marhaba
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 24، 2011
- پیغامات
- 99
- ری ایکشن اسکور
- 274
- پوائنٹ
- 68
دہشتگردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کرنے والے براعظم ایشیا کےاہم ترین ملک پاکستان کی 64 سالہ تاریخ میں اب تک ملک کے پہلے وزیراعظم سمیت حکومتی شخصیات، اہم سیاستدانوں اور نامور علماء کو قتل کیا گیا ہے۔
پاکستان کی آزادی کے 4 سال بعد 16 اکتوبر 1951 میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو ایک جلسے کے دوران گولی مار کر ہلاک کردیا گیا، دہشتگردی کا نشانہ بننے والے ملک کے پہلے وزیر اعظم کے قاتلوں کا آج تک پتہ نہیں چلا اور نہ ہی ان کے قتل کی وجہ معلوم ہو سکی ہے۔
دی نیوز ٹرائب کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی تاریخ میں دوسرا بڑا سیاسی قتل سابق وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو کا تھا جنہیں 27 دسمبر 2007 کی شام کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک جلسے کے بعد خودکش حملے کے دوران فائرنگ کرکے قتل کیا گیا تھا۔
پاکستان کی 2 بار وزیراعظم رہنے والی بینظر بھٹو کو اسی ہی شہر میں قتل کیا گیا تھا جہاں ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کوماراگیا تھا، بینظیر بھٹو قتل کے حوالے سے ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہوسکی ہے کہ ان کی موت فائرنگ سے ہوئی یا گاڑی کے لیور سے دماغ ٹکرانے سے ان کی زندگی کا خاتمہ ہوا۔
بینظیر بھٹو قتل کیس کی تفتیش اقوام متحدہ سے ہونے کے باوجود ان کے قاتلوں کا پتہ نہیں چل سکا جب کہ پاکستان کے سابق صدر اور آرمی چیف پرویز مشرف کو ان کے قتل کا ذمہ دار ٹھرایا جاتا ہے، بینظیر بھٹو قتل کیس رالپنڈی کی احتساب عدالت میں زیر سماعت ہے۔
سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے2005ءمیں ملک کے صحرائی صوبے بلوچستان میں فوجی آپریشن کے دوران بلوچ قومپرست رہنما اکبر بگٹی کی ہلاکت بھی سیاسی قتل ہے جس کے بعد صوبہ بلوچستان کے حالات بگڑنے لگے، اکبر بگٹی قتل کیس کی سماعت بھی بلوچستان کی عدالت میں زیر سماعت ہے۔
د ی نیوز ٹرائب کی رپورٹ کے مطابق ملک کے پہلےمنتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی سزا کو بھی قتل تصور کیا جاتا ہے، ملک کے نامور قانوندانوں کا ماننا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کیا گیا جب کہ ملک کی سیاسی قیادت بھی ان کی پھانسی کو قتل تصور کرتی ہے۔
اگست 1988ءمیں فضائی حادثے میں ہلاک ہونے والے ملک کے صدر اور آرمی چیف جنرل ضیاء الحق کو بھی قتل ہونے والے سیاستدانوں اور حکومتی نمائندوں میں شمار کیا جاتا ہے تا حال ان کے فضائی حادثے کے اسباب بھی معلوم نہیں ہو سکے ہیں۔ ضیاء الحق کے ساتھ حادثے میں حاضر سروس جنرل اور اہم لوگ بھی مارے گئے تھے۔
رواں برس کے چوتھے دن ملک کے دارالحکومت میں پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو ان کے گارڈ ممتاز قادری نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا تھا ، ممتاز قادری کو عدالت نے 2 بار پھانسی کی سزا سنائی ہے جب کہ عدالتی فیصلے پرملک کی بیشتر مذہبی تنظیمیں ناخوش نظر آتی ہیں۔
سال 2010ءمیں ایم کیو ایم رکن صوبائی اسمبلی رضا حیدر کو نامعلوم افراد نے کراچی میں قتل کردیا، وفاقی وزیر برائے اقلیتی امورشہباز بھٹی کو بھی رواں برس راولپنڈی میں نا معلوم نے افراد قتل کردیا تھا ،2009ءمیں بلوچستان کے صوبائی وزیر برائے تعلیم شفیق احمد خان کو کوئٹہ میں قتل کیا گیا جب کہ 2010 میں بلوچ قومپرست رہنما حبیب جالب کو بھی صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں قتل کردیا گیا تھا۔
