• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پانچ نمازوں اور جمعہ میں فرض و نفل رکعات کی تعداد

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
پانچ نمازوں اور جمعہ میں فرض و نفل رکعات کی تعداد

کامران طاہر​
نمازِ پنجگانہ کی رکعات کی صحیح تعداد کے متعلق عام طور پر عامۃ الناس میں مختلف آرا پائی جاتی ہیں جیسے عشاء کی نماز کی ١٧ رکعات وغیرہ اور پھر ان رکعات کے مؤکدہ اور غیر مؤکدہ نوافل کے تعین کامسئلہ بھی زیر بحث رہتاہے۔ذیل میں افادۂ عام کے لیے نمازِ پنجگانہ کے مؤکدہ اور غیرمؤکدہ نوافل اور فرائض کی صحیح تعداد کو دلائل کے ساتھ پیش کر دیا گیا ہے۔
فرائض:
جمعہ کے علاوہ ہر دن کی پانچ نمازوں کے فرائض کی تعداد کل ١٧ ہے جو احادیث ِصحیحہ اور اُمت کے عملی تواتر سے ثابت ہیں۔
سنت ِمؤکدہ:
اسی طرح نمازوں کے فرائض سے پہلے یا بعد کے نوافل جو آپﷺ کی عادت اور معمول تھایا پھر آپﷺسے ان کی تاکیدو ترغیب بھی منقول ہے، ان کی تعداد کم ازکم١٢ ہے۔ ان میں سے ١٢ نوافل کے بارے میں سیدہ اُمّ حبیبہؓ فرماتی ہیں:
سمعت رسول اﷲﷺ یقول: «من صلّىٰ اثنتی عشرة رکعة في یوم ولیلة بُني له بهن بیت في الجنة» (صحیح مسلم:٧٢٨)
’’میں نے رسول اللہﷺ سے سنا كہ جو شخص دن اور رات میں ١٢ رکعات پڑھ لے، اُن کی وجہ سے اس کے لئے جنت میں ایک محل بنا دیا جاتا ہے۔‘‘
آپ ﷺنے فرمایا:
«من صلى في یوم ولیلة ثنتي عشرة رکعة بنی له بیت في الجنة أربعًا قبل الظهر ورکعتین بعدها ورکعتین بعد المغرب ورکعتین بعد العشاء ورکعتین قبل صلاة الغداة»(سنن ترمذی:٤١٥)
’’جس نے رات اور دن میں ١٢ رکعت (نوافل) ادا کیے، جنت میں اس کے لئے گھر بنا دیا جاتا ہے: چار رکعت قبل از ظہر ، دو بعد میں، دو رکعت مغرب کے بعد، دو عشاء کے بعد اور دو صبح کی نماز سے پہلے۔‘‘
نمازِ فجر:
تعداد رکعات : ٤ (٢ نفل +٢ فرض)
نوافل:
اُمّ المومنین سیدہ حفصہؓ فرماتی ہیں :
کان إذا سکت المؤذن من الأذان لصلاة الصبح، وبدأ الصبح، رکع رکعتین خفیفتین قبل أن تقام الصلاة(صحیح مسلم:٧٢٣)
’’جب مؤذن اذان کہہ لیتااور صبح صادق شرو ع ہوجاتی تو آپﷺ جماعت کھڑی ہونے سے پہلے مختصر سی دو رکعتیں پڑھتے۔‘‘
فرائض:
سیدناابو برزہ اسلمیؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ صبح کی نماز پڑھاتے:
’’وکان یقرأ في الرکعتین وأحدهما ما بین الستین إلىٰ المائة‘‘(صحیح بخاری:٧٧١)
’’ آپﷺ دو رکعتوں یا کسی ایک میں 60سے 100 تک آیات تلاوت فرماتے تھے‘‘
آپﷺ سے فجر کے فرائض سے پہلے دو رکعت نماز پرمداومت یعنی ہمیشگی ثابت ہے جیساکہ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں:
