• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پاک و ہند کے دو معمر شیوخ کی وفات

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
بخاری کبھی ختم نہ ہو گی

عمر فاروق قدوسی نے اپنا موبائل میری طرف بڑھا دیا " لیجئے یہ پڑھیے "
میں نے پڑھا ، اور اب برستی آنکھوں کے ساتھ لکھ رہا ہوں ...ہاں بخاری کبھی ختم نہیں ہو گی حتی کہ قیامت آ جائے ۔
مدت گذر گئی تھی بخاری پڑھاتے ، معمول یہ تھا کہ کوئی ایک طالب علم مدرسے سے مولانا کے گھر آ جاتا اور ساتھ لے جاتا - مولانا جاتے اور جا کر بخاری شریف پڑھاتے - ...اس روز بھی طالب علم آیا اور گلی میں ماحول بدلا بدلا سا دیکھا ، کچھ چہل پہل ، رونق سی لگی ہوئی ، لیکن خوشی کے آثار کہیں بھی نہیں ، ہر طرف ، ہر چہرے پر سنجیدگی نے ڈیرے ڈالے ہیں ...استاد محترم نے دیکھا کہ سواری آ گئی ہے تو آگے بڑھ کر بیٹھے اور طالب علم کو چلنے کا کہا ...سعادت مند شاگرد خاموشی سے چل دیا -
راستے میں مگر پوچھ ہی بیٹھا کہ
"استاد محترم ، یہ اتنے لوگ کیوں جمع تھے ، آپ کے دروازے پر ؟
"میری بیٹی فوت ہو گئی ہے ، لیکن اب آپ نے مدرسے میں کسی کو بتانا نہیں بس خاموش رہنا ہے "
مدرسے میں پہنچ گئے ، بخاری پڑھانی شروع کی ، کلاس کا وقت ختم ہونے کو تھا کہ قریبی مسجد میں اعلان ہو گیا کہ
" مولانا عبد اللہ امجد چھتوی کی بیٹی فوت ہو گئی ہے "
اعلان کیا تھا حیرت کا پہاڑ تھا جو شاگردوں اور ساتھیوں پر آن گرا کہ بیٹی فوت ہو گئی لیکن پھر بھی پڑھانے آ گئے ....کلاس ختم ہوئی ، گھر گئے ، لوگ جمع ہو چکے تھے بیٹی کی تجہیز و تکفین کی ۔
عمر فاروق قدوسی مجھے یہ واقعہ پڑھا رہے تھے اور میں اب سوچ رہا ہوں کہ ہاں بخاری کبھی ختم نہیں ہو گی حتی کہ قیامت آ جائے گی ..جانتے ہیں کیوں ؟
میرے بھائی یہ عشق کے سودے ہیں اور ان دکانوں پر کبھی مندا نہیں پڑتا
...ان شا اللہ
ابوبکر قدوسی​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
آہ! مولانا عبداللہ امجد چھتوی رحمہ اللہ کا سانحہ ارتحال

ہر جانے والا اپنے پیچھے ایسا مہیب خلا چھوڑ کر جارہا ہے کہ اس کے پُر ہونے کی کوئی امید نظر نہیں آتی. جہاں تک علم کے حروف ونقوش، کتابی معلومات اور فن کا تعلق ہے اس کے کرنے والوں کی تو کوئی کمی نہیں، لیکن دین کا ٹھیٹھ مزاج اور تقویٰ وطہارت، سادگی وقناعت تواضع و للہیت کا البیلا انداز، جو کتابوں سے نہیں، بلکہ صرف اور صرف بزرگوں کی صحبت سے حاصل ہوتا ہے، دھیرے ھیرے ختم ہو رہا ہے.
