• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پاک و ہند کے دو معمر شیوخ کی وفات

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
حضرت عبداللہ امجدچھتوی صاحب۔۔ دو واقعات

سرخیل علماء،آگاہ حدیث خیر الانام ، شناور بحر سر قرآن ، واقف تفسیر و فقہ ، بے مثل مناظر و مجتہد، صاحب افتاء و ابلاغ، اہل الحدیث و اہل التحقیق، حامل لسان صدق و علم سیدی حضرت عبداللہ امجد چھتوی صاحب ایک زمانے کو، زمانے بھر کے محبوب اور اس محبوب کے محبوب اقدس سے جوڑتے ایک طویل عالمانہ و عاملانہ قابل رشک زندگی گزار کے رب کے جوار رحمت میں جا بسے ہیں۔ رحمہ اللہ تعالی رحمہ واسعہ۔ دوستوں نے ان پر خوب لکھا، ابو بکر قدوسی حفظہ اللہ ، ڈاکٹر طاہر عسکری دام برکاتہ اور محب علم و علما مکرم خضر حیات مقیم مدینہ نے آنجناب پر اپنے فکر و قلم کے پھول نچھاور کیے۔ خوب کیے۔ اللہ قبول فرمائے۔ دو باتوں کا تذکرہ میں بھی کرنا چاہتا ہوں۔ ایک کا راوی یہ خاکسار خود ہے جبکہ دوسری بات یا واقعہ کے راوی معروف خطیب صبغت اللہ احسن صاحب ہیں۔ 1: جیسا کہ شیخ کو جاننے والے جانتے ہیں کہ آپ فیصل آباد کے نواح میں واقع ستیانہ بنگلہ کے ایک دینی ادارے کی مسند علم و ارشاد پر فائز تھے۔ واقفان حال یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ ادارہ درویش منش اور صاحب دعا مولانا عتیق اللہ صاحب کی للہیت اور فکر و عمل کا امتیازی نشان ہے۔ آپ کا مزاج یہ ہے کہ طلبا کی تربیت پر بھی بہت دھیان دیتے ہیں۔ کبھی تو اتنا کہ طلبا سخت مشکل میں بھی پڑ جاتے ہیں۔ نماز کے ساتھ ساتھ سنتوں اور مسواک کی باقاعدہ پوچھ گچھ ہوتی ہے۔ اس پر سختی بھی کی جاتی ہے۔ مجھے، یاد ہے ایک رمضان کچھ دوستوں کے ہمراہ ہم وہاں دورہ تفسیر کے لیے حاضر تھے۔ رمضان اگلے دن شروع ہونا تھا۔ خیر رات تھکے ماندے ہم نہر کنارے بسے اس دیار پہنچے۔ نیا شہر ، نیا ادارہ، نئی جگہ اور ہم مسافر طالب علم ۔ پہلی رات کے بعد پہلی نماز فجر کا مرحلہ آیا تو کچھ دیر ہو گئی۔ رات کچھ وقت شاید جگہ ڈھونڈتے گزرا اور باقی رات مچھروں کی ڈھونڈی جگہ پر درد سہتے گزری تھی ۔ قصہ کوتاہ صبح فجر میں یوں شرکت کی کہ سنتیں بعد میں ادا کرنا پڑیں۔ اس پر ہمیں کہا گیا کہ جب تم نماز کی سنتیں اب ادا کر رہے ہو تو یہ کیسے ہو سکتا ہے تہجد تم نے ادا کی ہو گی۔ تو کچھ ایسا ہی وہاں تربیتی ماحول تھا اور اب بھی ہے۔ تو ایسا ہی کوئی دن ہوگا۔ جب مہتمم ادارہ مولانا عتیق اللہ صاحب ، جو مرحوم شیخ چھتوی صاحب کے شاگرد بھی تھے، نے نماز کے بعد یہ اعلان کیا کہ جن جن طلبا کی سنتیں رہ گئی ہیں، وہ کھڑے ہو جائیں۔ شاید نماز عصر کا موقع تھا۔ خیر ایسے جتنے بچے تھے، وہ ڈرتے ڈرتے کھڑے ہوگئے۔ اس دن مرحوم عبداللہ امجد چھتوی صاحب بھی براہ راست جماعت میں شریک ہو سکے تھے اور سنتیں پڑھنے سے آپ قاصر رہے تھے۔ ویسے بھی عصر کی سنتیں، سنن موکدہ میں نہیں آتیں۔ مہتمم صاحب نے ایک نظر شیخ کو دیکھا اور مودبانہ عرض کی "استاد جی! سنتیں تو آپ کی بھی رہ گئی تھیں۔" یہ سننا تھا کہ شیخ احترام المقام نے اپنے مخصوص دبنگ اور پنجابی لہجے میں کیا دین کی روح اعتدال کا عکاس جملہ ارشاد فرمایا، فرمایا: او توں میرے تے نبی لگاں ایں ، جیہڑا سنتاں وی فرض کیتی جاناں ایں؟ 2: دوسرا واقعہ میرا چشم دید ہے۔ اسی دورہ تفسیر کے دوران کا ، جس کا اوپر تذکرہ کیا۔ ہمارے ساتھ بے شمار لوگ اس دورے میں شریک و شامل تھے۔ جن میں لاہور الاسلامیہ کے عصری علوم کے ایک استاد اپنے بعض امتیازات کے ساتھ نمایاں تھے۔ لہجہ ان کا بھی سریع اور صوت ان کی بھی دبنگ تھی۔ پہلے بھی کئی دورے کر چکنے کے باعث شیخ سے متعارف اور شاید کچھ بے تکلف بھی تھے۔ ایک دن کا ذکر ہے۔ شیخ مکرم اپنی مسند تفسیر پر علم و حکمت کے موتی رول رہے تھے۔ طلبائے قرآن کافی لمبا مودبانہ حلقہ بنائے گہر قرآن اپنی سماعتوں میں سمیٹ رہے تھے۔ یہ صاحب مگر شاید تھک گئے تھے یا کیا۔ بیٹھنا بھی تو بہت پڑتا تھا۔ بہرحال جہاں دوسرے سارے طلبائے قرآن دو زانوں بیٹھے تھے یہ بڑے کرو فر سے آلتی پالتی مارے بیٹھے تھے۔ استاد گرامی کی جو نگاہ پڑی تو اپنے خاص بھیگے اور دبنگ انداز میں انھیں اپنی ہیئت درست کرنے کو کہا۔ یہ بھی اپنی طرز کے ایک تھے۔ بلند اوردبنگ آواز اور انداز میں لمبی چوڑی باتیں کرنے لگے۔ جس کا آخری جملہ مجھے اب یاد ہے، وہ یوں تھا۔ اس طرح بیٹھنے میں کیا قباحت ہے ، شرعی؟ اس جملے کو محترم طالب علم نے کچھ زیادہ اونچی آواز سے کہا اور شرعی کے لفظ پر کچھ زیادہ زور دیا۔ یہ ایک عجیب سا منظر بن گیا تھا۔ ہم نے طالب علم کی لمبی گفتگو بھی سن لی تھی اور اس کے آخر میں یہ شرط بھی سن لی تھی کہ جواب 'عین شرعی' ہونا چاہیے۔ سناٹے میں آئے اب ہم سبھی بیٹھے یہ سوچتے تھے کہ دیکھئے شیخ اس ناواقف آداب شاگردی کو کیا جواب دیتے اور کیسے مطمئن کرتے ہیں۔ استاد گرامی نے مگر ایک ہی پر تاثیر اور اکسیر جملہ ایسا کہا کہ ہمارے دبنگ صاحب فی الفور دو زانو ہو گئے۔ فرمایا "زیادہ تقریرکرنے کی ضرورت نہیں، میں اس کو بے ادبی سمجھتا ہوں۔" ان جملوں کا اصل لطف وہی لے سکتے ہیں، جنھوں نے شیخ کا مخمور سا اور دبنگ انداز سن رکھا ہے۔ رہے نام اللہ کا ، اب نہ شیخ رہے ، نہ ان کا علمی تشفی کر دیتا لہجہ رہا۔ اللہ مغفرت فرمائے۔ عجب آزاد مرد تھا۔ خدا رحمت کندایں عاشقان پاک طینت را۔
یوسف سراج
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ہمارے (اہل السنۃ) اور ان (اہل البدعۃ) کے درمیان فرق جنازوں پر ہوگا

