• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ٹوپی

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
شاھد بھائی اسے لغو کی جدہ اگر مباح کہ لیں تو کیا اس میں کوئی عیب ہے ؟؟؟؟
السلام علیکم!
بھائی مجھے تو لغو اور مباح میں ایسا کوئی خاص فرق معلوم نہیں اگر آپ کے علم میں ہے تو بتادیں۔شکریہ
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
ٹوپی کی کئی قسمیں ہیں مثلا بنگالی ٹوپی، ترکی ٹوپی، افریقی ٹوپی، سندھی ٹوپی، جالی دار ٹوپی، جناح کیپ وغیرہ۔ شاید ٹوپی کی جتنی قسمیں ہیں، اتنی ہی باتیں اس کے فوائد اور نقصانات کے بارے بھی کی جا سکتی ہیں۔

شروع میں، میں ٹوپی پہنتا تھا لیکن میری اہلیہ کو پسند نہ تھا اوروہ میری ٹوپی غائب کر دیتی تھیں۔ اس عمل سے کافی چڑ ہوتی تھی کیونکہ مجھے مدرسہ اور تنظیم کے حلقے میں درس وتدریس اور دینی اسباق پڑھانا ہوتے تھے اور مدرسہ وتحریک کے ماحول میں استاذ ومصلح کے سر پر ٹوپی نہ ہونا باعث عار سمجھا جاتا ہے۔ میں نے اس مسئلے میں اہلیہ سے الجھنا مناسب نہ سمجھا، وہ ٹوپیاں غائب کرتی گئیں اور میں خریدتا گیا۔ اس طرح ٹوپی پہننے کے عمل کو مجاہدہ سمجھ کر ایک مہینے میں تین تین ٹوپیاں بھی خریدتا رہا۔

ایک وقت آیا کہ میں نے سوچا کہ میں ٹوپی کیوں پہنتا ہوں تو یہ جواب ملا کہ میرا اٹھنا بیٹھنا دیندار حلقوں میں ہوتا ہے جہاں سب یا اکثر نے ٹوپی پہنی ہوتی ہے یعنی وہاں کا دینی عرف ٹوپی پہننے کا متقاضی ہوتا ہے اور میرا ٹوپی نہ پہننا اس ماحول میں مجھے اجنبی بنا دیتا ہے۔ اور یہ اجنبیت ایسی تھی جسے لوگ ناپسند کرتے تھے اور بعض تو اس کا اظہار بھی کر دیتے کہ حافظ صاحب آپ ٹوپی کیوں نہیں پہنتے یا کوئی صاحب اگر عمر میں بڑے ہوتے تو ٹوپی پہننے کو سنت قرار دیتے ہوئے اس کی تلقین بھی فرما دیتے۔ بہرحال اب کافی سوچ وبچار کے بعد مجھے ٹوپی پہننے یا نہ پہننے میں کوئی حساسیت نہیں ہے۔ پہننا اس لیے درست سمجھتا ہوں کہ دین دار لوگوں کا عرف ہے اور نہ پہننا اس لیے مفید کہ اصلاح نفس میں اس کا بڑا کردار ہے۔

آج مجھے اس پہلو کو اجاگر کرنا ہے کہ میرے ٹوپی نہ پہننے نے میری اصلاح میں کیا کردار ادا کیا ہے۔ مجھے اللہ نے زبان وبیان کی کچھ صلاحیت دی ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ جہاں کہیں درس کا حلقہ یا خطبہ جمعہ یا مدرسے کی کلاس لینا شروع کروں تو کچھ عرصہ بعد سامعین یا طلباء کا ایک حلقہ میرے گرد جمع ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ متاثرین تعداد میں تو چند ایک ہی ہوتے ہیں لیکن کسی واعظ یا استاذ کو بگاڑنے کے لیے ایک بھی کافی ہوتا ہے۔ ان میں سے کوئی آپ کی جوتیاں سیدھی کرنا شروع کر دیتا ہے، کوئی آپ کے وعظ وتدریس کی تعریف وتوصیف میں مبالغہ آمیز باتیں کرنا شروع کر دیتا ہے، کوئی آپ کو آئیڈیلائز کرنا شروع کر دیتا ہے، اور کوئی آپ کی فکر کا جیالا بننے کو تیار بیٹھا ہوتا ہے۔