آج صبح ایسی المناک خبر موصول ہوئی کہ جس کو اشک بہائے بغیر بیان کرنا ناممکن ہے استاذ الاساتذہ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبداللہ امجد چھتوی رحمہ اللہ اس دنیائے فانی سے ارتحال فرما گئے ہیں۔
آغا شورش کاشمیری نے مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کے سانحہ وفات پر ان اشعار کو کہا تھا۔
عجب قیامت کا حادثہ ہے، آستیں نہیں ہے
زمین کی رونق چلی گئی ہے، اُفق پہ مہر مبین نہیں
تری جدائی سے مرنے والے، وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے
مگر تری مرگ ناگہاں کا اب تک یقین نہیں ہے
شیخ الحدیث رحمہ اللہ کی شخصیت ایسی دل نواز، حیات افروز اور باغ و بہار تھی کہ جس کی خصوصیات کو ایک مختصر تحریر میں سمونا مشکل ہے ۔ ہر فن میں الله تعالیٰ نے انہیں ایک خاص ملکہ عطا فرمایا تھا۔ علم حدیث ان کا خاص موضوع تھا۔ اس فن میں پورے پاکستان میں بے مثال تھے۔ ہر فن کی معلومات کا خزانہ تھے۔ بڑے بڑے علماء بھی جن کے سامنے زانوئے تلمذ اور مثل چراغ بن جاتے تھے
خوب صورت ،سفید ریش بزرگ تھے خوش اخلاق، نیک سیرت و نیک طینت، منکسر المزاج کوئی اگر آپ کو دیکھتا تو آنکھ ہٹانے کو اس کا دل نہ چاہتا۔ چہرے سے نورانیت ٹپکتی تھی، داڑھی پوری سنت کے مطابق تھی۔ ان کا چہرہ ایسا بارعب جس پر جلال کی ایک کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔ بات کرتے تو ہر کوئی ان کی گفتگو سے ان کا گرویدہ ہو جاتا۔ صاف صاف الفاظ میں گفتگو فرماتے، جس سے کوئی بھی ان کی بات سمجھے بغیر نہ رہتا.
آج ہزاروں کی تعداد میں شیخ رحمہ اللہ سے کسب فیض پاکر اندرون و بیرون ممالک میں علماء و فضلاء دینی و تدریسی و دعوتی و تبلیغی تصنیفی و تحقیقی میدان میں ان کیلئے صدقہ جاریہ کا ساماں پیش کئے ہوئے ہیں۔
اللہ تعالی سے دعاگو ہیں کہ اللہ تعالی ان کی دینی و تدریسی دعوتی و تحقیقی خدمات کو اپنی بارگاہ مقدسہ میں شرف قبولیت سے نوازے.
آمین
محمد یاسین راشد​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
واہ، استاذ گرامی، آپ کی قسمت کے کیا کہنے!
سکول، کالج اور پھر یونیورسٹی میں جاب کی چکاچوند چھوڑ کر مسجد ومدرسہ کی صفیں اور چٹائیاں اپنانے پر پہلے ہی حد درجہ اطمینان تھا، الحمد للہ، جب سے یہ راستہ منتخب کیا ہے، مصائب و آلام دیکھ کر کبھی لوٹ جانے کا نہیں سوچا۔۔۔
لیکن آج استاذ گرامی، محدث ومفسر دوراں، جامع المنقول والمعقول، مولانا عبد اللہ امجد چھتوی رحمہ اللہ کا جنازہ دیکھ کر اپنے مشن پر عین الیقین اور حق الیقین ہو گیا ہے اور اپنے انتخاب پر بار بار رشک آ رہا ہے۔
ایک بندہ خدا کو سفر آخرت پر روانہ کرنے کے لیے تا حد نگاہ اولیاء اللہ کے سر ہی سر دیکھ کر اب زندگی کی سب سے بڑی تمنا یہی ہے میرا جنازہ بھی ایسا ہی ہو۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بقول اگر مرنے والے کے لیے توحید وسنت پر کاربند چالیس افراد کا گروہ مغفرت کی دعا کر دے تو اللہ تعالی اسے ضرور بالضرور معاف فرما دیتا ہے، تو اس شخص کی قسمت کے کیا کہنے، جس کے لیے چالیس موحد افراد کا ایک گروہ نہیں، سینکڑوں گروہ اور وہ بھی عام موحد افراد نہیں، بل کہ وہ جن کی زندگی کا مقصد ہی توحید وسنت کی اشاعت ہو، وہ سب خلوص سے اور دھاڑیں مار مار کر دعائے مغفرت کریں۔۔۔!
