• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پانی کاتحفظ اور اسلامی تعلیمات

Muhammad Waqas

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 12، 2011
پیغامات
356
ری ایکشن اسکور
1,596
پوائنٹ
139
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم​
از: عابدالرحمٰن مظاہری بجنوری
پانی کاتحفظ اور اسلامی تعلیمات

حامدا ومصلیاً اما بعد!
محترم قارئین عظام اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اس کو اپنا نائب اور خلیفہ مقرر کیااور اس کے لیے تمام مخلوق کو اس کے تابع کیا اور کائنات کی ہر شئی سے منفعت حاصل کرنے کا اس کو حق دیاچنا نچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اَللہُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَاَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَخْرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ۝۰ۚ وَسَخَّــرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِيَ فِي الْبَحْرِ بِاَمْرِہٖ۝۰ۚ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْاَنْہٰرَ۝۳۲ۚ وَسَخَّــرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَاۗىِٕـبَيْنِ۝۰ۚ وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّہَارَ۝۳۳ۚ
ترجمہ: اللہ ہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمان سے مینہ برسایا پھر اس سے تمہارے کھانے کے لیے پھل پیدا کئے۔ اور کشتیوں (اور جہازوں) کو تمہارے زیر فرمان کیا تاکہ دریا (اور سمندر) میں اس کے حکم سے چلیں۔ اور نہروں کو بھی تمہارے زیر فرمان کیا ،اور سورج اور چاند کو تمہارے لیے کام میں لگا دیا کہ دونوں (دن رات) ایک دستور پر چل رہے ہیں۔ اور رات اور دن کو بھی تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کا غلط استعمال کرے ،ان کو برباد کرے،اور وہ باکل آزاد ہے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اس کو پابند کیا ہے کہ میری عطا کردہ چیزوں میں اسراف نہ کرو اگر ایسا کروگے تو یا اللہ سخت پکڑ والا اور حساب لینے والا۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِي الْاَرْضِ حَلٰلًا طَيِّبًا۝۰ؗۖ وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ۝۰ۭ اِنَّہٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ۝۱۶۸
ترجمہ: لوگو جو چیزیں زمین میں حلال طیب ہیں وہ کھاؤ۔ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو۔ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کا ذکر فرماتے ہوئے آگا ہ کیا کہ دیکھو ہماری پیدا کردہ چیزوں سے فائدہ اٹھاؤ مت مگرفضول خرچی مت کرنا کیونکہ میں فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا چنانچہ فرمایا :
وَہُوَالَّذِيْٓ اَنْشَاَ جَنّٰتٍ مَّعْرُوْشٰتٍ وَّغَيْرَ مَعْرُوْشٰتٍ وَّالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا اُكُلُہٗ وَالزَّيْتُوْنَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِہًا وَّغَيْرَ مُتَشَابِہٍ۝۰ۭ كُلُوْا مِنْ ثَمَرِہٖٓ اِذَآ اَثْمَرَ وَاٰتُوْا حَقَّہٗ يَوْمَ حَصَادِہٖ۝۰ۡۖ وَلَا تُسْرِفُوْا۝۰ۭ اِنَّہٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ۝۱۴۱ۙ
ترجمہ: اور اللہ ہی تو ہے جس نے باغ پیدا کئے چھتریوں پر چڑھائے ہوئے بھی اور جو چھتریوں پر نہیں چڑھائے ہوئے وہ بھی اور کھجور اور کھیتی جن کے طرح طرح کے پھل ہوتے ہیں اور زیتون اور انار جو (بعض باتوں میں) ایک دوسرے سے ملتے ہیں جب یہ چیزیں پھلیں تو ان کے پھل کھاؤ اور جس دن (پھل توڑو اور کھیتی) کاٹو تو اللہ کا حق بھی اس میں سے ادا کرو اور بےجا نہ اڑاؤ کہ اللہ بیجا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔
اللہ تعالیٰ کی انسان کے حق میں ایک بہت بڑی نعمت ہے کہ کائنات کی اشیا اس کے لیے مسخر کردی گئی ہیں، جنھیں وہ اپنے تصرّف میں لاسکتا ہے۔اسی لیے اسے خالق کائنات کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ اپنی دیگر آیات میں خدا نباتات اور حیوانات کا ذکر کرتا ہے جو انسان کے لیے فائدہ مند ہیں۔ انسان کو اس بات پر قدرت حاصل ہے کہ وہ ان اشیا سے اپنی فوری ضروریات کے علی الرغم ان سے سماجی اور اجتماعی فوائد حاصل کرے۔
