• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پاکستانی مصاحف کی حالت ِزاراور معیاری مصحف کی ضرورت

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ پاکستانی مصاحف میں کلمہ ’’ لِّأَنْعُمِہٖ اِجْتَبٰہُ ‘‘ (النحل: ۱۲۱) کا ضبط ہاء کی کھڑی زیر اور ہمزۂ وصلی کے نیچے زیر کے ساتھ مرسوم ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بعض مصاحف میں اسے مد منفصل سمجھتے ہوئے ’’لِّأَنْعُمِہٖ‘‘ کی ہاء پر مد بھی ڈالی ہوئی ہے۔ اگر ’’لِّأَنْعُمِہٖ‘‘ پر وقف کرکے ’’اِجْتَبٰہُ‘ سے ابتداء کی جائے تو مذکورہ ضبط کی کچھ سمجھ آجاتی ہے، مگر وصلاً اس ضبط کی کچھ سمجھ نہیں آتی کہ اس کو کیسے پڑھا جائے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ضبط وصل کے موافق ہوتا ہے، لہٰذا یہاں بھی وصل کا اعتبار کرتے ہوئے ہاء کے نیچے زیر جبکہ ہمزۂ وصلی کو حرکت سے خالی ہونا چاہئے تھا۔ مجمع ملک فہد کے مصاحف میں ایسے ہی لکھا گیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ اسی طرح کلمہ ’’ فِی السَّمٰوٰتِ اِیْتُوْنِیْ ‘‘ (الأحقاف: ۴) کا ضبط تاء اور ہمزۂ وصلی کے کسرہ اور ہمزہ کے بعد یاء ساکنہ کے ساتھ کیا گیاہے۔ اگر اسے ملا کر پڑھا جائے تو ’’ فِی السَّمٰوٰتِ ائْتُوْنِیْ ‘‘ پڑھا جائے گا۔ یہاں بھی وصل کا اعتبار کرتے ہوئے ہمزۂ وصلی کو حرکت سے خالی اور اس کے بعد یاء کی بجائے ہمزہ لکھا ہونا چاہئے۔
٭ اسی طرح پاکستانی مصاحف میں ہمزہ قطعی اگر الف کی کرسی کے ساتھ ہو تو اس کے اوپر یا نیچے ہمزہ ڈالنے کی بجائے فقط حرکت ڈال دی جاتی ہے جیسے ’’اَلم، اِن، اُولوا‘‘ حالانکہ الف کے بارے میں قاعدہ یہ ہے کہ الف خالی لکھا جاتا ہے اس پر نہ حرکت ڈالی جا سکتی ہے نہ سکون، ویسے بھی یہاں الف بذات خود مقصود ہی نہیں بلکہ ہمزہ پڑھنا مقصود ہے، الف تو صرف اس کی کرسی کا کام دے رہا ہے۔ جیسے ’’فِئَۃٌ، لُؤْلُؤًا‘‘ میں یاء اور واو اصل مقصود نہیں بلکہ وہ ہمزہ کی کرسی کا کام دے رہے ہیں، اگر ان میں بھی ہمزہ حذف کر دیا جائے ’’فِیَۃٌ، لُوْلُوًا‘‘ تو ادائیگی کیسے ہوگی؟ اگر یہ کہا جائے کہ مذکورہ ہمزہ کا تعلق رسم سے نہیں ہے بلکہ ضبط کے ساتھ ہے تو ہماری گزارش ہے کہ ’مائ، فئۃ، لؤلؤ‘ جیسے کلمات کا ہمزہ بھی تو ضبط سے تعلق رکھتا ہے اگر یہ لکھا جا سکتا ہے تو وہ بھی لکھا جانا چاہئے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ اسی طرح پاکستانی مصاحف میں نون قطنی بعض مقامات پر لکھا گیا ہے جبکہ دیگر بعض مقامات پر نہیں لکھا گیا۔مثلاً تاج کمپنی کے مطبوعہ مصاحف میں ’’ اِنْ تَرَکَ خَیْرَا ڑ الْوَصِیَّۃُ ‘‘ (البقرۃ: ۱۸۰) میں نون قطنی لکھا گیا ہے جبکہ سورۃ الاخلاص میں ’’ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ٭ اَللّٰہُ الصَّمَدُ ‘‘(الاخلاص: ۱،۲) پر نہیں لکھا گیا اور لفظ جلالہ کے ہمزہ وصلی پر زبر لگائی ہوئی ہے۔ حالانکہ وصلا دونوں کا حکم ایک جیساہے۔اگر کوئی شخص ’’ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ٭ اَللّٰہُ الصَّمَدُ‘‘کو وصلا پڑھتا ہے تو کیسے پڑھے گا؟ عامی آدمی تو ’’ اَللّٰہُ الصَّمَدُ ‘‘ میں وصل کے باوجود لفظ اللہ کے ہمزہ وصلی کو زبر دے کر ہی پڑھے گاجو صریح غلطی ہے۔