اللہ تعالی مجھے اسی مشن پر زندہ رکھے اور اسی پر موت دے۔۔۔
حافظ ابو یحیی نورپوری​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
شیخ الحدیث مفسر قرآن حضرت مولانا عبد اللہ امجد چھتوی رحمہ اللہ تعالی کی وفات کی خبر پڑھ کر سکتہ سا طاری ہوگیا یقین نہیں آیا کہ آج وہ ہم میں نہیں رہے ۔ دل غمزدہ ہے آنکھیں پر نم ہیں لیکن ہم وہی کہتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا "
انا لله وانا اليه راجعون "
آج اس امت میں علماء کرام کے والد کی حثیت رکھنے والی شخصیت اپنے رب کی مہمان بن گئی ۔
علم کا نور انکے چہرہ انور سے ظاہر ہوتا اور زھد و تقوی میں اسلاف کی نشانی تھے ۔ نصف صدی صحیح بخاری کا درس دینے والے اور اللہ کی کتاب قرآن کریم کی تفسیر میں مگن یہ بزرگ اللہ کی بارگاہ میں حاضری کے لئے ہم سے جدا ہو گئے
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ ، وارْحمْهُ ، وعافِهِ ، واعْفُ عنْهُ ، وَأَكرِمْ نزُلَهُ ، وَوسِّعْ مُدْخَلَهُ واغْسِلْهُ بِالماءِ والثَّلْجِ والْبرَدِ ، ونَقِّه منَ الخَـطَايَا، كما نَقَّيْتَ الثَّوب الأبْيَضَ منَ الدَّنَس ، وَأَبْدِلْهُ دارا خيراً مِنْ دَارِه ، وَأَهْلاً خَيّراً منْ أهْلِهِ، وزَوْجاً خَيْراً منْ زَوْجِهِ ، وأدْخِلْه الجنَّةَ ، وَأَعِذْه منْ عَذَابِ القَبْرِ ، وَمِنْ عَذَابِ النَّار .
اللهم نور له قبره ووسع مدخله وآنس وحشته - اللهم ارحم غربته وارحم شيبته - اللهم اجعل قبره روضة من رياض الجنة
.اللهم اطعمه من الجنة واسقه من الجنة واره مكانه من الجنة وقل له أدخل من أي باب تشاء ۔
ہشام الہی ظہیر صاحب​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
⁠⁠⁠شیخ الحدیث والتفسير حضرت مولانا عبد اللہ امجد چھتوی رحمہ اللہ تعالی کی وفات کی خبر سن کر دل غم زدہ ہے، طبیعت بوجھل اور آنکھیں پر نم ہیں لیکن ہم وہی کہتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا "
انا لله وانا اليه راجعون "
آج اس امت میں علماء کرام کے والد کی حثیت رکھنے والی شخصیت اپنے رب کی مہمان بن گئی ۔
علم کا نور انکے چہرہ انور سے ظاہر ہوتا اور زھد و تقوی میں اسلاف کی نشانی تھے ۔ نصف صدی صحیح بخاری کا درس دینے والے اور اللہ کی کتاب قرآن کریم کی تفسیر میں مگن یہ بزرگ اللہ کی بارگاہ میں حاضری کے لئے ہم سے جدا ہو گئے
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ ، وارْحمْهُ ، وعافِهِ ، واعْفُ عنْهُ ، وَأَكرِمْ نزُلَهُ ، وَوسِّعْ مُدْخَلَهُ واغْسِلْهُ بِالماءِ والثَّلْجِ والْبرَدِ ، ونَقِّه منَ الخَـطَايَا، كما نَقَّيْتَ الثَّوب الأبْيَضَ منَ الدَّنَس ، وَأَبْدِلْهُ دارا خيراً مِنْ دَارِه ، وَأَهْلاً خَيّراً منْ أهْلِهِ، وزَوْجاً خَيْراً منْ زَوْجِهِ ، وأدْخِلْه الجنَّةَ ، وَأَعِذْه منْ عَذَابِ القَبْرِ ، وَمِنْ عَذَابِ النَّار .
