• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پاکستان کس قسم کی دہشت گردی کا شکار ہے،کیا مذاکرات ہی اس کا واحدحل ہیں؟

شمولیت
ستمبر 20، 2013
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
19
پوائنٹ
6
اس وقت پاکستان میں ہمارا المیہ یہ ہے کہ یہاں سب کو ایک ہی کوڑے سے ہانکا جاتا ہے۔ کچھ اسی طرح کی صورتحال کا سامنا کچھ موجودہ حکمرانوں کو دہشتگردی کے مسئلے کو لیکر درپیش ہے۔
دراصل ابھی تک ہماری حکومتیں اس بات کا ادراک کرنے میں بری طرح ناکام نظر آتی ہیں کہ دہشتگردی کے "جن" کو کیسے قابو کیا جائے۔
اگر مذاکرات کا طریقہ کار اختیار کرنے کی باری آتی ہے تو سب "بس صرف مذاکرات" کی گردان کرنے لگ جاتے ہیں اور جب آپریشن یا عسکری حل کی بات آتی تو سارے اس کے گن گانے لگتے ہیں۔مگر نتیجہ ناکامی اور پریشانی کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔
یہی وہ مسئلہ ہے جس کی وجہ سے ابھی تک پاکستان میں دہشتگردی پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ اور نہ ہی مستقبل قریب میں کوئی شکل نظر آرہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اس وقت جو دہشتگرد گروہ متحرک ہیں انکے محرکات اور اہداف یکساں نہیں ہے، تو پھر ان سے معاملہ طے کرتے وقت ایک ہی طریقہ کا اختیار کر کے یہ امید لگا لینا کہ یہ "جن "اب بوتل میں بند ہو جائےگا، احمقوں کی جنت میں رہنے کے سوا اور کچھ نہیں۔اس امر کو ایک سادہ سی مثال سے سمجھیئے کہ جب مرض ہی مختلف ہو تو ایک ہی دوا سب مریضوں کو کس طرح شفاء سے ہمکنار کر سکتی ہے
اگر ہم اس وقت قبائلی علاقوں میں جاری بغاوتوں کا بغور جائزہ لیں تو ہمیں ان بغاوتوں اور دہشتگردی کی مختلف طبقوں میں تقسیم واضح نظر آئے گی۔
پہلی قسم :

کچھ گروہ ایسے ہیں جو ان علاقوں میں پہلے سمگلنگ،منشیاتی کاروبار اوردیگر منفی سرگرمیوں میں ملوث تھے لیکن،فوجی مداخلت سے یہ سارے دھندے مندے پڑتے دیکھائی دینے لگے اور دوسری طرف طالبان کی چڑتی گڈی دیکھ کر اس قسم کے لوگوں نے انکا "بِلّا" سینے پر سجا لیا اور پھر حکومت کے خلاف کاروائیاں کر کے تحریک طالبان سے ہر کاروائی کے بدلے بھاری معاوضہ وصول کرتے ہیں۔ ان کی پاکستان یا فورسز کے ساتھ کوئی اور دشمنی نہیں ، بس یہ اپنے دھندے اور کاروبار کی بقا کے لیے لڑرہے ہیں اور تحریک طالبان پاکستان کانام استعمال کر کے علاقے میں اپنے اثر رسوخ بنائے ہوئے ہیں۔
دوسری قسم:

دوسری قسم میں ایسے گروہ ہیں کہ جن کی پاکستان یا پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے خلاف دشمنی کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ پاک آرمی اور غیر پشتوں لوگ پشتون روایات کی خلاف ورزی کرتے ہیں ، کیونکہ پاکستان سیکیورٹی فورسز جب مسلح ہوکر ان علاقوں میں گئی ، جہاں آج سے پہلے کبھی جانا نہیں ہوا تھا ، توپختون قوم پرست لوگ افواج پاکستان کو پختون روایات اور پختون نسل کے خلاف حملہ قرار دے کر ان سے جنگ پر آمادہ ہوگئے اور ان کی ساری دشمنی صرف و صرف انکی نظر میں پختون روایات و اقدار کی حفاظت کے لئے ہے۔
[h1]تیسری قسم :[/h1]
تیسری قسم کے گروہ میں وہ لوگ شامل ہیں جو پاکستان کے امریکی جنگ میں تعاون سے ناراض ہیں اور ڈرون حملوں میں اپنے قریبی کھو چکے ہیں اور اس سلسلہ میں وہ اس سب نقصان کا ذمہ دار امریکہ کی بجائے پاکستان کو قرار دے کر ان کے خلاف کاروائی کرتے ہیں یا پھر کاروائی کرنے والوں کا تعاون اور انسے ہمدردی رکھتے ہیں۔ مگر اس دشمنی کے پیچھے انتقام والا نظریہ موجود ہے، جو انہیں خوارج سے ممتاز کرتا ہے
چوتھی اور آخری قسم :