اللہ تعالیٰ نےتمام مخلوقات کو ایک خاص حکمت کے تحت پیدا فرمایااور پھر انہیں ایک دوسرے کے تعاون پر منحصرفرمادیا۔ ا س طرح سے اس دنیا میں ایک توازن قائم ہو گیا۔ اس کائنات کی ہر شے اپنے مقصد وجود کو پورا کرنے میں مصروف ہے۔ اس طرح یہ تمام مخلوقات (جان دار اور بے جان)اس کائنات کی ایک قیمتی اثاثہ ہے۔ ان کے وجود سے اس دنیا میںایک اعتدال و توازن قائم ہو گیاہے۔ اس طرح سے اللہ تعا لیٰ نے کائنات کی تمام مخلوق کے لیے اپنی پیدا کردہ اشیاء سے استفادہ کا موقعہ فراہم کیا ہےہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پابند بنایا ہےکہ اگر انسان اس میزان اور توازن میں خلل ڈالے، اور ان قدرتی وسائل کا استحصال کرے، یا ان کا غلط استعمال کرے، یا انھیں برباد کرے، انھیں آلودہ کرے ، تو یہ انسان نے اللہ تعالیٰ کی حکمت مصلحت و ارادے کے خلاف کام کیا، گویا بغاوت کا مرتکب ہوا۔ انسان نے اپنے حریصانہ اور خود غرضانہ مفادات کی وجہ سے ہمیشہ اس کائناتی نظام کے توازن و عدل کو بار ہا متاثر کیا ہے۔ اور فرمان الٰہی کی حکم عدولی کی ہے۔جس کے بدلے میں فطرت نے انسانوں سے مختلف طریقوں سے انتقام لیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو آگا ہ کرتے ہوئے فرمایا :
اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّہَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِىْ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللہُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ مَّاۗءٍ فَاَحْيَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَبَثَّ فِيْہَا مِنْ كُلِّ دَاۗبَّۃٍ۝۰۠ وَّتَصْرِيْفِ الرِّيٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ۝۱۶۴
بےشک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں اور رات اور دن کے ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے میں اور کشتیوں اور جہازوں میں جو دریا میں لوگوں کے فائدے کی چیزیں لے کر رواں ہیں اور مینہ میں جس کو خدا آسمان سے برساتا اور اس سے زمین کو مرنے کے بعد زندہ (یعنی خشک ہوئے پیچھے سرسبز) کردیتا ہے اور زمین پر ہر قسم کے جانور پھیلانے میں اور ہواؤں کے چلانےمیں اور بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان گھرے رہتے ہیں۔ عقلمندوں کے لئے (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیں ۔
اللہ تعالی نے انسان سے بربادی کا نھیں بلکہ آبادی کا مطالبہ فرمایا ، اور گرانے کا نھیں بلکہ بنانے کا مطالبہ فرمایا ، اور کاٹنے اکہاڑنے کا نھیں بلکہ کاشت کاری کا مطالبہ فرمایا ہے ، چنانچہ اللہ تبارک و تعالی نے حضرت صالح علیہ الصلاۃ و السلام کی زبان پر یہ ارشاد فرمایا
هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ الأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا
اس نے تم کو زمین ( کے مادہ ) سے پیدا فرمایا اور اس نے تمکو اس میں آباد کیا )
یعنی اللہ تعالیٰ نے انسا ن سے زمین کی آبادی کا ری اور اس کے تمام پوشیدہ اور ظاہر ذخائر کی حفاظت کا مطالبہ کیا اور اس کے بعد ہی ان کے استعمال کرنے کی اجازت عنایت فرمائی ۔ان ذخائر میں نباتات ،حیوانات ، معدنیات ظاہرہ ہوں یا پوشیدہ غرض کہ وہ تمام اشیاء جن پر اس کائنات کے تحفظ و بقا کا دارو مدار ہے ، ان میں سب سے اہم شئی ’’پانی‘‘ ہے جس کی بقاء میں کائنات تمام مخلوق کی بقاء وحفاظت مضمر ہے ،اور اسی کا سب سے زیادہ غلط استعمال ہورہا ہے ، اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر حیات رکھی ہے ،جو تمام جانداروں کے لیے نہایت ضروری ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ۝۰ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ۝۳۰ (الانبیاء)
اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں۔ پھر یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے؟
اَفَرَءَيْتُمُ الْمَاۗءَ الَّذِيْ تَشْرَبُوْنَ۝۶ءَ اَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْہُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَ۝۶۹ لَوْ نَشَاۗءُ جَعَلْنٰہُ اُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْكُرُوْنَ۝۷۰ (الواقعہ)
بھلا دیکھو تو کہ جو پانی تم پیتے ہو ،کیا تم نے اس کو بادل سے نازل کیا ہے یا ہم نازل کرتے ہیں؟ ،اگر ہم چاہیں تو ہم اسے کھاری کردیں پھر تم شکر کیوں نہیں کرتے؟ ۔
وَّيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَيُحْيٖ بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا۝۰ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ۝۲۴ ( الروم)
اور آسمان سے مینہ برساتا ہے۔ پھر زمین کو اس کے مر جانے کے بعد زندہ (و شاداب) کر دیتا ہے۔ عقل والوں کے لئے ان (باتوں) میں (بہت سی) نشانیاں ہیں
الغرض قرآن میں اس کے علاوہ اور بھی کئی جگہ اللہ تعالیٰ نے پانی کی اہمیت اور افادیت کے بارے ارشاد فرمایا ہے۔ جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پانی میں حیات کی تاثیر رکھی ہے ،اس لیے پانی پر صرف انسان کا ہی حق نہیںبلکہ جتنا انسان کو حق اتنا ہی دوسری مخلوق کاحق ہے ۔ اگر یہ انسان اپنی ضرورت سے زیادہ پانی خرچ کرے گا اس کو ’’ اسرف‘‘ کہا جائے گا اور اسراف اسلام میں جائز نہیں ہے جیسا کہ مذکورہ آیت شریفہ میں اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر ارشاد فرما دیا ہے :
۰ۡۖ وَلَا تُسْرِفُوْا۝۰ۭ اِنَّہٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ۝۱۴۱ۙ
بےجا نہ اڑاؤ کہ خدا بیجا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا
اس طرح کے اسراف سے کیون کہ دوسروں کے حقوق بھی سلب ہوتے ہیں ، اور نظام تکوینی میں بھی خلل واقع ہوتا ہے،جس سے زمینی نظام میں فساد کا باعث ہوگا اس طرح کا فساد کی اسلام کوئی گنجائش نہیں ہے اسی کے بارے قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مخصوص انداز میں انسان کو آگاہ کیا ہے کہ وہ زمین کو برباد کرکے خود بھی اور دوسروں کو بھی اس کے فائدہ سے محروم نہ کرے اس تباہی کو فساد فی الارض کی ایک مخصوص سے تعبیر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَلَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِہَا۝۰ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝۸۵ۚ
اور زمین میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کرو۔ اگر تم صاحب ایمان ہو تو سمجھ لو کہ یہ بات تمہارے حق میں بہتر ہے
’’زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد مت پھیلاؤ ‘‘فساد ایک وسیع مفہوم کا حامل لفظ ہے ،اصل لغت میں فساد کے معنی ہیں کسی چیز کا اپنی حالت سلیم سے بدل کر خراب حالت پر آجانا اور اعتدال سے نکل جانا ، اس کی ضد صلاح ہے، چنانچہ کہتے ہیں دودھ فاسد ہوگیا، پھل فاسد ہوگئے ، یا ہوا فاسدہوگئی، یہ اس وقت کہا جاتا ہے جب ان میں تغیر واقع ہوجائے یا بدبو پیدا ہوجائے ، اور وہ چیز یں استعمال کے قابل نہ رہیں، پھر اس لفظ کو ان تمام چیزوں میں استعمال کیا جانے لگا جو راہ اعتدال سے نکل جائیں جیسے فتنہ، ظلم، تعدی، وغیرہ۔
اسی لئے اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد مرمایا:
وعن أنس رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله ليرضى عن العبد أن يأكل الأكلة فيحمده عليها، أو يشرب الشربة فيحمده عليها.(روہ مسلم)
’اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے کہ بندہ کھانے کا لقمہ کھائے یا مشروب کا کوئی گھونٹ بھرے تو اس پر اللہ کی تعریف کرے۔‘‘کیونکہ پانی اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے۔ایک جگہ آپ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اللهم إني أعوذُ بك من زوال نعمَتك، وتحوُّل عافيتك، وفُجاءة نقمتِك، وجميع سخَطك ( رواه مسلم.)
