• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پانی پر دم کرنے کا حکم

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
پانی پر دم کرنے کا حکم

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر -طائف

پانی پر پھونک مارنے کی دو قسمیں ہيں ، ایک قسم جائز ہے اور ایک قسم ناجائز ۔
پہلی قسم :ایک پھونک مارنا تبرکاً ہے جو عموماً صوفیوں کے یہاں پایا جاتا ہے ،اس سے وہ برکت لیتے ہیں جبکہ نبی ﷺ کے علاوہ کسی کے آثار یا تھوک وپھونک سے برکت لینا حرام اورشرک کے قبیل سے ہے ۔
دوسری قسم :شرعی دم جسے عربی میں رقیہ شرعیہ کہتے ہیں وہ جائز ہے ،اس کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی مسنون دعائیں پڑھ کر جسم پر پھونک مارے ، اسی طرح یہ بھی جائز ہے کہ ماثورہ دعائیں اور قرآنی آیات پڑھ کر آدمی پانی پر دم کرے اور اس کو پئے یا استعمال کرے۔اس کا ثبوت نبی ﷺ کے علاوہ صحابہ وتابعین وغیرہ سے ملتا ہے مگر یہ نہیں صحیح ہے کہ کاغذ پرکچھ لکھ کر پانی میں تحلیل کرے اورمریض کو اسے پئے ۔
دوسری قسم سے متعلق میں یہاں کچھ دلائل ذکر کرتا ہوں جن سے یہ معلوم ہوگا کہ قرآنی آیات ومسنون دعائیں پڑھ کر پانی پر پھونک سکتے ہیں ، اسے مریض کو پلاسکتے ہیں اور اس سے غسل بھی کراسکتے ہیں ،اس میں اللہ کی طرف سے شفا ہے ۔
(1) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
أَنَّ النَّبِىَّ صلى الله عليه وسلم كَانَ إِذَا أَوَى إِلَى فِرَاشِهِ كُلَّ لَيْلَةٍ جَمَعَ كَفَّيْهِ ثُمَّ نَفَثَ فِيهِمَا فَقَرَأَ فِيهِمَا ( قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ) وَ ( قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ) وَ ( قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ ) ثُمَّ يَمْسَحُ بِهِمَا مَا اسْتَطَاعَ مِنْ جَسَدِهِ يَبْدَأُ بِهِمَا عَلَى رَأْسِهِ وَوَجْهِهِ وَمَا أَقْبَلَ مِنْ جَسَدِهِ يَفْعَلُ ذَلِكَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ(صحیح بخاری: 5017 )
ترجمہ: نبی کریم ﷺ جب اپنے بستر پر آرام کرتے تو ہر شب اپنے دونوں ہاتھ اکٹھے کر کے ان پر ’قل ہو اللہ احد‘ ’قل اعوذ برب الفلق‘ اور ’قل اعوذ برب الناس‘ پڑھ کر دم کرتے اور پھر دونوں ہتھیلیوں کو جہاں تک ممکن ہوتا اپنے جسم پر پھیر لیتے۔ پہلے سر، چہرے اور بدن کے اگلے حصے پر ہاتھ پھیرتے اور ایسا تین مرتبہ کرتے تھے۔
طریقہ استدلال : نبی ﷺ کا دونوں ہاتھوں پر پھونک مارنا اس بات کی دلیل ہے کہ پانی یا تیل پر بھی پھونک مارسکتے ہیں جیساکہ بدن پر۔ اگر کسی چیز پرپھونک سرے سے ممنوع ہوتی تو ہاتھ پر بھی ممنوع ہوتی۔
(2) حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا:
كنا نَرْقي في الجاهليةِ . فقلنا : يا رسولَ الله ِكيف ترى في ذلك ؟ فقال " اعرِضوا عليَّ رُقاكم . لا بأسَ بالرُّقى ما لم يكن فيه شِركٌ " .(صحيح مسلم:2200)