ایسے میں مجھے احساس ہوتا ہے کہ اب میں اپنی چرب زبانی سے کوئی علیحدہ مخلوق لگنا شروع ہو گیا ہوں یا لوگوں کی نظر میں شیخ بن گیا ہوں۔ پس میں اپنا حلیہ دینداروں کی بجائے عام گناہ گاروں جیسا اختیار کرنے کو ترجیح دیتا ہوں تا کہ لوگ مجھے وہی سمجھیں جو میں حقیقت میں ہوں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ میں ان کے جیسا انہی میں سے ایک ہو۔ میں نے یہ عجیب محسوس کیا ہے کہ اس قسم کے متاثرین کے حلقے میں ٹوپی اتار دینا ایسے ہی ہے جیسے آپ نے اپنے تقدس کی چادر اتار دی ہے اور اگر آپ شلوار قمیص کی بجائے سوٹ پہن لیں تو پھر تو لوگ شاید آپ کے نیک ہونے میں بھی شک کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس پوسٹ کا مقصد صرف اتنا ہے کہ بعض اوقات ایک چھوٹی چیز ہماری اصلاح میں کس قدر بڑا کردار ادا کر سکتی ہے۔
بہت عمدہ! جزاکم اللہ خیرا!

اللہ تعالیٰ ہمارے علم وعمل میں اضافہ فرمائیں!

البتہ درج ذیل فقرے سے مجھے اتفاق نہیں:

پس میں اپنا حلیہ دینداروں کی بجائے عام گناہ گاروں جیسا اختیار کرنے کو ترجیح دیتا ہوں
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
ایک وقت آیا کہ میں نے سوچا کہ میں ٹوپی کیوں پہنتا ہوں تو یہ جواب ملا کہ میرا اٹھنا بیٹھنا دیندار حلقوں میں ہوتا ہے جہاں سب یا اکثر نے ٹوپی پہنی ہوتی ہے یعنی وہاں کا دینی عرف ٹوپی پہننے کا متقاضی ہوتا ہے اور میرا ٹوپی نہ پہننا اس ماحول میں مجھے اجنبی بنا دیتا ہے۔بہرحال اب کافی سوچ وبچار کے بعد مجھے ٹوپی پہننے یا نہ پہننے میں کوئی حساسیت نہیں ہے۔ پہننا اس لیے درست سمجھتا ہوں کہ دین دار لوگوں کا عرف ہے اور نہ پہننا اس لیے مفید کہ اصلاح نفس میں اس کا بڑا کردار ہے۔
اگر کسی معاشرے یا برادری وغیرہ میں کوئی فعل عرف عام میں اچھا سمجھا جاتا ہو اور اسکے ترک کو لوگ ناپسند کرتے ہوں تو اگر تو اس فعل کی شریعت میں ممانعت نہ ہو اور وہ ایک جائز فعل ہو تو اس کا ترک کرنا شرعی لحاظ سے درست نہیں ہے۔ بطور خاص علماء اور داعیان کے لئے۔ کیونکہ علماء کے افعال اور الفاظ سے لوگ حجت پکڑتے ہیں اور انکی پیروی کی جاتی ہے۔

حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ کیا قبلہ کی طرف پیر کرکے سونا اور بیٹھنا منع ہے تو انہوں نے جواب دیا: اس کی ممانعت کسی حدیث سے ثابت نہیں۔ مگر عرف عام میں یہ معیوب سمجھا جاتا ہے۔لہٰذا بہتر یہی ہے کہ جان بوجھ کر، بغیر کسی عذر کے، قبلے کی طرف پاوں نہ کئے جائیں۔ جائز امور میں، عرف عام کا خیال رکھنا مستحسن امر ہے۔ ’’لولاحدثان قومک لھدمت الکعبۃ‘‘ وغیرہ احادیث اس کی دلیل ہیں۔ غالباً اسی عرف عام کی وجہ سے بعض علماء نے اس فعل کو مکروہ قرار دیا ہے۔ مثلاً دیکھئے نفع المفتی والسائل لعبد الحئی الکھنوی، ص58۔ (فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام، جلد1،ص56)

پس معلوم ہوا کہ اگر ٹوپی پہننے کو مباح بھی قرار دیا جائے تب بھی ٹوپی کا پہننا اس لئے بھی بہتر اور افضل ہے کہ معاشرے میں بطور خاص علماء کا ننگے سر رہنا معیوب خیال کیا جاتا ہے اور ٹوپی کے بغیر عالم کا کوئی تصور ہمارے معاشرے میں موجود نہیں۔
 
