• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پاکستان میں اختلافِ قراء ت والے قرآنی مصاحف کی اِشاعت

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پاکستان میں اختلافِ قراء ت والے قرآنی مصاحف کی اِشاعت

مفتی محمد طاہر مکی​
کلیۃ القرآن الکریم، جامعہ لاہور الاسلامیہ نے درس و تدریس کے ۲۰ سالہ دَور کے بعد عوام الناس میں علم القراء ات کے مختلف گوشوں سے تعارُف وواقفیت کیلئے ماہنامہ ’رُشد‘ کی مسلسل تین خصوصی اشاعتوں کااہتمام کیا۔ جن میں قراء ات سے متعلق جملہ پہلوؤں پر اس قدر تفصیلی مباحث عوامی سطح پر پیش کی گئیں کہ بعض تبصرہ نگاروں کے مطابق قراء ات سے متعلق اتنا بڑا علمی کام پہلی دفعہ عالم اسلام کے مجلات میں منظر عام پر آیا ہے۔ تقریباً ۳۰۰۰ صفحات پر مشتمل ان اشاعتوں کو فن قراء ات کا انسائیکلوپیڈیا کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ مجلہ کی ’مجلس ادارت‘ جس میں تمام مکاتب فکر کے نامور قراء کرام شامل ہیں، نے انتہائی سوچ وبچار کے بعد تمام لٹریچر کی چھانٹی کر کے مطبوعہ وغیر مطبوعہ مضامین کا شاندار مجموعہ تیار کر دیا، جس کی اشاعت کے بعد ’فتنۂ انکارِ حدیث‘ کی طرح ’فتنۂ انکارِ قراء ات (انکارِ قرآن) بھی ان شاء اللہ ختم ہو جائے گا۔
یہ بات بڑی عجیب ہے کہ قراء اتِ سبعہ و عشرہ کو منکرین حدیث و قراء ات فتنۂ عجم قرار دیتے ہیں بلکہ سینکڑوں مکتبوں کی طرف سے ان قراء توں پر مشتمل شائع شدہ قرآنوں کو قرآن مجید ہی تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں۔ حرمین شریفین کے زائرین اکثر اوقات وہاں متعدد قراء ات میں شائع شدہ مصاحف دیکھنے کے ساتھ ساتھ پوری دُنیا سے آنیوالے حجاج کرام کو مختلف قراء ات کے مطابق قرآن پڑھتے ہوئے سنتے ہیں۔ اگر یہ قراء ات قرآن نہیں تو اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ عالم اسلام کے کروڑوں مسلمان قرآنِ مجید کی سعادت ہی سے محروم ہیں۔ غور فرمائیے کہ ان متجدّدین کو اکثر یہ شکوہ رہتا ہے کہ علمائے کرام ایک دوسرے پر فتویٰ بازی کا شغل کرتے ہیں، ایک دوسرے کو گمراہ کہتے اور اُمت میں تفریق پیدا کرتے ہیں جبکہ مسئلہ قراء ات میں عالم اسلام کے علماء متفق ہیں مگر مٹھی بھر منکرین حدیث ان کے برعکس دانستہ یا نادانستہ طور پر کروڑوں مسلمانوں کو قرآن سے محروم قرار دے کر انہیں گمراہ اور گم گشتہ راہ قرار دینے پر اُدھار کھائے بیٹھے ہیں۔
ماہنامہ رُشد کی ان علمی و تحقیقی اشاعتوں کے حوالے سے اربابِ علم و دانش کیا رائے رکھتے ہیں؟ اس کیلئے قراء ات نمبر۲ اور ۳ میں اہل علم کے تبصرہ جات کا جائزہ لیا جاسکتا ہے، لیکن منکرین حدیث نے ان تحقیقی اشاعتوں کے بعد شدید بوکھلاہٹ کا اظہار یوں کیا کہ ملک کے مختلف حصوں میں پراپیگنڈہ مہم کے طور پر حقائق سے ہٹ کر غیر علمی انداز میں طعن وتشنیع کا آغاز کیا، خصوصاً کراچی میں دار الموطا نامی ادارے نے عوام اور حکومتی اداروں میں منفی لٹریچر تقسیم کر کے اس کارِ مذموم میں ’قیادت کا فریضہ‘ سر انجام دیا ہے، چونکہ دیگر ناقدین کے اعتراضات بھی اسی لٹریچر کا چربہ ہیں لہٰذا ہم نے مناسب سمجھا کہ دار الموطا کے تقسیم کردہ کتابچہ کو من و عن شائع کرتے ہوئے ادارے کے مؤقف کے ساتھ ساتھ دیگر علمی وعوامی شخصیات کا اس پر تنقیدی جائزہ پیش کریں اور فیصلہ معزز قارئین پر چھوڑ دیا جائے۔ (ادارہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال
جناب حضرت مفتی محمد طاہر مکی صاحب ، صدر قرآنی مرکز ودارالموطا کراچی و مفتی مدینۃ العلوم اورنگ آباد ۔
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ و برکاتہ!
