• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ٹیکس یعنی جرمانے کے بارے میں سوال

Abuzar

مبتدی
شمولیت
نومبر 09، 2011
پیغامات
4
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
0



سوال یہ ھےکہ مثال کے طور پر ایک سکول یعنی ایک ادارہ ہے جس کے اندر طالب علم تعلیم حاصل کرتا ہے وہ سکول کے اخراجات یعنی سکول فیس وغیرہ ادا کرتا ہے.اسی اٹنامیںگھر کا کام نہ کرنے کی وجہ سے اس کو جسمانی سزا کی بجائے مالی سزا دی جاتی ہے یعنی اس پر جرمانہ لگایا جاتا ہے تو کیا یہ ناجائز اور حرام نہیں ہے کہ ایک طرف تو سکول کی اخراجات اور دوسری طرف یہ جرمانے اور اسی طرح مسلمان کو تو مالی سزا نہیں دینا چاہئے نا کیونکہ پیسے یا ٹیکس تو کفار سے جزیہ کی صورت میں بھی لی جاتی ہے تو پھر مسلمان اور کافر میں فرق کیسا؟اسی لئے فورم کے علماءسے یہ سوال ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ علماء اور محدثین تحقیق کرکے ضرور قرآن و حدیث سے دلائل کے ساتھ اس کا جواب دینگے.جواب جتنا جلدی ہوسکے تو برائے مہربانی جلدی دیجئے.
از طرف آپکا بھائی
ابوذر


 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
ائمہ اربعہ سمیت جمہور علماء مالی جرمانوں ( العقوبات المالیۃ) کی حرمت کے قائل ہیں ۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان کے شاگرد حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے حکام کے لیے تعزیر کے باب میں اس کی اجازت دی ہے ۔ اس مسئلہ میں اصل یہی ہے کہ مسلمان کا مال اس کی مرضی کے بغیر لینا حرام ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ۔
إِنَّهُ لَا يَحِلُّ مَالُ امْرِئٍ إِلَّا بِطِيبِ نَفْسٍ مِنْهُ
مسلمان کا مال اس کی مرضی کے بغیر لینا حلال نہیں ۔
(مسند احمد ، حدیث نمبر 21082 ، مسند احمد کے محققین نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے اور شیخ البانی نے بھی۔ المشكاة 2946، الإرواء 1459.)
واللہ اعلم بالصواب
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
اسلام ميں مالي سزاؤں كا كيا حكم ہے ؟

الحمد للہ:
جمہور علماء كرام جن ميں ائمہ اربعہ شامل ہيں كا مسلك ہے كہ تعزيزا مال لينا جائز نہيں، اور ان ميں سے بعض علماء كرام نےان معاملات جن ميں مالي سزا وارد ہوئي ہے كو منسوخ قرار ديا ہے كہ ابتداء اسلام ميں جائز تھي پھر اس كےبعد منسوخ كردي گئي.

انہوں نےتعزيرا مال لينےكےعدم جواز كي علت يہ بيان كي ہے كہ اس طرح كي سزا ظالم حكمرانوں كےليےمال حاصل كرنےكا ذريعہ بن جائےگا اور وہ لوگوں كا ناحق مال لينا شروع كرديں گے.

شيخ الاسلام اور ان كےشاگرد ابن قيم رحمہم اللہ تعزيرا مال لينےكےجواز كےقائل ہيں كہ جب حكمران اس ميں مصلحت ديكھےاور ظالموں كوروكے اور شرو برائي ختم ہو تو وہ تعزيرا مال كي سزا نافذ كرسكتا ہے، كيونكہ تعزير كا باب بہت وسيع ہے.

اس كي ابتدائي چيز كلام كےساتھ ڈرانا دھمكانا ہے اور سب سے زيادہ تعزير قتل ہے يعني جب شروبرائي قتل كےبغير ختم نہ ہوتي ہو تو تعزيرا قتل كرنا صحيح ہے، اور تعزيرا مال لينا بھي تعزير كي ايك قسم ہے جس سے ظلم و زيادتي كرنےوالوں كو روكا جاتا ہے.
شيخان نے نسخ كا دعوي رد كيا اوراس كي مكمل طور پر نفي كي ہےاور اس كي دليل ميں بہت سےمعاملات پيش كيے ہيں جن ميں مالي سزا كا وجود ملتا ہے.
شيخ رحمہ اللہ تعالي كہتےہيں:

منسوخي كا دعوي كرنےوالوں كےپاس كوئي شرعي دليل نہيں نہ توكتاب اللہ ميں سے اور نہ ہي سنت نبويہ ميں سے، امام احمد كےہاں يہ جائز ہے اس ليے كہ ان كےساتھيوں ميں كوئي اختلاف نہيں كہ ساري كي ساري مالي سزائيں غيرمنسوخ ہيں.

مالي تعزير لگانےكےدلائل مندرجہ ذيل ہيں:

نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے حرم مدني ميں شكار كرنےوالےكا سلب كرنا اس كےليےمباح كيا ہےجواسےپائے.

