• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پانی پت میں علم القراء ت

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اسی دور میں تیسرا نام شیخ القراء مولانا قاری عبد الرحمن محدث پانی پتی﷫ کا ہے،جو قراء ت وتجوید کے امام ہونے کے ساتھ ساتھ علم التفسیر اورعلم الحدیث میں بھی مقتدائے عوام وخواص تھے، ان کی پیدائش ۱۲۲۷ھ میں پانی پت میں ہوئی۔ اُنہوں نے نو سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کیا۔ تیرہ سال کی عمر میں انہوں نے مولوی رشید الدین خان اور مولانا مملوک علی نانوتوی سے علوم عر بیہ، منطق ،فقہ، بیان، اصول اور ریاضت پڑھے اور امام الدین نقشبندی امروہی سے شعبہ قراء ات میں باقاعدہ جمع الجمع طریقے سے تلاوت فرماتے، انہیں نحو، قراء ات اور تفسیر وغیرہ میں ممتاز درجہ حاصل تھا۔ جب آپ تلاوت فرماتے ، توسامعین پر عجب محویت طاری ہو جاتی ، آپ کا طرزبیاں اس قدر سادہ اور عام فہم تھا کہ دس برس کے بچے بھی مضمون کو آ سانی سے سمجھ لیتے تھے۔
علوم اِسلامیہ کی تعلیم وتدریس کے علاوہ نماز مغرب اور عشاء کے درمیان تجوید او رر وایت حفص کی تعلیم دیتے، اس طرح اُنہوں نے کم وبیش ساٹھ برس تک در س قرآن کا وعظ فرمایا۔عورتوں کی دینی تعلیم اور شرعی مسائل میں رہنمائی کے لئے مکان کے ایک حصے میں ہر وقت پردہ پڑا رہتا جس کے پیچھے بیٹھ کر عورتیں مسائل دریافت کیا کرتیں۔ مولانا اَلطاف حسین حالی نے ان کے مواعظ کی بڑی تعریف کی ہے۔ (اس مضمون کی تیاری میں خصوصی طور پر اردو ڈائجسٹ میں شائع ہونے والے مضمون قاریوں اور درویشوں کا شہر پانی پت، سے مدد لی گئی ہے۔)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چو تھا دَور
پانی پت رِوایت اور اُسلوب تدریس کا چوتھا دور قیام پاکستان ۱۹۴۷ء تک جاری رہا، اس دور میں پانی پت کی روایت اور وہاں کا اسلوب تدریس، ہندوستان کے بہت سے علاقوں میں پھیل گیا اور اس اسلوب تدریس اور اَنداز تلاوت کو دوسروں سے متمیز کیا جانے لگا۔ اس دَور میں جن لوگوں نے تدریسی اور تعلیمی خدمات اَنجام دیں ان میں قاری عبد الرحمن﷫، مولوی عبد السلام انصاری ﷫ (م ۱۳۳۶ھ) قاری عبد العلیم انصای﷫ (م۱۳۳۸ھ؍۱۹۹۱ء)، مولانا قاری ابو محمد محی الاسلام عثمانی اور قاری حافظ محمد اسماعیل پانی پتی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
قاری حافظ عبد الرحمن اعمی﷫، جنہیں شیخ الفرقان ثانی بھی کہا جاتاہے، ۱۲۲۰ھ؍۱۸۴۶ء میں موضع مابڑی ضلع کرنال میں پیدا ہوئے ۔ بچپن ہی میں کسی طرح پانی پت پہنچ گئے ۔ ان کی بے چارگی دیکھ کر قاری نجیب اللہ عثمانی نے ان کی سر پرستی کی اور بڑی محنت او رتوجہ سے قرآن پڑھایا۔ قاری عبد الرحمان محدث سے قرآن پڑھا اور سبعہ قراء ت سیکھیں۔ اس فن میں مزید مہارت کے لئے عرب کابھی سفر اختیار کیا۔انہیں مشہور کتب فنون اس خوبی کے ساتھ یاد تھیں کہ کتاب کا صفحہ او رباب تک بتا دیتے تھے۔ بہت سی کتابوں کا ذخیرہ ان کے پاس جمع رہتا تھا۔ انہوں نے ۱۳۳۰ھ ؍۱۹۱۱ء میں ۶۵ برس کی عمر میں انتقال فرمایا۔