آخر میں ان گروہوں کا نام آتا ہے جو پاکستان اور اسکی فورسز کے خلاف نظریاتی طور پر برسرپیکار ہیں۔یہ گروہ پہلے تینوں گروہوں کے ارتقاء سے وجود میں آیا ہے اور القاعدہ سے ہمدردی اور انکو اپنے اندر جگہ دینے کی وجہ سے ان میں نظریہ و فکر خوارج بری طرح سما چکی ہے اور یہ پہلے تینوں گروہوں سے یکسر مختلف گروہوں کا مجموعہ ہے اور انکی خطرناکی بھی سب سے زیادہ ہے۔اور اس وقت سب سے بڑا گروہ یہی ہے جو پاکستان میں بڑے پیمانے پر دہشتگردانہ کاروائیوں میں ملوث ہیں جبکہ پہلے تینوں گروہ علاقی طور پر تو کاروائی کرتے ہیں مگر اپنے اثر رسوخ والے خطوں کے باہر انکا قطعا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔
ہم نے آپ احباب کے سامنے پاکستانی قبائلی علاقوں یعنی فاٹا میں تحرکات کی بنیاد پر ایک موٹی سی تقسیم پیش کی ہے۔
نوٹ:

ان تمام گروپوں کو رہنمائی کرنے والے،انہیں مالی عسکری اور افرادی تعاون فراہم کرنے والے ہاتھ آج سب پر عیاں ہورہے ہیں ،یہ سچ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے اور اسکا اعتراف آج خود انڈیا اور امریکہ کے عسکری ذرائع اور میڈیا کر رہے ہیں کہ انہوں نے پاکستان میں دہشتگردی پھیلانے اور پاکستان کے محافظ افراد کو ٹارگٹ کرنے کے لئے آپریشنز کیئے ہیں۔ جس سے اس بات کی واضح تصدیق ہوتی ہے کہ ان تمام گروپس کو پاکستان کمزور کرنے کے لیے جہاد اور اسلام کو بدنام کرنے کے لیے (انڈیا،امریکہ)نے استعمال کیا ہے۔
آپ بخوبی جان چکے ہوں گے کہ ان چاروں کے محرکات ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں ، کچھ تو صرف مذاکرات سے یا انکی محرومیوں کا ازالہ کرنے سے امن کی طرف لوٹ سکتے ہیں جبکہ باقی اس طریقہ سے کبھی بھی ڈیل نہیں ہوسکتے، انکے کے لئے عسکری آپشن ہی واحد حل ہے۔
مثلا دوسری اور تیسری قسم کے دہشتگردوں کو امن مذاکرات ، معاہدوں اور انکی محرومیوں کے ازالہ سے بغاوت اور حملوں کو ترک کرنے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے۔
جبکہ پہلی اور آخری یعنی چوتھی قسم کے گروہوں کے ساتھ مذاکرات کسی صورت بھی کامیاب نہیں ہوسکتے ، کیوں کہ انکا مذاکرات کی سیڑھیاں چڑھنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ اس میں انکی ذہنیت اور نظریہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے جو انہیں ہتھیار ڈالنے یا دہشتگردانہ کاروائیان ترک کرنے سے زیادہ مرنے کو ترجیح دینے پر ابھارتی ہے۔
پہلے گروہ کا دین یا اسکے فائدہ سے کوئی سروکار نہیں مگر انکو مذاکرات کی زبان نہ پہلے کبھی سمجھ آئی نہ اب آئے گی کیونکہ وہ خاندانی طور پر سمگلنگ اور اغوا برائے تاوان کے کاروبار سے منسلک ہیں اور لوٹ کھسوٹ انکے خون میں رچ بس چکی ہے۔ اور چوتھے گروہ کہ جس میں ٹی ٹی پی ، جند اللہ اور القاعدہ کے دیگر چھوٹے چھوٹے گروہ شامل ہیں ،خارجی نظریات کے حاملین ہیں ،اور وہ اس لڑائی کو ایمان و کفر اور جہاد سمجھ کر لڑ رہے ہیں۔ یہ بات ایک مسلمہ حقیقت ہے جب کسی گناہ کو نیکی سمجھ کر کیا جاتا ہے تو اسکا فاعل اسکو چھوڑ دے، خال خال ہی ایسا ہوتا ہے، اور وہ بھی تب جب وہ مرنے مارنے پر وعدے لے اور دے چکا ہو۔
وہ اس سے جنگ سے فتح کی صورت کے سوا کوئی شکل قبول کرنے پر کبھی آمادہ نہیں ہوں گے اور اپنی دہشت گردانہ کاروائیاں جاری رکھیں گے، ایسے گروہوں کا واحد اور قابل عمل حل انکے خلاف قوت کا بھرپور استعمال ہے جیسا کہ اسلامی تعلیمات ، قرآن و سنت اور ہمارے اسلاف کا طریقہ رہا ہے۔اور ان گروہوں سے کسی بھی قسم کی نرمی بڑے بڑے سانحات کا جلد یا بادیر پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ جیسا کہ حال میں دیر میں پاک آرمی کے میجر جنرل سمیت 6 فوجی اہلکاروں کی شہادت اور اب پشاور میں چرچ حملے ساتھ ساتھ پشن میں پولیس اہکاروں کی شہادت کی شکل میں نکلا ہے۔
ہم پاکستانی حکومتی اداروں اور پالیسی سازوں سمیت خفیہ و سیکیورٹی اداروں سے پھرپور درخواست کرتے ہیں کہ پاکستان کو اگر دہشتگردی "جن" سے آزاد کروانا ہے تو ایک "منظم ملٹی ڈائی مینشنل پالیسی " پر کام کیا جائے اور بیک وقت اگر کچھ گروہوں سے مزاکرات اور کچھ لو کچھ دو کی پالیسی پر عمل درآمد ہورہا ہو تو دوسری جانب خوارج اور ڈاکو صفت گروہوں کے خلاف زور دار آپریشن لانچ کیا جائے۔ ان شاء اللہ العزیز وہ دن دور نہیں جب پھر پاکستان امن کی مثال بن کر دنیا میں ابھرے گا۔
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو، اسلام زندہ آباد، پاکستان پائندہ آباد
 
