• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پانی پت میں علم القراء ت

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پانی پت میں علم القراء ت

ڈاکٹر محمود الحسن عارف​
’علم تجوید و قراء ات‘ پاکستان میں چار سلسلہ ہائے سند سے منتقل ہوا ہے، جن میں خصوصاً پانی پت کے مشائخ قراء ات (شیخ القراء قاری محی الاسلام عثمانی پانی پتی، شیخ القراء قاری فتح محمد اعمی، شیخ القراء قاری رحیم بخش، شیخ القراء قاری طاہر رحیمی وغیرہ) نے جس طرح تدریس و تحریر کے ذریعے اُردو طبقہ میں اس علم کو منتقل کیا وہ پاکستان کی علمی تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ماہنامہ رُشد کے صفحات میں اس سے قبل مختلف فقہی مکاتب فکر میںتجوید وقراء ات کی نمائندہ شخصیات کا تعارف پیش کیا جاچکا ہے۔ پانی پتی سلسلہ تجوید و قراء ت اگرچہ علیحدہ سے کوئی مستقل فقہی مکتب فکر نہیں لیکن ان کی جلیل القدر خدمات کی بنیاد پر ماضی بعید سے ہی ان کا ایک منفرد اور مستقل مقام موجود ہے۔ ڈاکٹر محمود الحسن عارف نے انہی امور کے پیش نظر مشائخ پانی پت کی خدمات تجوید و قراء ات کو زیرنظر مضمون میں موضوع بحث بنایا ہے۔ ان کا یہ مضمون اس سے قبل ماہنامہ الحسن ، لاہور میں شائع ہوچکاہے، جسے معمولی قطع وبرید کے بعد دوبارہ رُشد کے صفحات کی زینت بنایا جارہا ہے۔
اس سلسلہ کے مشائخ قراء ات کی خدماتِ جلیلہ کو موضوع بحث بناتے ہوئے ڈاکٹر قاری محمد طاہر، مدیر ماہنامہ التّجوید نے بھی ’پاکستان میں عصری اور پانی پتی مکتبہ فکر … ایک تعارف‘ کے عنوان سے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالہ ’پاکستان میں علم تجوید و قراء ات … ماضی، حال، مستقبل‘ سے انتخاب فرما کر ہمیں ایک مضمون ارسال فرمایا تھا لیکن مجلہ کی ضخامت کے پیش نظر ہم اسے شائع نہیں کررہے۔ شائقین اس مضمون کو ادارہ کی ویب سائٹ محدث لائبریری [Mohaddis Library] پر مطالعہ کرسکتے ہیں۔ (ادارہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِسلام دین رحمت ہے، یہ دین جہاں جہاں پہنچا ، وہاں وہاں علم وفکر کی روشنی اور اَبدی مسرتوں کا پیغام بھی ساتھ گیا اور دُکھوں اور پریشانیوں میں مبتلا اِنسانیت نے سکھ کا سانس لیا:

اللہ اے حسن دوست کی آئینہ داریاں
اہل نظر کو نقش بہ دیوار کر دیا​
(جوش)
علم و فکر اورعقل ودانش کی یہی رُوشنی ہندوستان میں بھی پہنچی اور اس کی تابانیوں سے مندروں اور جہالتوں کی اس سر زمین کے سارے گوشے جگمگا اُٹھے اور ایک ایک قریہ اِس کے جلووں سے دمکنے لگا۔ آج ہماری گفتگو کاموضوع اور محور پانی پت یعنی سر زمین ہند کا ایک اَیساقریہ ہے، جو قرآن کریم کی تعلیم وتدریس کے سبب، دنیائے علم ودانش کا چندے آفتاب وچندے ماہتاب بنا اور اس مادرِ علمی کے سلسلے میں نکلنے والے فرزند دنیا بھر میں تعلیم وتدریس قرآن کی خدمت میں جریدہ عالم پر اپنی بقا کی تحریریں ثبت کر رہے ہیں یعنی:
ثبت اَست بر جریدۂ عالم دوام ما​
تا ریخ ہند میں جو بھی خوفناک جنگیں لڑی گئیں ، اُن کا مرکز بھی یہی شہر اور اس کا مضافاتی علاقہ رہا۔ بھارت کی تاریخ قدیم کی سب سے خوفناک جنگ کوروں اور پانڈوں کی لڑائی ہے جو اسی کے آس پاس کے میدانوں میں لڑی گئی… جس میں لاکھوں اِنسان تہہ تیغ ہوئے۔ مسلم عہد میں چھوٹی موٹی کئی جنگوں کے علاوہ سلطان اِبراہیم لودھی اور سلطان ظہیر الدین بابر کے مابین ۹۳۴؍۱۰۲۶ء میں گھمسان کا معرکہ اسی میدان میں لڑا گیا۔ جس نے اگلی تین صدیوں تک کے لئے ہندوستان کی قسمت کا فیصلہ مغلوں کے حق میں لکھ دیا۔ (محمد میاں: پانی پت اور بزرگان پانی :۳،۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سلطان جلال الدین اکبر کے عہد حکومت میں(۹۶۴؍ ۱۵۵۶ء) ایک بار پھر، یہیں بساط جنگ بچھی، اس بار مغلیہ تاجدار کے بالمقابل نامور ہند و جرنیل ہیمو بقا ل تھا۔ اِس مرتبہ بھی پانی پت کی سر زمین نے جلال الدین اَکبر کے حق میں عزت واِقتدار کا اور ہیمو بقال کے حق میں ذِلت وشکست کا فیصلہ لکھا۔اس جنگ میں بھی یہ سر زمین لاکھوں اِنسانوں کے خون سے سیراب ہوئی۔
تیسری بار یہ سر زمین اِس وقت شہیدوں او رمقتولوں کے لہو سے لالہ زار بنی جب ۱۱۷۵ھ؍۱۷۶۱ء میں پانی پت کی آخری، مگر سب سے خوفناک جنگ لڑی گئی، جس میں مرد ِ مجاہد اَحمد شاہ اَبدالی کے مد مقابل مرہٹہ کاٹڈی دل تھا… اس جنگ میں بھی، میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا۔ (محمود الحسن عارف، تذکرہ قاضی محمد ثناء اللہ پانی پت )
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تعلیم وتدریس قرآن کے مراکز
ان مادی اور گوشت پرست کی معرکہ آرائیوں کے ساتھ ساتھ، پانی پت کے انہی میدانوں میں شیطانی اور طاغوتی قوتوں کے خلاف بھی معرکہ آرائیاں جاری رہیں۔ جن کا سلسلہ اُسی وقت شروع ہوگیا جب پانچویں صدی ہجری ؍ گیارہویں صدی عیسوی میں کئی مسلم خاندانوں کے قافلے اس سر زمین پر اُترے اور انہوں نے اس شہر کی آب وہوا کو موافق پاکر ، یہاں ڈیرے ڈال دیئے۔ جن کا سلسلہ اب تک جار ی رہا۔
یوں تواس مردمِ خیر شہر سے شاہ بو علی قلندر(م۷۲۴؍۱۳۲۳ء) ، شیخ شمس الدین ترک شاہ ولایت (م۷۱۵؍ ۱۳۱۵ء) مخدوم الہند ،شیخ جلال الدین ممیر الاولیا عثمانی جیسے شہرۂ آفاق صوفی، قاضی ، محمد ثناء اللہ پانی پتی(م ۱۲۲۵ھ، ۱۸۱۰ ء) اور قاری عبد الرحمان انصاری پانی پتی جیسے محدث، علامہ اَلطاف حسین حالی اور نواب شاکر الدولہ جیسے اَدیب اورعبد الرحمن کازردنی او رنواب لطف اللہ صادق تیمور جنگ سے مجاہد اور غازی پیدا ہوئے ، لیکن اس کی شہرت کو چار چاند قراء اور حفاظ کی اس جماعت نے لگائے،جنہوں نے اس شہر میں تعلیم وتدریس قرآن کی ایک نئی روایت کی طرح ڈالی اور اس کو اکناف واقصائے عالم تک پہنچایا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
