو اور ان کے گھر ان کے لیے بہتر ہیں۔‘‘
6- عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهَا سَمِعَتْ عَائِشَةَ رضي الله عنها زَوْجَ النَّبِىِّ تَقُولُ لَوْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلي الله عليه وسلم رَأَى مَا أَحْدَثَ النِّسَاءُ لَمَنَعَهُنَّ الْمَسْجِدَ كَمَا مُنِعَتْ نِسَاءُ بَنِى إِسْرَائِيلَ.قَالَ فَقُلْتُ لِعَمْرَةَ أَنِسَاءُ بَنِى إِسْرَائِيلَ مُنِعْنَ الْمَسْجِدَ قَالَتْ نَعَمْ. ( )
’’عمرہ بنت عبد الرحمن سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت عائشہ سے سنا آپ فرماتی تھیں اگر رسو ل اللہ ﷺدیکھ لیتے جو عورتوں نے (زیب وزینت خوشبو اور زرق برق کپڑے )ایجاد کر لیے ہیں تو وہ ضرور ان کو مسجدوں سے منع کر دیتے جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا۔ راوی کہتے ہیں ۔میں نے عمرہ سے کہا کیا بنی اسرائیل کی عورتوں کو مسجدوں سے روک دیا گیا تھاتو انھوں کہا: ہاں۔‘‘
7- عن عَائِشَةَ رضي الله عنها عَنِ النبي صلي الله عليه وسلم قال لا تَمْنَعُوا إِمَاءَ الله مَسَاجِدَ الله وَلْيَخْرُجْنَ تَفِلاَتٍ قالت عَائِشَةُ : وَلَوْ رَأَى حَالَهُنَّ الْيَوْمَ مَنَعَهُنَّ( )
’’ام المومنین عائشہ نبی کریم ﷺسے بیان کرتی ہیں کہ آپؐ نے فرمایا : اللہ تعالی کی بندیوں کو مسجدوں میں جانے سے نہ روکو، اور انہیں بھی چاہیے کہ وہ بغیر خوشبو کے (گھروں سے) نکلیں، حضرت عائشہ فرماتی ہیں: اگر رسول اللہ ﷺآج ان کا حال دیکھتے تو انہیں (مسجدوں میں جانے سے) منع فرماتے۔‘‘
8- عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنه قَالَ قَالَ رَسُولُ الله صلي الله عليه وسلم « لاَ تَمْنَعُوا النِّسَاءَ مِنَ الْخُرُوجِ إِلَى الْمَسَاجِدِ بِاللَّيْلِ ». فَقَالَ ابْنٌ لِعَبْدِ الله بْنِ عُمَرَ لاَ نَدَعُهُنَّ يَخْرُجْنَ فَيَتَّخِذْنَهُ دَغَلاً. قَالَ فَزَبَرَهُ ابْنُ عُمَرَ وَقَالَ أَقُولُ قَالَ رَسُولُ الله صلي الله عليه وسلم وَتَقُولُ لاَ نَدَعُهُنَّ. ( )
’’حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسو ل اللہﷺ نے فرمایا : عورتوں کو رات کے وقت مسجدمیں جانے سے نہ روکو ۔ عبداللہ بن عمر کے بیٹے نے کہا کہ ہم ان کو نہیں چھوڑیں گے کہ وہ نکلیں اور کو فتنہ فساد پیدا کریں۔راوی کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن عمر نے ان کو ڈانٹ پلائی اور کہا کہ میں کہتا ہوں کہ رسو ل اللہ ﷺنے کہا اور تو کہتا ہے کہ ہم انھیں ضرور روکیں گے۔ ‘‘
درجہ بالا احاديث كو جمع اور تطبیق دی جائے تو مندرجہ ذیل نکات سامنے آتی ہیں
1- عورتوں کے اولیاء اور ذمہ دران کو حکماً کہا گیاہے کہ جب خواتین سےکسی قسم کی خوشبو کی مہک محسوس نہ ہورہی تم انہیں مسجد جانے سے نہ روکویہاں تک کہ اگر وہ نمازعشاء کی ادائیگی کے لیے بھی جانا چاہیں تو تم انہیں منع نہ کرو۔
2- جہاں رسول اللہ ﷺنے خواتین کے ذمہ دران کو انہیں مسجد جانے سے منع کرنے سے روکا ہے وہاں خواتین کو بھی یہ ارشادکر دیا ہے (وَبُيُوتُهُنَّ خَيْرٌ لَهُنَّ)کہ ان کا گھروں میں نماز پڑھنا زیادہ بہتر ہے ۔
اسی طرح اگر ایک طرف خواتین کے ذمہ دران کو انہیں مسجد جانے سے منع کرنے سے روکا ہے تو دوسری طرف خواتین کو بھی مسجد جانے کے آداب کی ہدایت اورتعلیمات دےدی ہیں کہ اگروہ مسجد جانا چاہیں تو خوشبواستعمال نہ کریں،اور اگر وہ خوشبو سےمعطر ہیں تو مسجد جانے سے گریزکریں ،لیکن اگر خوشبو استعمال کر چکی ہوں اور مسجد بھی جانا چاہتی ہوں تو ان پر واجب ہے کہ وہ غسل جنابت کی طرح کا غسل کرکے مسجد جائیں ۔