اللهم نور له قبره ووسع مدخله وآنس وحشته - اللهم ارحم غربته وارحم شيبته - اللهم اجعل قبره روضة من رياض الجنة
.اللهم اطعمه من الجنة واسقه من الجنة واره مكانه من الجنة وقل له "ياأيتها النفس المطمئنة. إرجعي إلى ربك راضية مرضية. فادخلي في عبادي وادخلي جنتي"
انور شاہ راشدی​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
آنکھوں دیکھاواقعہ
شیخ الحدیث مولانا عبداللہ امجد چھتوی صاحب رحمہ اللہ شیخ الحدیث مفتی عبدالحنان زاہد صاحب حفظہ اللہ کے عظیم اساتذہ میں سے ہیں۔
ایک دفعہ شیخ چھتوی صاحب رحمہ اللہ کو کچھ کتب درکار تھیں۔ شیخ صاحب نے مفتی صاحب کو کتب فراہم کرنے کا فرمایا ۔
گرمیوں کے ایام تھے۔استاذی المکرم شیخ مفتی صاحب حفظہ اللہ نے نماز فجر کے فورا بعد کتب لیں۔ مجھے ساتھ جانے کا شرف ملا ۔رستے میں بیکری سے کچھ تحائف خریدے اور شیخ کے گھر پہنچے اس سے پہلے میں سمجھتا تھا کہ میں استاذ جی کا بڑا تابع فرماں ہوں لیکن جس محبت اور انکساری سے استاذ جی شیخ صاحب سے ملے اور انکے سامنے انتہائی باادب کھڑے تھے مجھے اپنی محبت بہت کم دکھائی دی۔
شیخ صاحب نے دودھ سے تواضع کی جب دودھ کا گلاس ملا استاذ جی نے بڑے ادب سے شیخ صاحب سے فرمایا کہ آپ برکت کے لیے اس میں سے کچھ پی لیں۔شیخ صاحب نے ایک گھونٹ لیا بقیہ استاذ جی نے نوش فرمایا میں نے بھی ایسے ہی کیا۔پھر اسی محبت وادب سے شیخ صاحب سے دعائیں لیتے ہوئے رخصت ہوے۔
دوستو! اس دن مجھے یقین ہوا کہ استاذ جی کو جو مقام اور عزت ملی اس کا راز اساتذہ کا احترام ہے۔
اللہ کریم ہمیں بھی توفیق عطا فرمائے۔
شیخ صاحب کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔
سلیم ساجد​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
⁠⁠⁠شیخ چھتوی رحمہ اللہ خود داری کا عظیم پیکر

آج رات سوتے ہوئے سعودیہ کے ٹائم کے مطابق 3بج گئے ،سونے سے پہلے موبائل دیکھا تو دل بند سا ہونے لگا کہ اتنا بڑا خسارہ اہل حدیثوں کے لئے ۔
اور ساتھ ہی آج سے تین چار سال پہلے شیخ سے مدینہ میں ملاقات کا منظر تازہ ہونے لگا ۔
امریکہ میں ایک مقیم شخص نے عبدالمالک مجاھد صاحب سے کہا کہ میں پاکستان کے بخاری پڑھانے والے شیوخ الحدیث کو عمرہ کروانا چاہتا ہوں ۔
آدھی رقم میں ادا کروں گا اور آدھی کا بندوبست خود شیوخ الحدیث کریں گے۔
قصہ مختصر تقریبا پچاس کے قریب اہل علم اس وقت عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے آئے ، راقم ان دنوں مکتب الجالیات مدینہ منورہ کی طرف سے حاجیوں کی خدمت پہ مامور تھا ۔
ہم نے مکتب سے بات کر کے آنے والے مشایخ کی ضیافت کے لئے ایک شاندار پروگرام رکھا ۔
جس میں شیخ عبدالغفار المدنی نے مشایخ کی طرف سے کچھ کلمات پیش کئے ۔
مکتب کے ذمہ داران ان منور چہروں کا استقبال کر رہے تھے ' کوئی ماتھا چوم رہا تھا اور کوئی سند حدیث لینے کے لیے وقت مانگ رہا تھا ۔