ہمارے پیارے، شفیق والدِ محترم، اور عظیم عالِم دین، محدث العصر، مفسر قرآن، عظیم فقیہ، شیخ المعقول والمنقول، مجتہدانہ بصیرت کے حامل مفتی، حضرۃ الشیخ مولانا محمد عبد اللہ امجد چھتوی رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ کا سانحہ ارتحال
ہمارے لئے کمرتوڑ حادثہ ہے،
یہ صدمہ ہماری برادری اور خاندان کے لئے بھی جان کاہ ہے،
بلکہ علمی حلقوں،چشمہائے علم حدیث،جماعتاور مرکز الدعوۃ السلفیہ ستیانه بنگلہ
کے لئے بھی نقصان عظیم ہے.

ہم (اولاد و أحفاد حضرۃ الشیخ، اور ہماری والدہ محترمہ) ان سب سے اس عظیم سانحہ پر تعزیت کرتے ہیں، اور اللہ مسبب الأسباب سے اس خلا کو پُر کرنے اور نعم البدل عطا کرنے کی دعا کرتے ہیں، کہ اللہ اپنے دین کی خود حفاظت کرتا ہے،
درحقیقت اہل علم و فکر، امت کا مشترکہ سرمایہ ہوتے ہیں،
والد گرامی القدر کی تابناک حیات کا یہ عملی درس تھا،
حدیث اور صاحبِ حدیث کو قرآن کریم کی طرح حجت تسلیم کرنا اور اس کے لئے ستون کی طرح کھڑے رہنا بھی ہمارے صاحب فضیلت ابا جان کا خلاصہ زندگی ہے،
یقینا اس ہولناک صدماتی کیفیت میں شیخ شیوخ الحدیث کے صبر و استقامت کی مثالی صفات حوصلہ دیتی ہیں،
یقینا ولی اللہ محمد عبداللہ امجد چھتوی کا کراماتی جنازہ، آپ رحمہ اللہ کے سفر آخرت پر ایک اطمینان بھی دیتا ہے،
((یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃ،ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً،
فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ، وَ ادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ))

ہم پاکستان بھر سے نمازِ جنازہ میں شرکت کرنے والے شیوخ عظام، علماء کرام، طلبائے علمِ عظیم، علم دوست احباب، قافلہ اتباع سنۃ کے عشاق، اہل علاقہ، افرادِ خاندان، اور عوام کے شکرگزار ہیں،
اس سے جو ہمیں دلاسہ اور پرسہ ملا ہم اس پر اللہ الاعلی کی بارگاہ میں تشکر و تحمید کے جذبات و کلمات پیش کرتے ہیں،
((رَبِّ اَوْزِعْنِی أَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَ عَلی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاہُ وَاَصْلِحْ لِیْ فِی ذُرِّیَّتِی، اِنّی تُبْتُ اِلَیْکَ، وَانِّی مِنَ الْمُسْلِمِیْن،))
پُرنور اور فرشتوں جیسے شرکاء کی شرکت اور کثرتِ تعداد شیخ محترم کے سفر آخرت کو دعوتِ توحید و اتباع سنہ اور اہلِ مدارس کے ٹوٹتے حوصلوں کو پھر سے جواں جذبوں میں تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی،
ان شاء اللہ
علاوہ ازیں دور و قریب سے تشریف لا کر اور فون پر تعزیت کرنے اور حوصلہ دینے والے احباب و اعزاء کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں،
ہم اپنے پیارے والد محترم کے مشن کو آگے بڑھانے اور ان کے علمی و تدریسی ورثے کو اپنے لئے سعادت سمجھتے ہوئے ساتھ لے کر چلیں گے، ان شاء اللہ
اللھم وفقنا
ہمارے مشفق ابا جان کے محبوبین اور محبین ہمیں ہمیشہ اپنا قدردان پائیں گے، ان شاء اللہ
شکرگزار اور دعاگو:
پروفیسر ڈاکٹر عتیق امجد بن فضیلۃ الشیخ چھتوی صاحب
بارک اللہ طاہر بن فضیلۃ الشیخ
و بنات الشیخ چھتوی صاحب اور نواسیاں،پوتیاں
حافظ محمد اثمار (نواسہ)
حافظ محمد ثمامہ امجد (نواسہ)
حافظ سعد عفان (نواسہ)
علی عبداللہ، ابو بکر عبداللہ، عمر عبداللہ، عثمان عبداللہ، (پوتے)
ڈاکٹر زاہدہ
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
⁠⁠⁠وما كان قيس هلكه هلك واحد
ولكنه بنيان قوم تهدما
استاذ الأساتذة حضرت مولانا ظهيرالدين رحماني کا انتقال جامعہ دارالسلام عمرآباد اور عمری برادری کے لئے خصوصا، اور ساری دنیا کے علماء کے لئے عموما ایک نا قابل تلافی نقصان هے، آپ نے تقریبا نصف صدی تک عمرآباد میں تدریسی خدمت انجام دی، اور اس کے بعد عرب سے عجم تک دنیا کے مختلف حصوں میں بڑے بڑے علمائے کرام آپ کے علم سے مستفید ھوئے.
الحمد لله مجھے بھی آپ کی شاگردی کا شرف حاصل ھے، میں نے آپ سے حدیث اور تاریخ کی کئی کتابیں پڑھی ھیں، مثلا مشکاة المصابيح، سنن أبي داود، تاريخ الخلفاء الراشدين وبني أمية، مقدمه ابن خلدون، یوں تو آپ شیخ الحدیث اور محدث کے لقب سے مشہور تھے، لیکن تاریخ اسلام پر بڑی دسترس حاصل تھی، آپ جب تاریخ پڑھاتے تو ایسا محسوس ھوتا گویا آپ خود اس زمانے میں موجود تھے اور دیکھے ھوئے حالات بیان کر رہے ھیں،حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں کوفہ اور بصرہ کی آبادکاری کے واقعات بیان کرتے، اس کی سڑکوں، راستوں، عمارتوں اور محلوں کا نقشہ بتاتے تو لگتا کہ آپ خود اس کی پلاننگ کمیشن اور آبادکاری میں شریک تھے، مقدمہ ابن خلدون ھم نے ان سے 1996 میں پڑھا تھا، شیخ اس کتاب کو 1958 سے مستقل پڑھا رہے تھے، پڑھاتے وقت ایسا لگتا کہ ابن خلدون نے ان سے مشورے کے بعد هی اس کتاب کے ابواب اور مسائل کو قلمبند کیا ھے.
عام طور پر دینی مدارس کے اساتذہ کلاس میں هنسنا هنسانا معیوب سمجھتے ھیں، اور عمر کے آخری حصہ میں تو کچھ زیادہ هی، جس کی وجہ سے طلبہ کو کلاس میں زیادہ دلچسپی نہیں رهتی، لیکن آپ اس کے بالکل برعکس تھے، همیشہ کلاس کو زندہ رکھتے، کبر سنی کے باوجود طلبہ کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا فن خوب جانتے، لڑکے بے صبری سے آپ کی کلاس کا انتظار کرتے، حدیث کی کتابوں میں بھی ایسے واقعات سے استدلال کرتے کہ کلاس میں زندگی پیدا کر دیتے.
اسلاف سے بڑی محبت تھی، اسلاف کے واقعات بڑے عقیدت و احترام کے ساتھ بیان کرتے، اور دین کے لئے ان کی قربانیوں کا ذکر کرتے ھوئے جذبات میں آجاتے.
حالات حاضرہ پر بڑی گہری نظر تھی، دینی علماء، اور مختلف تحریکوں اور مکتبہ فکر کے متعلق اچھی معلومات رکھتے تھے ، چونکہ زیادہ تر بڑے علماء اور دینی تحریک کے بانیان کے ساتھ خود شریک عمل رهے هیں؛ اس لئے سب کے بارے میں ان کی ذاتی زندگی، ان کی ملی زندگی سب اچھی طرح سے جانتے تھے، اور مناسب تبصرہ وتجزیہ کرتے تھے.
اللہ تعالٰی استاذ محترم کے اعمال کو شرف قبولیت بخشے، ان کی لغزشوں کو معاف فرمائے، قبر کے عذاب سے بچائے، اور جنت الفردوس میں جگہ دے، آمین یا رب العالمین.
سهل الفناء إذا حللت ببابه
طلق اليدين مؤدب الخدام
وإذا رأيت صديقه وشقيقه
لم تدر أيهما ذوو الأرحام
د. عبدالله مشتاق
جامعة حائل​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
⁠⁠⁠آہ ! ہم یتیم ہو گئے