ترجمہ:ہم زمانہ جاہلیت میں دم کیا کرتے تھے ہم نے عرض کی: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :اپنے دم کے کلمات میرے سامنے پیش کرو دم میں کو ئی حرج نہیں جب تک اس میں شرک نہ ہو۔
طریقہ استدالال : یہ روایت عام ہے ، دم اگر شرکیہ قول سے پاک ہوتو پانی ، تیل اور ہاتھ وجسم سب پر پڑھ کر پھونک مارسکتے ہیں ۔
(3) عن علي - رضي الله عنه - قال : ( لدغت النبي صلى الله عليه وسلم عقرب وهو يصلي فلما فرغ قال :" لعن الله العقرب لا تدع مصليا ولا غيره " ثم دعا بماء وملح وجعل يمسح عليها ويقرأ ب
ـ } قُلْ يَاأَيُّهَا الْكَافِرُونَ { و } قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ { و } قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ { ( السلسلة الصحيحة: 548 )
ترجمہ:حضرت علی ؓسے مروی ہے انہوں نے کہاکہ نبیﷺ نماز ادا فرمارہے تھے ایک بچھو نے آپکو ڈنک لگادیا,آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بچھو پر لعنت کرے جو نہ نبی کو نہ کسی دوسرے کو چھوڑتا ہے۔ پھر آپ نے پانی سے بھرا ہوا ایک برتن طلب فرمایا جس میں نمک آمیز کیا ہوا تھا اور آپ اس ڈنک زدہ جگہ کو نمک آمیز پانی میں برابر ڈبوتے رہے اور قل ھو اللہ احد اور معوذ تین پڑھ کر اس پر دم کرتے رہے یہاں تک کہ بالکل سکون ہوگیا۔
٭اس روایت کو علامہ البانی ؒ نے سلسلہ صحیحہ میں ذکر کیا ہے ۔
طریقہ استدلال : اس روایت سے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ نبی ﷺ نے پانی پر دم کیا ہے ،وہ اس طرح کہ جہاں بچھو نے ڈنک مارا تھا اس جگہ نبی ﷺ نمک آمیز پانی انڈیل کر اسی پانی کی جگہ پھونک مار رہے تھے ۔ برتن میں پانی رکھ کر اس پر پھونکنا یا پانی کسی جگہ گراکر اس پر پھونکنا دونوں برابر ہے ۔
(4) عن رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ أنَّهُ دخلَ علَى ثابتِ بنِ قيسٍ - وَهوَ مريضٌ - فقالَ اكشفِ البأسَ ربَّ النَّاسِ عن ثابتِ بنِ قيسِ بنِ شمَّاسٍ ثمَّ أخذَ ترابًا من بَطحانَ فجعلَهُ في قدَحٍ ثمَّ نفثَ عليهِ بماءٍ وصبَّهُ عليهِ(سنن أبي داود:3885)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے ہاں آئے جبکہ وہ مریض تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی : اے لوگوں کے پالنے والے ! اس تکلیف کو ثابت بن قیس بن شماس سے دور فرما دے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی بطحان کی مٹی لی ,اسے ایک پیالے میں ڈالا پھر اس پر پانی پھونک کر ڈالا اور پھر اسے اس پر چھڑک دیا ۔
اس کی سند میں ایک راوی محمد بن یوسف ہیں جس کی وجہ سے اسے ضعیف قرار دیا گیا حالانکہ ابن حبان نے اس راوی کو ثقہ کہا ہے اور
حافظ ابن حجر ؒنے مقبول کہا ہے نیز اس روایت کو بطور استدلال فتح الباری کتاب الطب ، باب رقیۃالنبی ﷺمیں درج بھی کیا ہے ۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے جید کہا ہے ۔(
الفوائد العلمية من الدروس البازية: 2/472)
اس روایت کا ایک شاھد بھی ہے جس سے اسےتقویت ملتی ہے جسے شیخ البانی ؒ نے صحیح قرار دیا ہے ۔