إن النبيﷺ لم یکن علی شيء من النوافل أشد معاهدة منه علىٰ رکعتین قبل الصبح(صحیح مسلم:٧٢٤)
’’بیشک نبی ﷺنوافل میں سے سب سے زیادہ اہتمام صبح کی سنتوں کا کرتے تھے۔‘‘
ظہر:
زیادہ سے زیادہ رکعات :١٢ (٢یا ٤ نفل+٤ فرض+٢ یا ٤ نفل)
نوافل:
سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں :
کان یصلي في بیت قبل الظهر أربعًا ثم یخرج فیصلي بالناس ثم یدخل فیصلي رکعتین(صحیح مسلم:٧٣٠)
’’آپ ﷺ میرے گھر میں ظہر سے پہلے چار رکعات نوافل ادا کرتے اور لوگوں کو نماز پڑھانے کے بعد گھر واپس آکر دو رکعات پڑھتے تھے۔‘‘
سیدناابن عمر فرماتے ہیں:
صلَّیت مع النبی سجدتین قبل الظهر والسجدتین بعد الظهر(صحیح بخاری:١١٧٢)
’’میں نے نبیﷺ کے ساتھ دو رکعت نوافل ظہر سے پہلے اور دو ظہر کی نماز کے بعد پڑھے۔‘‘
سیدہ اُمّ حبیبہؓ سے روایت ہے کہ آپﷺنے فرمایا:
«من حافظ على أربع رکعات قبل الظهر وأربع بعدها حرم على النار»(سنن ابوداود:١٢٦٩)
’’جو شخص ظہر سے قبل اور بعد چار چار رکعات نوافل کا اہتمام کرے، وہ آگ پر حرام ہو جائے گا۔‘‘
مذکورہ بالا روایات سے ظہرکی سنتوں کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ زیادہ سے زیادہ ١٢ ہیں اور ان میں کم از کم ٤ رکعات نوافل مؤکدہ ہیں۔جیسا کہ سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں:
إن النبي کان لا یدع أربعًا قبل الظهر ورکعتین قبل الغداة (صحیح بخاری:١١٨٢)
’’نبی ﷺظہر سے پہلے کی چار رکعات اور فجر سے پہلے کی دو رکعات کبھی نہ چھوڑتے۔‘‘
فرائض:
سیدنا ابوقتادہؓ سے روایت ہے :
أن النبي کان یقرأ في الظهر في الأولیین بأمّ الکتاب وسورتین وفي الرکعتین الأخریین بأمّ الکتاب…الخ (ايضًا:٧٧٦)
’’بے شک نبیﷺظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورۂ فاتحہ اور ایک ایک سورت پڑھتے اور آخری دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ پڑھتے…الخ‘‘
عصر:
تعداد رکعات : ١٠ (٤ نفل+٤ فرض+٢ نفل)
نوافل:
سیدنا علیؓ سے روایت ہے :
کان النبی یصلي قبل العصر أربع رکعات(سنن ترمذی:٤٢٩)
’’نبی ﷺعصر سے پہلے چار رکعات نوافل ادا کرتے تھے۔‘‘
ابن عمر ؓسے روایت ہے آپﷺنے فرمایا:
«رحم اﷲ امرأ صلى قبل العصر أربعًا» (سنن ابوداؤد:١٢٧١، سنن ترمذی ٤٣٠)
’’اللہ تعالیٰ اس پر رحمت فرمائیں جو عصر کی نماز سے قبل چار رکعات پڑھے۔‘‘
سیدنا ابوسعیدخدری ؓسے روایت ہے، فرماتے ہیں:
کنا نحزر قیام رسول اﷲ في الظهر والعصر...وحزرنا قیامه في الرکعتین الأولیین من العصر علی قدر قیامه من الأخریین من الظهر وفي الأخریین من العصر علی النصف من ذلك (صحیح مسلم:٤٥٢)
