• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پاکستان میں مسیحی اقلیتوں سے سلوک

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پاکستان میں مسیحی اقلیتوں سے سلوک

محمد عطاء اللہ صدیقی​
اگر مجموعی اعتبار سے پاکستان میں مسیحی برادری سے مسلمانوں کے برتاؤ او رانہیں ملنے والی مراعات کو پیش نظر رکھا جائے تو پاکستان کو کسی بھی مہذب ملک کے سامنے شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ فرانس،جرمنی ،ناروے ،برطانیہ ،سربیا او رامریکہ میں مسلم اورسیاہ فام اقلیتوں کے ساتھ جو برتاؤ کیا جا ر ہا ہے ،اسکے ساتھ اگر پاکستان میں مسیحی اقلبت کی حالت کاموازنہ کیا جائے توپاکستانی مسیحی برادری کی حالت بدرجہا بہتر ہے ۔
امریکی دفتر خارجہ ہر سال بھارت اورپاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال کا موازنہ کرتے ہوئے بھارتی سیکولرازم کی تعریف میں رطب اللسان رہا ہے اور پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کی پامالی کا رونا روتا رہا مگر ۱۹۹۶ء میں جب بھارتی سیکولرازم کااصل چہرہ سامنے آیا اور انڈیا کے مختلف شہروں میں ہندو انتہا پسندوں نے عیسائیوں کو بے دریغ قتل کرنا اور زندہ جلانا شروع کیا تو انہیں یقین کرنا پڑا کہ پاکستان میں اقلیتیں نہایت آسودہ ہیں۔
پاکستان کی پوری تاریخ میں کسی بھی اقلیت کے ساتھ اس طرح کا ایک بھی واقعہ پیش نہیں آیا ۔ انتہاپسند ہندو اب بھی عیسائیوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں کہ یا تو وہ ہندو بن جائیں یا پھر بھارت چھوڑ جائیں ورنہ ان کے ساتھ یہی سلوک کیا جاتا رہے گا ۔ پاکستان میں شر پسند مسیحی گروہوں کو انڈیا کے حالات سے بھی عبرت حاصل نہیں ہوئی۔ پاکستان تو ان کے لیے’’ جنت ‘‘ ہے اگر وہ اب بھی احتجاج کرتے ہیں تو یہ احسان فراموشی ہے ۔
یہاں تفصیلات کی گنجائش نہیں ہے ورنہ پاکستان میں مسیحی اقلیت کو مختلف شعبہ ہائے زندگی میں جو ترقی کے مواقع ملے ہیں ،اسکا تصو ربھی دوسروں ملکوں میں محال ہے ۔جسٹس اے۔آر کارینلٹس پاکستان کے چیف جسٹس بنے ، مسیحی ارکان اسمبلی وفاقی اورصوبائی وزارتوں پر متمکن رہے ۔ بشپ آف لاہور الیگزینڈر ملک جو ۲۹۵۔سی کے سخت ناقد ہیں او راقلیتوں پر ظلم وستم کی خود ساختہ کہا نیاں گھڑنے کے ماہر ہیں ، وہ اس وقت کینئرڈ کالج کے بورڈ آف ڈائریکٹر ز کے چیئرمین ہیں ۔کسی بھی تعلیمی ادارے کے بورڈ کے چیئرمین ہونے کااعزاز کسی مسلمان کو میسر نہیں ہے کیونکہ یہ عہدہ گورنر پنجاب یا وزیر تعلیم کے پاس ہوتا ہے ۔ ورلڈ چرچ کونسل کی رکن میرا فیبلوس ۲۶ سال سے کنیرڈ کالج کی پرنسپل چلی آرہی ہے۔لاہور ،سیالکوٹ اور دیگر شہرو ں میں مسیحی تعلیمی اداروں کاوسیع جال بچھا ہوا ہے ۔ آج تک عیسائیوں کے عبادت کے معاملات میں کبھی دخل اندازی نہیں کی گئی نہ ہی کسی گرجا گھر کو جلایا گیا ہے ۔
پروفیسر کریم بخش نظامانی صاحب نے بالکل درست لکھا ہے
’’پاکستان میں اقلیتوں کو جو حقوق حاصل ہیں وہ شاید ہی دنیا کی کسی اور اقلیت کا نصیب ہوں۔ ہمارے پڑوس میں سینکڑوں نہیں ،ہزاروں مرتبہ مسلم کش فسادات ہوئے ۔بھارت میں ۱۹۴۷ء سے ۱۹۶۰ء تک ۷۵۰۰ فسادات ہوئے جن میں مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا گیا…ہمیں اس با ت پر خوشی اور فخر ہے کہ یہاں غیر مسلم اقلیت کی کبھی کوئی نکسیر بھی نہیں پھوٹی۔ اس وقت کشمیر میں کیا ہورہا ہے ۔ کہاں ہیں ہمارے انسانی حقوق کے وہ نام نہاد علمبردار جو آج دہائی دے رہے ہیں کہ پاکستان میں اقلیتیں غیر محضوظ ہیں ۔‘‘
(گستاخی اور اہانت ،ایک مستقل عالمی مہم ،ماہنامہ فاران ،کراچی مارچ ۱۹۹۵ء)
روزنامہ ’اوصاف‘ کی ادارتی سطور ملاحظہ کیجیے
’’ہم اس نام نہاد سپر پاور کو یہ بتلا دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ مسلمان اپنے مذہبی معاملات میں کسی قسم کی مداخلت برداشت نہیں کرتے ۔ رہا سوال عیسائی اقلیت کے ساتھ ظالمانہ سلوک کاتو یہ محض بہتا ن ہے ۔اپنا کیس مضبوط کرنے کے لیے ایک پرانا ہتھکنڈہ ہے ۔
عیسائی برادری جتنی آزادی اور سکون کے ساتھ پاکستان میں رہ رہی ہے اتناسکھ ،آرام اورمذہبی سکون شاید اسے امریکہ میں بھی میسر نہ ہو ۔ زیادہ تر علاقوں میں عیسائی برادری مسلمانوں کے ساتھ اس انداز سے رہ ہی ہے کہ گمان ہی نہیں ہوتا کہ ان میں اکثریت کون سی ہے او راقلیت کون سی ؟
(۲۷جنوری۱۹۹۸ء)
یہی بات ہمیں’’ خبریں‘‘ کے ایک ادارے میں ملتی ہے :’’پاکستان میں مسیحی برادری کو جو سہولتیں ،آئینی اورقانونی تحفظ حاصل ہے، اس کی مثال کسی غیر مسلم معاشرہ میں نہیں ملتی (۔‘‘۹۷۔۱۲۔۷)
پاکستان میں اردو کے کثیر الاشاعت رزنامہ ’’جنگ‘‘ نے بھی ۱۰؍مئی ۱۹۹۸ء کے ادارے میں اسی پہلو کی نشاندہی کی ہے ’’امر واقعہ یہی ہے کہ عیسائیوں اور عیسائیت کے بارے میں پاکستان بھر میں سرے سے منافرت کی فضا موجود ہی نہیں ہے ۔ بلکہ ارباب حکومت سے لیکر عام آدمی تک اپنے عیسائی بھائیوں کی تالیف قلب کو بطور خاص ملحوظ خاطر رکھتے ہیں ۔ ان حالات میں امریکہ یا غیر ملکی اور ملکی مسیحی راہنماؤں کو بشپ ڈاکٹر جان جوزف کی خود کشی کے واقعہ پر کسی جذباتی یا تندوتیز رد عمل کااظہار نہیں کرنا چاہیے ۔‘‘
اس تمام تر وسعت اور رواداری کے باوجود پاکستان مسلم اکثریت کو خوامخواہ مطعون ٹھہرایا جائے تو اسے مریضانہ ذہنیت او رحقائق سے چشم پوشی کے مترادف سمجھا جانا چاہیے ۔