میرے شیخ ومحسن ،مربی ،فضیلۃ الشیخ اور شیخ الحدیث والتفسیر مولانا عبداللہ امجد بن عبدالعزیز بن جمال الدین چھتوی رحمۃ اللہ علیہ دار فانی سے کوچ کر گئے۔
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے زمیں کھا گئی آسمان کیسے کیسے
بروز منگل 15اگست 2017میرے برادر اسحاق بلوچ اور عمر حیات بھائی نے ستیانہ بنگلہ سے کال کی اور اطلاع دی کہ محترم المقام استاذنا عبداللہ امجد چھتوی صاحب وفات پاگئے ہیں۔
انا للہ واناالیہ راجعون اللھم اجرنی فی مصیبتی واخلف لی خیرا منھا۔
اس خبر نے مجھے ہلا کر رکھ دیا ۔ والدین کی وفات پر بھی غم و الم ایک فطری بات ہے لیکن محترم استاذ کے بچھڑنے کا جو غم تھا وہ لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔
اسی وقت آنکھوں سے رم جھم جاری ،زمین قدموں کے نیچے سے سرک گئی ،دل یوں پھوٹ پھوٹ کر رو رہاتھا جیسا بچہ ماں کے سامنے روتا ہے،شیخ صاحب کےدنیا سے رحلت کے بعد ایسا محسوس ہونے لگا جیسے ہم یتیم ہوگئے ہیں ۔علم و عرفان کا یہ آفتاب بہت جلد غروب ہوگیا ۔
دل کر رہا تھا کہ اپنے استاذ اور شیخ کے بارے میں کچھ لکھوں لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ گزشتہ شام جب لکھنے کے لیے بیٹھا تو ایک اور شیخ الاستاذ مولانا شفیق مدنی صاحب کے والد محترم کے وفات کی اطلاع موصول ہوئی۔رات ان کاجنازہ پڑھا اور آج لکھنے کےلیے بیٹھا کہ کچھ لکھوں لیکن ذہن مفلوج ہوگیا ،ہاتھ تھم گئے ،قلم نےساتھ چھوڑ دیا لیکن اللہ کا نام لے کر لکھنا شروع کیا۔
شیخی استاذی نے سردست ابتدائی تعلیم اپنے پدر مشفق سے حاصل کی اور ناظرہ قرآن بھی انہی سے پڑھا۔ اس کے بعد حافظ محمد صاحب سے انواع بارک اللہ سبقا سبقا پڑھی ،بعداز قیام پاکستان جھوک دادو میں ابتدائی کتابوں کی تعلیم حاصل کی ۔اس کے بعد اوڈاں والا میں جماعت چہارم تک پڑھا۔اس وقت ان کے اساتذہ پیر یعقوب ،صادق خلیل ،مولانا رفیق اور عبداللہ بڈھیمالوی صاحب تھے ۔اس کے بعد جامعہ محمدیہ اوکاڑا میں حافظ عبداللہ بڈھیمالوی صاحب سے نصاب مکمل کیا ۔
شیخ صاحب نے فارسی کی کتاب گلستان مولانا صادق خلیل صاحب سے پڑھی اور بوستان کا خود مطالعہ کیا ۔
بخاری ،بیضاوی،کامل المبرد تین مجلد ،ملاجامی ،شرح جامی اور کافیہ اول تا آخر شیخ عبداللہ بڈھیمالوی صاحب سے الگ درسا درسا پڑھیں۔
اور توضیح التلویح بھی ان سے چار طلاب نے مل کر پڑھی۔
شیخ شیوخ الحدیث نے جامعہ محمدیہ میں مسند تدریس سنبھالی ۔اول سال مشکوۃ ثانی ،نسائی ،کافیہ اور ادب میں قراءۃ الرشیدہ پڑھائیں۔چار سال مسلسل تدریس کی۔ ازاں بعد مولانا عبداللہ ویروالی صاحب کی درخواست پر جامعہ محمدیہ سے کلیہ دارالقرآن منتقل ہوگئے یہاں ان کے شاگردان رشیدان مولانا عبدالعزیز علوی صاحب اور مولانا عتیق اللہ سلفی صاحب دامت برکاتھم العالیہ شامل تھے۔
اسی اثناءمیں مرکزی جمعیت اہل حدیث کی کابینہ میں یہ فیصلہ ہوا کہ مولانا عبداللہ امجد صاحب جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں تدریس کریں گئے۔یہاں انہوں نے ایک سال تدریس کی اور مختصر المعانی ،مقدمہ ابن الصلاح ،موطا امام مالک،اصول فقہ اور مسلم الثبوت پڑھائیں۔
یہاں مولانا ارشادالحق اثری صاحب اور مولانااکرم جمیل صاحب نے ان سے تعلیم حاصل کی۔اس کے بعد اپنے مشفق استاذ مولانا عبدہ صاحب کی درخواست پرجامعہ محمدیہ اوکاڑا واپس تشریف لے گئے۔
شیخ صاحب کے وہاں جانے کے دوسرے یا تیسرے سال مولانا عبدہ صاحب نے جامعہ محمدیہ سے جانے کا قصد کرلیا اور ان کے جانے کے بعد مولانامعین الدین لکھوی رحمہ اللہ کے حکم پر بخاری پڑھانا شروع کردی ۔اس وقت بخاری میں تین طلبہ تھے،پھر ہر سال طلاب میں اضافہ ہونےلگا۔
شیخ صاحب جامعہ اشاعۃ الاسلام عارفوالہ EB\149میں بھی شیخ الحدیث کےطور پر تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔پھر 1993سے تاحال مرکزالدعوۃ السلفیہ ستیانہ بنگلہ میں شیخ الحدیث اور مفتی کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔
راقم کو بھی ایک سال اور چار ماہ شیخ صاحب سے استفادہ کا موقع ملا۔الحمدللہ علی ذالک
اس دورانیے میں کچھ باتیں جوشیخ صاحب سے سنیں وہ عرض کرنا چاہتا ہوں۔
ایک بار استاذ محترم عبداللہ امجدچھتوی صاحب سے پوچھا کہ آپ نے پہلی مرتبہ نمازجمعہ کہاں پڑھایا تو شیخ صاحب فرمانے لگے کہ جامعہ ابی ہریرہ غلہ منڈی رینالہ خورد میں ۔
ایک دفعہ فرمانےلگے کہ میں بنگلہ گوگیرہ میں تقریر کر نے کے لیے گیا تو وہاں مجھے پکڑنے کے لیے پولیس آگئی تو میں نے ان کوکہا کہ ٹھہر جاو مجھے پہلے تقریر کرلینے دو پھر میں خود ہی آپ کے ساتھ چلاجاوں گا ۔آ پ نے پر اثر تقریر کی اور انہوں نے سنی پھر آپ خود ان کے ساتھ چل دیے۔اور جیل میں پابند سلاسل رہے۔
