• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پاکستان میں شریعت کے نام پر جہاد کرنے والے گمراہ ہیں !!!!

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
کیا آپ کا یہ اصول ان لوگوں کے لئے بھی ہے جن کو آپ رات دن خارجی گردانتے ہیں ؟؟؟؟

ابن عباس کی روایت حدیث بخاری میں اِس طرح نقل ہوئی ہے :

من بدل دینہ فاقتلوہ.(رقم ۳۰۱۷)

''جو شخص اپنا دین تبدیل کرے ، اُسے قتل کردو۔''


اس اصول کے تحت ہر وہ شخص واجب القتل ہے جو اپنا دین بدل دے - اور کفر کا مطلب ہی یہ ہے کہ انسان اس دین پر راضی نہیں جو دین محمّد صل الله علیہ وسلم کی وساطت سے ہم تک پہنچا - اب ہر شخص یہ جانتا ہے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے -نبی کریم صل الله علیہ وسلم کی بعثت کے بعد اب حجت تمام ہو چکی - ہمارے حکمران ہر لحاظ سے صریح کفر کے مرتکب ہویے ہیں - لہذا صحابہ کی اسوہ پور چلتے ہوے ان کو زیادہ سے زیادہ توبہ کی تین دن کی مہلت دی جانی چاہیے اوراس کفر سے باز نا آنے کی صورت میں ان پر قتل کا فتویٰ صادر کر دینا چاہیے -

نبی کریم صل الله علیہ وسلم کا اس زمن میں واضح فرمان ہے؛

امرت ان اقاتل الناسحتی یشھدوا ان لا الہ الا اللّٰہ وان محمدًا رسول اللّٰہ ویقیموا الصلٰوۃ ویؤتوا الزکوٰۃ فاذا فعلوا عصموا منی دماء ھم واموالھم الا بحقھا وحسابھم علی اللّٰہ.(مسلم ، رقم ۱۲۹)'

'مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اُن لوگوں سے جنگ کروں ، یہاں تک کہ وہ لا الہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیں، نماز کا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔ وہ یہ شرائط تسلیم کر لیں تو اُن کی جانیں محفوظ ہو جائیں گی، الاّ یہ کہ وہ اسلام کے کسی حق کے تحت اِس حفاظت سے محروم کر دیے جائیں ۔ رہا باطن کا حساب تو وہ اللہ کے ذمہ ہے ۔''

ایک حکمران پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مسلم معاشرے میں نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا نظام قائم کرے- یہ حکمران کے لئے آخری حد ہے اگر وہ اس حکم کو ملحوظ خاطر نہیں رکھتا تو اس کے بعد صحیح حدیث کی رو سے اس کا قتل ہر صورت جائز ہو جاتا ہے- اس زمن میں نبی کریم صل الله علیہ وسلم کا فرمان ہے -

خِیَارُ اَءِمَّتِکُمُ الَّذِیْنَ تُحِبُّوْنَھُمْ وَیُحِبُّوْنَکُمْ وَتُصَّلُّوْنَ عَلَیْھِمْ وَیُصَلُّوْنَ عَلَیْکُمْ وَشِرَارُ اَءِمَّتِکُمُ الَّذِیْنَ تُبْغِضُوْنَھُمْ وَیُبْغِضُوْنَکُمْ وَتَلْعَنُوْنَھُمْ وَیَلْعَنُوْنَکُمْ فَقُلْنَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اَفَلَا نُنَابِذُھُمْ بِالسَّیْفِ عِنْدَ ذٰلِکَ قَالَ لَا مَا اَقَامُوْا فِیْکُمُ الصَّلٰوۃَ اَلَامَنْ وُلِّیَ عَلَیْہِ وَالٍ فَرَاٰہُ یَاْتِیْ شَیْءًا مِّنْ مَّعْصِیَۃِ اللّٰہِ فَلْیَکْرَہْ مَا یَاْتِیْ مِنْ مَّعْصِیَۃِ اللّٰہِ وَلَا یَنْزَعَنَّ یَدًا مِنْ طَاعَۃٍ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب خیار الائمہ وشرارھم) تمھارے بہترین حکمران وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں اور جن کے لیے تم دعا کرو اور وہ تمھارے لیے دعا کریں، اور تمھارے بدترین حکمران وہ ہیں جن سے تم نفرت کرو اور وہ تم سے نفرت کریں اور تم ان پر لعنت بھیجو اور وہ تم پر لعنت بھیجیں۔ ہم نے پوچھا کہ یارسولؐ اللہ کیا ایسی حالت میں ہم تلوار کے ذریعے ان کا مقابلہ نہ کریں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، جب تک وہ تمھارے درمیان نماز قائم کرتے رہیں اس وقت تک تم ان کے خلاف تلوار نہیں اُٹھا سکتے۔ سنو! جس شخص پر کوئی حکمران حکومت کر رہا ہو اور وہ اس میں اللہ کی نافرمانی دیکھے تو اللہ کی اس معصیت کو تو بُرا سمجھے (اور اس میں اس کی اطاعت بھی نہ کرے) لیکن معروف میں اس کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچے''، یعنی خروج اور مسلح بغاوت نہ کرو۔