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا:
الحمَّى من فيحِ جهنمَ فأبرِدوها بالماءِ فدخل على ابنٍ لعمارٍ فقال اكشِفْ الباسَ ربَّ الناسِ إلهَ الناسِ(صحيح ابن ماجه:2814)
ترجمہ: بخار جہنم کی بھاپ ہے، لہٰذا اسے پانی سے ٹھنڈا کرو ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمار کے ایک لڑکے کے پاس تشریف لے گئے ( وہ بیمار تھا ) اور یوں دعا فرمائی: «اكشف الباس رب الناس إله الناس» لوگوں کے رب، لوگوں کے معبود! ( اے اللہ ) تو اس بیماری کو دور فرما ۔
طریقہ استدلال : اس روایت میں صاف مذکور ہے کہ نبی ﷺ نے پہلے پانی پر دم کیا پھر وہ دم شدہ پانی وادی بطحان کی مٹی میں ملایا اور مریض پر جھڑک دیا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دم شدہ پانی سے مریض کو غسل بھی دے سکتے ہیں ۔
(5) بخاری شریف میں ایک صحابی اور ان کی اہلیہ کا نبی ﷺ کے لئے خندق کے موقع سے کھانا پکانے کا ذکر ہے ، اس کا چند ٹکڑا یہاں پیش کرتا ہوں ۔
فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم : ( لاتنزلن برمتكم، ولا تخبزن عجينتكم حتى أجيء ) . فجئت وجاء رسول الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يقدم الناس حتى جئت امرأتي، فقالتْ : بك وبك، فقُلْت : قد فعلت الذي قُلْت، فأخرجت له عجينا فبصق فيه وبارك، ثم عمد إلى برمتنا فبصق وبارك(صحيح البخاري:4102)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تک میں نہ آؤں تم ہانڈی چولہے پر سے نہ اتارنا اور نہ آٹے کی روٹیاں بنانا یہ سن کر میں ( گھر میں) آیا اور نبیﷺ لوگوں کو اپنے پیچھے لئے ہوئے آپﷺ آگے تشریف لائے ۔میں اپنی بیوی کےپاس آیاتووہ مجھے برابھلا کہنےلگیں۔میں نے کہا کہ تم نے جوکچھ مجھ سے کہا تھا میں نے حضور اکر م ﷺ کےسامنے عرض کردیا تھا۔آخر میری بیوی نےگندھا ہوا آٹا نکالا اور حضورﷺ نے ا س میں اپنے لعاب دہن کی آمیزش کردی اور برکت کی دعا کی پھر ہانڈی میں بھی آپ نے لعاب کی آمیزش کی اور برکت کی دعا کی ۔
طریقہ استدلال : اس حدیث میں صراحت موجودہے کہ نبی ﷺ نے اپنے لعاب کو گندھے ہوئے آٹے اور گوشت کی ہانڈی میں ملایا اور پھر برکت کی دعا کی ,جب آٹے اور گوشت میں لعاب کی آمیزش کرسکتے ہیں تو مسنون دعائیں پڑھ کر پانی پر بدرجہ اولی پھونک مار سکتے ہیں ۔
(6) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
كانَ : يتنفَّسُ في الإناءِ ، ثلاثًا وزعمَ أنسٌ أنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ كانَ يتنفَّسُ في الإناءِ ، ثلاثًا(صحيح ابن ماجه:2775)
ترجمہ: وہ برتن میں تین بار سا نس لیتے تھے ۔ اور انس ؓ نے بیا ن فرما یا کہ رسو ل اللہ برتن میں تین بار سانس لیتے تھے ۔
طریقہ استدلال : جہاں آپ ﷺ نے برتن میں سانس لینے سے منع کیا ہے وہیں آپ سے برتن میں سانس لینا بھی ثابت ہے توبرتن میں سانس لینے سے پانی پر دم کرنا استدلال کیا جاسکتا ہے ۔