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
276
پوائنٹ
71
ایک صاحب نے تو تاویل کی حد ہی کر دی، اللہ انہیں ہدایت دے کہ جو مفہوم شارحین نے بیان نہیں کیا وہ اس حدیث مبارکہ کو اپنے خودساختہ معنی پہنا رہے ہیں۔
جس حدیث میں یہ فقرہ ہے : "بِئْسَ أَخُو الْعَشِيرَةِ، وَبِئْسَ ابْنُ الْعَشِيرَةِ"
اسی حدیث کے آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
اے عائشہ! کیا تم نے کبھی مجھے بدزبانی کرتے دیکھا ہے؟ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے برا آدمی وہ ہوگا جس کی بدزبانی کی وجہ سے لوگ اس سے ملنا ترک کردیں۔
حیدر آبادی بھائی اگر آپ سمجھاتے تو ممکن ہے کسی کو سمجھ آ ہی جاتی میں مانتا یا نہ مانتے
بھائی آپ نے کہا
کسی کو "اپنے قبیلے کا برا آدمی" کہنے اور کسی کا باقاعدہ نام لے کر اسے کذاب اور دجال کا لقب دینے میں اگر حقیقتاً کسی کو کوئی فرق نظر نہیں آتا تو پھر ایسے لوگوں کے سامنے اس آیت
إِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلاَمًا
کو پڑھ کر رخصت ہو جانا ہی بہتر عمل ہے۔
تو آپ فرق بتا دیں کہ اگر کوئی یہ کہے وہ جو تجلیات والا ہے نا وہ اپنے مسلک کا گندا ترین آدمی ہے تو پھر ٹھیک ہے ؟؟؟
یہ اٹھ کے جا رہا ہے اللہ کے نبی کہ رہے ہیں یہ جو تھا یہ خاندان قبیلے کا برا آدمی ہے تو نام لینا کے مترادف ہی ہے
اگر آپ کہیں کہ دجال کہا کذاب کا تو بھائی یا تو کہ دیں کہ الجرح و التعدیل کی اصطلاحات غلط ہیں یا یہ علم ہی غلط ہے تو پھر اس پر بات کر لیتے ہیں کہ کیا یہ درست ہے یا نہیں
باقی میں کسی کا حمایتی نہیں بس جدھر حق ہے ان شاء اللہ آپ ادھر ہی پائیں گے
ھدانا اللہ جمیعا الی سواء الصراط
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
پہننا اس لیے درست سمجھتا ہوں کہ دین دار لوگوں کا عرف ہے اور نہ پہننا اس لیے مفید کہ اصلاح نفس میں اس کا بڑا کردار ہے۔آج مجھے اس پہلو کو اجاگر کرنا ہے کہ میرے ٹوپی نہ پہننے نے میری اصلاح میں کیا کردار ادا کیا ہے۔پس میں اپنا حلیہ دینداروں کی بجائے عام گناہ گاروں جیسا اختیار کرنے کو ترجیح دیتا ہوں تا کہ لوگ مجھے وہی سمجھیں جو میں حقیقت میں ہوں۔
کسی ایسے فعل کو ترک کرنا جس کے ترک پر کوئی گناہ نہ ہو لیکن معاشرے میں اسکے ترک کو معیوب اور قابل عار سمجھا جاتا ہو اور اس سے مقصود بدنامی کا حصول ہو تاکہ اس شخص کے عقیدت مند اسے ویسا ہی ایک عام و گناہگار شخص سمجھیں جیسے وہ خود ہیں۔ اور اس طریقہ سے اپنی خودپسندی، غرور و تکبر کا علاج کرنا کئی لحاظ سے غلط و مردود ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ تزکیہ نفس کا یہ مردود طریقہ گمراہ، بےدین اور جاہل صوفیاء کا ہے۔

واجد بخش سیال شارح کشف المحجوب لکھتے ہیں: اس لئے بعض اولیاء کرام کمال صدق و خلوص کی بنا پر عمداً ایسے کام کرتے ہیں جن سے خلق میں بدنام ہوجائیں۔اگرچہ بظاہر ان کے یہ کام خلاف شرع نظر آتے ہیں در حقیقت وہ خلاف شرع نہیں ہوتے ۔(شرح کشف المحجوب، صفحہ 274)