’’ہم رسول اللہﷺ کے ظہر اور عصر کے قیام کا اندازہ لگایا کرتے تھے...عصر کی نماز کی پہلی دو رکعتوں کے قیام کا اندازہ اس طرح کرتے کہ وہ ظہر کی آخری دو رکعتوں کے قیام کے برابر ہوتا اور آخری دو رکعتوں کا قیام عصر کی پہلی دو رکعتوں سے نصف ہوتاتھا۔‘‘
سیدہ عائشہ ؓفرماتی ہیں:
ما ترك النبی ﷺ السجدتین بعد العصر عندي قط (صحیح بخاری:٥٩)
’’آپ ﷺ نے میرے پاس کبھی بھی عصر کے بعد دو رکعت نوافل پڑھنا ترک نہیں کیے۔‘‘
عصر کی فرض نماز سے پہلے چار رکعت نوافل آپﷺسے ثابت ہیں، کیونکہ اس پر آپ ﷺکا دوام ثابت نہیں،اس لیے یہ نوافل مؤکدہ نہیں ہیں۔
سیدنا علی ؓ فرماتے ہیں:
یصلي قبل الظهر أربعًا وبعدها رکعتین وقبل العصر أربعًا یفصل بین کل رکعتین بالتسلیم (سنن ترمذی:٥٩٨)
’’اور نبی کریمﷺ نے ظہر سے پہلے چار رکعت نوافل ادا کئے اور دو بعد میں اسی طرح چار رکعت نوافل عصر کی نماز سے پہلے ادا کئے اور آپﷺنے ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرا۔‘‘
یاد رہے کہ ظہر اور عصر کے پہلے چار چار نوافل کو دو دو رکعت کر کے پڑھنا سنت ہے جیسا کہ مذکورہ روایت سے ثابت ہوتا ہے۔
مغرب:
تعداد رکعات: ٥ (٣ فرض+٢ نفل)
فرائض:
سیدناعبد اللہ بن عمر سے روایت ہے:
’’جمع رسول اﷲ ﷺ بین المغرب والعشاء بجمع، صلى المغرب ثلاثًا والعشاء رکعتین بـإقامة واحدة‘‘ (صحیح مسلم:١٢٨٨)
’’رسول اللہﷺ نے(سفر میں) مغرب اور عشاء کو ایک ہی وقت میں جمع کیا۔ آپ نے مغرب کی تین رکعت اور عشاء کی دو رکعتیں ایک ہی اقامت سے پڑھائیں۔‘‘
نوافل:
سیدہ عائشہؓ نبیﷺ کی فرض نمازوں سے پہلے اور بعد کے نوافل بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں:
وکان یصلي بالناس المغرب ثم یدخل فیصلي رکعتین (ایضًا:٧٣٠)
’’آپ لوگوں کو مغرب کی نماز پڑھاتے پھر میرے گھر میں داخل ہوتے اور دو رکعت نماز نوافل ادا کرتے۔‘‘
نوٹ:
مغرب کی نما زسے پہلے دو رکعت نفل بھی آپﷺ سے ثابت ہیں۔ عبداللہ مزنی سے روایت ہے کہ
إن رسول اﷲصلی قبل المغرب رکعتین (ابن حبان:١٥٨٦،قیام اللیل للمروزی،ص٦٤)
’’رسول اللہﷺنے مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعت نفل ادا کیے۔‘‘
لیکن یہ دو رکعت مؤکدہ نہیں ہیں۔عبداللہ مزنی سے ہی روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
«صلوا قبل صلاة المغرب» قال في الثالثة: «لمن شاء» کراهیة أن یتخذها الناس سنة (صحیح بخاری:١١٨٣)
’’مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعت پڑھو تین دفعہ فرمایا اور تیسری مرتبہ فرمایا جو چاہے۔ تاکہ کہیں لوگ اسے مؤکدہ نہ سمجھ لیں۔‘‘
عشاء:
تعداد رکعات کم از کم ایک وتر: ٧ (٤فرض +٢نفل+١وِتر)
فرائض:
سیدناعمر نے سیدنا سعد سے اہل کوفہ کی شکایت کے بارے میں پوچھا کہ آپ نماز اچھی طرح نہیں پڑھاتے تو آپ نے جواب دیا:
أما أنا واﷲ فإني کنت أصلي بهم صلاة رسول اﷲ ﷺ، ما أخرم عنها، أصلي صلاة العشاء فأرکد في الأولیین، وأخف في الأخریین قال: ذلك الظن بك یا أبا سحٰق (صحیح بخاری:٧٥٥)
’’اللہ کی قسم! میں اُنہیں نبیﷺ کی نماز کی طرح ہی نماز پڑھاتا تھا اور اس سے بالکل کوتاہی نہ کرتا تھا۔ میں عشاء کی نماز جب پڑھاتا تو پہلی دورکعتوں کو لمبا کرتا اور آخری دو رکعتوں کو ہلکاکرتا ۔ سیدناعمر فرمانے لگے:اے ابو اسحٰق !تمہارے بارے میں میرا یہی گمان تھا۔‘‘
نوافل:
عشاء کی فرض نمازکے بعدنبیﷺسے ٢ اور ٤ نوافل پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے
سیدناعبداللہ بن عمر کہتے ہیں:
صلیت مع النبي… وسجدتین بعد العشاء… الخ (ایضًا:١١٧٢)
’’میں نے نبیﷺکے ساتھ . . . عشاء کے بعد دو رکعات نماز پڑھی۔‘‘
سیدنا ابن عباس فرماتے ہیں:
’’میں نے اپنی خالہ میمونہؓ کے گھر میں ایک رات گزاری:
فصلى رسول اﷲ ﷺ العشاء ثم جاء فصلى أربع رکعات ثم نام (ایضًا:٦٩٧)
’’آپﷺ نے عشا کی نماز پڑھائی، پھر گھرآئے اور چار نوافل اداکئے اور سوگئے‘‘
نبیﷺ کے عام حکم
«بین کل أذانین صلاة، بین کل أذانین صلاة»ثم قال في الثالثة «لمن شاء»(ایضًا:٦٢٧)
’’آپﷺ نے فرمایا: ہر دو اذانوں(اذان اور اقامت) کے درمیان نماز ہے، ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے۔ تیسری دفعہ آپﷺ نے فرمایا جو چاہے۔‘‘
سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر فرض نمازسے پہلے دو رکعت نماز کی ترغیب ہے۔ لہٰذا اس مشروعیت کے مطابق عشاء کی نماز سے پہلے دو رکعت نوافل ادا کئے جاسکتے ہیں۔
وتر کے بعد دو سنتیں پڑھنا آپﷺسے ثابت ہے جیسا کہ اُمّ سلمہ سے روایت ہے:
أن النبی کان یصلي بعد الوتر رکعتین (سنن ترمذی:٤٧١)
’’آپ ﷺوتر کے بعد دو رکعت نوافل ادا کرتے تھے۔‘‘
وِتر
آپﷺ کی قولی و فعلی احادیث سے ایک، تین، پانچ ،سات اور نو رکعت وتر ثابت ہیں۔
سیدنا ایوب انصاریؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
«الوتر حق على کل مسلم، فمن أحب أن یوتر بخمس فلیفعل، ومن حب أن یوتر بثلاث فلیفعل، ومن أحب أن یوتر بواحدة فلیفعل»(سنن ابوداود:١٤٢٢)
’’وتر ہر مسلمان پر حق ہے۔ چنانچہ جو پانچ وتر ادا کرنا پسند کرے وہ پانچ پڑھ لے اور جو تین وتر پڑھنا پسند کرے وہ تین پڑھ لے اور جو ایک رکعت وتر پڑھنا پسند کرے تو وہ ایک پڑھ لے۔‘‘
سیدہ اُمّ سلمہؓ فرماتی ہیں:
کان رسول اﷲ یوتر بسبع أو بخمس… الخ (سنن ابن ماجہ:١١٩٢)
’’ رسول اللہﷺسات یا پانچ وتر پڑھا کرتے تھے۔‘‘
وِتر پڑھنے کا طریقہ
1۔تین وتر پڑھنے کے لئے دو نفل پڑھ کر سلام پھیرا جائے اور پھر ایک وتر الگ پڑھ لیا جائے۔ سیدہ عائشہ ؓسے روایت ہے:
کان یوتر برکعة وکان یتکلم بین الرکعتین والرکعة
’’آپؐ ایک رکعت وتر پڑھتے جبکہ دو رکعت اور ایک کے درمیان کلام کرتے۔‘‘
مزیدسیدنا ابن عمر کے متعلق ہے کہ
صلىٰ رکعتین ثم سلم ثم قال: أدخلوا إليّ ناقتي فلانة ثم قام فأوتر برکعة (مصنف ابن ابی شیبہ:٦٨٠٦)
’’اُنہوں نے دو رکعتیں پڑھیں پھر سلام پھیر دیا۔پھر کہا کہ فلاں کی اونٹنی کو میرے پاس لے آؤ پھر کھڑے ہوئے اور ایک رکعت وتر ادا کیا۔‘‘
2۔پانچ وتر کا طریقہ یہ ہے کہ صرف آخری رکعت میں بیٹھ کر سلام پھیرا جائے۔ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں:
کان رسول اﷲ ﷺ یصلي من اللیل ثلاث عشرة رکعة، یوتر من ذلک بخمس، لا یجلس فی شيء إلا في آخرها (صحیح مسلم:٧٣٧)
’’رسول اللہ رات کو تیرہ رکعت نماز پڑھا کرتے تھے۔ ان میں سے پانچ وتر ادا کرتے اور ان میں آخری رکعت ہی پر بیٹھتے تھے۔‘‘
3۔سات وتر کے لئے ساتویں پر سلام پھیرنا:
سیدہ عائشہؓ سے ہی مروی ہے کہ سیدہ اُمّ سلمہؓ فرماتی ہیں کہ
کان رسول اﷲ ﷺ یوتر بسبع وبخمس لا یفصل بینهن بتسلیم ولا کلام (سنن ابن ماجہ :١١٩٢)
’’نبی ﷺسات یا پانچ وتر پڑھتے ان میں سلام اور کلام کے ساتھ فاصلہ نہ کرتے۔‘‘
4۔نو وتر کے لئے آٹھویں رکعت میں تشہد بیٹھا جائے اور نویں رکعت پر سلام پھیرا جائے۔ سیدہ عائشہؓ نبیﷺ کے وتر کے بارے میں فرماتی ہیں:
ویصلي تسع رکعات لا یجلس فیها إلا في الثامنة … ثم یقوم فیصلي التاسعة (صحیح مسلم:٧٤٦)
’’آپﷺ نو رکعت پڑھتے اور آٹھویں رکعت پر تشہد بیٹھتے …پھر کھڑے ہوکر نویں رکعت پڑھتے اور سلام پھیرتے۔‘‘
قنوتِ وتر:
آخری رکعت میں رکوع سے پہلے دعائے قنوت پڑھنا راجح ہے۔(رکوع کے بعد قنوتِ وتر سے متعلقہ حدیث جو کہ السنن الکبری للبیہقی:3؍38، 39 اور مستدرک حاکم:3؍172 میں ہے ۔اس کی سند پر محدثین نے کلام کیا ہے۔البتہ قنوتِ نازلہ پر قیاس کرتے ہوئے رکوع کے بعد قنوتِ وتر پڑھنا جائز ہے ۔جیسا کہ قنوتِ وتر میں قنوتِ نازلہ پر قیاس کرتے ہوئے دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا جائز ہے۔)
سیدنا اُبی بن کعبؓ سے روایت ہے:
أن رسول اﷲ کان یوتر فیقنت قبل الرکوع (سنن ابن ماجہ:١١٨٢)
’’بے شک رسول اللہﷺ وتر پڑھتے تو رکوع سے پہلے قنوت کرتے تھے۔‘‘
وتر کی دعا
«اَللّٰهُمَّ اهْدِنِيْ فِیْمَنْ هَدَیْتَ وَعَافِنِيْ فِیْمَنْ عَافَیْتَ وَتَوَلَّنِيْ فِیْمَنْ تَوَلَّیْتَ وَبَارِكْ لي فِیْمَا اَعْطَیْتَ وَقِنِيْ شَرَّ مَاقَضَیْتَ فَإنَّكَ تَقْضِيْ وَلَا یُقْضٰی عَلَیْك إنَّه لَا یَذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ وَلَا یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ تَبَارَکْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَیْتَ» (سنن ترمذی:٤٦٤،بیہقی :٢٠٩٢)