جناب گرامی!
لاہور سے اَہلحدیثوں کے ایک اِنتہا پسند گروپ کا ماہنامہ ’رُشد‘ نکلتا ہے جس نے اپنے جون ۲۰۰۹ء کے شمارے کے صفحہ ۶۷۸ پرلکھا ہے کہ اختلافِ قراء ت پر مبنی تین اختلافی قرآنی مصاحف (ورش کا، قالون کا، دوری کا) پاکستان سے باہر شائع ہوچکے ہیں۔ اب موجودہ قرآن کریم کے علاوہ مزید ۱۶؍ قاریوں کے اختلافات والے ۱۶؍ قرآنی مصاحف وہ شائع کردے گا۔ اس طرح کل ۲۰؍ قرآنی مصاحف ہوجائیں گے (یعنی ان سب میں باہمی اختلافات ہیں۔ کیونکہ اگر ان ۲۰؍ مصاحف میں آپس میں اختلافات نہ ہوتے تو پھر ان کو علیحدہ علیحدہ مصاحف کی صورت میں چھاپنے کی ضرورت ہی کیوں ہوتی؟)
پوری تاریخ اِسلام میں یہ اس زمانہ کی نئی بدعت ہوگی۔ورنہ خلافتِ راشدہ سے اُموی خلافت، عباسی خلافت، عثمانی(ترکی) خلافت میں کبھی ایسا نہیں ہوا اور نہ برصغیر میں کبھی ایسا ہوا۔حتیٰ کہ کسی غیر مسلم تک کو اس کی جرأت نہیں ہوئی۔ برصغیر میں اب اس غالی اَہلحدیث گروپ کی طرف سے یہ پہلی جرأت کی جارہی ہے۔ کیا اس سے عام مسلمانوں کو تشویش نہیں ہوگی؟ اور کیا قرآن کی عظمت میں کمی نہیں آئے گی؟اور کیا مسیحیوں اور غیرمسلموں کو یہ کہنے کاموقع نہیں ملے گا کہ جس طرح چار انجیلوں میں حضرت مسیح﷤ کا پتہ نہیں اسی طرح ان چار یا بیس قرآنوں میں حضرت محمد 1 کے اصل قرآن کا کیسے پتہ چلے گا؟ کیا اب ایک خدا، ایک رسول1 ، ایک قرآن کا دعویٰ ختم ہوگیا؟
پھر یہ چار یا بیس (۴یا۲۰) قرآنی مصاحف کس لئے؟
سائل۔۔۔۔۔ذاکر حسین، کراچی​
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
الجواب بعون اﷲ الذی أنزل الکتاب
الحمد ﷲ الذي أنزل علی عبدہ الکتاب ولم یجعل لہ عوجا۔ وقال: ’’ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ ‘‘ (البقرۃ:۲)، ’’ فَلْیَأْتُوْا بِحَدِیْثٍ مِّثْلِہٖٓ اِِنْ کَانُوْا صٰدِقِیْنَ ‘‘ (الطور:۳۴)، ’’ وَ لَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا ‘‘(النساء:۸۲) أما بعد:
جیسا کہ سائل نے سوال میں اس حقیقت کا اِظہار کردیا ہے کہ اختلافِ قراء ت پر مبنی قرآنی مصاحف شائع کرنے کی جرأت خلافتِ راشدہ سے اُموی خلافت ، عباسی خلافت، عثمانی (ترکی) خلافت تک، حتیٰ کہ شیعہ مملکت ایران تک میں نہ شاہ کے زمانہ میں، نہ خمینی انقلاب کے بعد بھی، کسی نے نہیں کی۔ غرض اختلافِ قراء ت کو متن قرآن میں داخل کرکے مصحف کی شکل میں شائع کرنے کی کسی نے جرأت نہیں کی۔
پہلی مرتبہ یہ حرکت مشہورمستشرق جیفرے نے بیسویں صدی میں کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ بھی متن قرآن میں نہیں بلکہ قرآن کریم کے حاشیہ پر اِختلاف قراء ت درج کرکے شائع کرنے کا پروگرام بنایا تھا، مگر اس میں بھی وہ کامیاب نہ ہوسکا۔ اللہ تعالیٰ نے دوسری جنگ عظیم میں بمباری کے دوران اس کے سارے کام کو تباہ کردیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حیرت ہے اَب اسلام کے کچھ نادان دوست اس کام کی جرأت کریں جس کی جرأت غیر مسلم تک نہ کرسکے۔ ان نادان دوستوں کی پُشت پر معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ایسا دماغ کام کررہا ہے جو چاہتا ہے کہ خلافتِ راشدہ سے خلافت عثمانی (ترکی) تک کے اجماع اُمت کے خلاف ان سے اس بدعت کی جرأت کرائے جو درحقیقت قرآن دشمنی پر منتج ہوتی ہے کہ اس طرح دوسروں کو بھی اس کا موقع فراہم ہوجائے گا کہ وہ قرآن کریم کو متنازعہ بنانے، اور چار انجیلوں کی طرح قرار دینے کے اپنے مقاصد کو پایۂ تکمیل تک پہنچا سکیں۔
