ایم اسلم اوڈ
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 298
- ری ایکشن اسکور
- 965
- پوائنٹ
- 125
پاکستان کے قیام کے وقت کچھ پارٹیوں اور بعض شخصیات نے اس کی مخالفت کی اور مسلمانوں کو ہندوئوں کے ساتھ مل جل کر رہنے کی تلقین کی۔ اس تلقین کے پس منظر میں دلیل و برہان کی کوئی واضح قوت نہ تھی جس کو سن کر اسلام پسند لوگ ہندو تہذیب و تمدن کو قبول کرتے ہوئے ایک ساتھ رہنے کے سلسلے کو مزید برقرار رکھتے۔
ادھر مفکر اسلام مفکر پاکستان شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے قیام پاکستان کی جو فکر اور نظریہ پیش کیا یہ وہی نظریہ ہے جس کی بنیاد پر مدینہ منورہ جیسی ناقابل تسخیر ریاست معرض وجود میں آئی۔ جس کا دستور پوری دنیا کے لئے قابل عمل ٹھہرا۔ عدل و انصاف، مساوات اور خدمت انسانی جیسے کاموں میں اس نے نمایاں نام کمایا جس کی روشن کرنوں نے دنیا کے ظلم کدوں کو شمع توحید سے منور کیا، جہالت کو ختم اور علم کو عام کیا۔ انسانی تاریخ میں انقلابی تبدیلی آئی، لوگ تنزلی سے نکل کر ترقی کی راہ پر گامزن ہوئے اور کرہء ارض کے مثالی انسان اور مومن و مسلمان بنے۔ انہی لوگوں نے انسانیت کی آزادی کے لئے پاکیزہ جدوجہد کرتے ہوئے ہجرت و جہاد سے تعلق جوڑا، گھر، کاروبار چھوڑا، اس کے بدلے اللہ تعالیٰ سے جنتوں کا سودا کیا جو بڑا ہی کامیاب سودا ہے۔
کچھ ایسی فکر ہی مفکر پاکستان کی تھی جس کے لئے قائداعظم کی عملی جدوجہد، علماء کی مساعی اور مسلمانوں کی لازوال قربانیوں کے نتیجہ میں ملک پاکستان معرض وجود میں آیا۔
یہ بات معروف ہے کہ دنیا میں کلمہ طیبہ کے نام پر معرض وجود میں آنے والی دو ریاستیں ہیں ایک مدینہ منورہ اور دوسری پاکستان۔
خالصتاً دین کے لئے دنیا کے نقشے پر ابھرنے والا ملک پاکستان کفر کی آنکھ کا کانٹا ہے اس کی بنیاد ’’لکم دینکم ولی دین‘‘ ہے۔ اس نظریہ کو ختم کرنے اور مٹانے کے لئے کچھ لوگ مختلف اور مخالف سوچ رکھتے اور اس کو پیش کرتے ہیں، پاکستان میں رہتے ہوئے یہاں کے وسائل استعمال کرنے کے باوجود ہندوستان کی مدح و تعریف کرتے ہیں کیونکہ یہ شہرت و پذیرائی کا ذریعہ اور معاشی استحکام کا سبب ہے۔ پاکستان کی معیشت مضبوط رہے یا نہ رہے، وطن عزیز مستحکم ہو یا نہ ہو ان لوگوں کو اس چیز سے کوئی غرض نہیں۔ مفادوں کی منڈی میں ویٹ کے مطابق ان کو ریٹ مل جائے یہی ان کی معراج ہے۔ پاکستان کے قیام میں صرف نعروں کی گونج ہوتی تو یہ دنیا کے نقشے پر نہ ہوتا کیونکہ نعروں سے جذبات بلند ہوتے ہیں ملک معرض وجود میں نہیں آتے۔ نعروں سے جوش ضرور پیدا ہوتا ہے مگر جانیں قربان نہیں کی جاتیں۔ ایمانی جذبوں سے سرشار اور نظریہ سے آشنا لوگ ہی ہجرتوں کی صعوبتوں کو سینے سے لگاتے، راہ حق میں زخم کھاتے اور جانیں کھپاتے نظر آتے ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت عزتیں، عصمتیں، آبروئیں قربان ہوئیں ان کے پیچھے نعروں کی قوت نہیں نظریہ کی طاقت تھی۔