رسول اللہ ﷺکی رحلت کے کچھ عرصہ بعد جب مختلف فتنوں نے جنم لیا تو ام المؤمنین سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ اگر آج رسول اللہﷺ ہوتے تو جن اسباب(زیب وزینت ، خوشبو کا استعمال اور کپڑوں کی نمائش وغیرہ) کی وجہ سے بنی اسرائیل کی عورتوں کو مساجد جانے سے منع کیا گیا تھا ان کی بنا پر ہماری عورتوں کو بھی مسجد جانے سےمنع فرما دیتے ۔

اور شاید اسی وجہ سے حضرت بلال کا اپنے باپ حضرت عبد اللہ بن عمر سے تکرار ہو گیا، حضرت عبد اللہ بن عمر نے چونکہ رسول اللہﷺ سے براہ راست کسب فیض کیا تھا ، رسول اللہ ﷺنے اگر کوئی عورت مسجد جاناچاہے تو اسے روکنے سےمنع فرمایا لیکن کچھ عرصہ بعدجب مختلف فتنوں نے سر اٹھایا تو حضرت بلال بن عبد اللہ نے حلفا کہا کہ ہم انہیں ضرور روکیں گے۔

جہاں آپؐ سے عورتوں کے گھر میں نماز پڑھنے کی فضلیت ثابت ہے وہاں صحابیات کا رسول اللہﷺ کے پیچھے نماز پڑھنا بھی ثابت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ آپؐ نے عورتوں کو مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کے لیے آنے جانے کے آداب کی تعلیم بھی ثابت ہے اور صحابہ کو ان کے مسجد آنے سے منع کرنے سے بھی روکا ہے۔
فقہائے کرام کا نقطۂِ نظر جاننے کے بعد جو چیز بطور خاص عیاں ہوتی ہے وہ فقہ اسلامی کا اصولی اور بنیادی قاعدہ ہے :
درء المفاسد أولی من جلب المصالح .مفاسد کا دفع کرنا مصلحت کے حصول سے اولی ہے۔
لہذا اگر کسی قسم کے فتنے کا ڈر ہو تو ان کا گھروں میں نماز پڑھنا افضل ہے ۔ بصورت دیگر اگر وہ عام حالات میں مسجدجانا چاہیں تو انہیں روکا نہ جائے او ر انہیں بھی چاہیے کہ وہ زرق برق کپڑوں کی نمائش ، زیب و زینت کے اظہارخوشبواورزیورات یا اس کے علاوہ کوئی ایسی آواز جس کی وجہ سے ان کا راہ چلتے لوگوں کی توجہ کامرکز بننے کا اندیشہ ہو تو ان کا گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے ۔ اور اگر وہ مکمل شرعی آداب کا لحاظ رکھتے ہوے مسجد جاتی ہیں تو اجازت ہے۔