اسکی ایک مثال کی ملاحظہ فرمائیں:
فریدالدین عطار، بایزید صوفی کے حالات و مناقب میں لکھتا ہے:
والدہ کا خیال آیا تو بسطام کے لئے روانہ ہوگئے اور جب اہل شہر کو آپ کی آمد کی اطلاع ملی تو کافی فاصلہ پر آپ کے استقبال کے لئے پہنچ گئے لیکن اس وقت آپ کو یہ پریشانی ہوگئی کہ اگر لوگوں سے ملاقات کرتا رہوں گا تو یاد الہیٰ میں غفلت ہوگی۔لہذا آپ نے ان لوگوں کو متنفر کرنے کے لئے یہ ترکیب کی کہ رمضان کے باوجود دوکان سے کھانا خرید کر کھانا شروع کردیا۔ یہ دیکھتے ہی تمام عقیدت مند واپس ہوگئے اور آپ نے فرمایا میں نے اجازت شرعی پر عمل کیا لیکن لوگ مجھے برا سمجھ کر منحرف ہوگئے۔(تذکرۃ الاولیاء،ص101)

دراصل بایزید صاحب بسطام میں مسافر تھے اور مسافر کو شریعت نے رمضان کے روزوں میں اختیار دیا ہے کہ چاہے تو روزہ رکھے اور چاہے تو نہ رکھے۔بس اسی جائز شرعی سہولت پر عمل کرتے ہوئے بایزید صاحب نے ایک ایسے عمل کا مظاہرہ لوگوں کے سامنے کیا کہ مسافر ہوتے ہوئے بایزید کے لئے تو وہ عمل جائز تھا لیکن لوگوں نے اسے معیوب اور برا خیال کیا۔ اب اگر دیکھیں تو محمد زبیر عرف ابوالحسن علوی صاحب بھی ٹوپی پہننا ترک کرکے لوگوں کو خود سے متنفر کرنا چاہتے ہیں یا دوسرے معنوں میں بدنام ہونا چاہتے ہیں تاکہ انکے چاہنے والے اور مریدین ان کی ذات کے حوالے سے کسی غلو کا شکار نہ ہوں اور نہ خود ان میں مریدین کے غلط رویے سے خود پسندی یا تکبر پیدا ہو۔

ابوالحسن علوی صاحب کو یاد رکھنا چاہیے کہ شریعت بدنامی یا بدگمانی کو پسند نہیں کرتی اور ایسے امور سے بچنے کی تلقین کرتی ہے جس سے دوسرے لوگ بدگمانی کا شکار ہوں۔

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت آئی تو کہا: مجھے آپ سے ایک کام ہے، توآپ نے فرمایا: مدینے کے جس راستے میں چاہو بیٹھ جاؤ، میں تمھارے پاس بیٹھ جاؤں گا۔
(سنن ابوداود)

اس حدیث سے پتا چلا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو سرعام ملاقات کا حکم دیا اسی لئے حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح میں یہ اہم نقطہ بیان کیا ہے:
شبہات والے امور سے بہت دور رہنا چاہیے اور اس بات کا پورا خیال رکھنا چاہیے کہ لوگوں کے دلوں میں کسی قسم کا شک و شبہ پیدا نہ ہو۔(شمائل ترمذی،ص338)

راقم الحروف نے اپنے مضمون میں تفصیل سے اس مسئلہ پر روشنی ڈالی ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

3۔ مشہور مقولہ ہے کہ ''بد سے بدنام برا''
یہ بات ایک عام شخص بھی جانتا ہے کہ بدنامی بری چیز ہے اس لئے ایک مسلمان کو چاہیے کہ بدنامی سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرے اور اگر اس کے کسی عمل سے کوئی شخص غلط فہمی کا شکار ہوجائے توجتنی جلدی ممکن ہوسکے اس غلط فہمی کا ازالہ کرے تاکہ کسی کو اس پر شک کرنے یا انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملے۔ اس بات کی تعلیم ہمیں رسول اللہﷺکے اسوہ حسنہ سے ملتی ہے۔

ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ایک بار رسول اللہﷺ اعتکاف میں تھے ۔میں رات کو آپﷺ کی زیارت کے لئے گئی اور آپ ﷺسے باتیں کرکے واپس آنے لگی ۔آپﷺ میرے ساتھ مجھ کو گھر پہنچانے کے لئے ہولیے۔صفیہ رضی اللہ عنہا کا مکان اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے احاطہ میں تھا ۔اتنے میں دو انصار کے آدمی نمودار ہوئے ۔انہوں نے جب رسول اللہ ﷺ کو دیکھا تو تیزی کے ساتھ آگے بڑھے ۔آپ ﷺنے ان سے فرمایا ٹھہرو، میرے ساتھ صفیہ ہے۔وہ عرض کرنے لگے یا رسول اللہﷺ یہ آپ کیا فرماتے ہیں؟ ارشاد فرمایا کہ شیطان انسان کے جسم میں خون کی طرح دوڑتا ہے ، میں اس بات سے ڈرا کہ کہیں تمہارے دلوں میں ''خیال فاسد'' یا فرمایا ''کوئی بات ''نہ ڈال دے۔(صحیح بخاری،کتاب الاعتکاف، صحیح مسلم،کتاب السلام)

علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی تشریح میں لکھا ہے: اس سے ظاہر ہے کہ رسول اللہﷺ نے لوگوں کو تعلیم دی کہ جو چیز بدگمانی کا باعث ہواس سے دور رہیں ۔کیوں کہ اہل ایمان زمین پر خدا کی طرف سے شاہد ہیں۔(تلبیس ابلیس، صفحہ527)

ابوسلیمان خطابی نے کہا کہ اس حدیث میں فقہی بات یہ ہے کہ انسان کو ہر ایسے امر مکروہ سے بچنا مستحب ہے جس سے بدگمانیاں پیدا ہوں اور دلوں میں خطرے گزریں ۔اور چاہیے کہ عیب سے اپنی براء ت ظاہر کرکے لوگوں کے طعن سے بچنے کی کوشش کرے۔(بحوالہ تلبیس ابلیس)

مذکورہ بالا حدیث اور اسکی تشریح سے معلوم ہوا کہ نیک نامی اور بدنامی کی پرواہ نہ کرنا شریعت میں معیوب بات ہے۔اور جان بوجھ کر خود کو بدنام کرنا گناہ اور برائی ہے۔ابن الجوزی کہتے ہیں:اگر کوئی آدمی سر راہ کھڑے ہوکر اپنی بی بی سے باتیں کرے تاکہ ناواقف لوگ اسے فاسق کہیں تو اس حرکت سے گنہگار ہوگا۔(تلبیس ابلیس، صفحہ522)
اس سلسلے میں اس مضمون کا مطالعہ بھی مفید رہے گا۔ان شاء اللہ
اکابرین اہل حدیث کا تعلق صوفیت، بہتان یا حقیقت؟
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
بہت عمدہ! جزاکم اللہ خیرا!

اللہ تعالیٰ ہمارے علم وعمل میں اضافہ فرمائیں!

البتہ درج ذیل فقرے سے مجھے اتفاق نہیں

پس میں اپنا حلیہ دینداروں کی بجائے عام گناہ گاروں جیسا اختیار کرنے کو ترجیح دیتا ہوں
:
آپ صحیح کہہ رہے ہیں۔ میں اس کی ایڈیٹنگ کر دیتا ہوں کیونکہ الفاظ ایسے ہیں کہ جن سے شاید غلط مفہوم اخذ کیا جا سکتا ہے۔ بعض اوقات انسان ایک بات کہنا چاہ رہا ہوتا ہے، وہ بات تو درست ہوتی ہے لیکن اس کے اظہار کے لیے جو الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں، شاید وہ مناسب نہیں ہوتے۔ بلاشبہہ الفاظ کے انتخاب کی بھی اہمیت ہے۔

دینداروں کے حلیے سے مراد وہ ظاہری حلیہ ہے جس کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مثلا ڈاڑھی رکھنا یا شلوار ٹخنے سے اوپر رکھنا یہ تو دینی حکم ہے اور اس حلیے کو دینی حلیہ کہنا چاہیے۔ لیکن اس کے علاوہ ایک حلیہ ایسا ہے کہ جو دینی تو نہیں لیکن دینداروں کا ہے جیسا کہ آج کل دین داروں اہلحدیث یا سلفی لوگوں کا سرخ رومال پہننا ہے۔ یا توپ پہننا ہے۔ یا عمامہ باندھنا ہے۔ یا ٹوپی پہننا ہے یا سفید کپڑے پہننا ہے یا کرتا پہننا ہے وغیرہ۔ اس کے بارے میرے ذہن میں یہ بات آتی تھی کہ لوگوں کے نزدیک تقوی کا معیار یہی ظاہری حلیہ بن چکا ہے جبکہ تقوی کا اصل تعلق دل سے ہے۔

اب یہی دیکھ لیں کہ ایک شخص شلوار کرتا پہن کر، سفید عمامہ باندھ کر، موزے پہن کر، اور جیب میں مسواک رکھ کر اچھا خاصا عالم دین یا ولی اللہ معلوم ہوتا ہےاور بات چیت کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نہ تو عالم دین ہے اور نہ ہی اللہ کا ولی۔ میرے نزدیک یہ دھوکہ ہے کہ آپ اپنے ظاہر سے اتنے نیک معلوم ہوں جو آپ حقیقت میں نہ ہوں۔ واللہ اعلم۔ یہ ایک سوچ ہے، غلط بھی ہو سکتی ہے۔ میں آپ کی بات پر غور کروں گا۔ میری مراد صرف اس قسم کا حلیہ تھا جو مجھے لوگوں کی نظر میں زیادہ دیندار بنا کر دکھائے۔