اس سلسلہ میں جدوجہد کرنے والے علمائ، فقہا، وکلا، دانشور اوراسکالرز، صحافی سب کے سب جذباتی نعرے لگانے والے نہیں بلکہ اعلیٰ سوچ اور وسیع النظر لوگ تھے۔
پاکستان میں آج اگر خرابیاں، کرپشن، لوٹ مار، رشوت و سود، رسہ کشی دونمبری، نوسر بازی، بے راہ روی، قتل و غارت اور مار دھاڑ موجود ہے تو نظریہ کی وجہ سے نہیں لوگوں کے غلط نظریات، برے اقدامات کے سبب ہے۔ وطن عزیز کی اسمبلیوں، سینٹ اور پارٹیوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو انڈیا کی بولی بولتے اور ان کے ایجنڈے کو لے کر چلتے ہیں۔ بھارت کی خوبیاں اور پاکستان کی خامیاں بیاں کرتے نظر آتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈال کر بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دے کر تجارت کو فروغ دے کر پاکستان کو اقتصادی طور پر اپاہج بنانے کی سازش کر رہے ہیں۔
بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینا کشمیری قوم سے دشمنی کے مترادف ہے۔ ان کی جدوجہد آزادی کو کچلنے والی بات ہے ان کے زخموں پر نمک پاشی اور شہداء کے خون سے غداری ہے۔
انڈیا کی ہمارے خلاف سازشیں، دریائوں پر قبضہ، پاکستان میں دھماکے اور ملک کو تقسیم کرنے کا پروگرام، بلوچستان اور کراچی میں تخریب کاریاں امریکہ کو اکسا اکسا کر پاکستان کے خلاف کھڑا کرنا اقوام متحدہ میں شکایات کے انبار لگانا۔ احمد آباد و گجرات میں زندہ مسلمانوں کو جلا دینا صرف نعرے کی وجہ سے نہیں نظریہ کی بنیاد پر ہے۔
اس نظریہ کو ہر عام و خاص کے ذہن میں ڈالا جائے اور شہر شہر، قریہ قریہ، گوٹھ گوٹھ لوگوں کو امریکہ و انڈیا اور انڈیا نواز افراد کی سازشوں سے باخبر رکھا جائے۔ تاجروں، صنعتکاروں کو آگاہ کیا جائے۔
پاکستان جو واحد اسلامی ایٹمی قوت اور دنیا بھر کے مسلم ممالک کی امیدوں کا مرکز ہے اس کے خلاف اندرون و بیرون سے کیا کیا سازشیں ہو رہی ہیں اور کس طرح اس پر خوفناک ضرب کاری لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس کے اتحاد کو انتشار میں تبدیل کرنے کا عزم نمایاں نظر آ رہا ہے۔ ہمیں اپنے نظریہ پر استقامت کے ساتھ کھڑا ہونے کی ضرورت ہے۔ جب نظریات کمزور ہوتے ہیں تو دفاع خودبخود کمزور پڑ جاتا ہے۔ مایوسیاں جنم لیتی ہیں۔ حوصلے پست ہوتے اور ہمیں جواب دے جاتی ہیں۔ بے ہمت اور پست حوصلے والے میدانوں میں مقابلہ کے لئے کوئی کردار پیش نہیں کر سکتے۔
ملت کی بیداری اور دشمن کی خبرداری کے لئے دفاع پاکستان کونسل کا قافلہ نشان منزل پے نگاہ رکھے رواں دواں ہے۔ لاہور کی تاریخ ساز، راولپنڈی کی یادگار کانفرنسز کے بعد ملتان میں مثالی جلسہ کر دیا ہے۔ ملتان جنوبی پنجاب کا سب سے بڑا شہر ہے امریکہ افغان جنگ میں جنوبی پنجاب کو اہمیت حاصل ہے۔ نیٹو سپلائی براستہ جنوبی پنجاب ہے۔ جلسہ کے شرکاء نے قائدین کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے عہد و پیمان کیا ہے کہ وہ اس سپلائی لائن کو بند کریں گے۔ افغانی بھائیوں کے خلاف استعمال ہونے والا گولہ و بارود یہاں سے نہیں گزرنے دیں گے۔ ان شاء اللہ۔ دفاع پاکستان کونسل کے تمام پروگرامات ایک نظریئے کی بنیاد پر منعقد کئے جا رہے ہیں۔ بغیر بنیاد کے جب ایک کمرہ تعمیر نہیں ہو سکتا ملک کیسے کھڑا ہو سکتا ہے اور کیسے چل سکتا ہے۔