ایک دفعہ راقم نے شیخ صاحب سے پوچھا کہ آپ دوران طالب علمی میں کونسی کتاب زیر مطالعہ رکھتے ہیں تو فرمانے لگے فتح الباری ۔ اس کی وجہ پوچھی گئی تو کہنے لگے کہ اہل حدیث طلبہ کا دلی میلان حدیث کی طرف ہوتا ہے اس لیے میں حدیث کی کتب کا مطالعہ زیادہ کرتا تھا۔
اور ساتھ فرمایا کہ مجھے نحو و صرف میں بھی مہارت تامہ حاصل تھی ایک دفعہ الفیہ ابن مالک کا شفوی امتحان ہوا اوراس میں ہم 18طلاب شامل تھے ۔اس میں میرے 80 نمبر آئے اور فرسٹ پوزیشن حاصل کی ۔ اس کے علاوہ دو طالب علم پاس ہوئے تھے۔باقی سب امتحان پاس نہ کرسکے۔
شیخ صاحب جمعہ پڑھا رہے تھے اور دوران خطبہ فرمانے لگے ۔لوگو!سن لو اپنے بچوں کو مدارس میں داخل کرواو۔بچے اساتذہ کے پاس امانت ہوتے ہیں ان کی ذمہ داری ہمارا فرض ہوتا ہے۔
استاذ المکرم بچوں سے بڑی شفقت سے پیش آیا کرتے تھے اور ان سے بہت محبت کیا کرتے تھے ۔ایک دن برادرم سعد جاویدکو کسی ولیمہ پر استاذ جی کے ساتھ جانے کا اتفاق ہوا ۔تو شیخ صاحب نے ان کو اپنے ساتھ بٹھا کرکھانا کھلایا اور ساتھ ان کا بڑے احسن انداز سے تعارف کروانے لگے یہ ننھا منا بچہ مسلم ،ہدایہ اور ابن عقیل وغیرہ پڑھتا ہے۔
ایک دفعہ راقم نے شیخ صاحب سے پوچھا کہ آپ کو کونسا کھیل زیادہ پسند تھا تو آپ فرمانے لگے کبڈی ،فٹ بال اور والی بال اور ساتھ فرمایا فٹ بال اور والی بال زیادہ کھیلاکرتا تھا۔
راقم نے ایک دفعہ استاذ جی سے پوچھا کہ آپ دوران تعلیم چھٹی کیا کرتے تھے تو فرمانے لگے دوران تعلیم والد صاحب 3دن سے زائد گھر میں رہنے نہیں دیتے تھے ۔زیادہ دن گھر میں رہنے کی کوشش کی جاتی تو والد صاحب درشتی سے فرماتے ۔بیٹا ! تعلیم کا حرج ہورہا ہے جلدی مدرسہ چلے جاو۔
لوگ آپ سے والہانہ محبت اور شفقت سے پیش آتے اورآپ کی عزت وتکریم کیا کرتے تھے تو آپ کہنے لگے لوگ میری حیثیت سے بڑھ کر عزت کرتے ہیں،احباب میرے بارے حسن ظن رکھتے ہیں اور میں اللہ تعالی سے دعا گو ہوں کہ اللہ میرے گناہ بھی معاف فرما دے۔
ایک بار علامہ احسان الہٰی ظہیر صاحب کا تذکرہ خیر ایک سفر میں ہوا جس وقت علامہ صاحب زخمی تھے توایک سیاسی لیڈر تیمار داری کرنے کےلیے آیا تو شیخ محترم فرمانے لگے وہ کیسے نہ آتا ،علامہ عظیم آدمی تھا ،نہایت بے باک اور نڈر تھا۔
میرے مربی اور مشفق استاذ کی یہ خوبی تھی کہ آپ برجستہ جواب دیا کرتے تھے ۔ایک دفعہ قاری عطااللہ صاحب (طالب جامعہ الاسلامیہ)نے شیخ صاحب سے سوال کیا کہ غیبت کا کیا کفارہ ہے؟تو آپ فرمانے لگے استغفار۔
ایک دفعہ شیخ صاحب کلاس میں فرمانے لگے کہ جماعت اسلامی ایک ایسی جماعت ہے جس نے ہر جماعت کے آدمی کا مسلکی تصلب ختم کر دیا ہے اور یہ جماعت سنت کے معاملہ میں بڑی نرم ہے۔
کوئی طالب علم کلاس میں لیٹ آتا اور لیٹ آنے پر معقول عذر بھی پیش کرتا تو آپ اکثر فرماتے عذر ِگناہ بدتر اَزگناہ یعنی آپ نے جو عذر پیش کیا ہےیہ تو آپ کے گناہ سے بھی بڑاجرم ہے یعنی آپ نے معقول عذر پیش نہیں کیا ہے۔
ایک دفعہ دماغی حافظہ کے بارے میں بتانے لگے یہ جو دماغی ٹانک ہوا کرتے ہیں یہ بوڑھوں کےلیے ہیں اور نوجوانوں کےلیے آزمودہ نسخہ یہ ہے کہ علم کو مضبوط کرنے کےلیے ان تھک محنت کریں اور اپنے اساتذہ کے ساتھ جڑ کر رہیں اور علم کاخوب سے خوب تر شوق رکھا جائےاور علم سے بڑھ کر کسی چیز کو مقدم نہ کیا جائےاور علم کی خاطرکسی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کیا جائے اور اساتذہ کی دعائیں لی جائیں اساتذہ کی دعائیں طالب علم کو ثریا پر پہنچا دیتی ہیں۔
ایک دفعہ راقم نے شیخ صاحب سے پوچھا کہ آپ نے بخاری کئی بار پڑھائی ہے کسی طالب علم نے مکمل لکھی ہے تو آپ فرمانے لگے شفقت الہی مغل (مترجم مسجد نبوی )نے مکمل لکھی ہے۔
ایک بار استاذ محترم قاری عبدالمنان زاہد صاحب کی مدح وستائش کر رہے تھے ،فرماتے ہیں کہ قاری عبدالمنا ن بہت ذہین ہے وہ کلاس میں بہت سوال کرتا تھا۔
ہمارے استاذصلاح الدین حیدر لکھوی (شیخ الحدیث جامعہ ابی ہریرہ)صاحب فرمانے لگے میں دوسری کلاس میں پڑھتاتھا تو ایک ساتھی نے مجھے سے مناظرہ کیا تو مجھےاس مناظرے کی تیاری شیخ عبداللہ امجد چھتوی صاحب نے کروائی جس کا موضوع انما انا بشر مثلکم تھا ۔
یہ تھے میرے شیخ و مربی خوب صورت ،خوش اخلاق ،سفید ریش،نرم خو،گفتار کے غازی ،منکسر المزاج،پاک طینت،نیک سیرت وصورت تھے۔رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ
اللہ تعالی سے دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی دینی و تدریسی اور دعوتی خدمات کو اپنی بارگاہ ایزدی میں شرف قبولیت سے نوازے ۔آمین
اللھم اغفر لعبداللہ امجد چھتوی وارفع درجتہ فی المھدیین واخلفہ فی عقبہ فی الغابرین واغفر لنا ولہ یا رب العالمین وافسح لہ فی قبرہ ونور لہ فیہ۔۔
@فرمان مشتاق .مدینہ منورہ
 