یہ مجلس شاندار کھانوں کے تناول کے ساتھ برخواست ہوئی تو پاکستان سے آئے ہوئے ایک بزنس مین فرمانے لگے ۔ میں مشا یخ کے لئے کچھ تحائف لایا ہوں ، تقسیم کرنا چاہتا ہوں ۔
نیت اچھی ہوگی ، لیکن تحفہ تسلیم کرنے کا مناسب انداز اختیار نہ کرسکے ۔
مشایخ لائن میں گیٹ سے باھر نکل رہے تھے اور اپنااپنا تحفہ وصول کر رہے تھے ۔
آہ ! چھتوی صاحب ایک طرف سے نکلتے ہوئے باہر کھڑی گاڑی میں بیٹھ گئے اور فرمانےلگے ۔
یہ فلاں ان چار ٹکوں کےلئے علماءکو لائن میں لگائے گا ۔
مولانا چھتوی کا یہ اندازِ خوداری ابھی تک ذہن پر نقش ہے ۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ
زید حارث ، جامعہ اسلامیہ ، مدینہ منورہ​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
شیخ شیوخ الحدیث رخصت ہوئے

’اللہ عزوجل کا فرمان ہے کہ تمہیں حالت اسلام میں موت آنی چاہیے ، لیکن کسی کو کیا پتہ کہ اس کو موت کب آجائے ؟ کسی ڈاکٹر ، حکیم ، بادشاہ ، عالم دین ، بہت بڑے علامہ ، الغرض کائنات کی کسی شخصیت کو موت ، کب کہاں ، کس حال میں آنی ہے ؟ کوئی علم نہیں ، لہذا مسلمان ہو کر مرنا کیسے ممکن ہے ؟! امام کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو اپنا لیا جائے ، شب و روز کے لیے مشعل راہ بنالیا جائے ، تو یقینا موت اسلام کی حالت میں ہی آئے گی ۔ ‘
یہ اس روحانی ڈاکٹر ، حکیم ، دلوں کے بادشاہ ، حدیث و تفسیر کے عالم دین اور علوم و فنون کے بہت بڑے علامہ کی تقریر کے ابتدائی کلمات ہیں ، جن میں وہ کچھ عرصہ قبل ’ فلا تموتن إلا و أنتم مسلمون ‘ کی دل نشین انداز میں تفسیر بیان کر رہے تھے ، آج وہ اس کی عملی صورت بن گئے ، ہمیشہ تو اس دنیا میں کسی نے بھی نہیں رہنا ، لیکن عالِم کی موت ، ایک عالَم کے لیے موت بن جاتی ہے ۔
مولانا عبد اللہ امجد بن عبد العزیز بن جمال الدین چھتوی نے زندگی کا وہ سفر جو 1935ء میں ریاست بیکانیر ، ضلع گنگا نگر کی ایک علم و صلاح سے معمور بستی سے شروع کیا تھا ، بیاسی تراسی سال بعد ضلع جڑانوالہ کے چک 36 میں 15 اگست 2017ء کو تہجد سے ذرا پہلے تمام ہوا۔ مولانا کو یہ خصوصیت حاصل رہی کہ ہندوستان میں ان کا پیدائشی گاؤں بھی علماء و دعاۃ کا مسکن تھا ، اور ہجرت کے بعد پاکستان میں بھی ان کا قریہ علماء و فضلاء کے لیے جائے قرار ٹھہرا ، آپ جس چک کی نسبت سے 36 وی کہلاتے تھے ، اس میں تقسیم کے بعد سے لیکر اب تک جلیل القدر علماء موجود ہیں ، البتہ ہمارے علم کی حد تک یہ نسبت صرف آپ کا ہی خاصہ ہے ، جب بھی مولانا چھتوی کہا جائے ، تو شیخ الحدیث مولانا عبد العزیز علوی ، صوفی عائش یا مولوی عتیق اللہ سلفی وغیرہ ہستیوں کی بجائے ، فورا ذہن آپ کی طرف ہی جاتا ہے ۔ بالکل اسی طرح جیسے سرزمین بخارا نے بہت سارے محدثین پیدا کیے ، بغداد سے علم وفضل کے سالار نکلے ، لیکن ’ امام بخاری ‘ اور ’ خطیب بغدادی ‘ کا نام نامی آج بھی بولا جائے ، تو محمد بن اسماعیل ، اور ’ احمد بن ثابت ‘ کے لیے علاوہ کوئی اور مراد نہیں ہوتا ۔