ملحوظہ :جہاں تک ام المومنین سیدہ عائشہ کے بارے میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اس حکم کو منسوخ کر دیا تھا تو اس کا سادہ سے جواب یہ ہے کہ شریعت میں نسخ کا اختیار نبی اکرم ﷺ کے پاس بھی نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالی کی طرف سےآتا ہے تو جب نبی اپنی طرف سےنسخ یا تبدیلی احکام نہیں کر سکتا تو نعوذ باللہ بعد میں کس کے پاس اختیار ہے کہ وہ شرعی احکام میں تبدیلی یا نسخ کا حکم جاری کر سکے۔اس لیے یہ سراسر حضرت عائشہ پر بہتان ہے کہ انہوں نے منسوخ کر دیا تھا اور جس نے بھی اس قول کا اظہار کیا ہے وہ بالکل شرعی علوم سے ناواقف معلوم ہوتا ہے ورنہ ایسی بات نہ کی جاتی۔
اللہ تعالی حق کو قبول کرنے توفیق دے اور پھر اس پر عمل کی بھی توفیق عنایت فرمائیں۔آمین

ِِِِ۔


( ) مختصر اختلاف العلماء ، الطحاوي 1/231، البحر الرائق 1/380، حاشية ابن العابدين 1/566
( ) شرح مختصر خليل 2/35، التمهيد 23/402، الاستذكار 2/469
( ) المجموع4 / 170،171، روضة 1 / 340.
( ) المجموع 4 /405 ،روضة 1لطالبین 1/ 340 ،مغنی المحتاج 1 / 230 ،الوسیط2 / 226.
( ) الإنصاف 2/212،
( ) صحيح بخاري كتاب الصلاة ‘ باب خُرُوجِ النِّسَاءِ إلى الْمَسَاجِدِ بِاللَّيْلِ وَالْغَلَسِ، حديث: (865)، صحيح مسلم، كتاب الصلاة، بَاب خُرُوجِ النِّسَاءِ إلى الْمَسَاجِدِ إذا لم يَتَرَتَّبْ عليه فِتْنَةٌ وَأَنَّهَا لَا تَخْرُجْ مُطَيَّبَةً، حديث (442)
( ) سنن ابی داؤد کتاب الصلاة بَاب ما جاء في خُرُوجِ النِّسَاءِ إلى الْمَسْجِدِ (565)، مسند احمد 2 / 438 (9643)
( ) صحيح مسلم‘كتاب الصلاة ‘بَاب خُرُوجِ النِّسَاءِ إلى الْمَسَاجِدِ إذا لم يَتَرَتَّبْ عليه فِتْنَةٌ وَأَنَّهَا لَا تَخْرُجْ مُطَيَّبَةً (444)،سنن النسائي : (5129) ، صحيح ابن حبان : (2215)
( ) صحيح مسلم‘كتاب الصلاة ‘بَاب خُرُوجِ النِّسَاءِ إلى الْمَسَاجِدِ إذا لم يَتَرَتَّبْ عليه فِتْنَةٌ وَأَنَّهَا لَا تَخْرُجْ مُطَيَّبَةً (444)،سنن ابي داؤد (4175).
( ) سنن ابو داؤد ، كتاب الصلاة ، باب ما جاء فى خروج النساء إلى المسجد ، (567)،مسند احمد 2 / 76 ، 77 (5471) ، المستدرك على الصحيحين ، 1 / 327 (755)
( ) متفق عليه صحيح بخاري كتاب الأذان ، باب انتظار الناس قيام الإمام العالم ، (869)،مسلم كتاب باب خروج النساء إلى المساجد إذا لم يترتب عليه فتنة وأنها لا تخرج مطيبة .(445)
( ) مسند احمد 6 / 69،70 (24910)
( ) متفق عليه صحيح بخاری کتاب الأذان ،باب خروج النساء إلی المساجد بالليل و الغلس ، (865)،مسلم کتاب الصلاة باب خروج النساء إلى المساجد إذا لم يترتب عليه فتنة وأنها لا تخرج مطيبة(442)
( ) جامع الترمذي، كتاب الحدود، بَاب ما جاء في الْمَرْأَةِ إذا اسْتُكْرِهَتْ على الزنى، حديث: (1454).سنن أبي داود، كتاب الحدود، بَاب في صَاحِبِ الْحَدِّ يَجِيءُ فَيُقِرُّ، حديث:(4379).
مسلمان مسلمان کا بھائی ہے،اس پر نہ ظلم کرے،نہ اسے ذلیل کرے،نہ اسے (غیروں کے)حوالے کرے
اورنہ اس کو حقیر سمجھے-اللہ کے بندو آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ-
http://www.kitabosunnat.com
محدث فورم [Mohaddis Forum]
محدث فتویٰ (Mohaddis Fatwa)
محدث میگزین [Mohaddis Magazine] - ماہنامہ محدث | ملت اسلامیہ کا علمی اور اصلاحی مجلہ
حافظ اختر علی, ‏مئی 5, 2009
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
مساجد میں عورتوں کی نماز کے دس دلائل