اسامہ نذیر

مبتدی
شمولیت
اگست 20، 2017
پیغامات
14
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
21
کل عرب و عجم میں انڈیا کے مولانا ظہیر مبارکپوری رحمہ اللہ کی وفات کی خبریں چل رہی تھیں ، آج فجر سے پہلے ہی واٹس ایپ پر پیغام آگیا کہ پاکستان میں شیخ شیوخ الحدیث مولانا عبد اللہ امجد چھتوی ’ رحمہ اللہ ‘ ہوگئے ۔
انا للہ و إنا الیہ رجعون ۔
اللہ دونوں شیوخ کی مغفرت فرمائے ، اور امت کو ان کا نعم البدل عطا کرے ۔
اللهم اجعل قبورهم روضة من رياض الجنة
 

اسامہ نذیر

مبتدی
شمولیت
اگست 20، 2017
پیغامات
14
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
21
⁠⁠⁠آہ ! ہم یتیم ہو گئے

میرے شیخ ومحسن ،مربی ،فضیلۃ الشیخ اور شیخ الحدیث والتفسیر مولانا عبداللہ امجد بن عبدالعزیز بن جمال الدین چھتوی رحمۃ اللہ علیہ دار فانی سے کوچ کر گئے۔
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے زمیں کھا گئی آسمان کیسے کیسے
بروز منگل 15اگست 2017میرے برادر اسحاق بلوچ اور عمر حیات بھائی نے ستیانہ بنگلہ سے کال کی اور اطلاع دی کہ محترم المقام استاذنا عبداللہ امجد چھتوی صاحب وفات پاگئے ہیں۔
انا للہ واناالیہ راجعون اللھم اجرنی فی مصیبتی واخلف لی خیرا منھا۔
اس خبر نے مجھے ہلا کر رکھ دیا ۔ والدین کی وفات پر بھی غم و الم ایک فطری بات ہے لیکن محترم استاذ کے بچھڑنے کا جو غم تھا وہ لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔
اسی وقت آنکھوں سے رم جھم جاری ،زمین قدموں کے نیچے سے سرک گئی ،دل یوں پھوٹ پھوٹ کر رو رہاتھا جیسا بچہ ماں کے سامنے روتا ہے،شیخ صاحب کےدنیا سے رحلت کے بعد ایسا محسوس ہونے لگا جیسے ہم یتیم ہوگئے ہیں ۔علم و عرفان کا یہ آفتاب بہت جلد غروب ہوگیا ۔
دل کر رہا تھا کہ اپنے استاذ اور شیخ کے بارے میں کچھ لکھوں لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ گزشتہ شام جب لکھنے کے لیے بیٹھا تو ایک اور شیخ الاستاذ مولانا شفیق مدنی صاحب کے والد محترم کے وفات کی اطلاع موصول ہوئی۔رات ان کاجنازہ پڑھا اور آج لکھنے کےلیے بیٹھا کہ کچھ لکھوں لیکن ذہن مفلوج ہوگیا ،ہاتھ تھم گئے ،قلم نےساتھ چھوڑ دیا لیکن اللہ کا نام لے کر لکھنا شروع کیا۔
شیخی استاذی نے سردست ابتدائی تعلیم اپنے پدر مشفق سے حاصل کی اور ناظرہ قرآن بھی انہی سے پڑھا۔ اس کے بعد حافظ محمد صاحب سے انواع بارک اللہ سبقا سبقا پڑھی ،بعداز قیام پاکستان جھوک دادو میں ابتدائی کتابوں کی تعلیم حاصل کی ۔اس کے بعد اوڈاں والا میں جماعت چہارم تک پڑھا۔اس وقت ان کے اساتذہ پیر یعقوب ،صادق خلیل ،مولانا رفیق اور عبداللہ بڈھیمالوی صاحب تھے ۔اس کے بعد جامعہ محمدیہ اوکاڑا میں حافظ عبداللہ بڈھیمالوی صاحب سے نصاب مکمل کیا ۔
شیخ صاحب نے فارسی کی کتاب گلستان مولانا صادق خلیل صاحب سے پڑھی اور بوستان کا خود مطالعہ کیا ۔
بخاری ،بیضاوی،کامل المبرد تین مجلد ،ملاجامی ،شرح جامی اور کافیہ اول تا آخر شیخ عبداللہ بڈھیمالوی صاحب سے الگ درسا درسا پڑھیں۔
اور توضیح التلویح بھی ان سے چار طلاب نے مل کر پڑھی۔
شیخ شیوخ الحدیث نے جامعہ محمدیہ میں مسند تدریس سنبھالی ۔اول سال مشکوۃ ثانی ،نسائی ،کافیہ اور ادب میں قراءۃ الرشیدہ پڑھائیں۔چار سال مسلسل تدریس کی۔ ازاں بعد مولانا عبداللہ ویروالی صاحب کی درخواست پر جامعہ محمدیہ سے کلیہ دارالقرآن منتقل ہوگئے یہاں ان کے شاگردان رشیدان مولانا عبدالعزیز علوی صاحب اور مولانا عتیق اللہ سلفی صاحب دامت برکاتھم العالیہ شامل تھے۔
اسی اثناءمیں مرکزی جمعیت اہل حدیث کی کابینہ میں یہ فیصلہ ہوا کہ مولانا عبداللہ امجد صاحب جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں تدریس کریں گئے۔یہاں انہوں نے ایک سال تدریس کی اور مختصر المعانی ،مقدمہ ابن الصلاح ،موطا امام مالک،اصول فقہ اور مسلم الثبوت پڑھائیں۔
یہاں مولانا ارشادالحق اثری صاحب اور مولانااکرم جمیل صاحب نے ان سے تعلیم حاصل کی۔اس کے بعد اپنے مشفق استاذ مولانا عبدہ صاحب کی درخواست پرجامعہ محمدیہ اوکاڑا واپس تشریف لے گئے۔
شیخ صاحب کے وہاں جانے کے دوسرے یا تیسرے سال مولانا عبدہ صاحب نے جامعہ محمدیہ سے جانے کا قصد کرلیا اور ان کے جانے کے بعد مولانامعین الدین لکھوی رحمہ اللہ کے حکم پر بخاری پڑھانا شروع کردی ۔اس وقت بخاری میں تین طلبہ تھے،پھر ہر سال طلاب میں اضافہ ہونےلگا۔
شیخ صاحب جامعہ اشاعۃ الاسلام عارفوالہ EB\149میں بھی شیخ الحدیث کےطور پر تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔پھر 1993سے تاحال مرکزالدعوۃ السلفیہ ستیانہ بنگلہ میں شیخ الحدیث اور مفتی کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔
راقم کو بھی ایک سال اور چار ماہ شیخ صاحب سے استفادہ کا موقع ملا۔الحمدللہ علی ذالک
اس دورانیے میں کچھ باتیں جوشیخ صاحب سے سنیں وہ عرض کرنا چاہتا ہوں۔
ایک بار استاذ محترم عبداللہ امجدچھتوی صاحب سے پوچھا کہ آپ نے پہلی مرتبہ نمازجمعہ کہاں پڑھایا تو شیخ صاحب فرمانے لگے کہ جامعہ ابی ہریرہ غلہ منڈی رینالہ خورد میں ۔
