• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پانی پت میں علم القراء ت

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مجدد القراء ت ، جزرء وقت مولانا قاری رحیم بخش ﷫
ولادت ۱۳۴۱ھ وفات ۱۲؍ ذوالحجہ بمطابق ۳۰؍ ستمبر ۱۹۸۲ عیسوی اللہ پاک نے آپ کی ذات سے اتناکام لیا جوایک بڑی جماعت بھی نہیں کر سکتی ۔
ولادت
آپ کا نام رحیم بخش ، جس کو بعدمیں حضرت والدa نے عطاء الرحیم سے بدل دیا۔ وَالد گرامی کا نام چوہدری فتح محمد اور دادا کا نام حافظ رحم علی ہے۔ آپ کے دادا موصوف کاایک عجیب واقعہ یہ ہے کہ وہ اپنے کنویں پر سویا کرتے تھے اور رات کو سوتے وقت قرآن پاک کی تلاوت فرماتے رہتے تھے۔ کئی بار چور بیل وغیرہ چوری کرنے کے لئے آئے ۔ مگر جب حافظ جی﷫کو تلاوتِ قرآن کرتے سنتے تولوٹ جاتے ۔ کہ حافظ صاحب تو جاگ رہے ہیں۔ کئی دن ایسے گزرگئے توایک روز چور دن کے وقت حافظ جی کے پاس آئے او رکہا حافظ جی ساری رات قرآن پڑھتے رہتے ہیں سوتے نہیں ہیں۔ آخر آپ کس وقت سوتے ہیں حافظ جی نے پوچھا آخر بات کیا ہے کہنے لگے ہم کئی دفعہ چوری کرنے آئے مگر آپ کو بیدار پاکر باز رہتے رہے۔ حافظ رحیم علی﷫ فرمانے لگے کہ اب تک تومیں سویا کرتا تھا اور سونے ہی کی حالت میں تلاوت کیا کرتا تھا۔ اَلبتہ اب اَصل واقعہ معلوم ہو جانے کے بعد نہیں سویا کروں گا اور جاگتا رہا کروں گا۔ حضرت قاری﷫ کی ولادت پانی پت ضلع کرنال (ہندوستان) محلہ چوڑا کنواں ماہ رجب ۱۳۴۱ھ میں ہوئی۔ آپ کی عمر ابھی تین سال کی ہوئی تھی کہ والد کا سایہ اُٹھ گیا۔ آپ کی تعلیم آپ کی والدہ صاحبہ کی کوشش سے ہوئی۔ نیز آپ کے برادرِ بزرگ قاری حافظ محمد اسماعیل﷫ نے بھی آپ کی بچپن میں کفالت فرمائی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حضرت قاری رحیم بخش﷫ کی بے لوثی اور اخلاص
ایک مرتبہ حکیم اَمیر علی قریشی المدنی حضرت والا کے پاس آئے اور بطور ہدیہ کچھ خومانیاں پیش کیں۔ حضرت والا نے فرمایا جو بچہ میرے پاس تعلیم حاصل کر رہا ہو میں اس بچہ یا اس کے والد کا ہدیہ قبول نہیں کیا کرتا۔ حکیم صاحب نے بہت اصرار کیا تو حضرت نے فرمایا میں اپنے اُصولوں کو نہیں توڑ سکتا ، جس وقت چھٹی ہوجائے آپ خود دروزاہ پر کھڑے ہو جانا اور جس کو پسند کریں دے دینا۔ اس واقعہ سے آپ کا بے لوث ہونا اور محض اللہ کی رضا کے لئے دین وقرآن کی خدمت کرنا ثابت ہوتا ہے آپ کسی شاگرد سے جبکہ وہ تعلیم حاصل کر رہا ہوتا ہر گز ہدیہ نہ لیتے تھے فراغت کے بعد اگر وہ طلب صادق کے ساتھ دیتا تو قبول کر لیتے۔

٭_____٭_____٭
 
Top