محدّث العَصر حَافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

مساجد میں مردوں کے پیچھے عورتوں کی نماز باجماعت کا جواز احادیثِ صحیحہ اور آثارِ سلف صالحین سے ثابت ہے، جس میں سے بعض دلائل درج ذیل ہیں:

دلیل نمبر 1
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: اگر تمھاری عورتیں تم سے رات کو مسجد جانے کی اجازت مانگیں تو انھیں اجازت دے دو۔ (صحیح بخاری: 865، صحیح مسلم: 442، ترقیم دارالسلام: 988)

حافظ ابن عبدالبر نے فرمایا: اس حدیث میں یہ فقہ ہے کہ عورت کے لئے رات کو مسجد جانا جائز ہے اور اس (کے عموم) میں ہر نماز داخل ہے۔ إلخ (التمہید ج 24 ص 281)

دلیل نمبر 2
ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں جب عورتیں فرض نماز کا سلام پھیرتیں تو اُٹھ کھڑی ہوتی تھیں، رسول اللہ ﷺ اور مرد (صحابہ) بیٹھے رہتے تھے پھر جب رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوتے تو مرد بھی کھڑے ہو جاتے تھے۔ (صحیح بخاری: 866)

دلیل نمبر 3
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ صبح کی نماز پڑھاتے تو عورتیں اپنی چادروں میں لپٹی ہوئی جاتی تھیں، اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہیں جاتی تھیں۔ (صحیح بخاری: 867، صحیح مسلم: 645، موطأ امام مالک 1/ 5ح3، روایۃ ابن القاسم : 494)

اس حدیث سے ظاہر ہے کہ عورتوں کا مساجد میں نماز ادا کرنا جائز ہے۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے دوسری روایت میں آیا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: عورتوں کو مسجدوں سے نہ روکو، اور انھیں بغیر خوشبو کے سادہ کپڑوں میں نکلنا چاہئے۔ سیدہ عائشہ (رضی اللہ عنہا) نے فرمایا: اگر آپ آج کل کی عورتوں کا حال دیکھتے تو انھیں منع کر دیتے۔ (مسند احمد 6/69، 70 وسندہ حسن)