کسی زمانے میں ’ امیر المؤمنین فی الحدیث اور شیخ الاسلام ‘ جیسے القاب اہل علم کے لیے استعمال کیے جاتے تھے ، برصغیر پاک و ہند میں متبعین کتاب وسنت میں ’ شیخ الحدیث ‘ ایک اعلی مرتبہ ہے ، ہمارے ممدوح شیخ الحدیث تو تھے ہی ، کہ انہوں نے کم و بیش چار پانچ دہائیاں اس درجے کے مدرس کی حیثیت سے گزاریں ، لیکن جس طرح دیگر محدثین سے ممتاز کرنے کے لیے امام بخاری کو امیر امراء المؤمنین فی الحدیث کہا گیا ، شیخ چھتوی صاحب ’ شیخ شیوخ الحدیث ‘ کے لقب کے مکمل مستحق ٹھہرتے ہیں ، کیونکہ ملک کے طول و عرض میں ’ شیخ الحدیث ‘ کے اعلی درجے پر فائز بیسیوں علماء و محدثین آپ کے تلامذہ اور حلقہ درس کے مستفیدین میں سے ہیں ۔
فكأنه قمر الدجى ونجومه....من حوله من خيرة الخلاّن
وكأنه شمس المعارف كلها....وصقيلها يهوي على الطغيان
ويظلُّ يدعو للفضيلة والتقى....يرويا لعطاش مناهل القرآن
ويدارس الصحب الكرام مآثرا....للصالحين بسالف الأزمان

کچھ لوگوں پر لکھا جاتا ہے ، تاکہ لوگ ان سے متعارف ہوجائیں ، جبکہ کچھ ہستیوں کے متعلق قلمکاریاں اس لیے کرلی جاتی ہیں کہ وہ لکھنے والوں کے لیے تعارف ، اعزاز اور شرف کا ذریعہ بن جاتے ہیں ، مولانا چھتوی صاحب کی وفات پر بطور تعارف میرے جیسے کے لیے ایک لفظ بھی لکھنا ، اس بلند قامت ہستی کی توہین کے مترادف ہے ، لہذا میرے ان ٹوٹے پھوٹے حروف کو دوسرے قبیل سے لیا جائے ۔
و ما كنت أهلا للذي قد كتبته ... و إني لفي خوف من الله نادم
و لكني أرجو من الله عفوه .... و إني لأهل العلم لا شك خادم

حضرت چھتوی صاحب کو پہلی بار آج سے تقریبا دس سال قبل رائیونڈ کی مرکزی مسجد میں خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا تھا ، موضوع تھا فضائل صحابہ ، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور اہل کوفہ کا تذکرہ کرتے ہوئے ، انہوں نےکچھ الفاظ ارشاد فرمائے ، جو آج بھی مجھے اچھی طرح یاد ہیں ۔
أهكذا الموتُ يخفي اليـوم مرآكا .... وخلْف أستاره يخفـي محيَّاكا!
لا، لا يزال رنين الصوت في أذني ..... يعيه قلبي ، فلا تقْطَـعْ به فاكا

بعد میں پھر کئی بار محترم سید حبیب الرحمن کاظمی صاحب ( جو آپ کے خصوصی شاگرد ہیں) کی معیت میں آپ سے ملاقات کرنے کا شرف حاصل ہوا ، جمعہ پنجابی زبان میں پڑھاتے تھے ، باتیں علمی و تحقیقی البتہ انداز عوام کو سمجھ میں آنے والا ہوتا تھا ، خطبہ کے بعد محراب سے متصل ہجرے میں تشریف فرما ہوتے ، لوگ آکر سوالات پوچھتے ، ساتھ ساتھ تلامذہ و عقیدتمند آپ کے پاؤں اور کندھے دباتے رہتے ، بعض علماء زہد و ورع کی بنا پر طالبعلموں کو بھی پاؤں دبانے کی اجازت نہیں دیتے ، لیکن شیخ چھتوی صاحب اس حوالے سے کسی نیازمند یا شاگرد کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچاتے تھے ۔ لہذا راقم الحروف کو بھی یہ سعادت حاصل ہوئی ۔ الحمدللہ ۔