(7) مصنف ابن ابی شیبہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پانی پر دم کرنا صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے ۔
عَنْ عَائِشَةَ " أَنَّهَا كَانَتْ لا تَرَى بَأْسًا أَنْ يُعَوَّذَ فِي الْمَاءِ ثُمَّ يُصَبَّ عَلَى الْمَرِيضِ (مصنف ابن أبي شيبة» كِتَابُ الطِّبِّ :رقم الحديث: 22895)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ان کے یہاں اس میں کوئی حرج نہیں کہ پانی میں دم کیا جائے پھر اسے مریض پر بہایا جائے ۔
ان تمام ادلہ سے ثابت ہوتا ہے کہ پانی پر دم کیا جاسکتا ہے اسی لئے اسلاف سے یہ عمل منقول بھی ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ بعض علماء نے اس کے عدم جواز کا بھی فتوی دیا ہے مگر بہت سارے جید علماء نے اس کے جواز کا فتوی دیا ہے ۔
٭امام احمد بن حنبل کے بیٹے صالح فرماتے ہیں۔
بما اعتللت فيأخذ أبي قدحاً فيه ماء، فيقرأ عليه، ويقول لي: اشرب منه، واغسل وجهك ويديك. ونقل عبد الله أنه رأى أباه (يعني أحمد بن حنبل) يعوذ في الماء، ويقرأ عليه ويشربه، ويصب على نفسه منه(الآداب الشرعیۃ والمنح المرئیۃ:2/456)
ترجمہ: جب میں بیمار ہوتا تو میرے باپ پانی کا پیالہ لیتے اور اس پر پڑھتےاور مجھے کہتے کہ اس پانی میں سے پی لو اور اپنے ہاتھوں اور منہ کو دھو لو۔اس کے بعد فرماتے ہیں کہ میں اپنے باپ کو دیکھا کہ وہ پانی پر دم کرتے اور اس پر پڑھتے ،پھر اسے پی لیتے اور اپنے اوپر بہا لیتے تھے۔
٭محمدبن مفلح کہتے ہیں: عبداللہ نے نقل کیا ہے کہ انہوں نے اپنے والد کو پانی میں پڑھ کر پیتے ہوئے اور اپنے اوپر ڈالتے ہوئے دیکھا۔( الآداب الشرعية – 2 / 441 )
٭شیخ الاسلام ابن القیم لکھتے ہیں: ایک وقت میں مکہ میں بیمار تھا ، میں ڈاکٹر اور دوا سے محروم تھاتو میں سورہ فاتحہ سے علاج کرتا تھا، اس کا طریقہ یہ تھا کہ زمزم کا پانی لیتا اور اس میں برابر سورہ فاتحہ پڑھتااور پھر اسے پیتا، تو مجھے اس سے مکمل شفا مل گئی۔ (زاد المعاد ج3 ص 188)
٭ شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے جب کسی نے پانی اور تیل پر قرآن ومسون دعائیں پڑھ کر دم کرنے اور مریض کو پلانے اور غسل دینے کی بابت سوال کیا گیا تو شیخ نے فرمایا :
لا حرج في الرقية بالماء ثم يشرب منه المريض أو يغتسل به، كل هذا لا بأس به، الرقى تكون على المريض بالنفث عليه، وتكون في ماء يشربه المريض أو يتروَّش به، كل هذا لا بأس به۔(موقع بن باز ڈاٹ آرگزڈاٹ ایس اے)
ترجمہ: پانی کے ساتھ دم جسے مریض پی لے یا اس سے غسل کرلے اس میں کوئی حرج نہیں ،دم براہ راست مریض پر پھونک کر بھی ہوتا ہے ، اور پانی پر دم بھی ہوتا ہے جو مریض کو پلایا جائے اس پر چھڑکا جائے اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔
٭ اکثروبیشتر علمائے کرام نے جادو کے علاج کے تحت پانی پر دم کرنا ذکر کیا ہےاور سحر زدہ شخص پہ علماء ہوں یا عاملین یہی عمل متواتر کرتے ہیں یہاں تک کہ اکثر کو اللہ کی توفیق سے سحر سے نجات مل جاتی ہے ۔