’’اے اللہ! مجھے ہدایت دے ان لوگوں کے ساتھ جنہیں تو نے ہدایت دی،مجھے عافیت دے ان لوگوں کے ساتھ جنہیں تو نے عافیت دی، مجھ کو دوست بنا ان لوگوں کے ساتھ جنہیں تو نے دوست بنایا۔ جو کچھ تو نے مجھے دیا ہے اس میں برکت عطا فرما اور مجھے اس چیز کے شر سے بچا جو تو نے مقدر کردی ہے، اس لئے کہ تو حکم کرتا ہے، تجھ پر کوئی حکم نہیں چلا سکتا ۔جس کو تو دوست رکھے وہ ذلیل نہیں ہوسکتا اور جس سے تو دشمنی رکھے وہ عزت نہیں پاسکتا۔ اے ہمارے ربّ! تو برکت والا ہے، بلند و بالا ہے۔‘‘
نمازِ جمعہ کی رکعات
نوافل:
نمازِ جمعہ سے پہلے دو رکعت نوافل ادا کیے جاتے ہیں،جیسا کہ ارشادِ نبویﷺہے:
«إذا جاء أحدکم یوم الجمعة والإمام یخطب فلیرکع رکعتین» (سنن ابوداؤد:٩٨٨)
’’جب تم میں کوئی جمعہ کے دن آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو تو وہ دو رکعتیں ادا کرے‘‘
یہ جمعہ کے کوئی مخصوص نوافل نہیں ہیں بلکہ آپﷺکے دو سرے عام حکم :
«إذا دخل أحدکم في المسجد لا یجلس حتی یصلى رکعتین» (صحیح بخاری:١١٦٣)
’’جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے تو دو رکعت نماز پڑھے بغیر نہ بیٹھے۔‘‘
کے مطابق یہ تحیۃ المسجد کے نوافل ہیں۔
نوٹ:
جمعہ کے فرائض سے پہلے نوافل کی تعداد محدود نہیں ہے۔اِستطاعت کے مطابق جتنے کوئی پڑھ سکے،پڑھ سکتاہے، جس کی دلیل آپ ﷺکا فرمان:
«من اغتسل ثم أتىٰ الجمعة فصلى ما قدر له»(صحیح مسلم:٨٥٧)
’’جو شخص غسل کرے پھر وہ جمعہ کے لیے آئے تو جتنی اس کے مقدر میں نماز ہو ادا کرے…‘‘ ہے۔ اس سے ثابت ہوا جمعہ سے پہلے نوافل کی مقدار متعین نہیں جتنی توفیق ہو پڑھ سکتا ہے۔
اسی طرح جمعہ کے بعد آپﷺ سے زیادہ سے زیادہ ٦ رکعات نوافل ثابت ہیں۔جس سے متعلق اَحادیث درج ذیل ہیں:
1۔ابن عمر کے بارے میں وارد ہے کہ
إذا کان بمکة فصلى الجمعة تقدم فصلى رکعتین،ثم تقدم فصلى أربعًا، وإذا کان بالمدینة صلى الجمعة، ثم رجع إلىٰ بیته فصلى الرکعتین، ولم یصلي في المسجد فقیل له فقال: کان رسول اﷲ ﷺ یفعل ذلك (سنن ابوداؤد:١١٣٠)
’’جب وہ مکہ میں ہوتے تو جمعہ پڑھ کی دو رکعت ادا کرتے۔ پھر چار رکعات ادا کرتے اور جب مدینہ میں ہوتے تو جمعہ پڑھتے اور گھر جاکر دو رکعت پڑھتے،مسجد میں کچھ نہ پڑھتے۔اُن سے پوچھا گیا تو فرمایا : رسول اللہ ﷺاسی طرح کیا کرتے تھے۔‘‘
2۔آپﷺنے فرمایا:
«إذا صلى أحدکم الجمعة فلیصل بعدها أربع رکعات» (صحیح مسلم:٨٨١)
’’جب تم میں سے کوئی نمازِ جمعہ ادا کرے تو اس کے بعد چار رکعات اَدا کرے۔‘‘
دوسری حدیث کے تحت سہیل کہتے ہیں کہ