اضافی پیراگراف

(۱) قانون توہین رسالت ؐ میں تبدیلی کی تجویز اصل میں پاکستان میں متعین برطانوی ہائی کمشنر کا (Brain Child)(ذہنی تخلیق) ہے ۔ لاء کمیشن کے اجلاس سے چند روز پہلے برطانوی ہائی کمشنر چیف جسٹس آف پاکستان سے ملے جو لاء کمیشن کے بلحاظ نو عہدہ چیئرمین بھی ہیں ۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے قانونی مشیر جناب حشمت حبیب ایڈووکیٹ کا یہ درج ذیل بیان اس تبدیلی کی تجویز کے پس پشت فوری جذبہ کوبے نقاب کرتا ہے ۔
’’یہ سازش کامیاب کرانے کے لیے قادیانیوں کے رسہ گیر برطانوی آقا میدان میں اتر کر سرگرم عمل ہوگئے ہیں ۔برطانوی سازش کاانکشاف پاکستان لاء کمیشن کے اجلاس کے دوران ہوا۔اجلاس میں بتایا گیا کہ پاکستان میں متعین برطانوی ہائی کمشنر نے چیف جسٹس پاکستان سے ملاقات کے دوران انہیں باور کرایا کہ دفعہ ۲۹۵۔سی تعزیرات پاکستان سے مذہبی جذبات مشتعل ہو رہے ہیں۔ جس سے حقوق انسانی کے تحفظ کے سحر میں مبتلا افراد اپنا مقام اور اس دفعہ کی اہمیت بھول گئے اورانہوں نے کوشش کی کہ ۲۹۵۔سی کے تحت سز ا پانے والے مجرم کوناقابل گرفت پولیس بنادیاگیاتھاوہ بے اثر ہوا تا ہم لا ء کمیشن نے یہ اہم معاملہ اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیج دیا ہے ‘‘
حوالہ مضمون ’’برطانیہ بھی دفعہ ۲۹۵۔سی کے خلاف میدان میں کود گیا ‘‘ ۔(ہفت روزہ’’ تکبیر‘‘ ۲۸؍اپریل ۱۹۹۴ء)
 
Top