اس دور کے بڑے قاری مولوی عبد السلام انصاری﷫ ہیں جو قاری عبد الرحمان محدث کے تیسرے صاحبزادے تھے ۱۲۷۴ ھ میں ولادت ہوئی اور ۱۳۳۶ھ ؍۱۹۱۷ء میں انتقال فرمایا۔ اپنے والد محترم قاری عبد الرحمان محدث کے شاگرد اور ان کے جانشین تھے۔ بہت سے لوگوں کو اپنا علمی فیضان منتقل کیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس دَور کا تیسرا نام قاری عبدالحلیم انصاری﷫ کاہے ، ولادت ۱۲۸۴ھ؍ ۱۸۷۶ء میں اور وفات نواح ۱۳۳۸ھ؍۱۹۱۹ء میں ہوئی ۔دس برس کی عمر میں قرآن کریم حفظ کیا۔ قراء ت وتجوید میں مہارت تامہ حاصل کر کے دہلی کے حکیم حاذق الملک حکیم اجمل خان سے طب سیکھی۔ صبح کو مطب کرتے اور پھر سارا دن طلبہ کو قرآن پڑھاتے۔ اُنہوں نے ۵۴ بر س کی عمر میں انتقال کیا۔
اس دَور کا سب سے معروف اورقابل ذکر نام قاری ابو محمد محی الاسلام عثمانی پانی پتی﷫ کا ہے ان کا سلسلہ نسب یہ ہے:
ابو محمد محی الاسلام بن قاضی محمد مفتاح الاسلام بن مولوی محمد بدر الاسلام۔ وہ پانی پت میں (۱۲۹۴ھ؍ ۱۸۷۷ئ) میں پیدا ہوئے۔
آپ نے قاری عبد الرحمن اَعمی سے قرآن حفظ کیا اور کئی علمائے کرام سے تحصیل علم کی۔ ان کی نبی اکرمﷺتک سند مکمل طور پر چھپ گئی ہے۔ عمرکے ۷۰؍ برس انہوں نے پانی پت میں بسر کیے۔ بعد میں وہ اوکاڑہ میں مقیم ہو گئے، یہیں انہوں نے (۱۳۷۳ھ؍ ۱۹۵۲ء ،۱۹۵۳ء) میں اِنتقال فرمایا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قاری ابو محمد محی الاسلام عثمانی کی خدمات کی فہرست بہت طویل ہے۔
جن میں قراء تِ عشرہ کی برسہا برس تک تدریس کے علاوہ مشہور تفسیر، تفسیر مظہری کی طباعت، بھی شامل ہے۔ قاری ابو محمد محی الاسلام عثمانی ہی نے اس کامکمل متن تیار کیا او راس کی چند جلدیں مکمل کر کے شائع کیں۔ (اس کے حواشی ’خصوصا‘ قرا ء اتِ عشرہ کے اعتبار سے تفسیر پر نظر ثانی اہم کا م بھی قاری صاحب نے ہی مکمل کیا۔)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پانچواں دور قیام پاکستان کے بعد کی صورت حال
۱۹۴۷ء میں جب ملک تقسیم ہوا تو پانی پت سے بھی ہزاروں خاندان نقل مکانی کر کے پاکستان آگئے۔ مہاجرین کے ان قافلوں میں بہت سے پانی پت کی روایت کے اَمین قراء اور حفاظ بھی شامل تھے۔ جنہوں نے یہاں آکر ، اسی اَنداز تدریس اور اسی اُسلوب تلاوت کو اپنایا ،چونکہ ان کے دلوں میں خلوص اور عمل میں محنت وکاوش کا جذبہ شامل تھا اسی لیے یہاں آکر اس تحریک کوبہت پذیرائی ملی۔ اس پذیرائی کے پیچھے سب سے زیادہ ہاتھ قاری فتح محمد اَعمی اور ان کے نامور شاگرد قاری رحیم بخش صاحب ملتانی کا ہے۔ اَوّل الذکر قاری ابو محمد محی الاسلام عثمانی پانی پتی کے شاگرد رشید تھے۔ ان کی ولادت پانی پت کے قریب ایک قصبے میں ہوئی۔ بچپن ہی میں کس عارضے کے سبب ان کی بینائی جاتی رہی ، لیکن ان کاحافظہ بے حد قوی تھا۔ وصال سے پہلے وہ مدینہ منورہ چلے گئے تھے اور وہیں ان کا اِنتقال ہوا۔