ایک شبہ کا ازالہ :
احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ آپ ﷺ نے پانی پہ پھونکنے سے بھی منع کیا ہے، اسی سبب بعض علماء نے پانی اور تیل وغیرہ پر دم کرنے سے منع کیا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : إذا شرب أحدكم فلا يتنفس في الإناء (صحیح البخاری :5630)
ترجمہ: تم میں سے جب کوئی پانی پئے تو برتن میں نہ سانس لے۔
اس حدیث میں سانس لینے کی ممانعت ہے ، ایک حدیث میں پھونکنے کی ممانعت ہے ، وہ اس طرح سے ہے۔
عن ابنِ عبَّاسٍ قالَ : نَهى رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليْهِ وسلَّمَ أنْ يُتنفَّسَ في الإناءِ ، أو يُنفَخَ فيهِ(صحيح أبي داود:3728)
ترجمہ: سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برتن میں سانس لینے یا اس میں پھونک مارنے سے منع فرمایا ہے ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ عام پینے والے پانی میں سانس لینے یا اس میں پھونک مارنے کی ممانعت ہےکیونکہ حدیث میں پینے کے لفظ کے ساتھ ممانعت وارد ہے لیکن جس پانی پر دم کرنا ہو وہ مستثنی ہے یعنی دم کرتے وقت پانی پر پھونک مار سکتے ہیں جیساکہ اوپر کئی روایات ذکر کی گئی ہیں ۔
آج سائنسی علوم سے پتہ چلتا ہے کہ پھونک سے جراثیم خارج ہوتے ہیں جو انسان کے لئے نقصان دہ ہیں مگر قرآن کریم یا مسنون اذکار پڑھنے سے ایک قسم کی تاثیر پیدا ہوتی ہے اسی لیے پھونک مریض کے لئے نفع بخش ہے ، اگر پڑھ کر پھونکنے سے بھی نقصان کا پہلو نکلتا تو مریض کو شفا نہ ملتی جبکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے ۔ مریض کے جسم پر یا پانی پر دم کرکے مریض کو پلایا جائے فائدہ مند ہے ۔ یہ اللہ کی طرف سے بندوں پربہت بڑا احسان ہے ۔بغیر پڑھے پھونکنا اور وہ کتاب پڑھ کے پھونکنا جسے شفا قرار دیا گیا ہے دونوں میں بڑا واضح فرق ہے ۔بنابریں یہ کہا جائے گا کہ پانی پر پڑھ کر دم کرنے میں کوئی حرج نہیں جبکہ پانی پیتے وقت بغیر پڑھے پھونکنا منع ہے اور سلف نے دم والی احادیث سے یہی مفہوم سمجھا ہے ، اس پر ان کا عمل بھی رہا ہے اور نصوص کو سمجھنے کے لئے سلف کی فہم مقدم ہے ۔
امام احمد بن حنبلؒ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ، حافظ ابن کثیر ؒاور شیخ ابن بازؒ وغیرھم کے علاوہ شیخ صالح عثیمین ،عبدالله بن عبدالرحمن الجبرين, عبدالعزيز القحطاني,نووي, محمد بن ايراهيم آل الشيخ, صالح بن فوزان الفوزان, عبدالعزيز الراجحي, الشيخ صالح بن عبدالعزيز آل الشيخ,شیخ محمد بن ابراہیم اور جمہور اہل علم پانی پر دم کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں۔