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک اور روایت میں آیا ہے کہ اگر رسول اللہ ﷺ وہ کام دیکھتے جو عورتوں نے نکال لئے ہیں تو انھیں منع کر دیتے، جس طرح کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو منع کر دیا گیا تھا۔ (صحیح بخاری: 869، صحیح مسلم: 445)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورتوں کو مسجد میں نماز پڑھنے سے منع والا حکم (جو کہ سابقہ شریعتوں میں تھا) منسوخ ہے۔ اب بنی اسرائیل کی منسوخ شریعت پر عمل نہیں بلکہ قیامت تک نبی کریم خاتم النبیین ﷺ کی شریعت پر ہی عمل ہو گا۔

دلیل نمبر 4
سیدنا ابو قتادہ الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہوں اور لمبی نماز پڑھنا چاہتا ہوں پھر بچے کے رونے کی آواز سن کر نماز مختصر کر دیتا ہوں تاکہ اُس کی ماں کو تکلیف نہ ہو۔ (صحیح بخاری: 868)

دلیل نمبر 5
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: میں نماز میں داخل ہوتا ہوں اور لمبی نماز پڑھنے کا ارادہ کرتا ہوں پھر میں کسی بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اپنی نماز مختصر کر دیتا ہوں، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اُس کے رونے کی وجہ سے اُس کی ماں کو تکلیف ہو گی۔ (صحیح بخاری: 709، صحیح مسلم: 470 )

دلیل نمبر 6
سیدہ زینب الثقفیہ رضی اللہ عنہا (سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر تم عورتوں میں سے کوئی عورت عشاء کی نماز کے لئے مسجد میں حاضر ہو تو خوشبو نہ لگائے۔ (صحیح مسلم: 443)

دلیل نمبر 7
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: عورتوں کو مسجدوں سے منع نہ کرو اور انھیں بغیر خوشبو کے سادہ کپڑوں میں جانا چاہئے۔ (مسند احمد 2/ 438 ح 9645 وسندہ حسن واللفظ لہ، سنن ابی داود: 565 وصححہ ابن خزیمہ: 1679، و ابن حبان: 2214)

دلیل نمبر 8
سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے عورتو! جب مرد سجدہ کریں تو تم اپنی نظروں کی حفاظت کرو۔ (صحیح ابن خزیمہ : 1694، وسندہ صحیح، صحیح ابن حبان: 402 وصححہ الحاکم علیٰ شرط الشیخین 1 /191، 192، ووافقہ الذہبی)

یعنی مردوں کے تنگ تہبندوں کی وجہ سے کہیں تمھاری نظریں اُن کی شرمگاہ پر نہ پڑ جائیں۔

دلیل نمبر 9
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں عورتوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ مردوں سے پہلے (سجدے، رکوع سے) سر نہ اُٹھائیں۔ إلخ (صحیح ابن خزیمہ: 1695، صحیح ابن حبان: 2216 وسندہ صحیح)

نیز دیکھئے صحیح بخاری (362، 814، 1215) اور صحیح مسلم (441)

دلیل نمبر 10
سیدنا زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ کی بندیوں (عورتوں) کو اللہ کی مسجدوں سے منع نہ کرو، اور انھیں بغیر خوشبو کے سادہ لباس میں نکلنا چاہئے۔ (صحیح ابن حبان: 2208 وسندہ حسن، دوسرا نسخہ: 2211 وحسنہ الہیثمی فی مجمع الزوائد 2/ 33)

ان احادیث مذکورہ اور دیگر احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ عورتوں کے لئے مسجد میں نماز پڑھنا جائز ہے بشرطیکہ کسی فتنے کا اندیشہ نہ ہو اور بہتر یہ ہے کہ عورتیں اپنے گھروں میں ہی نماز پڑھیں کیونکہ اُن پر نماز باجماعت فرض نہیں ہے۔

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی بیوی عشاء کی نماز مسجد میں پڑھنے کے لئے جاتی تھیں اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ انھیں منع نہیں کرتے تھے۔ دیکھئے صحیح بخاری (900)