٭ پاکستانی مصاحف جس حرف کے اوپر کھڑا زبر ہو تو وہاں زبر نہیں ڈالی جاتی مثلاً ’’ مٰلِکِ ‘‘ حالانکہ کھڑا زبر الف کے قائم مقام ہوتا ہے اور اگر کسی حرف کے بعد الف ہو پھر اس حرف پر زبر ضرور ڈالی جاتی ہے مثلاً ’’ کَمَا ‘‘ تو اگر الف کی موجودگی میں پیچھے زبر ڈالی جاتی ہے تو کھڑا زبر (جو الف کے قائم مقام ہے) سے پہلے زبر کیوں نہیں ڈالی جاتی۔ ہمارے رائے میں اسے ’’ مَــــٰـــلِکِ ‘‘ لکھا جانا چاہئے جیسے مصحف مدینہ میں لکھا ہوا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ پاکستانی مصاحف میں مدمتصل اور منفصل کے ضبط میں فرق رکھا گیا ہے جو ایک مستحسن امر ہے، بالکل اسی طرح ضبط کی تمام کتابوں میں نون ساکن ونون تنوین اور میم ساکن کے ضبط میں بھی غنہ، عدمِ غنہ اور اظہار ادغام وغیرہ کے اعتبار سے فرق رکھا گیا ہے جس کا ہمارے مصاحف میں لحاظ نہیں رکھا گیا۔ بعض اصحابِ خیر نے ضرورت محسوس کرتے ہوئے اسی مقصد سے تجویدی قرآن چھاپے تاکہ اظہار ادغام اخفاء وغیرہ کو واضح کیا جا سکے۔ ہماری رائے میں اگر مصاحف میں نون ساکن ونون تنوین اور میم ساکن کے مخصوص ضبط کا خیال رکھا جائے تو اظہار ادغام اخفاء وغیرہ کا فرق بڑی حد تک خود بخود واضح ہوجائے گا۔ مثلاً کتب ِضبط میں لکھا ہے کہ نون ساکن کے بعد اگر حروف حلقی آئیں تو نون کے اوپر سکون لکھا جانا چاہئے تاکہ نون کو خوب واضح کرکے اظہار کے ساتھ پڑھا جائے وگرنہ نون ساکن کو خالی رکھا جائے۔ مثلاً ’’مِنْ خَیْرٍ، یَنْـَٔوْنَ، مَن یَأْتِ، مِن تَحْتِہَا، مِن بَیْنِ‘‘ اور اگر نون ساکن کو خالی رکھا جائے اور اگلے حرف پر شد ڈالی جائے تو یہ ادغامِ تام کی علامت ہے اور اگر اگلے حرف پر تشدید نہ ہو تو یہ ادغامِ ناقص یا اخفا کی نشانی ہے، یہی معاملہ میم ساکن کا بھی ہے۔ اسی طرح تنوین کی دو صورتیں ہیں: متتالیتین (یعنی اوپر نیچے) اور متتابعتین (یعنی آگے پیچھے) متتالیتین کا معاملہ ایسے ہی ہے جیسے نون ساکن کے اوپر سکون ڈال دیا جائے اور متتابعتین خالی نون ساکن کی مثل ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اغلاط فواصل کی چند مثالیں
٭ روایت حفص کے مطابق ’’ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ‘‘ سورۃ الفاتحہ کی آیت ہے جبکہ ’’ أَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ‘‘ پر آیت نہیں ہے۔ لیکن ہمارے ہاں پاکستانی مصاحف میں ’’ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ‘‘ کو آیت شمار نہیں کیا گیا اور ’’أَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ‘‘ پر آیت کا نشان لگانے کی بجائے صرف ۶ نمبر دے کر سورۃ الفاتحہ کی سات آیات پوری کر دی گئی ہیں۔ جو علم عد الآی کی رو سے صریح غلطی ہے۔ علامہ عبد الفتاح القاضی ﷫فرماتے ہیں:
والکوفِ مع مکٍ یعد البسملة
سواهما أولی علیهم عد له​
’’یعنی کوفی اور مکی شمار میں بسم اللہ کو آیت شمار کیا گیا ہے جبکہ ان دونوں شماروں کے علاوہ دیگر شمار پہلے علیھم پر آیت شمار کرتے ہیں۔ (الفرائد الحسان فی عدّ آي القرآن، سورۃ الفاتحۃ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ روایت ِحفص کے مطابق سورۃ النساء کی آیت نمبر ۱۷۳ میں ’’فَیُعَذِّبُھُمْ عَذَابًا أَلِیْماً ‘ پرآیت نہیں ہے اور سورۃ النساء کی ۱۷۶ آیات ہیں۔مجمع ملک فہد کے مطبوعہ مصاحف میں بھی یہاں آیت نہیں ہے، جبکہ پاکستانی مصاحف میں سے بعض میں اس جگہ آیت شمار کی گئی ہے اوردیگر بعض مصاحف میں آیت شمار نہیں کی گئی۔ ہمارے پاس تاج کمپنی کے دو ایڈیشن موجود ہیں اور ان دونوں میں فرق پایا جاتاہے۔ ایک طبع میں یہاں آیت شمار کی گئی ہے اور سورۃ النساء کی مکمل آیات ۱۷۷ کر دی گئی ہیں، جبکہ دوسرے طبع میں یہاں آیت شمار نہیں کی گئی اور سورۃ النساء کی ۱۷۶ آیات کر دی گئی ہیں۔ روایت حفص میں اس مقام پر آیت شمار کرنا علم عد الآی کی روشنی میں صریح غلطی ہے۔ الشیخ عبد الفتاح القاضی ﷫اس ضمن میں الفرائد الحسان، سورۃ النساء میں فرماتے ہیں:
وذا ألیمًا آخرا بہ انفرد​
’’یعنی آخری ’’ألیما‘‘ پر آیت شمار کرنے میں شامی منفرد ہے۔‘‘جبکہ روایت ِحفص کوفی شمارکے مطابق ہے۔
٭ شمار آیات میں غلطی کا یہی حال سورۃ الانعام کی آیت نمبر ۷۳ میں بھی ہے کہ ایک طبع میں ’’وَیَوْمَ یَقُوْلُ کُنْ فَیَکُوْنُ‘‘ پر آیت شمار کی گئی، جبکہ دوسرے طبع میں آیت شمار نہیں کی گئی۔ علم عد الآی کی رو سے روایت حفص میں یہاں آیت نہیں ہے۔ صاحب فرائد الحسان سورۃ الانعام میں فرماتے ہیں:
کـ فیکون الدّین شام بصري​
’’یعنی ’’فیکون‘‘ پر شامی اور بصری آیت شمار کرتے ہیں۔‘‘گویا کہ کوفی شمار میں اس جگہ آیت نہیں ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پاروں اور رکوعات کی درستگی
٭ پاکستانی مصاحف میں چودہواں پارہ ’’ رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ‘‘ (الحجر: ۲) سے شروع ہوتا ہے اور اس سے قبل سورۃ الحجر کی صرف ایک آیت مبارکہ کو تیرہویں پارے میں ڈال دیا جاتا ہے۔پاروں کی تقسیم چونکہ اجتہادی ہے لہٰذا اگر اس پارے کو سورۃ الحجر سے ہی شروع کر دیا جاتا (جیسا کہ مجمع ملک فہد کے مطبوعہ مصاحف میں ہے) تو اس میں آسانی کے ساتھ ساتھ اس کی خوبصورتی میں بھی اضافہ ہو جاتا۔
٭ جہاں پارہ ختم ہورہا ہو وہیں رکوع ختم ہونا چاہئے، کیونکہ پاروں اور رکوعات کا مقصد قرآن مجید کو معانی کے مطابق مختلف حصوں میں تقسیم کرنا ہے۔ جب ہم ربع، نصف اور ثلث پر رکوع کے ختم ہونے کا اہتمام کرتے ہیں تو پارہ کے اختتام پر رکوع کا اہتمام کرنا بالاولیٰ ہے۔
٭ رکوعات وضع کرنے کا مقصد نمازِ تراویح میں قرآن مجید پڑھنے کوبرابر تقسیم کر کے آسان بنانا تھا، چاہئے تو یہ تھا کہ تمام رکوعات میں ایک اعتدال ہوتا اور تمام رکوع باہم تقریباً ایک جیسے ہوتے، جبکہ صورتحال اس سے مختلف ہے، بعض رکوع بہت زیادہ لمبے ہیں اور بعض بالکل ہی چھوٹے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ پاکستانی مصاحف میں سورۃ الواقعہ کا پہلا رکوع ’’ لِأَصْحٰبِ الْیَمِیْنِ ‘‘ (الواقعۃ: ۳۷) پر ہے، حالانکہ سیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ لوگوں کا تذکرہ اس سے اگلی دو آیات پر مکمل ہوتاہے ،معنوی اعتبار سے یہ رکوع اس سے اگلی دو آیات ’’ ثُـلَّــۃٌ مِّنَ اْلأَوَّلِیْنَ٭ وَثُــلَّــۃٌ مِّنَ الْأٰخِرِیْنَ‘‘ (الواقعۃ: ۳۸،۳۹) پر مکمل ہو نا چاہئے تھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پاکستانی اور سعودی مصاحف میں رموز اوقاف کا فرق
صحیح تحقیقی اور علمی مراجعت نہ ہونے کی وجہ سے پاکستانی مصاحف اور مجمع ملک فہد سے مراجعت شدہ مصاحف کے رموز اوقاف میں بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے جس کو دیکھ کر بسا اوقاف عامی آدمی پریشانی کا شکار ہو جاتا ہے، لیکن چونکہ سعودی مصاحف ماہرین فن اور پوری دُنیا کے کبار اہل علم اور اصحاب تفسیر پر مشتمل ایک کمیٹی (جن کے نام ہر مصحف کے آخر میں درج ہیں) سے مراجعت شدہ ہیں، لہٰذا ہم انہیں ایک معیاری اور ماڈل مصحف کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ ہم نے بطور مثال سورۃ البقرۃ کے پہلے دو رکوع میں رموز کا موازنہ کیا ہے ،جو درج ذیل ہے:
 
Top