’’اگر جلدی ہو تو دو رکعت مسجد میں اور دو گھر میں پڑھ لے۔‘‘
3۔عبد اللہ بن عمر ؓفرماتے ہیں:
کان رسول اﷲ کان یصلى بعد الجمعة رکعتین في بیته (سنن نسائی:١٤٢٩)
’’بے شک رسول ﷺ جمعہ کے بعد اپنے گھر میں دو رکعت نماز ادا کرتے تھے۔‘‘
نوٹ:
مندرجہ بالااحادیث سے جمعہ کے بعد کے نوافل کی درج ذیل صورتیں سامنے آئیں:
1۔6رکعات نوافل مسجد میں ادا کر لیے جائیں۔
2۔4رکعت میں مسجد میں ادا کر لیے جائیں۔
3۔دو رکعت مسجد میں اور دو رکعت گھر میں پڑھ لی جائیں۔
4۔دو رکعت گھر میں ادا کر لی جائیں اور مسجد میں کچھ نہ پڑھا جائے۔
فرائض:
جمعہ کے فرائض دو رکعت ہیں۔آپﷺ نےفرمایا:
«من أدرك من الجمعة رکعة فلیصلي إلیها أخری» (سنن ابن ماجہ:١١٢١)
’’جو شخص جمعہ سے ایک رکعت پالے تو اسکے ساتھ دوسری آخری رکعت ملا لے۔‘‘
اس حدیث سے ثابت ہو ا کہ نمازِ جمعہ کے فرائض صرف دو رکعات ہیں۔ جو اس دن ظہر کی نماز کے متبادل ہوجائیں گے اور ظہر کی نماز پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے
 

عمیر

تکنیکی ذمہ دار
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
703
پوائنٹ
199
’’جس نے رات اور دن میں ١٢ رکعت (نوافل) ادا کیے، جنت میں اس کے لئے گھر بنا دیا جاتا ہے: چار رکعت قبل از ظہر ، دو بعد میں، دو رکعت مغرب کے بعد، دو عشاء کے بعد اور دو صبح کی نماز کے بعد۔‘‘
السلام علیکم،
کلیم بھائی میں زرا کنفیوز ہوں آپ نے دو نفل صبح کی نماز کے بعد لکھا ہے اور نیچے فرض سے پہلے لکھا ہے شاید یہاں کوئی ٹائیپنگ میں غلطی ہے۔۔۔۔پلیز چیک کیجئے گا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
جزاك الله واحسن الجزاء في الدنيا والآخرة عمیر بھائی ٹائپنگ کی غلطی تھی یہ ان الفاظ کا ترجمہ تھا ’’ورکعتین قبل صلاة الغداة ‘‘ اب تصحیح کردی گئی ہے۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
جزاك الله واحسن الجزاء في الدنيا والآخرة
مجھے ایسے ہی معلومات کی بہت ضرورت تھی،
ایک بات کی سمجھ نہیں آئی۔ براے مہربانی سمجھا دیں۔
آپ نے یہ کہا ہے کہ
أن النبی کان یصلي بعد الوتر رکعتین (سنن ترمذی:٤٧١)
’’آپ ﷺوتر کے بعد دو رکعت نوافل ادا کرتے تھے۔‘‘
اور اوپر لکھا ہے۔
عشاء:
تعداد رکعات کم از کم ایک وتر: ٧ (٤فرض +٢نفل+١وِتر)
تو کیا یہ دو رکعات بھی کل رکعات میں جمع نہیں کر سکتے؟

اور احناف کہتے ہیں کہ عشاء سے پہلے ٤ رکعات ،،
ویسے اس کی حقیقت کیا ہے؟
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
جزاک اللہ ناصر بھائی آپ نے ایک بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ
أن النبی کان یصلي بعد الوتر رکعتین (سنن ترمذی:٤٧١) ’’آپ ﷺوتر کے بعد دو رکعت نوافل ادا کرتے تھے۔‘‘