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ تو اس مسئلے میں اتنی سختی کرتے تھے کہ جب اُن کے ایک بیٹے نے کہا: ’’ہم تو عورتوں کو (مسجد سے) منع کریں گے۔‘‘ تو انھوں نے اپنے بیٹے کو شدید الفاظ کے ساتھ ڈانٹا اور اُس کی پٹائی کر دی۔ دیکھئے صحیح مسلم (442)

ایک عورت نے نذر مانی تھی کہ اگر اُس کا شوہر جیل سے باہر آ گیا تو وہ بصرے کی ہر مسجد میں دو رکعتیں پڑھے گی۔ اس کے بارے میں حسن بصری (رحمہ اللہ) نے فرمایا: اسے اپنی قوم کی مسجد میں نماز پڑھنی چاہئے۔ الخ دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ (2/ 484 ح 7617 وسندہ صحیح)

یعنی اُسے تمام مسجدوں میں نہیں بلکہ صرف اپنی (محلے کی) مسجد میں نماز پڑھ کر یہ نذر پوری کر لینی چاہئے۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عورتوں کی بہترین صف آخری صف ہے اور سب سے بُری صف پہلی صف ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 2/ 385 ح 7623 وسندہ حسن)

عروہ بن الزبیر رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ کہا جاتا تھا کہ عورتوں کی بہترین صف آخری صف ہے اور سب سے بُری صف پہلی صف ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 2/385 ح 7624 وسندہ صحیح)

امام ابو بکر محمد بن ابراہیم بن المنذر النیسابوری رحمہ اللہ نے فرمایا: اہلِ علم کا اس پر اجماع ہے کہ عورتوں پر جمعہ (ضروری) نہیں ہے اور اس پر بھی اجماع ہے کہ اگر وہ حاضر ہو کر امام کے ساتھ نماز پڑھ لیں تو یہ اُن کی طرف سے کافی ( یعنی جائز) ہے۔ دیکھئے الاوسط (ج4ص16م 492، 493)

عینی حنفی نے امام شافعی رحمہ اللہ سے نقل کیا کہ ’’یباح لھن الخروج‘‘ عورتوں کے لئے (مسجد کی طرف نماز کے لئے) خروج مباح (جائز) ہے۔ دیکھئے عمدۃ القاری (ج 6 ص 156 تحت ح 864)

احادیثِ صحیحہ اور آثارِ سلف صالحین سے ثابت ہوا کہ عورتوں کا مسجد میں نماز پڑھنا جائز ہے بشرطیکہ وہ آدابِ شرعیہ اور پردے وغیرہ کا بہت التزام کریں۔ جمعہ کے دن گھروں میں بیٹھے رہنے سے بہتر یہ ہے کہ وہ مسجد جا کر امام کے پیچھے نمازِ جمعہ پڑھیں اور خطبہ سنیں تاکہ دین کی باتیں سیکھ لیں۔

حیرت ہے اُن لوگوں پر جو عورتوں کی تبلیغی جماعتیں نکالتے ہیں اور پھر عورتوں کو مسجد میں نماز پڑھنے سے منع کرتے ہیں تاکہ وہ لا علم کی لاعلم رہیں اور دینی تعلیم سے دُور رہیں۔ اگر یہ لوگ اپنی عورتوں کو مسجد حرام اور مسجد نبوی سے بھی دُور رکھیں گے تو پھر بے چاری عورتیں طواف اور فضائل الحرمین سے محروم رہیں گی بلکہ ارکانِ حج بھی ادا کرنے سے قاصر رہیں گی اور اس کا غلط ہونا ظاہر ہے۔

اصل مضمون کے لئے دیکھیں: ماہنامہ الحدیث شمارہ 62 صفحہ 40 تا 43

اسی طرح یہ مضمون تحقیقی اور علمی مقالات جلد 3 صفحہ 199 پر بھی موجود ہے۔
ـــــ
 
Top