فن تجوید وقرآن کی اِبتداء
یوں تو مسلمان جب سے، اس شہر میں وارد ہوئے (پانچویں صدی ہجری ؍ گیارہویں صدی عیسوی) اسی وقت سے یہ شہر علم وعرفان کا مرکز رہا، قاضی محمد ثناء اللہ پانی پتی جب پیدا (۱۴۴۳ھ؍ ۱۷۴۰ء) ہوئے ، تو اسی شہر نے انہیں ابتدائی تعلیم وتربیت مہیا کی۔(ایضاً)
شعبان ۱۳۱۲ھ؍۱۷۹۴ء میں جب حکیم عبد الحی مرحوم نے پانی پت کا سفر کیا تو وہاں ۱۱۴؍ مساجد ، آٹھ سے زیادہ حفاظ اور تدریس قرا ء ت کے متعدد مدرسے موجود تھے۔ (حکیم عبد الحی، دہلی اور اس کے اطراف:۵۸)
پھر کر نگاہ چار سو ٹھہری اسی کے رو برو
اسی نے تو میری چشم کو قبلہ نما بنا دیا​
یہاں تدریس قرآن کے حوالے سے جو ایک تحریک پیدا ہوئی اسے اپنے اَثرات کے اِعتبار سے پانچ اَدوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ تفصیل اس طر ح ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دورِ اوّل …دورِ تاسیس
قاری مصلح الدین عباسی پانی پت میں اس رِوایت کے موسس ہونے کا شرف رکھتے ہیں، انہیں یہ منزل مدینہ منورہ سے ملی، قاری عباسی صاحب مدینہ منورہ کیسے پہنچے؟ اس کا سبب محض ایک اتفاق ہے ۔ جو حضرت موسیٰ﷤کے مدین پہنچنے کے واقعے سے بڑی مماثلت رکھتا ہے۔ اور اگر دنیا کی علمی، سیاسی اورمعاشی تاریخ پر نظر ڈالی جائے ، تو اکثر وبیشتر ، اتفاقی حوادث ہی بڑے بڑے واقعات کا پیش خیمہ ثابت ہوئے ہیں۔
قاری صاحب کے زمانے میںپانی پت میں شب معراج کے موقع پر آتش بازی کے مقابلے ہوتے تھے، قاری مصلح الدین عباسی بھی آتش بازی کے اِن مقابلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ ایک بار اَیسا ہوا کہ ان کے ہاتھ سے ایک شخص مہلک طور پر زخمی ہو گیا۔ قاری صاحب اس سے اِتنے خائف ہوئے کہ وہ کسی نہ کسی طرح چھپتے چھپاتے حجاز مقدس پہنچ گئے ، وہاں ایک نوجوان محمد نسیم رام پوری سے ملاقات ہوئی۔ دونوں نے فیصلہ کیا کہ اس آمدکو بامقصد بنانا چاہیے ، چنانچہ انہوں نے شیخ القراء قاری عبید اللہ مدنی سے قرآن پڑھنا شروع کر دیا۔ قاری عباسی اگر چہ بچپن میں قرآن حکیم حفظ کر چکے تھے ، لیکن فن تجوید وقراء ات سے نا آشنا تھے ’’ الغرض انہوں نے ۱۵؍ سالوں میں سبقاً پورے قرآن کریم کو قاری عبید اللہ مدنی سے پڑھا۔ پھر جب اپنے مضمون پر حاوی ہو گئے تووطن واپس لوٹے اور پانی پت میں قرآن کریم کی تعلیم وتدریس شروع کر دی۔ آپ کی تعلیم وتربیت مروّجہ طریقہ سے ہٹ کر تھی، اس لیے آپ سے بہت تھوڑے لوگوں نے فیضان حاصل کیا، جو لوگ آپ سے فیض یاب ہوئے ان میں ان کے بیٹے قاری عبید اللہ المعروف قاری لالہ اور ان کی صاحبزادی فضیلۃالنساء عرف بی بی کے اسمائے گرامی نمایاں ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