سب کو معلوم ہے کہ غیر عرب مسلمانوں کی تعداد میں بکثرت اضافہ ہونے کی وجہ سے (جو عربی نہیں جانتے تھے) ان کی سہولت کے لیے خلیفہ راشد حضرت علیt اور حضرت معاویہ﷜ کی خلافت میں بصرہ کے گورنر زیاد کی نگرانی میں ابوالاسود دُولی نے قرآن کریم پر اعراب( زیر ، زبر، پیش) لگائے تھے۔ پھر خلافت عبدالملک اور خلافت ولید میں عراق کے گورنر حجاج بن یوسف کی نگرانی میں اسی ابوالاسود دُولی کے دو شاگردوں یحییٰ بن یعمر اور نصر بن عاصم نے اعراب لگانے کی محنتوں کو انتہا تک پہنچا دیا اور تمام اموی خلافت میں دارالخلافہ دمشق سے اَفریقہ کے الجزائر و مراکش اور یورپ کے ہسپانیہ تک اور ادھر عراق و ایران سے بخارا و سندھ تک، تیسری طرف حرمین شریفین اور نجد و یمن تک، چوتھی طرف ترکی، آرمینیا اور کوہ قاف کی انتہاؤں تک، تمام خلافتِ بنوامیہ میں اعراب والا یہی ایک قرآن کریم رائج ہوا۔ ان کے بعد سلیمان کی خلافت آئی جس کے مشیر اعظم حضرت عمر بن عبدالعزیز﷫ تھے۔پھر اس کے بعد خود عمر بن عبدالعزیز﷫ کی اپنی خلافت میں بھی یہی حجاج کی نگرانی میںلگائے گئے اعراب (زیر، زبر ، پیش) والامصحف (قرآن کریم) رائج رہا۔ کبھی کسی کو اعتراض کرنے کی یا اس کے برخلاف اختلافی قراء ت والا مصحف پیش کرنے کی جرأت نہیں ہوئی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس کے بعد عباسی دور میں بھی پورے عالم اِسلام میں یہی اعراب والا مصحف رائج رہا۔ پھر خلافت عثمانیہ (ترکی) میں یہی رائج رہا۔ غرض جب تک مسلمانوں کا خلافت کی صورت میں اجتماعی شیرازہ برقرار رہا۔ تمام اُمت کا اسی مصحف پراجماع رہا۔ حضرت علی﷜ اور حضرت معاویہ﷜ کی، صحابہ کرام﷢ کی، خلافت سے چل کر ان کے بعد خلافت عبدالملک، خلافت ولید، خلافت سلیمان و خلافت عمربن عبدالعزیز﷫ کی تابعی خلافت سے ہوتے ہوئے آج تک یکساں اعراب والا یہی قرآن کریم باجماع و تواتر ہر خلافت اسلامی میں جاری رہا اور تراویح میں پڑھا اور سنایا جاتا رہا۔ ہاں خلافت کے خاتمہ کے بعد اِسلام کے دشمنوں کو قرآن کریم کی عظمت کے خلاف طرح طرح کے پلان بنا کر کامیاب ہونے کی توقع ہوئی جس کی تاریخی طور پر پہلی معلوم کوشش مستشرق آرتھر جیفرے کی تھی جو قرآن کریم کے حاشیہ پر اختلاف قراء ت پیش کرکے حفاظت قرآن کے متعلق مسلمانوں کے گہرے ایمان کو متزلزل کرنا چاہتا تھا۔ اس کے مقاصد میں سے ایک مقصد یہ بھی تھا کہ آئندہ مسلمان مسیحیوں سے یہ سوال نہ کرسکیں کہ اگر انجیلیں چار ہیں تو پھر ان میں حضرت مسیح﷤ کی اصلی انجیل کون سی ہے؟ جیفری اور اس کے اندرھے مقلدین کی کوششیں اگر کامیاب ہوجائیں تو پھر اس سوال پر مسیحی پلٹ کر خود مسلمانوں سے سوال کرسکیں گے کہ جناب آپ کے چار+ سولہ= بیس قرآنوں میں سے حضرت محمد رسول اللہﷺ کا اصلی قرآن کون سا ہے؟ جب مسلمان اس کا جواب دے دیں گے تو پھر ہم مسیحی چار انجیلوں میں سے مسیح﷤ کی اصلی انجیل کا جواب بھی دے دیں گے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اَفسوس ان تکلیف دہ سازشوں کو سمجھنے کی صلاحیت اور بصیرت سے محروم نادان دوست خود ہی ان کے جال میں پھنس گئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ تو غافل نہیں ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ لوگ اس کے کام میں تعاون کرکے سعادت عظمیٰ میں شریک ہوں ’’إِنْ تَنْصُرُواﷲَ یَنْصُرْکُمْ‘‘(محمد:۷) لیکن اگر کوئی بدقسمت محروم رہنا چاہتا ہے تو ’’وَإِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَیْرَ کُمْ‘‘(محمد:۳۸) کا مظاہرہ ہوتا ہے اور بغیر کسی کی مدد کے اللہ اپنا کام کرکے دکھاتا ہے۔
آرتھر جیفرے یہ سازش کررہا تھا مگر اللہ کی بے آواز لاٹھی نے دوسری جنگ عظیم میں دو طرفہ بمباری کی زد میں لاکر جیفرے کے کیے گئے تمام کام کو، اور اس عمارت کو، جس میں یہ کام ہورہا تھا، مکمل تباہ کردیا۔
ہاتھی والوں سے بیت اللہ (کعبہ) کو بچانے کے خدائی معجزہ کی طرح کلام اللہ (قرآن کریم) کو اس کے دشمنوں سے بچانے کے لیے یہ تازہ ترین معجزہ تھا: ’’ وَاﷲُ غَالِبٌ عَلٰٓی أَمْرِہٖ وَلٰکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ‘‘ (یوسف:۲۱) ’’فَاَتٰہُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لاَ یَشْعُرُوْنَ٭ فَــأَذَاقَہُمُ اللّٰہُ الْخِزْیَ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَۃِ أَکْبَرُ لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ‘‘ (الزمر:۲۵،۲۶)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ان مختصر تمہیدی جملوں کے بعد سائل کے لیے ہمارا جواب وہی ہے جو حکیم الامت مولانا اَشرف علی تھانوی﷫ کے امداد الفتاویٰ (دارالعلوم کراچی ایڈیشن) کی پہلی جلد میں ہے کہ مصاحف کی شکل میں اختلاف قراء ت کو شائع کرنا تو درکنار عوام کے سامنے اختلاف قراء ت پر مبنی تلاوت کرنے سے منع کرنابھی واجب ہے۔
اس جواب کے ساتھ یہ خوش خبری بھی معلوم ہوئی ہے کہ حکومت پنجاب نے اختلاف قراء ت کے حوالہ سے قرآن کریم کے اختلافی مصاحف چھاپنے کا پروگرام رکھنے والوں کے خلاف نوٹس لیا ہے جس کے لیے وہ تحسین کی مستحق ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دانستہ یا نادانستہ بہرصورت دشمن کا آلۂ کار بننے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
مزید بصیرت کے لیے مولانا تھانوی کا (جو خود بھی سبعہ کے قاری تھے) فتویٰ (سوال و جواب مکمل) یہاں بھی درج کیا جاتا ہے۔ ان کا یہ جواب مسلم آبادی کے ستر فیصد اکثریتی حصہ پر مشتمل حنفی مسلک کی مکمل ترجمانی ہے جیسا کہ فتاویٰ ہندیہ عالمگیر، فتاویٰ تاتارخانیہ، فتاویٰ شامی ردّالمختار وغیرہ سے ظاہر ہے۔
محمد طاہر (دارالافتاء ،مدینۃ العلم، کراچی)​
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