یہ مسئلہ شاید ایک عام شخص کے ساتھ اتنا نہ ہو لیکن ایک مدرس یا واعظ کے ساتھ ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات لوگ جب میرے درس یا وعظ سے متاثر ہو کر مجھے آئیڈیلائز کرنا شروع کر دیتے ہیں تو مجھے اپنے دل میں بہت ندامت ہوتی ہے کہ معلوم نہیں یہ مجھے حسن بصری یا جنید بغدای کیا سمجھے جا رہے ہیں۔ ایسے میں مجھے سمجھ نہیں آتی کہ انہیں کیسے سمجھاوں کہ میں وہ نہیں ہوں جو تم کہہ رہے ہو۔ اہلیہ سے مشورہ کیا تھا تو انہوں نے کہا کہ جو تمہاری تعریف میں مبالغہ کرے تو اسے کہہ دو میں گناہ گار آدمی ہو۔ میں نے کہا میں خواہ مخواہ اپنے عیوب لوگوں کو کیوں بتلاتا پھروں، یہ تو الٹا فساد ہے۔

البتہ حدیث میں ہے کہ اس کے منہ میں مٹی ڈال دو۔ اس کی ہمت نہیں ہوتی، اس کے لیے بڑا ایمان چاہیے جو میرے پاس نہیں ہے اور اس میں مانع یہ بھی ہے کہ بعض اوقات تعریف کرنے والے آپ سے مقام یا عمر یا کسی بھی اعتبار سے بڑا ہوتا ہے۔ تو مجھے اس کا حل یہی سوجھا کہ عام لوگوں جیسے حلیے میں رہا کرو، لوگ تمہیں عام سمجھ کر تمہیں اس آزمائش میں نہ ڈالیں جو آزمائش تمہارے خطاب وبیان سے پیدا ہو رہی ہے۔ سوچ تو اس کو پیدا ہوتی ہے جسے آزمائش پیدا ہو۔ جسے اس آزمائش کا سامنا ہی نہیں ہوتا یا جسے یہ آزمائش ہی محسوس نہ ہو تو اسے یہ بات سمجھانا مشکل ہے، اس کا مجھے احساس ہے۔ واللہ اعلم

باقی گناہ گار لوگوں سے مراد عام لوگ تھے نہ کہ فاسق وفاجر۔ یہ بھی تو غور کریں کہ ہمارے لوگوں میں یہ سوچ پختہ ہو چکی ہے کہ ایک سوٹ پہنے والے میں تقوی نہیں ہو سکتا اور عمامہ باندھے والا پہلی نظر میں ہی متقی معلوم ہوتا ہے حالانکہ تقوی کا سراسر تعلق انسان کے دل سے ہے جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تقوی کے بارے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ دل میں ہوتا ہے۔ میں ظاہر کا انکار نہیں کر رہا۔ میں یہ کہہ چکا ہوں کہ وہ ظاہر بھی تقوی میں داخل ہے جو حلال وحرام میں شامل ہے لیکن کچھ چیزیں ہمارے کلچر یا رواج کی ہے، ان میں تقوی تلاش کرنے کی بجائے، دل میں پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ واللہ اعلم۔

آپ کی اصلاح پر اپنی عبارت کو میں یوں تبدیل کر رہا ہوں:
پس میں اپنا حلیہ بظاہر دینداروں کی بجائے عام لوگوں جیسا اختیار کرنے کو ترجیح دیتا ہوں۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
آپ صحیح کہہ رہے ہیں۔ میں اس کی ایڈیٹنگ کر دیتا ہوں کیونکہ الفاظ ایسے ہیں کہ جن سے شاید غلط مفہوم اخذ کیا جا سکتا ہے۔ بعض اوقات انسان ایک بات کہنا چاہ رہا ہوتا ہے، وہ بات تو درست ہوتی ہے لیکن اس کے اظہار کے لیے جو الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں، شاید وہ مناسب نہیں ہوتے۔ بلاشبہہ الفاظ کے انتخاب کی بھی اہمیت ہے۔