شمولیت
ستمبر 20، 2013
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
19
پوائنٹ
6
اس وقت پاکستان میں ہمارا المیہ یہ ہے کہ یہاں سب کو ایک ہی کوڑے سے ہانکا جاتا ہے۔ کچھ اسی طرح کی صورتحال کا سامنا کچھ موجودہ حکمرانوں کو دہشتگردی کے مسئلے کو لیکر درپیش ہے۔
دراصل ابھی تک ہماری حکومتیں اس بات کا ادراک کرنے میں بری طرح ناکام نظر آتی ہیں کہ دہشتگردی کے "جن" کو کیسے قابو کیا جائے۔
اگر مذاکرات کا طریقہ کار اختیار کرنے کی باری آتی ہے تو سب "بس صرف مذاکرات" کی گردان کرنے لگ جاتے ہیں اور جب آپریشن یا عسکری حل کی بات آتی تو سارے اس کے گن گانے لگتے ہیں۔مگر نتیجہ ناکامی اور پریشانی کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔
یہی وہ مسئلہ ہے جس کی وجہ سے ابھی تک پاکستان میں دہشتگردی پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ اور نہ ہی مستقبل قریب میں کوئی شکل نظر آرہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اس وقت جو دہشتگرد گروہ متحرک ہیں انکے محرکات اور اہداف یکساں نہیں ہے، تو پھر ان سے معاملہ طے کرتے وقت ایک ہی طریقہ کا اختیار کر کے یہ امید لگا لینا کہ یہ "جن "اب بوتل میں بند ہو جائےگا، احمقوں کی جنت میں رہنے کے سوا اور کچھ نہیں۔اس امر کو ایک سادہ سی مثال سے سمجھیئے کہ جب مرض ہی مختلف ہو تو ایک ہی دوا سب مریضوں کو کس طرح شفاء سے ہمکنار کر سکتی ہے
اگر ہم اس وقت قبائلی علاقوں میں جاری بغاوتوں کا بغور جائزہ لیں تو ہمیں ان بغاوتوں اور دہشتگردی کی مختلف طبقوں میں تقسیم واضح نظر آئے گی۔
پہلی قسم :