پاکستان میں اس روایت کی اِشاعت اور اس کی مقبولیت کا سہرا قاری رحیم بخش ملتانی کے سر ہے۔ جن کے ذریعے یہ روایت بیرون پاکستان پہنچی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بر صغیر کے عظیم قراء کا تعارف اور ایمان پر ور واقعات

تعارف حضرت قاری فتح محمد﷫
آپ کا اِسم مبارک فتح محمد والد کا نام محمد اسماعیل، داداکا نام اللہ دیااور پر دادا کا نام جناب نور محمد ہے۔ والدہ کا اسم گرامی نعمت بی بی ہے۔ وطن مالوف پانی پت ضلع کرنال ہے حضرت کا تعلق ا ٓرائیں برادری اور خاندان سے ہے۔
وِلادت
۱۱ ؍یا ۱۲ ؍ذیقعدہ ۱۳۲۲ھ بمطابق ۳۱ ؍جنوری ۱۹۰۴ء میں اپنے وطن پانی پت کے محلہ راعیاں عرف اَرائیاں چوڑا کنواں پہنچ بستی میں پیدا ہوئے۔ اَبھی ڈیڑھ سال کی عمر ہوئی تھی کہ چیچک نکلنے کے سبب قضاء الٰہی سے نابینا ہو گئے۔ اور حدیث ’’ مَنْ أَذْھَبْتُ کَرِیْمَتَیْہِ ثُمَّ صَبَرَ وَاحْتَسَبَ کَانَ ثَوَابُہُ الْجَنَّۃَ ‘‘ (مسند اَحمد:۱۴۰۵۳) جو شخص اپنی پیاری آنکھوں کی آزمائش میں ڈالا گیا پھر اس نے صبر کیا اور ثواب کی نیت کی اللہ تعالی اس کوجنت میں داخل فرمائیں گے، کی بشارت کا مستحق قرار پائے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حیران کن حافظہ
حضرت موصوف نے اپنے بے نظیر حافظہ اور عطیہ خداوندی سے قرآن مجید اور قراء اتِ سبعہ اور عشرہ کی خدمت واِشاعت کا کام بہت خوب لیا۔ چنانچہ حضرت والا نے بچپن ہی میں حفظ قرآن میں اَیسا کمال حاصل کر لیا تھا کہ اگر کوئی صاحب سوال کرتے کہ بتائیں پورے قرآن مجید میں کل رکوعات کتنے ہیں کل سورتیں کتنی ہیں فلاں حرف قرآن میں کتنی جگہ آیا ہے فلاں متشابہ کتنی جگہ آیا ہے تو آپ فوراً جواب دیتے جس سے سائل حیران رہ جاتا۔ اسی طرح اگر کوئی آپ سے کسی سورۃ ، پارہ یا اور رکوع کو اس کے آخری طرف سے سننا چاہتا تو آپ اِس طرح سنا دیتے کہ سب سے پہلے رکوع یا سورۃکی آخری آیت پڑھتے پھر اس سے اوپر والی پھر اس سے اوپر والی اسی طرح رکوع او رسورۃ کی شروع والی آیت تک پڑھتے اور پڑھنے میں ولا والی اور بغیر ولا والی، تمام آیات کی ترتیب کا پورا لحاظ رکھتے غرض یہ کہ جس طرح کسی رکوع یاسورۃ کوشروع کی طرف سے بلا تکلف پڑھتے تھے اسی طرح آخر کی طرف سے پڑھنے میں بھی آپ کوئی مشکل پیش نہ آتی ،بعد میں آ پ کو شیخ قاری شیر محمد خان﷫ نے اس طرح پڑھنے سے منع فرمادیا تھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تجوید وقرا ء ات میں آپ کا مقام ومرتبہ