 
Last edited:

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
چند دلائل :


(1) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے بستر پر تشریف لے جاتے تو اپنے دونوں ہاتھوں پر پھونکتے اور معوذات پڑھ کر اپنے جسم پر دونوں ہاتھوں کو مل لیتے۔

(صحیح بخاری حدیث نمبر 1269)

(2)رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ دم کرنے میں کوئی حرج نہیں جبتک اس میں کوئی شرک نہ ہو ۔

(صحیح مسلم : ۲۲۰۰)

یہ بھی ہاتھوں سے دم کرنا ہے نہ کہ کسی پینے والی چیز پر دم کرنا لہذا پانی پر دم کرنے کی دلیل نہیں ہے

 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
پہلی روایت میں جہاں ہاتھ پر دم کرنے کی دلیل ہے وہیں یہ پانی پر دم کرنے کو بھی شامل ہے اس کو صرف ہاتھ پر دم کرنے کےساتھ خاص کرنے کے لئے نص چاہئے اس بات کی تائید دوسری روایت سے ہوتی ہے جس میں دم کرنا عام ہےجو ہاتھ، جسم، پانی، تیل وغیرہ سب کو شامل ہے ۔

تیسری اور چوتھی روایت تو واضح ثبوت ہے کہ پانی پر بھی دم کرسکتے ہیں، ان دونوں روایتوں کے بعد کلام کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہ جاتی ۔ اور میں نے مختصرا ہرطرح سے اس پہلو کو اجاگر کیا ہے جس سے معاملہ بالکل واضح ہوجاتا ہے ۔ اگر کوئی ایک نص لے لے اور کہے کہ نبی ﷺ نے صرف ہاتھ پر پھونکا ہے اور دوسرے نصوص کو نظر انداز کردے تو یہ اصول کے خلاف ہے ۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام و علیکم و رحمت الله -

مذکورہ احادیث نبوی سے پتا چلتا ہے کہ :

نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم نے جس پانی پر دم کیا وہ پینے ولا پانی نہیں تھا -

١-حضرت علی ؓسے مروی ہے انہوں نے کہاکہ نبیﷺ نماز ادا فرمارہے تھے ایک بچھو نے آپکو ڈنک لگادیا‘ آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بچھو پر لعنت کرے جو نہ نبی کو نہ کسی دوسرے کو چھوڑتا ہے‘ پھر آپ نے پانی سے بھرا ہوا ایک برتن طلب فرمایا جس میں نمک آمیز کیا ہوا تھا اور آپ اس ڈنک زدہ جگہ کو نمک آمیز پانی میں برابر ڈبوتے رہے اور قل ھو اللہ احد اور معوذ تین پڑھ کر اس پر دم کرتے رہے یہاں تک کہ بالکل سکون ہوگیا“۔

٢- سنن ابی داؤد میں کتاب الطب میں یہ حدیث منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس بن شماس کے لیے پڑھکر پانی میں دم کیا، پھر ان کے اوپر یہ پانی انڈیل دیا، روایت اس طرح ہے ۔

لہذا پینے والے پانی پر پھونک مارنا یا دم کرنا صحیح نہیں - اور آپ صل الله علیہ و آ له وسلم کا یہ فرمان کہ :

( إذا شرب أحدكم فلا يتنفس في الإناء ) رواه البخاري(149) ومسلم(3780) ،
"تم میں سے جب کوئی پانی پئے تو برتن میں نہ سانس لے"۔

نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ أَنْ یُّتَنَفَّسَ فِي الْإِنَاء أَوْ یُنْفَخَ فِیْهِ» (صححه الألباني في "صحيح الجامع " (6820)
رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے کہ پانی میں سانس لیا جائے یا اس میں پھونک ماری جائے۔

لہذا ان احادیث اور اوپردی گئی احادیث میں جن میں پانی پر دم کرنا مذکور ہے ان میں کوئی تعارض نہیں ہے -

لہذا یہ کہنا کہ : "عام پینے والے پانی میں سانس لینا یا اس میں بھونک مارنے کی ممانعت ہے لیکن جس پانی پر دم کرنا ہو وہ مستثنی ہے ، یعنی دم کرتے وقت پانی پر پھونک مار سکتے ہیں یہ قول غلط ہے - کیوں کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم سے پینے کے پانی پر دم کرنا ثابت نہیں ہوتا (واللہ اعلم)-
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
[QUOTE="مقبول احمد سلفی, post: 220706, member: 3682"]

چند دلائل :


(3) عن علي - رضي الله عنه - قال : ( لدغت النبي صلى الله عليه وسلم عقرب وهو يصلي فلما فرغ قال :" لعن الله العقرب لا تدع مصليا ولا غيره " ثم دعا بماء وملح وجعل يمسح عليها ويقرأ بـ } قُلْ يَاأَيُّهَا الْكَافِرُونَ { و } قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ { و } قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ { ( السلسلة الصحيحة 548 )