شراب كا مٹكا توڑنےاور اس كا برتن ضائع كرنےكا حكم ديا.

عبداللہ بن عمر رضي اللہ تعالي عنہ كو معصفر ( ايك قسم كا زرد رنگ ) سے رنگےہوئے كپڑے جلانےكا حكم ديا.

حفاظت كي جگہ كےعلاوہ كسي جگہ سےچوري كرنےوالےپر ڈبل جرمانہ كيا.

نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےمسجد ضرار كومنہدم كيا .

قاتل كو وصيت اور وراثت سے محروم كرديا.

شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالي كہتےہيں:

مالي سزاؤں كي تين اقسام ہيں:

اول:

ضائع اور تلف كرنا: برائي اور منكر كےتابع ہوتےہوئے برائي والي جگہ كا تلف كرنا، مثلا بتوں كو توڑ اور جلا كر، اور موسيقي اور آلات لہو كوتوڑنا، اور شراب ركھےجانےوالےبرتن اور مشكيزے پھاڑنا، اور شراب فروخت كرنےوالي دوكانوں كو جلا كر، زنديقوں اورملحدوں كي كتابيں اور مخرب الاخلاق فلميں اور تصويريں اور مجسمے ضائع اور تلف كرنا .

دوم:

تغير وتبدل كےساتھ: مثلا جعلي كرنسي توڑنا اورتصاوير والے پردوں كو پھاڑ كر اس كےتكيےوغيرہ بنانا.

سوم :

ملكيت: مثلا لٹكي ہوئي كھجوروں كي چوري، اور ملاوٹ شدہ زعفران كا صدقہ كرنا، تواس طرح كي اشياء لےكراسےيا اس كي قيمت صدقہ كرنا .



ديكھيں: توضيح الاحكام من بلوغ المرام ( 31 )

Islam Question and Answer - اسلام كي مالي سزاؤں كا حكم


اس سے ظاہر ہوتا ہے تعزیرا مالی جرمانہ کرنا جائز ہے، اور ٹیکس اور مالی جرمانہ میں فرق ہے، مزید تفصیل کیلئے یہ عربی مقالہ دیکھئے:
http://www.google.com.pk/url?sa=t&rct=j&q=&esrc=s&source=web&cd=1&ved=0CH0QFjAA&url=http://www.saaid.net/Doat/assuhaim/b/6.doc&ei=onCmT96gOMjdsgbjzpGXBQ&usg=AFQjCNEYluKkVg-OB_v8WktbOmaAfreQMg&sig2=J9A-yQAXTEeBzPN7LQzuLA

باحث نتائج نکالتے ہوئے لکھتے ہیں:
الخاتمة
الحمد لله الذي بنعمته تتم الصالحات .
هذه خاتمة المطاف ، ومن خلال هذا البحث اتّضحت أمور ، وتبيّنت معالم ، أوجزها في هذه النُّقاط :

1 – ثبوت العقوبات المالية ، والعمل بالغرامات المالية ، وأن ذلك مُحكَم لم يُنسخ وأن الأدلة فيه كثيرة ، إذ بلغت في هذه العُجالة ثمانية أدلّة من غير استقراء تام ، ومن غير تتبّع كامل .

2 – حِكمة الشريعة الإسلامية في تنويع العقوبات التي تُلائم كل زمان ومكان ، وتُوافق طبائع النفوس ، فبعض النفوس لا يردعها العقاب البدني ، وإنما يردعها العقاب المالي ، فتُردع بالعقوبة المالية في محلِّها .
وللإمام أن يُعاقِب بالعقوبة المالية إذا رأى أن ذلك أدعى للرّدع .

3 – ينبغي التفريق بين العقوبات المالية وبين المكوس ( الضرائب ) ، فالعقوبات المالية بِحقّ وقد عمل بها النبي صلى الله عليه وسلم وخلفاؤه من بعده .
أما المكوس فقد حذّر النبي صلى الله عليه وسلم منها أبلغ تحذير ، ويكفي في هذا الباب قوله عليه الصلاة والسلام : لا يدخل الجنة صاحب مَكس . يعني : العَشَّار

4 – كما ينبغي التفريق بين العقوبات والحدود والكفّارات .

5 – أنه ينبغي لطالب العِلم البحث والتحرِّي والتدقيق ، وان لا يكتفي بقول عالمٍ واحد ، بل عليه أن يَجمع الأقوال لتستبين له المسائل .


واللہ تعالیٰ اعلم!
 

Abuzar

مبتدی
شمولیت
نومبر 09، 2011
پیغامات
4
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
0



تفصیلا جواب دینے کے لئے دونوں بھائیوں کو جزاک اللہ اور اب آپ بھائیوں نے جو جوابات دی ہے تو اس کے مطابق نتیجتا یہ جو جرمانہ بچھے سے سکول میں لیا جاتا ہے یہ حرام ہے یا حلال؟





 
Top