آپ کے دوسرے شاگردو ں میں حافظ محمد زبیر پانی پتی (۱۱۸۰ھ، ۱۷۶۶۔۱۲۵۷ء، ۱۸۴۱ء) قاری قادر بخش پانی پتی کے چھوٹے بھائی اور قاری عبد الرحمن محث کے والد (پیدائش۱۱۹۷ھ) حافظ اِکرام اللہ انصاری ، پانی پت کے ایک ذی وجاہت زمیندار (م ۱۱۹۹۔۱۲۰۰ھ؍۱۷۸۵ء) قاری احمد اَنصاری پانی پتی (م۱۲۰۰ھ؍ ۱۲۸۰ء) وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔
یہاں ایک دلچسپ واقعہ کا تذکرہ مناسب ہوگا ، قاری صاحب کے سوانح نگار لکھتے ہیں کہ قاری مصلح الدین عباسی﷫ ایک مرتبہ اپنے صاحبزادے ،قاری لالہ کے ہمراہ اپنے دوست قاری محمد نسیم رام پوری سے ملنے کے لئے رامپور گئے۔ تو قاری نسیم رام پور ی﷫ نے پوچھا، اجی حضرت یہ تو فرمائیے کہ مدینہ منورہ سے واپسی کے بعد، پانی پت میں قرآن کی کتنی خدمت کی؟ قاری مصلح الدین﷫ نے فرمایا ، میں نے اس عرصے میں آپ کے بھتیجے (قاری لالہ) اور اس کی بہن (فضیلۃ النساء) اور اس کے علاوہ پانچ سات آدمیوں کو قراء ت سکھائی ہے۔ یہ سن کر قاری نسیم بولے، افسوس تونے اپنی عمر بے کار ضائع کر دی میں تواس عر صے میں صد لوگوں کو قرآن پڑھا چکا ہوں۔ یہ الفاظ سن کر قاری مصلح الدین﷫ خاموش ہو گئے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اگلے دن قاری نسیم رام پوری﷫ نے رامپور کے معززین کو مدعو کیا۔ جب وہ آ گئے تواپنے دوست قاری مصلح الدین﷫ کا تعارف کرایا ۔ ان کے صاحبزادے قاری لالہ سے کہا ، برخوردار کوئی رکوع سناؤ ، تاکہ تمہارے والد کی محنت کا اندازہ ہو سکے۔ قاری لالہ نے تلاوت شروع کی تو حاضرین پر وجد کی سی کیفیت طاری ہو گئی۔ جب وہ تلاوت ختم کر چکے توقاری نسیم اٹھے، قاری لالہ کو اپنے سینے سے لگایا اورفرمایا: میرا اب تک یہ خیال تھاکہ میں نے قرآن کی بہت خدمت کی ہے ، لیکن اب قاری لالہ کی تلاوت سن کر مجھے یقین ہو گیا ہے کہ قرآن کی اصل خدمت تو قاری مصلح الدین عباسی نے کی ہے، میں نے تو اپنی تمام عمر ضائع کردی۔ میرے صد شاگردوں میں سے مجھ جیسا پڑھنے والا، ایک بھی نہیں اس کے برعکس، قاری مصلح الدین عباسی﷫ نے اپنے بیٹے ، قاری لالہ موسی﷫ کوایسا پڑھایا کہ وہ ہم دونوں پر سبقت لے گیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسرا دور… قاری لالہ کی خدمات