دستیاب معلومات کے مطابق 2009 میں مذہبی عالم سرفراز احمد نعیمی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین حسین علی یوسفی کو قتل کردیا گیا جب کہ سال 2010 کو پشاور میں ایف سی کے کمانڈنٹ صفوت علی خودکش حملے میں مارے گئے ، پاکستان کی 64 سالہ تاریخ میں متعدد سیاستدان، حکومتی شخصیات اور مذہبی علماء مارے گئے ہیں۔
دی نیوز ٹرائب
پاکستان کی آزادی کے 4 سال بعد 16 اکتوبر 1951 میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو ایک جلسے کے دوران گولی مار کر ہلاک کردیا گیا، دہشتگردی کا نشانہ بننے والے ملک کے پہلے وزیر اعظم کے قاتلوں کا آج تک پتہ نہیں چلا اور نہ ہی ان کے قتل کی وجہ معلوم ہو سکی ہے۔
دی نیوز ٹرائب کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی تاریخ میں دوسرا بڑا سیاسی قتل سابق وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو کا تھا جنہیں 27 دسمبر 2007 کی شام کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک جلسے کے بعد خودکش حملے کے دوران فائرنگ کرکے قتل کیا گیا تھا۔
پاکستان کی 2 بار وزیراعظم رہنے والی بینظر بھٹو کو اسی ہی شہر میں قتل کیا گیا تھا جہاں ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کوماراگیا تھا، بینظیر بھٹو قتل کے حوالے سے ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہوسکی ہے کہ ان کی موت فائرنگ سے ہوئی یا گاڑی کے لیور سے دماغ ٹکرانے سے ان کی زندگی کا خاتمہ ہوا۔
بینظیر بھٹو قتل کیس کی تفتیش اقوام متحدہ سے ہونے کے باوجود ان کے قاتلوں کا پتہ نہیں چل سکا جب کہ پاکستان کے سابق صدر اور آرمی چیف پرویز مشرف کو ان کے قتل کا ذمہ دار ٹھرایا جاتا ہے، بینظیر بھٹو قتل کیس رالپنڈی کی احتساب عدالت میں زیر سماعت ہے۔
سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے2005ءمیں ملک کے صحرائی صوبے بلوچستان میں فوجی آپریشن کے دوران بلوچ قومپرست رہنما اکبر بگٹی کی ہلاکت بھی سیاسی قتل ہے جس کے بعد صوبہ بلوچستان کے حالات بگڑنے لگے، اکبر بگٹی قتل کیس کی سماعت بھی بلوچستان کی عدالت میں زیر سماعت ہے۔
د ی نیوز ٹرائب کی رپورٹ کے مطابق ملک کے پہلےمنتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی سزا کو بھی قتل تصور کیا جاتا ہے، ملک کے نامور قانوندانوں کا ماننا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کیا گیا جب کہ ملک کی سیاسی قیادت بھی ان کی پھانسی کو قتل تصور کرتی ہے۔
اگست 1988ءمیں فضائی حادثے میں ہلاک ہونے والے ملک کے صدر اور آرمی چیف جنرل ضیاء الحق کو بھی قتل ہونے والے سیاستدانوں اور حکومتی نمائندوں میں شمار کیا جاتا ہے تا حال ان کے فضائی حادثے کے اسباب بھی معلوم نہیں ہو سکے ہیں۔ ضیاء الحق کے ساتھ حادثے میں حاضر سروس جنرل اور اہم لوگ بھی مارے گئے تھے۔
رواں برس کے چوتھے دن ملک کے دارالحکومت میں پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو ان کے گارڈ ممتاز قادری نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا تھا ، ممتاز قادری کو عدالت نے 2 بار پھانسی کی سزا سنائی ہے جب کہ عدالتی فیصلے پرملک کی بیشتر مذہبی تنظیمیں ناخوش نظر آتی ہیں۔
سال 2010ءمیں ایم کیو ایم رکن صوبائی اسمبلی رضا حیدر کو نامعلوم افراد نے کراچی میں قتل کردیا، وفاقی وزیر برائے اقلیتی امورشہباز بھٹی کو بھی رواں برس راولپنڈی میں نا معلوم نے افراد قتل کردیا تھا ،2009ءمیں بلوچستان کے صوبائی وزیر برائے تعلیم شفیق احمد خان کو کوئٹہ میں قتل کیا گیا جب کہ 2010 میں بلوچ قومپرست رہنما حبیب جالب کو بھی صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں قتل کردیا گیا تھا۔
دستیاب معلومات کے مطابق 2009 میں مذہبی عالم سرفراز احمد نعیمی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین حسین علی یوسفی کو قتل کردیا گیا جب کہ سال 2010 کو پشاور میں ایف سی کے کمانڈنٹ صفوت علی خودکش حملے میں مارے گئے ، پاکستان کی 64 سالہ تاریخ میں متعدد سیاستدان، حکومتی شخصیات اور مذہبی علماء مارے گئے ہیں۔
دی نیوز ٹرائب