’’اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں، نعمت کے زائل ہو جانے سے عافیت کے پھر جانے سے، اچانک پکڑاور تیری ہر طرح کی ناراضی سے۔‘‘
پانی میں اللہ تعالیٰ نے صحت اور بقائے حیات کی صفت رکھی ہے ،اگر انسان صحت مند ہے تو وہ دین اور دنیا کے تمام امور کو بحسن و خوبی انجام دے سکتا ہے ، اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
نعمتان غبونٌ فيهما كثيرٌ من الناسِ: الصحةُ والفراغُ ( رواه البخاري)
’’دو نعمتیں ایسی ہی جن کے بار میں بہت سے لوگ لا پروائی برتتے ہیں۔ صحت اور فراغت۔ ‘‘
اسلام کی نظر میں پانی کی کس قدر اہمیت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پنچ وقتہ نمازوں کے لیے جو وضو کی جاتی ہے اور اس میں جو پانی استعمال کیا جاتاہے اسلام نے اس پر بھی نظر رکھی ہے، او رنماز پڑھنے والے اللہ کے بندوں کو حکم دیا ہے کہ وضوتو کریں مگر اسراف نہ کریں ،
روایات میں ہے کہ ایک مرتبہ صحابی حضرت سعد بن أبی وقاص رضی اللہ عنہ وضو کر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ادھر سے گزرے، سعد رضی اللہ عنہ! کو وضو کرتے ہوئے دیکھا کہ وہ اپنے اعضاء وضو پرکچھ زیادہ ہی پانی ڈال رہے ہیں ، یہ دیکھ کر فرمایا ! لا تسرف اے سعد اسراف نہ کرو، سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ، یا ر سول اللہ ! کیا پانی میں بھی اسراف ہوتا ہے ، فرمایا ہاں، اگر چہ تم بہتی ہوئی نہر پر ہو ، (سنن ابن ماجہ :1/147، رقم الحدیث :
اس بارے میں اور بھی احادیث مبارکہ ہیں جن کا باعث طوالت ہے ۔
اسلام نے میں صحت انسانی کو مد نظر رکھتے ہوئے پانی کی اہمیت کو کس کس طرح لوگوں کے ذہنوں میں اجاگر کیا اس کا اندازہ اس طرح کیجئے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹھہر ے ہوئے پانی او ربہتے ہوئے پانی دونوں میں پیشاب وغیرہ کرنے سے منع فرمایا ، حالانکہ بہتے ہوئے پانی میں تھوڑی بہت نجاست سے اس کی طہارت متأثر نہیں ہوتی لیکن وہ آلودہ ہوجاتا ہے ، اور یہ آلودگی اس وقت اور بڑھ سکتی ہے جب لوگ بہتے ہوئے پانی میں پیشاب وغیرہ کرنے کو اپنی عادت میں شامل کرلیں ، ’’پیشاب پر دوسری نجاستوں اور فضلا ت کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے ‘ ‘ جس سے اندازہ لگا جا تا ہے کہ اسلام نے کتنے وقت پہلے پانی صفائی کی تعلیم دی اور ہدایت فرمادی تھی چنانچہ ایک حدیث پاک میں ارشاد نبویﷺ ہے:
حضرت جابرابن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہتے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے، ( المعجم الا وسط للطبرانی: 2/208، رقم الحدیث :1749)
اسلام نے پانی کے تحفظ کو بڑی اہمیت دی ہے، سو کر اٹھنے کے بعد دھوئے بغیر برتن میں ہاتھ ڈالنے کی ممانعت وار د ہے، (صحیح مسلم :1؍ 160، رقم الحدیث :445)
یہاں تک کہ برتن میں سانس لے کر پانی پینا بھی ممنوع ہے، (صحیح البخاری :1؍159، رقم الحدیث :153)