ایک دفعہ فرمانےلگے کہ میں بنگلہ گوگیرہ میں تقریر کر نے کے لیے گیا تو وہاں مجھے پکڑنے کے لیے پولیس آگئی تو میں نے ان کوکہا کہ ٹھہر جاو مجھے پہلے تقریر کرلینے دو پھر میں خود ہی آپ کے ساتھ چلاجاوں گا ۔آ پ نے پر اثر تقریر کی اور انہوں نے سنی پھر آپ خود ان کے ساتھ چل دیے۔اور جیل میں پابند سلاسل رہے۔
ایک دفعہ راقم نے شیخ صاحب سے پوچھا کہ آپ دوران طالب علمی میں کونسی کتاب زیر مطالعہ رکھتے ہیں تو فرمانے لگے فتح الباری ۔ اس کی وجہ پوچھی گئی تو کہنے لگے کہ اہل حدیث طلبہ کا دلی میلان حدیث کی طرف ہوتا ہے اس لیے میں حدیث کی کتب کا مطالعہ زیادہ کرتا تھا۔
اور ساتھ فرمایا کہ مجھے نحو و صرف میں بھی مہارت تامہ حاصل تھی ایک دفعہ الفیہ ابن مالک کا شفوی امتحان ہوا اوراس میں ہم 18طلاب شامل تھے ۔اس میں میرے 80 نمبر آئے اور فرسٹ پوزیشن حاصل کی ۔ اس کے علاوہ دو طالب علم پاس ہوئے تھے۔باقی سب امتحان پاس نہ کرسکے۔
شیخ صاحب جمعہ پڑھا رہے تھے اور دوران خطبہ فرمانے لگے ۔لوگو!سن لو اپنے بچوں کو مدارس میں داخل کرواو۔بچے اساتذہ کے پاس امانت ہوتے ہیں ان کی ذمہ داری ہمارا فرض ہوتا ہے۔
استاذ المکرم بچوں سے بڑی شفقت سے پیش آیا کرتے تھے اور ان سے بہت محبت کیا کرتے تھے ۔ایک دن برادرم سعد جاویدکو کسی ولیمہ پر استاذ جی کے ساتھ جانے کا اتفاق ہوا ۔تو شیخ صاحب نے ان کو اپنے ساتھ بٹھا کرکھانا کھلایا اور ساتھ ان کا بڑے احسن انداز سے تعارف کروانے لگے یہ ننھا منا بچہ مسلم ،ہدایہ اور ابن عقیل وغیرہ پڑھتا ہے۔
ایک دفعہ راقم نے شیخ صاحب سے پوچھا کہ آپ کو کونسا کھیل زیادہ پسند تھا تو آپ فرمانے لگے کبڈی ،فٹ بال اور والی بال اور ساتھ فرمایا فٹ بال اور والی بال زیادہ کھیلاکرتا تھا۔
راقم نے ایک دفعہ استاذ جی سے پوچھا کہ آپ دوران تعلیم چھٹی کیا کرتے تھے تو فرمانے لگے دوران تعلیم والد صاحب 3دن سے زائد گھر میں رہنے نہیں دیتے تھے ۔زیادہ دن گھر میں رہنے کی کوشش کی جاتی تو والد صاحب درشتی سے فرماتے ۔بیٹا ! تعلیم کا حرج ہورہا ہے جلدی مدرسہ چلے جاو۔
لوگ آپ سے والہانہ محبت اور شفقت سے پیش آتے اورآپ کی عزت وتکریم کیا کرتے تھے تو آپ کہنے لگے لوگ میری حیثیت سے بڑھ کر عزت کرتے ہیں،احباب میرے بارے حسن ظن رکھتے ہیں اور میں اللہ تعالی سے دعا گو ہوں کہ اللہ میرے گناہ بھی معاف فرما دے۔
ایک بار علامہ احسان الہٰی ظہیر صاحب کا تذکرہ خیر ایک سفر میں ہوا جس وقت علامہ صاحب زخمی تھے توایک سیاسی لیڈر تیمار داری کرنے کےلیے آیا تو شیخ محترم فرمانے لگے وہ کیسے نہ آتا ،علامہ عظیم آدمی تھا ،نہایت بے باک اور نڈر تھا۔
میرے مربی اور مشفق استاذ کی یہ خوبی تھی کہ آپ برجستہ جواب دیا کرتے تھے ۔ایک دفعہ قاری عطااللہ صاحب (طالب جامعہ الاسلامیہ)نے شیخ صاحب سے سوال کیا کہ غیبت کا کیا کفارہ ہے؟تو آپ فرمانے لگے استغفار۔
ایک دفعہ شیخ صاحب کلاس میں فرمانے لگے کہ جماعت اسلامی ایک ایسی جماعت ہے جس نے ہر جماعت کے آدمی کا مسلکی تصلب ختم کر دیا ہے اور یہ جماعت سنت کے معاملہ میں بڑی نرم ہے۔
کوئی طالب علم کلاس میں لیٹ آتا اور لیٹ آنے پر معقول عذر بھی پیش کرتا تو آپ اکثر فرماتے عذر ِگناہ بدتر اَزگناہ یعنی آپ نے جو عذر پیش کیا ہےیہ تو آپ کے گناہ سے بھی بڑاجرم ہے یعنی آپ نے معقول عذر پیش نہیں کیا ہے۔
ایک دفعہ دماغی حافظہ کے بارے میں بتانے لگے یہ جو دماغی ٹانک ہوا کرتے ہیں یہ بوڑھوں کےلیے ہیں اور نوجوانوں کےلیے آزمودہ نسخہ یہ ہے کہ علم کو مضبوط کرنے کےلیے ان تھک محنت کریں اور اپنے اساتذہ کے ساتھ جڑ کر رہیں اور علم کاخوب سے خوب تر شوق رکھا جائےاور علم سے بڑھ کر کسی چیز کو مقدم نہ کیا جائےاور علم کی خاطرکسی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کیا جائے اور اساتذہ کی دعائیں لی جائیں اساتذہ کی دعائیں طالب علم کو ثریا پر پہنچا دیتی ہیں۔
ایک دفعہ راقم نے شیخ صاحب سے پوچھا کہ آپ نے بخاری کئی بار پڑھائی ہے کسی طالب علم نے مکمل لکھی ہے تو آپ فرمانے لگے شفقت الہی مغل (مترجم مسجد نبوی )نے مکمل لکھی ہے۔
ایک بار استاذ محترم قاری عبدالمنان زاہد صاحب کی مدح وستائش کر رہے تھے ،فرماتے ہیں کہ قاری عبدالمنا ن بہت ذہین ہے وہ کلاس میں بہت سوال کرتا تھا۔
ہمارے استاذصلاح الدین حیدر لکھوی (شیخ الحدیث جامعہ ابی ہریرہ)صاحب فرمانے لگے میں دوسری کلاس میں پڑھتاتھا تو ایک ساتھی نے مجھے سے مناظرہ کیا تو مجھےاس مناظرے کی تیاری شیخ عبداللہ امجد چھتوی صاحب نے کروائی جس کا موضوع انما انا بشر مثلکم تھا ۔
یہ تھے میرے شیخ و مربی خوب صورت ،خوش اخلاق ،سفید ریش،نرم خو،گفتار کے غازی ،منکسر المزاج،پاک طینت،نیک سیرت وصورت تھے۔رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ
اللہ تعالی سے دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی دینی و تدریسی اور دعوتی خدمات کو اپنی بارگاہ ایزدی میں شرف قبولیت سے نوازے ۔آمین
اللھم اغفر لعبداللہ امجد چھتوی وارفع درجتہ فی المھدیین واخلفہ فی عقبہ فی الغابرین واغفر لنا ولہ یا رب العالمین وافسح لہ فی قبرہ ونور لہ فیہ۔۔
@فرمان مشتاق .مدینہ منورہ
ان لله ما اخذ وله ما اعطي وكل شئء عنده باجل مسمي فلتصبر ولتحتسب
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
شیخ محترم کی کچھ یادیں اور چند باتیں