بشکریہ ہفت روزہ جرار
والسلام علی اوڈ راجپوت
ali oadrajput
_____________
ادھر مفکر اسلام مفکر پاکستان شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے قیام پاکستان کی جو فکر اور نظریہ پیش کیا یہ وہی نظریہ ہے جس کی بنیاد پر مدینہ منورہ جیسی ناقابل تسخیر ریاست معرض وجود میں آئی۔ جس کا دستور پوری دنیا کے لئے قابل عمل ٹھہرا۔ عدل و انصاف، مساوات اور خدمت انسانی جیسے کاموں میں اس نے نمایاں نام کمایا جس کی روشن کرنوں نے دنیا کے ظلم کدوں کو شمع توحید سے منور کیا، جہالت کو ختم اور علم کو عام کیا۔ انسانی تاریخ میں انقلابی تبدیلی آئی، لوگ تنزلی سے نکل کر ترقی کی راہ پر گامزن ہوئے اور کرہء ارض کے مثالی انسان اور مومن و مسلمان بنے۔ انہی لوگوں نے انسانیت کی آزادی کے لئے پاکیزہ جدوجہد کرتے ہوئے ہجرت و جہاد سے تعلق جوڑا، گھر، کاروبار چھوڑا، اس کے بدلے اللہ تعالیٰ سے جنتوں کا سودا کیا جو بڑا ہی کامیاب سودا ہے۔
کچھ ایسی فکر ہی مفکر پاکستان کی تھی جس کے لئے قائداعظم کی عملی جدوجہد، علماء کی مساعی اور مسلمانوں کی لازوال قربانیوں کے نتیجہ میں ملک پاکستان معرض وجود میں آیا۔
یہ بات معروف ہے کہ دنیا میں کلمہ طیبہ کے نام پر معرض وجود میں آنے والی دو ریاستیں ہیں ایک مدینہ منورہ اور دوسری پاکستان۔
خالصتاً دین کے لئے دنیا کے نقشے پر ابھرنے والا ملک پاکستان کفر کی آنکھ کا کانٹا ہے اس کی بنیاد ’’لکم دینکم ولی دین‘‘ ہے۔ اس نظریہ کو ختم کرنے اور مٹانے کے لئے کچھ لوگ مختلف اور مخالف سوچ رکھتے اور اس کو پیش کرتے ہیں، پاکستان میں رہتے ہوئے یہاں کے وسائل استعمال کرنے کے باوجود ہندوستان کی مدح و تعریف کرتے ہیں کیونکہ یہ شہرت و پذیرائی کا ذریعہ اور معاشی استحکام کا سبب ہے۔ پاکستان کی معیشت مضبوط رہے یا نہ رہے، وطن عزیز مستحکم ہو یا نہ ہو ان لوگوں کو اس چیز سے کوئی غرض نہیں۔ مفادوں کی منڈی میں ویٹ کے مطابق ان کو ریٹ مل جائے یہی ان کی معراج ہے۔ پاکستان کے قیام میں صرف نعروں کی گونج ہوتی تو یہ دنیا کے نقشے پر نہ ہوتا کیونکہ نعروں سے جذبات بلند ہوتے ہیں ملک معرض وجود میں نہیں آتے۔ نعروں سے جوش ضرور پیدا ہوتا ہے مگر جانیں قربان نہیں کی جاتیں۔ ایمانی جذبوں سے سرشار اور نظریہ سے آشنا لوگ ہی ہجرتوں کی صعوبتوں کو سینے سے لگاتے، راہ حق میں زخم کھاتے اور جانیں کھپاتے نظر آتے ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت عزتیں، عصمتیں، آبروئیں قربان ہوئیں ان کے پیچھے نعروں کی قوت نہیں نظریہ کی طاقت تھی۔
اس سلسلہ میں جدوجہد کرنے والے علمائ، فقہا، وکلا، دانشور اوراسکالرز، صحافی سب کے سب جذباتی نعرے لگانے والے نہیں بلکہ اعلیٰ سوچ اور وسیع النظر لوگ تھے۔