ایک بار ایک شخص آپ سے سوال کرنے کے لیے آیا ، مسلکی اختلافات کے متعلق کافی حساس سوال تھا ، شیخ نے اس کو جواب دیا ، جب وہ چلا گیا ، تو شیخ کہنے لگے ، اس طرح کے لوگوں کو جواب دیتے ہوئے یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہیے کہ یہ فتنہ و فساد کا باعث بھی بنتے ہیں ، بعض دفعہ کارندے مرضی کے جملے علما سے اڑا کر دعوت دین کے لیے رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
رائیونڈ کی اہل حدیث جماعت سے شیخ کا کیا تعلق تھا ، اور انہوں نے کس طرح آپ کو راضی کیا کہ آپ کم و بیش چالیس سال تک دور دراز کا سفر کرکے وہاں خطبہ جمعہ دینے کے لیے آتے رہے ؟ یہ سب باتیں تو واقفان حال ہی بتاسکتے ہیں ، البتہ مجھے رائیونڈ کے ایک ساتھی سلیمان زرگر صاحب نے بتایا کہ 1999ء میں دوران خطبہ شیخ کی طبیعت بہت خراب ہوگئی ، منبر پر ہی خون کی الٹیاں شروع ہوگئیں ، اس وقت سے آپ نے معذرت کرنے کی کوشش کی ، لیکن جماعت کے اصرار پر ، آپ مہینہ میں ایک جمعہ پڑھانے کے لیے آتے رہے ۔ امسال شوال کے دوسرے جمعے آپ نے آخری خطبہ رائیونڈ دیا ، اس کے بعد تشریف نہیں لاسکے ، عموما خطبہ 50 منٹ کا ہوتا تھا ، البتہ آخری خطبہ علالت کے سبب صرف پچیس منٹ تک فرماسکے ۔
شیخ سے ایک اور ملاقات مادر علمی جامعہ رحمانیہ کی تقریب بخاری کے موقعہ پر ہوئی تھی ، وہاں آپ نے آخری حدیث پر درس ارشاد فرمایا ، جبکہ شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ و متعنا بطول حیاتہ نے حجیت حدیث پر تقریر فرمائی ۔ چھتوی صاحب کی تقریر میں یہ بات نوٹ کرنے والے تھی کہ علما چاہے اپنے مسلک کے ہوں یا دوسرے مسلک کے ، نام بہت اہتمام سے لیتے تھے ، مثلا اس تقریر سے یہ جملہ ابھی بھی کانوں میں گونج رہا ہے ’ میرے اکابرین حنفیہ فرماتے ہیں ، میرے اکابرین حنفیہ لکھتے ہیں ‘ وغیرہ ۔ اس تقریب کی مختصر روئیداد ، راقم الحروف کے قلم سے مجلہ محدث لاہور(ستمبر 2013ء) میں چھپ چکی ہے ۔
مولانا اسحاق بھٹی رحمہ اللہ نے ’ دبستان حدیث ‘ میں آپ کا تذکرہ کیا ہے ، جس میں آپ کے درس و تدریس کے مختلف ادوار کو قدرے تفصیل سے قلمبند کیا ہے ، گو آپ نے عمر عزیز کے آخری بیس پچیس سال جامعہ سلفیہ ستیانہ بنگلہ میں خدمت تدریس میں گزارے ، لیکن ابتدا میں بطور طالبعلم اور پھر بحیثیت مدرس آپ کی شخصیت کی تعمیر و ترقی میں مولانا معین الدین لکھوی رحمہ اللہ کے مدرسہ جامعہ محمدیہ اوکاڑہ کا بہت حصہ ہے ۔ اسی دورانیے میں تحریک ختم نبوت میں شمولیت ، مولانا معین الدین کی گرفتاری کے بعد ان کی نیابت میں لوگوں کو فتنہ مرزائیت کے خلاف اکٹھا کرنے میں جدو جہد کرنا آپ کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو ہے ۔