تحریر : محمد مرتضی
زمانہ طالب علمی میں میرے ایک استاذ Rahmat Ullah Raheeq نے سبق پڑھاتے ہوئے بتایا کہ شیخ عبداللہ امجد چھتوی رحمہ اللہ تعالیٰ سے دورہ تفسیر کے دوران جو علمی نکات میں نے رجسٹر میں نوٹ کیے تھے وہ باتیں مدینہ یونیورسٹی میں دوران تعلیم نہ کسی استاد نے بتائیں نہ کسی کتاب میں نظر سے گزریں اس واقعہ نے میرے دل میں دورہ تفسیر کی اور زیادہ اہمیت بڑھا دی چنانچہ 2007 میں مدرسہ دارالاسلام ڈھولن ہٹھاڑ ضلع قصور سے فراغت ہوئی تو اسی سال رمضان سے چند دن پہلے طلب علم کا شوق مجھے ستیانہ بنگلہ فیصل آباد لے گیا،
میرے پہنچنے سے ایک دن پہلے دورہ تفسیر شروع ہوچکا تھا شیخ بشیر احمد صاحب تفسیر کے بنیادی اصول وقواعد لکھوا رہے تھے اور شیخ چھتوی صاحب نے مدنی سورتوں کی تفسیر پڑہانی تھی اور مکی سورتیں موصوف کے شاگرد رشید شیخ ابو نعمان بشیر حفظہ اللہ تعالی نے،رمضان کے بابرکات لمحات شروع ہوتے ہی شیخ التفسیر عبداللہ امجد چھتوی صاحب نے اپنا علم طالبان علوم نبوت میں تقسیم کرنا شروع فرما دیا، چند دن عاجز خاموشی سے تفسیری افادات لکھتا رہا، ایک دن جامعہ ھذا کے پرانے طالبعلم سے پوچھا کہ دوست سوالات نہیں کرتے مذکور ساتھی نے بتایا کہ شیخ کے علمی جلال و رعب کی بنا پر ساتھی سوال کرنے سے گھبراتے ہیں دراصل شیخ سے جب سوال ہوتا ہے تو علم کا دریا ٹھاٹھیں مارنا شروع کردیتا ہے، میں نے تحیہ کر لیا کہ آج شیخ کے قریب بیٹھ کر استفادہ کرنا ہے شیخ جہاد کے عنوان پر درس ارشاد فرما رہے تھے اور حالات حاضرہ میں جہاد فی سبیل اللہ کی ضرورت و اہمیت اجاگر کر رہے تھے میں نے موجودہ جہادی تحریکوں کے متعلق سوال کرتے ہوئے لشکر طیبہ کے متعلق پوچھا تو شیخ جلال میں آکر فرمانے لگے جماعۃ الدعوہ والے جہاد نہیں کررہے بلکہ فساد مچا رہے ہیں،
اس دن سوالات کی وجہ سے میں شیخ کی نظروں میں آگیا اختتام درس کے وقت طلباء نے آپ کو اپنے گھیرے میں لے لیا عاجز نے موقعہ کو غنیمت جانتے ہوئے تھوڑا سا قریب ہوکر کہا شیخ محترم مولانا اسحاق بھٹی صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ جب دارالعلوم دیوبند جاتے تو جماعت کے ساتھ نماز پڑھتے ہوئے عند الرکوع رفع الیدین نہیں کرتے تھے شیخ نے میری طرف التفات فرماتے ہوئے زور سے کہا کیا بھٹی صاحب آزاد کے ساتھ تھے مولانا آزاد تو سکہ بند اہل حدیث تھے،
پھر طلباء سے فرمانے لگے محدثین کرام کی طرز پر خطبہ جمعہ دینا چاہیے پھر کہا جس جگہ میں مستقل جمعہ پڑھاتا ہوں وہاں کے میرے مقتدی واعظین خطباۓ کرام سے زیادہ دینی مسائل پر عبور و دسترس رکھتے ہیں،
پھر فرمایا علماۓ کرام کو سیاسی میدان میں عوام الناس کی رہنمائی کرنی چاہئے، شیخ کہنے لگے جب میں جامعہ محمدیہ اوکاڑہ میں پڑھاتا تھا تو تحریک نظام مصطفی اور دیگر سیاسی اسٹیجوں پر میری تقاریر ہوا کرتی تھیں سیکورٹی کے طور پر میرے آگے پیچھے پولیس کی گاڑیاں ہوا کرتی تھیں، عاجز نے استفسار کیا کہ مولانا احمد علی لاہوری و مولانا محمد حنیف ندوی رحمھما اللہ تعالی کے لاہور میں فہم قرآن کے حلقے بہت مشہور ہوا کرتے تھے کیا آج پاکستان میں ایسا قرآنی حلقہ ہے فرمانے لگے ہاں پشاور میں ایک عالم دین تین ماہ کا دورہ تفسیرکرواتے ہیں اس میں ہزاروں کی تعداد میں بڑے بڑے علماء سیکھنے کیلئے شامل ہوتے ہیں غالبا آپ کا اشارہ شیخ التفسیر عبدالسلام رستمی رحمہ اللہ تعالی کی طرف تھا،
دیوبند مکتبہ فکر کے مناظر امین صفدر اوکاڑوی کے علمی مرتبہ کے متعلق پوچھا گیا تو کہا وہ بےچارہ تو پرائمری ماسٹر تھا-
ایک دن شیخ صاحب تفسیر القرآن پڑھا کر مسجد سے نکل رہے تھے میں نے آگے ہوکر مصافحہ کیا اور عرض کی استاد جی تھوڑا سا وقت ہوتو ایک بات کی تصدیق کرنی ہے، شیخ صاحب نےخوش ہوکر کہا بات کریں بیٹا، بندہ نے عرض کی کافی عرصہ پہلے ہمارے گاؤں ڈھولن ہٹھاڑ کے قریب ایک بستی میں دیوبندیوں سے آپ کا مناظرہ طے ہوا تھا وہاں کے لوگوں نے مشہور کررکھا ہے کہ آپ کا مناظر بھاگ گیا تھا ، شیخ محترم پرانا واقعہ یاد آنے پر مسکرا دیئے پھر اصل واقعہ تفصیلا بیان کیا کہ آپ اپنے علاقے میں منڈی عثمان والا ، پیال کلاں کے لوگوں سے پوچھ لینا ہم مولانا حافظ محمد منیر آف پیال کلاں کی معیت میں رات کو شدید بارش میں ٹریکٹر ٹرالی پر سوار ہوکر مقام مناظرہ ٹبہ نینوال جاگیر پہنچے دیوبندی مناظر صاحب کمرے میں سوئے ہوئے تھے میں نے کہا صبح جامعہ محمدیہ اوکاڑہ میں جاکر پڑھانا ہے آپ اپنے مناظر کو بیدار کریں مگر مقامی لوگوں نے انکار کردیا ہم واپس آگئے بس اتنی سی بات ہے.
چند سال قبل شیخ مکرم تقریب صحیح بخاری کے موقعہ پر ہمارے گاؤں تشریف لائے دوران درس بجلی بند ہونے کے سبب سپیکر ساتھ چھوڑ گیا تو شیخ کھڑے ہوکر اونچی آواز سے بیان کرنے لگے آپ کی آواز میں گرج ایسی تھی کہ سارے مجمعے کو مسحور کررہی تھی
پھر آپ نے ایک گھنٹے سے زیادہ درس بخاری ارشاد فرمایا:
شیخ محترم سے فون پر کئی بار مسائل پوچھے ہر مرتبہ خوش ہوکر جواب دیتے، موصوف کے فتاوی جات اگر کتابی شکل میں شائع کیے جائیں تو بہت بڑا علمی ذخیرہ محفوظ ہو سکتا ہے ۔۔
آپ نےتحریری شکل میں کتابیں تو نہیں چھوڑیں مگر آپ کی بولتی کتابیں بہت ہیں موصوف کے شاگردوں میں بڑے بڑے محدث و مصنف ، خطیب ، ادیب اور مناظر ہیں ۔جیسے شیخ ارشاد الحق اثری ، شیخ عبدالعزیز علوی وغیرہ ۔آپ کے افادات بخاری شیخ کے ایک شاگرد شفقت الرحمن مغل ( @ابن مبارک )نے لکھے تھے جو ابھی چھپے نہیں ۔باقی مکمل دروس بخاری اور دورہ تفسیر مکمل آڈیو ریکارڈنگ میرے پاس موجود ہیں الحمدللہ ۔
اللہ تعالی شیخ کی خدمات دینیہ قبول فرما کر آخرت میں درجات بلند فرمائے . آمین
 