قاری مصلح الدین عباسی … پانی پتی کی اس روایت کے بانی او رمؤسس ضرور ہیں ،لیکن اس روایت اوراس اُسلوب کی اِشاعت کا شرف ان کے صاحبزادے، قاری لالہ﷫ کو حاصل ہوا، ان کے والد محترم چونکہ ان کے اُستاد اور مربی بھی تھے۔ اس لیے انہوں نے اپنے اس نوجوان صاحبزادے کی تعلیم وتربیت کچھ اس اَنداز سے کی، کہ وہ آئندہ دور میں شیخ القراء بنے اور ان کی شہرت نے پورے ہندوستان کو متاثر کیا ۔
ان کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ پندرہ بر س کی عمر تک رُوزانہ ان کے گلے پر جلوہ باندھا جاتا تھا، اور بیس سال کی عمر تک ان کے لئے ہر قسم کی ترش اَشیاء ممنوع تھیں۔ حتی کہ میٹھے آم بھی، ان کے والد محترم چکھے بغیر ان کو نہ کھانے دیتے تھے۔ اس کے علاوہ ان کے والد محترم نے انہیں کشتی ، پٹہ، بنوٹ، تیر اَندازی، گھڑ سواری اوردوسری مردانہ کھیلوں اور جسمانی ریاضتوں کی بھی خوب مشق کروائی۔(دینی مدارس کے طلبہ اور اَساتذہ کے لئے یہ واقعہ بہت اَہمیت کا حامل ہے ۔ اس دور میں اکیلے قاری لالہ ہی نہیں۔ اکثر علماء اور فقہاء مجاہدانہ ریاضتوں کے وصف سے متصف تھے۔ سید اَحمد شہید اور شاہ اِسماعیل شہید قدس سرہ کی جسمانی ریاضتوں کے واقعات سے کون نابلد ہے۔ ہمارے دینی مدارس کو اس طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔)
جس کے نتیجے میں ان کی آواز میں اتناسوز اور اتنی عمدگی پیدا ہوگئی کہ جب وہ تلاوت فرماتے تو در و دیوار پر بھی ایک کیفیت طاری ہو جاتی، انہوں نے ۱۲۶۰ھ کو بھوپال میں انتقال فرمایا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تیسرا دور
پانی پتی اَنداز تدریس کے اس دور میں جن بزرگوں نے خدمات اَنجام دیں، ان میں قاری نجیب اللہ عثمانی اَنصاری،قاری قادر بخش انصاری، قاری کبیر الدین ، قاری عبد الرحمن انصاری محدث پانی پتی اور قاری محمد پانی پتی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
قاری نجیب اللہ عثمانی﷫ شیخ القراء قاری خدا بخش﷫ کے نواسے اور حافظہ رحیم النساء﷫ کے صاحبزادے تھے، یعنی ان کی والدہ اور ان کے نانا دونوں پانی پت کی اس روایت کے گلِ گلستان تھے۔ اس لیے وہ اس روایت کے امین اور وارث بنے۔ اُنہوں نے اس علم کوگود سے سیکھا او رلحد تک جاری رکھا۔ وہ اپنے نانا قاری قادر بخش کی جگہ قلعہ معلی میں جانشین بنے اور دہلی میں ۱۳۱۰ھ میں اِنتقال فرمایا۔
تیسرے دور میں تعلیمی اور تدریسی خدمات اَنجام دینے والوں میں دوسرا نام قاری کبیر الدین﷫ کا ہے جو کہ کرنال میں ۱۲۲۰ھ؍ ۱۸۰۵ء میں پیدا ہوئے اور بچپن ہی میں پانی پت آگئے ۔قادر بخش نے جوہر قابل دیکھ کر ،ان کی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ دی اور انہیں اپنے ساتھ قلعہ معلی لے گئے، انہوں نے بارہ برس مفردات کی مشق کرائی یہی وجہ تھی کہ آپ نے تجوید میں اِمامت کا درجہ او رمقام حاصل کیااور۱۳۰۶ھ میں اِنتقال فرمایا۔
 
Top