مولانا خوش خوراک ، عمدہ خصال ، بہترین مدرس ، شیریں بیاں خطیب تھے ، دعوتی و تبلیغی سرگرمیاں سر انجام دیتے تھے ، البتہ تدریسی فرائض سب سے مقدم ہوا کرتے تھے ، دعوتی و تبلیغی پروگراموں کے حوالے سے آپ کے ایفائے عہد اور تدریسی امور میں آپ کی لگن کے کئی ایک قصے تلامذہ و معتقدین میں مشہور ہیں ، جب وعدہ کرلیتے تھے ، تو ضرور حاضر ہوتے ، چاہے وہ کسی طالبعلم کی دور دراز علاقے میں مسجد ہی کیوں نہ ہو ، ہاں البتہ جہاں تدریس کا وقت متاثر ہونے کا خدشہ ہوتا ، وہاں معذرت کرلیتے ، چاہے وہ علماء و فضلا کی کوئی خصوصی میٹنگ ہی کیوں نہ ہو ۔
چھوٹوں سے شفقت اور پیار کی مثال میں یوں بیان کرنا چاھوں گا کہ میرے چھوٹے بھائی حافظ عمر مرکز الدعوۃ السلفیہ میں زیر تعلیم ہیں ، حضرت کا جب رائیونڈ جمعہ ہوتا تو کئی بار طالبعلموں کے ذریعے پیغام بھجوادیتے ، شاہ صاحب ( سید حبیب الرحمن کاظمی) کے عزیز سے پوچھ لیں ، اگر اس نے جانا ہے ، تو ہمارے ساتھ گاڑی میں آجائے ۔ اور چھوٹے بھائی کو یہ سعادت حاصل ہوئی بھی ، اللہ سے دعا ہے صالحین کی رفاقت اس کے لیے علم و عمل میں ترقی کی ضمانت بن جائے ۔
اعتراف علم و فضل کے سلسلے میں ، اقران و معاصرین ہوں یا آپ کے تلامذہ ، کسی قسم کا بخل نہیں کرتے تھے ، کہا جاتا ہے ، سائل نے انکار حدیث کے تعلق سے آپ سے رہنمائی چاہی ، فرمایا میرے بھائی مولانا عبد الرحمن مدنی اور میرے شاگرد مولانا ارشاد الحق اثری سے رابطہ کرلیں ۔ خود میں نے اسٹیج پر آپ کی زبان سے سنا ، کہ میرے اردگرد جو علماء بیٹھے ہیں ، وہ گرچہ عمر میں مجھ سے چھوٹے ہیں ، لیکن علم میں مجھ سے بڑے ہیں ۔ شاید مولانا کی انہیں خصوصیات اور اخلاق کا اثر تھا ، کہ علماء و شیوخ الحدیث آپ کے سامنے جھکے جایا کرتے تھے ، آپ کی وفات کی خبر سن کر زبانیں لڑ کھڑار ہی تھیں اور آنکھیں اشک برسا رہی تھیں ۔ سقی اللہ ثراہ و جعل الجنۃ مثواہ ۔
و ما كان قيس هلكه هلك واحد
و لكنه بنيان قوم تهدما

اس میں کوئی شک نہیں ، اس درجے کا عالم دین جب دنیا سے اٹھتا ہے ، تو اس کا خلا پرکرنا تو ممکن نہیں ہوتا ، البتہ صدیوں سے موجود اس دین حق کی تاریخ بتاتی ہے کہ اگر انبیاء کے وارثين علماء قرار پائے ہیں ، تو علماء کے مشن کو بھی ان کے سعادتمند تلامذہ و اور خوش بخت شاگرد اوج ثریا پر پہنچانے کا سبب بنتے رہے ہیں ۔
اللہ تعالی ہمیں ان پاکیزہ ہستیوں کے نقش قدم پر چلائے ، یہ اپنی ذمہ داری بطریق احسن نبھا گئے ، اللہ ہمارے کندھوں کو بھی یہ بارِ گراں اٹھانے کے قابل بنائے ۔ و ما ذلک علی اللہ بعزیز ۔​
حافظ خضر حيات
جامعہ اسلامیہ ، مدینہ منورہ​
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
شیخ المشائخ مولانا عبداللہ امجد چھتوی رحمہ اللہ ،مرکزی جمعیت اھلحدیث کی شرعی عدالت کے قاضی بھی رہے ہیں اور جماعت کے اندر دیگر فیصلوں کے ساتھ انھوں نے دو قتل کے فیصلے بھی فرمائے تھے جن پر فریقین نے عمل بھی کیا تھا ان میں سے ایک فاروق آباد کے قریب ایک قتل خطا کا واقعہ ہوا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جماعت میں بھی شیخ محترم کی خوداری کے کئی واقعات مشہور ہیں۔
کاشف منظور صاحب​
 
Top