کچھ گروہ ایسے ہیں جو ان علاقوں میں پہلے سمگلنگ،منشیاتی کاروبار اوردیگر منفی سرگرمیوں میں ملوث تھے لیکن،فوجی مداخلت سے یہ سارے دھندے مندے پڑتے دیکھائی دینے لگے اور دوسری طرف طالبان کی چڑتی گڈی دیکھ کر اس قسم کے لوگوں نے انکا "بِلّا" سینے پر سجا لیا اور پھر حکومت کے خلاف کاروائیاں کر کے تحریک طالبان سے ہر کاروائی کے بدلے بھاری معاوضہ وصول کرتے ہیں۔ ان کی پاکستان یا فورسز کے ساتھ کوئی اور دشمنی نہیں ، بس یہ اپنے دھندے اور کاروبار کی بقا کے لیے لڑرہے ہیں اور تحریک طالبان پاکستان کانام استعمال کر کے علاقے میں اپنے اثر رسوخ بنائے ہوئے ہیں۔
دوسری قسم:

دوسری قسم میں ایسے گروہ ہیں کہ جن کی پاکستان یا پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے خلاف دشمنی کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ پاک آرمی اور غیر پشتوں لوگ پشتون روایات کی خلاف ورزی کرتے ہیں ، کیونکہ پاکستان سیکیورٹی فورسز جب مسلح ہوکر ان علاقوں میں گئی ، جہاں آج سے پہلے کبھی جانا نہیں ہوا تھا ، توپختون قوم پرست لوگ افواج پاکستان کو پختون روایات اور پختون نسل کے خلاف حملہ قرار دے کر ان سے جنگ پر آمادہ ہوگئے اور ان کی ساری دشمنی صرف و صرف انکی نظر میں پختون روایات و اقدار کی حفاظت کے لئے ہے۔
[h1]تیسری قسم :[/h1]
تیسری قسم کے گروہ میں وہ لوگ شامل ہیں جو پاکستان کے امریکی جنگ میں تعاون سے ناراض ہیں اور ڈرون حملوں میں اپنے قریبی کھو چکے ہیں اور اس سلسلہ میں وہ اس سب نقصان کا ذمہ دار امریکہ کی بجائے پاکستان کو قرار دے کر ان کے خلاف کاروائی کرتے ہیں یا پھر کاروائی کرنے والوں کا تعاون اور انسے ہمدردی رکھتے ہیں۔ مگر اس دشمنی کے پیچھے انتقام والا نظریہ موجود ہے، جو انہیں خوارج سے ممتاز کرتا ہے
چوتھی اور آخری قسم :

آخر میں ان گروہوں کا نام آتا ہے جو پاکستان اور اسکی فورسز کے خلاف نظریاتی طور پر برسرپیکار ہیں۔یہ گروہ پہلے تینوں گروہوں کے ارتقاء سے وجود میں آیا ہے اور القاعدہ سے ہمدردی اور انکو اپنے اندر جگہ دینے کی وجہ سے ان میں نظریہ و فکر خوارج بری طرح سما چکی ہے اور یہ پہلے تینوں گروہوں سے یکسر مختلف گروہوں کا مجموعہ ہے اور انکی خطرناکی بھی سب سے زیادہ ہے۔اور اس وقت سب سے بڑا گروہ یہی ہے جو پاکستان میں بڑے پیمانے پر دہشتگردانہ کاروائیوں میں ملوث ہیں جبکہ پہلے تینوں گروہ علاقی طور پر تو کاروائی کرتے ہیں مگر اپنے اثر رسوخ والے خطوں کے باہر انکا قطعا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔
ہم نے آپ احباب کے سامنے پاکستانی قبائلی علاقوں یعنی فاٹا میں تحرکات کی بنیاد پر ایک موٹی سی تقسیم پیش کی ہے۔
نوٹ:

ان تمام گروپوں کو رہنمائی کرنے والے،انہیں مالی عسکری اور افرادی تعاون فراہم کرنے والے ہاتھ آج سب پر عیاں ہورہے ہیں ،یہ سچ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے اور اسکا اعتراف آج خود انڈیا اور امریکہ کے عسکری ذرائع اور میڈیا کر رہے ہیں کہ انہوں نے پاکستان میں دہشتگردی پھیلانے اور پاکستان کے محافظ افراد کو ٹارگٹ کرنے کے لئے آپریشنز کیئے ہیں۔ جس سے اس بات کی واضح تصدیق ہوتی ہے کہ ان تمام گروپس کو پاکستان کمزور کرنے کے لیے جہاد اور اسلام کو بدنام کرنے کے لیے (انڈیا،امریکہ)نے استعمال کیا ہے۔
آپ بخوبی جان چکے ہوں گے کہ ان چاروں کے محرکات ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں ، کچھ تو صرف مذاکرات سے یا انکی محرومیوں کا ازالہ کرنے سے امن کی طرف لوٹ سکتے ہیں جبکہ باقی اس طریقہ سے کبھی بھی ڈیل نہیں ہوسکتے، انکے کے لئے عسکری آپشن ہی واحد حل ہے۔
مثلا دوسری اور تیسری قسم کے دہشتگردوں کو امن مذاکرات ، معاہدوں اور انکی محرومیوں کے ازالہ سے بغاوت اور حملوں کو ترک کرنے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے۔
جبکہ پہلی اور آخری یعنی چوتھی قسم کے گروہوں کے ساتھ مذاکرات کسی صورت بھی کامیاب نہیں ہوسکتے ، کیوں کہ انکا مذاکرات کی سیڑھیاں چڑھنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ اس میں انکی ذہنیت اور نظریہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے جو انہیں ہتھیار ڈالنے یا دہشتگردانہ کاروائیان ترک کرنے سے زیادہ مرنے کو ترجیح دینے پر ابھارتی ہے۔
پہلے گروہ کا دین یا اسکے فائدہ سے کوئی سروکار نہیں مگر انکو مذاکرات کی زبان نہ پہلے کبھی سمجھ آئی نہ اب آئے گی کیونکہ وہ خاندانی طور پر سمگلنگ اور اغوا برائے تاوان کے کاروبار سے منسلک ہیں اور لوٹ کھسوٹ انکے خون میں رچ بس چکی ہے۔ اور چوتھے گروہ کہ جس میں ٹی ٹی پی ، جند اللہ اور القاعدہ کے دیگر چھوٹے چھوٹے گروہ شامل ہیں ،خارجی نظریات کے حاملین ہیں ،اور وہ اس لڑائی کو ایمان و کفر اور جہاد سمجھ کر لڑ رہے ہیں۔ یہ بات ایک مسلمہ حقیقت ہے جب کسی گناہ کو نیکی سمجھ کر کیا جاتا ہے تو اسکا فاعل اسکو چھوڑ دے، خال خال ہی ایسا ہوتا ہے، اور وہ بھی تب جب وہ مرنے مارنے پر وعدے لے اور دے چکا ہو۔
وہ اس سے جنگ سے فتح کی صورت کے سوا کوئی شکل قبول کرنے پر کبھی آمادہ نہیں ہوں گے اور اپنی دہشت گردانہ کاروائیاں جاری رکھیں گے، ایسے گروہوں کا واحد اور قابل عمل حل انکے خلاف قوت کا بھرپور استعمال ہے جیسا کہ اسلامی تعلیمات ، قرآن و سنت اور ہمارے اسلاف کا طریقہ رہا ہے۔اور ان گروہوں سے کسی بھی قسم کی نرمی بڑے بڑے سانحات کا جلد یا بادیر پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ جیسا کہ حال میں دیر میں پاک آرمی کے میجر جنرل سمیت 6 فوجی اہلکاروں کی شہادت اور اب پشاور میں چرچ حملے ساتھ ساتھ پشن میں پولیس اہکاروں کی شہادت کی شکل میں نکلا ہے۔
ہم پاکستانی حکومتی اداروں اور پالیسی سازوں سمیت خفیہ و سیکیورٹی اداروں سے پھرپور درخواست کرتے ہیں کہ پاکستان کو اگر دہشتگردی "جن" سے آزاد کروانا ہے تو ایک "منظم ملٹی ڈائی مینشنل پالیسی " پر کام کیا جائے اور بیک وقت اگر کچھ گروہوں سے مزاکرات اور کچھ لو کچھ دو کی پالیسی پر عمل درآمد ہورہا ہو تو دوسری جانب خوارج اور ڈاکو صفت گروہوں کے خلاف زور دار آپریشن لانچ کیا جائے۔ ان شاء اللہ العزیز وہ دن دور نہیں جب پھر پاکستان امن کی مثال بن کر دنیا میں ابھرے گا۔
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو، اسلام زندہ آباد، پاکستان پائندہ آباد
 
Top