دینداروں کے حلیے سے مراد وہ ظاہری حلیہ ہے جس کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مثلا ڈاڑھی رکھنا یا شلوار ٹخنے سے اوپر رکھنا یہ تو دینی حکم ہے اور اس حلیے کو دینی حلیہ کہنا چاہیے۔ لیکن اس کے علاوہ ایک حلیہ ایسا ہے کہ جو دینی تو نہیں لیکن دینداروں کا ہے جیسا کہ آج کل دین داروں اہلحدیث یا سلفی لوگوں کا سرخ رومال پہننا ہے۔ یا توپ پہننا ہے۔ یا عمامہ باندھنا ہے۔ یا ٹوپی پہننا ہے یا سفید کپڑے پہننا ہے یا کرتا پہننا ہے وغیرہ۔ اس کے بارے میرے ذہن میں یہ بات آتی تھی کہ لوگوں کے نزدیک تقوی کا معیار یہی ظاہری حلیہ بن چکا ہے جبکہ تقوی کا اصل تعلق دل سے ہے۔

اب یہی دیکھ لیں کہ ایک شخص شلوار کرتا پہن کر، سفید عمامہ باندھ کر، موزے پہن کر، اور جیب میں مسواک رکھ کر اچھا خاصا عالم دین یا ولی اللہ معلوم ہوتا ہےاور بات چیت کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نہ تو عالم دین ہے اور نہ ہی اللہ کا ولی۔ میرے نزدیک یہ دھوکہ ہے کہ آپ اپنے ظاہر سے اتنے نیک معلوم ہوں جو آپ حقیقت میں نہ ہوں۔ واللہ اعلم۔ یہ ایک سوچ ہے، غلط بھی ہو سکتی ہے۔ میں آپ کی بات پر غور کروں گا۔ میری مراد صرف اس قسم کا حلیہ تھا جو مجھے لوگوں کی نظر میں زیادہ دیندار بنا کر دکھائے۔

یہ مسئلہ شاید ایک عام شخص کے ساتھ اتنا نہ ہو لیکن ایک مدرس یا واعظ کے ساتھ ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات لوگ جب میرے درس یا وعظ سے متاثر ہو کر مجھے آئیڈیلائز کرنا شروع کر دیتے ہیں تو مجھے اپنے دل میں بہت ندامت ہوتی ہے کہ معلوم نہیں یہ مجھے حسن بصری یا جنید بغدای کیا سمجھے جا رہے ہیں۔ ایسے میں مجھے سمجھ نہیں آتی کہ انہیں کیسے سمجھاوں کہ میں وہ نہیں ہوں جو تم کہہ رہے ہو۔ اہلیہ سے مشورہ کیا تھا تو انہوں نے کہا کہ جو تمہاری تعریف میں مبالغہ کرے تو اسے کہہ دو میں گناہ گار آدمی ہو۔ میں نے کہا میں خواہ مخواہ اپنے عیوب لوگوں کو کیوں بتلاتا پھروں، یہ تو الٹا فساد ہے۔

البتہ حدیث میں ہے کہ اس کے منہ میں مٹی ڈال دو۔ اس کی ہمت نہیں ہوتی، اس کے لیے بڑا ایمان چاہیے جو میرے پاس نہیں ہے اور اس میں مانع یہ بھی ہے کہ بعض اوقات تعریف کرنے والے آپ سے مقام یا عمر یا کسی بھی اعتبار سے بڑا ہوتا ہے۔ تو مجھے اس کا حل یہی سوجھا کہ عام لوگوں جیسے حلیے میں رہا کرو، لوگ تمہیں عام سمجھ کر تمہیں اس آزمائش میں نہ ڈالیں جو آزمائش تمہارے خطاب وبیان سے پیدا ہو رہی ہے۔ سوچ تو اس کو پیدا ہوتی ہے جسے آزمائش پیدا ہو۔ جسے اس آزمائش کا سامنا ہی نہیں ہوتا یا جسے یہ آزمائش ہی محسوس نہ ہو تو اسے یہ بات سمجھانا مشکل ہے، اس کا مجھے احساس ہے۔ واللہ اعلم

باقی گناہ گار لوگوں سے مراد عام لوگ تھے نہ کہ فاسق وفاجر۔ یہ بھی تو غور کریں کہ ہمارے لوگوں میں یہ سوچ پختہ ہو چکی ہے کہ ایک سوٹ پہنے والے میں تقوی نہیں ہو سکتا اور عمامہ باندھے والا پہلی نظر میں ہی متقی معلوم ہوتا ہے حالانکہ تقوی کا سراسر تعلق انسان کے دل سے ہے جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تقوی کے بارے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ دل میں ہوتا ہے۔ میں ظاہر کا انکار نہیں کر رہا۔ میں یہ کہہ چکا ہوں کہ وہ ظاہر بھی تقوی میں داخل ہے جو حلال وحرام میں شامل ہے لیکن کچھ چیزیں ہمارے کلچر یا رواج کی ہے، ان میں تقوی تلاش کرنے کی بجائے، دل میں پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ واللہ اعلم۔