نماز چونکہ مومن کی پہچان اور ایمان کی علامت ہے، اس لیے فرمایا کہ جب تک وہ نماز قائم کرتے رہیں تو تم ان کے خلاف تلوار نہ اٹھاؤ۔ دوسری حدیث میں آیا ہے کہ جب تک تم ان کے اندر ایسا کھلا کفر نہ دیکھو جس کے کفر ہونے پر تمھارے پاس قطعی دلیل موجود ہو، اس وقت تک تم ان سے جھگڑا نہ کرو۔(ب[/hl]خاری ، کتاب الفتن، مسلم، کتاب الامارۃ)
 

ابو بصیر

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 30، 2012
پیغامات
1,420
ری ایکشن اسکور
4,198
پوائنٹ
239
کیا آپ کا یہ اصول ان لوگوں کے لئے بھی ہے جن کو آپ رات دن خارجی گردانتے ہیں ؟؟؟؟

ابن عباس کی روایت حدیث بخاری میں اِس طرح نقل ہوئی ہے :

من بدل دینہ فاقتلوہ.(رقم ۳۰۱۷)



''جو شخص اپنا دین تبدیل کرے ، اُسے قتل کردو۔''



اس اصول کے تحت ہر وہ شخص واجب القتل ہے جو اپنا دین بدل دے - اور کفر کا مطلب ہی یہ ہے کہ انسان اس دین پر راضی نہیں جو دین محمّد صل الله علیہ وسلم کی وساطت سے ہم تک پہنچا - اب ہر شخص یہ جانتا ہے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے -نبی کریم صل الله علیہ وسلم کی بعثت کے بعد اب حجت تمام ہو چکی - ہمارے حکمران ہر لحاظ سے صریح کفر کے مرتکب ہویے ہیں - لہذا صحابہ کی اسوہ پور چلتے ہوے ان کو زیادہ سے زیادہ توبہ کی تین دن کی مہلت دی جانی چاہیے اوراس کفر سے باز نا آنے کی صورت میں ان پر قتل کا فتویٰ صادر کر دینا چاہیے -

نبی کریم صل الله علیہ وسلم کا اس زمن میں واضح فرمان ہے؛

امرت ان اقاتل الناسحتی یشھدوا ان لا الہ الا اللّٰہ وان محمدًا رسول اللّٰہ ویقیموا الصلٰوۃ ویؤتوا الزکوٰۃ فاذا فعلوا عصموا منی دماء ھم واموالھم الا بحقھا وحسابھم علی اللّٰہ.(مسلم ، رقم ۱۲۹)'

'مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اُن لوگوں سے جنگ کروں ، یہاں تک کہ وہ لا الہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیں، نماز کا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔ وہ یہ شرائط تسلیم کر لیں تو اُن کی جانیں محفوظ ہو جائیں گی، الاّ یہ کہ وہ اسلام کے کسی حق کے تحت اِس حفاظت سے محروم کر دیے جائیں ۔ رہا باطن کا حساب تو وہ اللہ کے ذمہ ہے ۔''