اور اوپر عشاء کی رکعات کی تعداد میں یہ ہے۔
عشاء:تعداد رکعات کم از کم ایک وتر: ٧ (٤فرض +٢نفل+١وِتر)
تو اس پر آپ کا جو سوال ہے اس کا جواب کچھ یوں ہے کہ موضوع کا عنوان ہے
’’پانچ نمازوں اور جمعہ میں فرض و نفل رکعات کی تعداد‘‘
تو بھائی یہاں نفل وہ جمع کی گئی ہیں جو سنت مؤکدہ ہیں جو سنت غیر مؤکدہ ہیں ان کو جمع نہیں کیا گیا۔اورأن النبی کان یصلي بعد الوتر رکعتین (سنن ترمذی:٤٧١) یہ بھی سنت غیر مؤکدہ ہیں اس وجہ سے عشاء کی رکعات کی تعداد میں ان کو نہیں لایا گیا۔واللہ اعلم
باقی علماء حضرات اس پر روشنی ڈالیں گے۔ان شاءاللہ
اور احناف کہتے ہیں کہ عشاء سے پہلے ٤ رکعات ،،
ویسے اس کی حقیقت کیا ہے؟
اس بات کا جواب بھی علماء کرام عنایت فرمائیں گے۔
 

حامد فاروق

مبتدی
شمولیت
جون 19، 2011
پیغامات
3
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
0
جزاک اللہ خیر کلیم بھائی
آپ کا درج بالا مضمون پڑھ کر ایک سوال ذہن میں تازہ ہو گیا ہے اس حوالے سے راہ نمائی درکار ہے
سنت مؤکدہ اور غیر مؤکدہ کافرق تو مفہوم ہے لیکن نفل اور سنت میں فرق کی وضاحت درکار ہے
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
جزاک اللہ بھائی جس طرح حدیث اورسنت دولفظ ہیں لیکن فرق نہیں ہے اسی طرح نفل اور سنت بھی دو لفظ ہیں فرق نہیں ہے۔عموماً سنت کا لفظ جامع ہے اس میں ہر وہ کام آ جاتا ہے جو آپ ﷺ نے کیا ہے ۔چاہے وہ قولی ہو،فعلی ہو یا تقریری ہو۔لیکن اگر نماز کے قصے میں لفظ سنت کا استعمال ہو تو اس سے مراد فرضی نماز نہیں ہوتی۔بلکہ سنتیں یا نوافل مراد ہوتےہے۔
عنوان میں بھی یہ ہے کہ فرض و نفل۔تو اس نفل کے لفظ سے مراد سنتیں ہی ہیں جو نماز کے بعد یا اور موقعوں پر پڑھی جاتی ہیں۔جس طرح ان الفاظ میں ہے
آپ ﷺنے فرمایا:
«من صلى في یوم ولیلة ثنتي عشرة رکعة بنی له بیت في الجنة أربعًا قبل الظهر ورکعتین بعدها ورکعتین بعد المغرب ورکعتین بعد العشاء ورکعتین قبل صلاة الغداة»(سنن ترمذی:٤١٥)
’’جس نے رات اور دن میں ١٢ رکعت (نوافل) ادا کیے، جنت میں اس کے لئے گھر بنا دیا جاتا ہے: چار رکعت قبل از ظہر ، دو بعد میں، دو رکعت مغرب کے بعد، دو عشاء کے بعد اور دو صبح کی نماز سے پہلے۔‘‘
تو یہاں بھی وہ نوافل ہیں جو نماز کے بعد یا پہلے آپ ﷺ نے پڑھے ہیں جن کو سنتوں کا نام دیا جاتا ہے۔واللہ اعلم
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
محترم شیخ @خضر حیات صاحب حفظہ اللہ!
جمعہ کے بعد کتنی رکعات پڑھی جائیں؟؟؟ بظاہر تعداد میں جو تعارض ہے وہ کس طرح رفع ہوگا؟؟؟
کسی میں دو سے زائد کی نفی ہے تو کسی میں چار کا تذکرہ ہے. وغیرہ وغیرہ
 
Top