کیوں کہ سانس کے ذریعے جراثیم پانی کے برتن میں داخل ہوسکتے ہیں، جس سے بچا ہوا پانی بھی گندا ہوسکتا ہے، اور اگر کوئی اسے استعمال کرے تو پیٹ کی بیماریاں بھی پیدا ہوسکتی ہیں۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مبارک نقل کرتے ہیں کہ ‘‘پانی کا برتن ڈھانپ دیا کرو اور مشکیز ے کا منہ باندھ دیا کرو۔’’
( صحیح مسلم :6؍ 105، رقم الحدیث : (5364
رسول اکرم ﷺنے پانی کی حفاظت میںہمارےلئے ایک اعلی نمونہ پیش فرمایا ہے۔ چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
( نبیﷺ ایک ’’مد‘‘کی مقدار پانی سے وضوء فرمالیا کرتے تھے اور ایک’’صاع ‘‘کی مقدار پانی سے غسل فرمالیا کر تے تھے )
’’ مد ‘‘یعنی دو ہاتھ بھر کر پانی کی مقدار کو کہتے ہیں اور صاع چار ’’ مد ‘‘ کی مقدار کو کہتے ہیں
لہٰذا ان اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہمیں پانی کی حفاظت کرنی چاہئے کیونکہ وہ ایسا سرمایہ ہے جو قیمت سے بالاتر ہےلیکن تمام قیمتی سے قیمتی اشیاء سے زیادہ قیمتی ہے۔اس کی قیمت کا اندازہ ان لوگوں سے معلوم کیجئے جن علاقوں میں پانی کی قلت ہے یا پانی نہیں ،ان علاقوں میں ایک سے ایک قیمتی اشیاء ہیں مگر نہیں ہے تو پانی نہیں ہے اور اسکو مہیا کرنے کیلئے حکومت بہت ہی اخراجات برداشت کرتی ہے ، توہم پر یہ واجب بنتا ہے کہ اس نعمت کی قدر کریں اور اسکو ضائع نہ کریں ،اور یہ بھی یاد رکھیں کہ قیامت میں پانی کے استعمال کا حساب دینا ہوگا۔اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے اور اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے اور قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین یارب العالمین۔ فقط و اللہ اعلم بالصواب

واٰخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین​
عابد الرحمٰن بھائی ماشاءاللہ اچھا مضمون ہے۔ذرا ملون عبارت پر نظرثانی فرمائیے گا۔اس روایت کو شیخ البانی رحمہ اللہ اور حافظ زبیر علی زئی حفظ اللہ دونوں نے ضعیف کہا ہے۔
جزاک اللہ۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
السلام علیکم
جزاک اللہ بھائی جان آپ نے اچھی رہنمائی فرمائی۔بیشک ضعیف ہوسکتی ہے۔لیکن دیگر قرائن نے اس کو قوت بخش دی ہے اور ضعیف بھی قابل عمل ہوتی ہے ،لیکن پانی کے اسراف کے بارے میں دیگر احادیث بھی ہیں ۔ جزا ک اللہ مجھے آپ کی بات اچھی لگی کیوں کہ اس میں تعصب کی جھلک نہیں ہے آپ کے اخلاص پر محمول ہے۔ اللہ آپ کے علم میں اضافہ فرمائے۔ ایک بار پھر شکریہ ۔شاکر بھائی کیا یہ مضمون کسی جریدے میں شائع ہو سکتا ہے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
شاکر بھائی کیا یہ مضمون کسی جریدے میں شائع ہو سکتا ہے۔
بھائی جان، معذرت چاہتا ہوں۔ اس معاملے میں میرا تجربہ اور معلومات بہت ہی ناقص ہیں۔ مجھے علم نہیں کہ یہ ممکن ہے یا نہیں اور ممکن ہے تو کیونکر۔ شاید کوئی اور صاحب رہنمائی کر سکیں۔
 
Top