حضرت علی ؓسے مروی ہے انہوں نے کہاکہ نبیﷺ نماز ادا فرمارہے تھے ایک بچھو نے آپکو ڈنک لگادیا‘ آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بچھو پر لعنت کرے جو نہ نبی کو نہ کسی دوسرے کو چھوڑتا ہے‘ پھر آپ نے پانی سے بھرا ہوا ایک برتن طلب فرمایا جس میں نمک آمیز کیا ہوا تھا اور آپ اس ڈنک زدہ جگہ کو نمک آمیز پانی میں برابر ڈبوتے رہے اور قل ھو اللہ احد اور معوذ تین پڑھ کر اس پر دم کرتے رہے یہاں تک کہ بالکل سکون ہوگیا“۔

٭اس روایت کو علامہ البانی ؒ نے سلسلہ صحیحہ میں ذکر کیا ہے ۔

[/QUOTE]


یہ روایت بھی پانی پر دم کرنے کے لئے پیش کی جاتی ہے جس کو البانی صحیحہ میں نقل کرتے ہیں

معجم الصغير الطبرانی میں اس کی سند ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ الْأَشْنَانِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ يَعْقُوبَ الْأَسَدِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ طَرِيفٍ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْروٍ، عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ الْحَنَفِيَّةِ، عَنْ عَلِيٍّ



اس کی سند میں المنھال بن عمرو ہے جو امام شعبہ کے نزدیک متروک ہے دوم مُطَرِّفُ بنُ طَرِيْفٍ الكُوْفِيُّ المتوفی ١٤١ ھ ہے جو مدلس ہے اور عن سے روایت کرتا ہے



دوم اس میں بھی پانی پر براہ راست دم نہیں کیا گیا بلکہ دم ڈنک کی جگہ کو کیا جا رہا ہے
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436

پانی پر دم کرنے کا حکم



(4) سنن ابی داؤد میں کتاب الطب میں یہ حدیث منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس بن شماس کے لیے پڑھکر پانی میں دم کیا، پھر ان کے اوپر یہ پانی انڈیل دیا، روایت اس طرح ہے ۔

أنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ أنَّهُ دخلَ على ثابتِ بنِ قَيسٍ بنِ شَمَّاسٍ وَهوَ مريضٌ، فدعا له ثمَّ أخذَ تُرابًا من بَطحانَ فجعلَهُ فى قدَحٍ، ثمَّ نفثَ عليْهِ بماءٍ ثمصبَّهُ عليْهِ( أحمد (3/294). وأبو داود: كتاب الطب (386: باب في النشرة. وقال ابن مفلح في الآداب الشرعية (3/73): "إسناده جيد" ا هـ. وحسنه الحافظ في الفتح (10/233) و صححه ابن حبان)
آپ یہ پوری حدیث عربی متن اور اردو ترجمہ کے ساتھ پیش کریں - آپ نے یہ ترجہ کن عربی الفاظ کا کیا ہے -

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس بن شماس کے لیے پڑھکر پانی میں دم کیا

 

muntazirrehmani

مبتدی
شمولیت
فروری 24، 2015
پیغامات
72
ری ایکشن اسکور
20
پوائنٹ
18
ابن تیمیہ رحمہ اللہ پانی میں تعویز گھولنے کے بھی قائل ھیں لیکن اوپر والی بحث کی روشنی میں یہ مسلک صحیح نھیں ھے.واللہ اعلم
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
ابن تیمیہ رحمہ اللہ پانی میں تعویز گھولنے کے بھی قائل ھیں لیکن اوپر والی بحث کی روشنی میں یہ مسلک صحیح نھیں ھے.واللہ اعلم
کیا یہ بات صحیح ہے کہ

پلیز اس کا ثبوت اگر آپ یہاں دے دیں تو مہربانی ہو گی -
 

muntazirrehmani

مبتدی
شمولیت
فروری 24، 2015
پیغامات
72
ری ایکشن اسکور
20
پوائنٹ
18
فتاوٰی ابن تیمیہ 19/64،اور زارالمعاد 4/170.میں ھے کہ کسی برتن پر قرانی آیات زعفران وغیرہ یا پاکیزہ چیز سے لکھ کر انھیں پانی یا تیل سے دھو کر اس پانی کا استعمال روا ھے. کچھ علماء نے کاغذ پر لکھنا بھی اسی سے اخذ کیا ھے. واللہ اعلم
 
Top