آپ کی اصلاح پر اپنی عبارت کو میں یوں تبدیل کر رہا ہوں:
پس میں اپنا حلیہ بظاہر دینداروں کی بجائے عام لوگوں جیسا اختیار کرنے کو ترجیح دیتا ہوں۔
الفاظ وغیرہ کی تبدیلی کے بعد بھی بات وہی ہے اس میں کوئی فرق نہیں پڑا اور آپکی تشریح نے مزید اس بات کو واضح کردیا کہ آپ اپنے سابقہ موقف پر قائم ہیں۔ ہم نے اعتراض آپ کے الفاظ پر نہیں بلکہ الفاظ کی روح اور فکر پر کیا تھا اس لئے لاکھ الفاظ تبدیل کرلیے جائیں جب تک روح اور فکر تبدیل نہیں ہوگی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ چونکہ آپ کے افکار کی روح اپنی جگہ قائم ہے اس لئے ہمارا اعتراض بھی اپنی جگہ قائم و دائم ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
الفاظ وغیرہ کی تبدیلی کے بعد بھی بات وہی ہے اس میں کوئی فرق نہیں پڑا اور آپکی تشریح نے مزید اس بات کو واضح کردیا کہ آپ اپنے سابقہ موقف پر قائم ہیں۔ ہم نے اعتراض آپ کے الفاظ پر نہیں بلکہ الفاظ کی روح اور فکر پر کیا تھا اس لئے لاکھ الفاظ تبدیل کرلیے جائیں جب تک روح اور فکر تبدیل نہیں ہوگی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ چونکہ آپ کے افکار کی روح اپنی جگہ قائم ہے اس لئے ہمارا اعتراض بھی اپنی جگہ قائم و دائم ہے۔
آپ ماشاء اللہ سے اہل شریعت اور اہل حدیث کہلواتے ہیں لیکن دعوے اور طور طریقے سارے آپ کے اہل طریقت اور بریلویوں والے ہیں۔ نام سے کوئی اہل حدیث نہیں بن جاتا، اس کے عمل کو اوررویے کو دیکھتے ہیں۔

اہل شریعت ظاہر الفاظ پر حکم لگاتے ہیں جبکہ اہل طریقت یا باطنی فرقے کے لوگ روحیں نکالتے ہیں جیسا کہ آپ نکال رہے ہیں۔ اہل حدیث ظاہر کا اعتبار کرتے ہیں اور اہل طریقت سوچیں پڑھنے کا دعوی کرتے ہیں۔ ہمیں کیا معلوم تھا کہ سابقہ بریلوی اور موجودہ اہل حدیث بھی ماشاء اللہ فریق مخالف کی فکر اور سوچیں پڑھنے کا کام شروع کر چکے ہیں۔ آپ کو غیب جاننے کے یہ دعوے مبارک ہوں۔ مبارک ہوں۔ مبارک ہوں۔ لیکن کبھی تنہائی میں اپنی سابقہ پوسٹوں میں بھی جو دعوے کیے ہیں، ان کی روشنی میں بھی غور کریے گا کہ آپ میں سے بریلویت نکلی ہے یا نہیں؟ کہتے ہیں کہ کوئی جماعت اسلامی سے نکل جائے لیکن جماعت اس سے نہیں نکلتی۔ واللہ اعلم
 
شمولیت
ستمبر 03، 2012
پیغامات
214
ری ایکشن اسکور
815
پوائنٹ
75
بسم اللـه الرحمن الرحيم
يا أيها الذين آمنوا ادخلوا في السلم كافة ولا تتبعوا خطوات الشيطان ۚ إنه لكم عدو مبين ﴿٢٠٨﴾ سورة البقرة
وأن احكم بينهم بما أنزل اللـه ولا تتبع أهواءهم واحذرهم أن يفتنوك عن بعض ما أنزل اللـه إليك ۖ فإن تولوا فاعلم أنما يريد اللـه أن يصيبهم ببعض ذنوبهم ۗ وإن كثيرا من الناس لفاسقون ﴿٤٩﴾ سورة المائدة

 
Top