۱۳۶۵ھ میں پہلے حج کے موقع پر مدینہ منورہ کے قیام کے زمانہ میں شیخ القراء مدینہ حضرت الشیخ مولانا قاری محمد حسن الشاعر مصری ثم المدنی سے مسائل قراء ات پر گفتگو ہوتی رہی حضرت والا نے آپ کے تمام سوالات کے محققانہ، تشفی بخش اور اَفادی جوابات عنائت فرمائے اور خوب مذاکرہ وتکرار ہوتا رہا۔ حضرت شیخ القراء محمد حسن الشاعر نے آپ کو خلوص وتبحر علمی کے سبب ’شیخ الوقت‘ کا لقب دیا اور قراء ت کی سند بھی عطا فرمائی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
فنائیت فی القرآن تادب بالقرآن
حضرت قاری فتح محمد صاحب کو قرآن مجید کے ساتھ انتہائی درجہ محبت تھی، آپ فنافی القرآن تھے، قرآن کریم آپ کے رگ وریشہ میں رچا بسا ہوا اور آپ کی روحانی غذا تھا۔
اس کا اَندازہ اس واقعہ سے ہو سکتاہے کہ قاری عبد المالک صاحب، جو حضرت کے شاگردوں میں سے ہیں،کہتے ہیں کہ میں جب چھوٹا تھا قاری عباس بخاری صاحب کے پاس مدینہ منورہ میں پڑھا کرتاتھا، اس وقت قاری عباس کا حضرت سے تعارف نہیں تھا۔ قاری عباس مسجد نبوی میں آئے حضرت کوبیٹھے دیکھ کر فرمایا یہ کون صاحب ہیں جن سے قرآن کی خوشبو مہک رہی ہے ۔ اللہ اکبر۔
اس کے علاوہ حضرت مولانا قاری اِرشاد احمد گنگیروی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت اَقدس رو رہے تھے اورکافی دیر تک روتے رہے۔ میں نے عرض کیا: حضرت اتنا کیوں رو رہے ہیں؟ اِرشادفرمایا:
’’ اپنی محرومی پر رو رہا ہوں کیونکہ فالج کی وجہ سے قرآن پڑھنا دشوار ہو گیا ہے۔ اللہ تعالی ہمیں بھی قرآن مجید سے ایسی محبت نصیب فرما دیں۔‘‘(آمین)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حضور اکرمﷺکی اُمت میں بہت کثرت سے اَیسے اَفراد ہوئے ہیں جوکتاب اللہ کا بے حد ادب کرتے تھے۔ حضرت عکرمہ: قرآن مجید کی تلاوت انتہائی ادب و احترام سے کرتے اور بار بار کہتے: ’’ہٰذا کلام ربي‘‘
اسی طرح قاری فتح محمد صاحب بھی کلام الٰہی کا بے حد ادب فرماتے تھے ایک دفعہ آپ روزہ سے تھے ، آپ کے لئے چائے لائی گئی، آپ نے افطاری کے وقت ایک پیالی پی لی اور باقی تھرماس میں چھوڑ دی۔ نماز مغرب کے آپ سے دوست واحباب ملنے لگے۔ آپ نے فرمایا چائے لاؤ تو تھوڑی سی آپ نے پی اور باقی حاضرین میں تقسیم کرنے کا کہا اس وقت حاضرین کی تعداد تقریباً سات تھی۔ جن میں مولانا منظور احمد چنیوٹی بھی تھے، آپ نے فرمایا ایک طرف سے پلانا شروع کردیں، چنانچہ چائے کا دور شروع ہوا اسی دوران میں کسی نے قرآن مجید سننے کی فرمائش کر دی تو حضرت والانے فوراً تلاوت شروع فرما دی، چائے کا دور بھی بدستور جاری رہا۔ حضرت والانے تلاوت ختم فرمانے کے بعد پوچھا ’’کیا جس وقت میں پڑھ رہا تھا آپ حضرات نے چائے کا دور جاری رکھا ہوا تھا۔‘‘ حاضرین میں سے کسی نے کہا جی ہاں چائے کادور چلتا رہا۔ اس پر آپ سخت ناراض ہوئے کہ آپ لوگوں کو قرآن مجید کا ادب ملحوظ نہیں اور فرمایا جب قرآن مجید کی تلاوت ہو تو ہمہ تن تلاوت کے سننے میں مصروف رہنا چاہیے لیکن آپ لوگ تو چائے پینے میں مصروف رہے ہیں۔ (ازمقالہ دینیہ)
 
Top