کتب مدرک نمی شود تعلق بسماع ازماہر دارد۔ من از قراء پانی پت کہ درایں فن از دیگراں امتیاز خاص دارند ایں حرف شنیدہ ام در ادائے شاں صریح امتیاز محسوس میشودہم از ظاء وہم از دال ہذا وجواب خامس تتمہ ہم دار دوآں اینکم حکم بفساد صلوٰۃ برفتویٰ متأخرین عام نیست بلکہ مخصوص است بہ قادر بر ادائے صحیح اما غیر قادر پس نمازش و ہمچنیں امامتش صحیح خواں را و غلط خواں را درہر دو صورت صحیح است خواہ بصوت ِ دال خواند خواہ بصوت ِ ظاء کہ آں لغت او گشتہ باز در صورت غلط ادا نمودن آیا ترجیح دال مفخم راست کہ اگرچہ غلط است لاکن ممتاز است بخلاف ظاء کہ ممتاز ہم نیست یا ظاء معجمہ راست کہ اگرچہ ممتاز نیست لیکن حرف قرآن ست بخلاف دال ایں کلام دیگر ست و درہر دو جانب جماعتے است از اہل علم و لکل وجھۃ ھو مولیھا۔
۱۳ جمادی الثانی ۱۳۵۳ھ (النور صفحہ ۹ جمادی الاولیٰ ۱۳۵۳ھ)[(امداد الفتاویٰ:۱؍۱۹۴)
منع از غلو در قراء ۃ سبعہ بوقت احتمال فتنۂ عوام۔​
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال(۲۴۲) بعض مقامات میں سبعہ قراء ۃ کا چرچا حد سے تجاوز کرچلا ہے۔ بعض حفاظ لڑکوں اور جاہلوں کو مختلف روایتیں یاد کراکے پڑھاتے اور پڑھواتے ہیں اور اُس کو صریحاً بغرض ریا پڑھتے پڑھاتے ہیں۔ تراویح میں بھی ایسا ہوتا ہے جس سے سوا نمود کے کوئی نفع نہیں۔کیا اس طرح پڑھنے پڑھانے میں اس زمانۂ پرآشوب میں یہ خوف نہیں ہے کہ جہال و مخالفین اسلام ان اختلافات کو سن کر مشوش ہوں گے اور خوف فتنہ نہیں ہے؟۔ چنانچہ بعض حفاظ نے تو ایک رکعت میں روایت حفص پڑھی، دوسری رکعت میں روایت قالون، کسی نے ٹوکا تو کہہ دیا کہ تم نہیں جانتے۔ ایسی صورتیں اچھی معلوم نہیں ہوتیں۔ کیا یہ فعل قابل روکنے کے نہیں ہے۔براہِنواز ش اگر قابل ممانعت ہے تو اس کا جواب ذرا تفصیل سے الامداد میں طبع ہوجائے تو بہتر ہے میرا یہ خیال ہرگز نہیں کہ اس کی تعلیم بند ہو بلکہ زور دیا جائے کہ تجوید کانام قراء ت ہے اور عوام کو اسی کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی پڑھالکھا آدمی، حرف بھی اس کا اچھا ہو تو اس کو سبع پڑھائی جائے۔ سفہاء اور تنگ خیال لوگوںکو فقط تجوید پڑھائی جائے اور قراء ت جاننے والوں کو چاہئے کہ ہر کس و ناکس کو سوائے روایت حفص اور تجوید کے کچھ نہ پڑھایا کریں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
الجواب
قال اﷲ تعالیٰ: ’’ وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ ‘‘(الأنعام:۱۰۸) في تفسیر بیان القرآن۔ اس سے قاعدہ شرعیہ ثابت ہواکہ مباح (بلکہ مستحب بھی ۱۲منہ) جب حرام کاسبب بن جائے وہ حرام ہوجاتا ہے ۔…الخ (وھذالمبحث) (امداد الفتاویٰ، جلد اوّل فصل فی التجوید: ۱۹۵)
کلہ صالح لأن یلاحظ فیہ ۱۲) وروی البخاري عن عليّ قال: حدثوا الناس بما یعرفون أتحبون أن یُکذب اﷲ ورسولہ۔ (في حقیقۃ الطریقۃ)۔ (صحیح البخاري: کتاب العلم، باب من خص بالعلم قوما دون قوم…)
بعضے بیباک عوام کے سامنے بے تکلف دقائق بیان کربیٹھتے ہیں بعضے عوام اُن کی تکذیب کرتے ہیں اوربعضے قواعد مشہورہ شرعیہ کے منکر ہوجاتے ہیں سو ہر حال میں اللہ و رسول کی تکذیب کا تحقق ہوا۔ والثاني أشد من الأوّل۔ اس حدیث میں اس عادت کی ممانعت ہے۔
وروی مسلم عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ أنہ قال: ما أنت بمحدث قوما لا یبلغہ عقولھم إلا کان لبعضھم فتنۃ۔ فی حقیقۃ الطریقۃ۔ (مقدمۃ صحیح مسلم)
 
Top