پاکستان میں آج اگر خرابیاں، کرپشن، لوٹ مار، رشوت و سود، رسہ کشی دونمبری، نوسر بازی، بے راہ روی، قتل و غارت اور مار دھاڑ موجود ہے تو نظریہ کی وجہ سے نہیں لوگوں کے غلط نظریات، برے اقدامات کے سبب ہے۔ وطن عزیز کی اسمبلیوں، سینٹ اور پارٹیوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو انڈیا کی بولی بولتے اور ان کے ایجنڈے کو لے کر چلتے ہیں۔ بھارت کی خوبیاں اور پاکستان کی خامیاں بیاں کرتے نظر آتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈال کر بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دے کر تجارت کو فروغ دے کر پاکستان کو اقتصادی طور پر اپاہج بنانے کی سازش کر رہے ہیں۔
بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینا کشمیری قوم سے دشمنی کے مترادف ہے۔ ان کی جدوجہد آزادی کو کچلنے والی بات ہے ان کے زخموں پر نمک پاشی اور شہداء کے خون سے غداری ہے۔
انڈیا کی ہمارے خلاف سازشیں، دریائوں پر قبضہ، پاکستان میں دھماکے اور ملک کو تقسیم کرنے کا پروگرام، بلوچستان اور کراچی میں تخریب کاریاں امریکہ کو اکسا اکسا کر پاکستان کے خلاف کھڑا کرنا اقوام متحدہ میں شکایات کے انبار لگانا۔ احمد آباد و گجرات میں زندہ مسلمانوں کو جلا دینا صرف نعرے کی وجہ سے نہیں نظریہ کی بنیاد پر ہے۔
اس نظریہ کو ہر عام و خاص کے ذہن میں ڈالا جائے اور شہر شہر، قریہ قریہ، گوٹھ گوٹھ لوگوں کو امریکہ و انڈیا اور انڈیا نواز افراد کی سازشوں سے باخبر رکھا جائے۔ تاجروں، صنعتکاروں کو آگاہ کیا جائے۔
پاکستان جو واحد اسلامی ایٹمی قوت اور دنیا بھر کے مسلم ممالک کی امیدوں کا مرکز ہے اس کے خلاف اندرون و بیرون سے کیا کیا سازشیں ہو رہی ہیں اور کس طرح اس پر خوفناک ضرب کاری لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس کے اتحاد کو انتشار میں تبدیل کرنے کا عزم نمایاں نظر آ رہا ہے۔ ہمیں اپنے نظریہ پر استقامت کے ساتھ کھڑا ہونے کی ضرورت ہے۔ جب نظریات کمزور ہوتے ہیں تو دفاع خودبخود کمزور پڑ جاتا ہے۔ مایوسیاں جنم لیتی ہیں۔ حوصلے پست ہوتے اور ہمیں جواب دے جاتی ہیں۔ بے ہمت اور پست حوصلے والے میدانوں میں مقابلہ کے لئے کوئی کردار پیش نہیں کر سکتے۔
ملت کی بیداری اور دشمن کی خبرداری کے لئے دفاع پاکستان کونسل کا قافلہ نشان منزل پے نگاہ رکھے رواں دواں ہے۔ لاہور کی تاریخ ساز، راولپنڈی کی یادگار کانفرنسز کے بعد ملتان میں مثالی جلسہ کر دیا ہے۔ ملتان جنوبی پنجاب کا سب سے بڑا شہر ہے امریکہ افغان جنگ میں جنوبی پنجاب کو اہمیت حاصل ہے۔ نیٹو سپلائی براستہ جنوبی پنجاب ہے۔ جلسہ کے شرکاء نے قائدین کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے عہد و پیمان کیا ہے کہ وہ اس سپلائی لائن کو بند کریں گے۔ افغانی بھائیوں کے خلاف استعمال ہونے والا گولہ و بارود یہاں سے نہیں گزرنے دیں گے۔ ان شاء اللہ۔ دفاع پاکستان کونسل کے تمام پروگرامات ایک نظریئے کی بنیاد پر منعقد کئے جا رہے ہیں۔ بغیر بنیاد کے جب ایک کمرہ تعمیر نہیں ہو سکتا ملک کیسے کھڑا ہو سکتا ہے اور کیسے چل سکتا ہے۔
بشکریہ ہفت روزہ جرار
والسلام علی اوڈ راجپوت
ali oadrajput
_____________