ایک حکمران پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مسلم معاشرے میں نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا نظام قائم کرے- یہ حکمران کے لئے آخری حد ہے اگر وہ اس حکم کو ملحوظ خاطر نہیں رکھتا تو اس کے بعد صحیح حدیث کی رو سے اس کا قتل ہر صورت جائز ہو جاتا ہے- اس زمن میں نبی کریم صل الله علیہ وسلم کا فرمان ہے -

خِیَارُ اَءِمَّتِکُمُ الَّذِیْنَ تُحِبُّوْنَھُمْ وَیُحِبُّوْنَکُمْ وَتُصَّلُّوْنَ عَلَیْھِمْ وَیُصَلُّوْنَ عَلَیْکُمْ وَشِرَارُ اَءِمَّتِکُمُ الَّذِیْنَ تُبْغِضُوْنَھُمْ وَیُبْغِضُوْنَکُمْ وَتَلْعَنُوْنَھُمْ وَیَلْعَنُوْنَکُمْ فَقُلْنَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اَفَلَا نُنَابِذُھُمْ بِالسَّیْفِ عِنْدَ ذٰلِکَ قَالَ لَا مَا اَقَامُوْا فِیْکُمُ الصَّلٰوۃَ اَلَامَنْ وُلِّیَ عَلَیْہِ وَالٍ فَرَاٰہُ یَاْتِیْ شَیْءًا مِّنْ مَّعْصِیَۃِ اللّٰہِ فَلْیَکْرَہْ مَا یَاْتِیْ مِنْ مَّعْصِیَۃِ اللّٰہِ وَلَا یَنْزَعَنَّ یَدًا مِنْ طَاعَۃٍ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب خیار الائمہ وشرارھم) تمھارے بہترین حکمران وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں اور جن کے لیے تم دعا کرو اور وہ تمھارے لیے دعا کریں، اور تمھارے بدترین حکمران وہ ہیں جن سے تم نفرت کرو اور وہ تم سے نفرت کریں اور تم ان پر لعنت بھیجو اور وہ تم پر لعنت بھیجیں۔ ہم نے پوچھا کہ یارسولؐ اللہ کیا ایسی حالت میں ہم تلوار کے ذریعے ان کا مقابلہ نہ کریں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، جب تک وہ تمھارے درمیان نماز قائم کرتے رہیں اس وقت تک تم ان کے خلاف تلوار نہیں اُٹھا سکتے۔ سنو! جس شخص پر کوئی حکمران حکومت کر رہا ہو اور وہ اس میں اللہ کی نافرمانی دیکھے تو اللہ کی اس معصیت کو تو بُرا سمجھے (اور اس میں اس کی اطاعت بھی نہ کرے) لیکن معروف میں اس کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچے''، یعنی خروج اور مسلح بغاوت نہ کرو۔

نماز چونکہ مومن کی پہچان اور ایمان کی علامت ہے، اس لیے فرمایا کہ جب تک وہ نماز قائم کرتے رہیں تو تم ان کے خلاف تلوار نہ اٹھاؤ۔ دوسری حدیث میں آیا ہے کہ جب تک تم ان کے اندر ایسا کھلا کفر نہ دیکھو جس کے کفر ہونے پر تمھارے پاس قطعی دلیل موجود ہو، اس وقت تک تم ان سے جھگڑا نہ کرو۔(بخاری ، کتاب الفتن، مسلم، کتاب الامارۃ)
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
حکمرانوں کے ظلم و فسق کی بنا پر انہیں کافر و مرتد قرار دینے اور ان کے خلاف خروج کو جائز و درست قرار دینے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ خود پاکستانی عوام بھی پچانوے فیصدی یا تو شرک میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اور یا پھر تارک نماز ہونے کی بنا پر کافر قرار پاتی ہے۔ جن دلائل کی بنا پر حکمران مرتد قرار پاتے ہیں، عین انہی دلائل کی بنا پر عوام بھی مرتد قرار پاتی ہے تو پھر حکمرانوں اور عوام میں تفریق کر کے ایک کو مرتد قرار دے کر ان کے خلاف قتال کرنا، اور دوسروں کو مسلمان بلکہ "معصوم" قرار دے کر عوامی مقامات پر دھماکوں کی شدید مذمت کرنا کیسا انصاف ہے؟
 
Top