شمولیت
جون 01، 2017
پیغامات
61
ری ایکشن اسکور
9
پوائنٹ
20
جب وہ بچھڑا تھا
تحریر : ابوالوفا محمد حماد اثری

ایک انبوہ ، سروں کی ایک عظیم ڈار وہاں موجود تھی، ستیانہ بنگلہ کی زمین نے شاید ہی ایسا جنازہ کبھی دیکھا ہو، ہم وہاں جب حاضر ہوئے تو صفیں سدھاری جارہی تھیں، مجھے پانچویں یا ساتویں صف میں جگہ ملی، قریب ہی کہیں اوڈانوالہ کے شیخ الحدیث حافظ محمد امین حفظہ اللہ کا غمگین سراپا دیکھا، افسردہ جیسے زندگی سے روٹھ گیا ہو۔

ایک بچے کے رونے کی آواز سماعتوں سے ٹکرائی اور آنکھیں بھر آئیں، بچہ جیسے اس کا کھلونا گم ہو گیا ہو۔
پچھلے ہی برس کی بات ہے، استاد محترم مولانا عمر فاروق عثمانی حفظہ اللہ کے ساتھ مولانا چھتوی رحمہ اللہ کی بیٹھک میں ان کی میزبانی انجوائے کر رہے تھے، مختلف موضوعات پہ بات چل نکلی تھی، جانے کیا بات ہوئی کہ ننھا عتیق امجد( جو ان کے ہوتے چھوٹا سا ہی لگ رہا تھا) اختلاف کرنے لگا محبت سے بابا کو سمجھانے لگا کہ یوں نہیں یوں ہے۔
بابے کی نظریں ہماری جانب اٹھیں، مسکرا دیا ، آنکھ سے اشارہ دیا ، گویا کہتا ہو، دیکھو میرا عتیق ہن سیانا ہوگیا اے۔
ہائے کیا خوب تھے وہ مسکراتے ہوئے لب !

بچہ پھر سے رونے لگا، میرے بابا محدث تھے، میرے ابا عظیم تھے،جانے کب سامنے انسانوں کا مجمع دکھ گیا ہوگاکہ احمد بن حنبل رحمہ اللہ یاد آگئے۔

ہمارے اور تہمارے درمیان فیصلہ ہمارے جنازے کریں گے۔

جنازہ پڑھانے کو عتیق اللہ سلفی آگے بڑھے، وہی دھاڑیں وہی برستے دیدے، اب کوئی اور کیا تبصرہ کرتا، دکھ تو وہ جانتے تھے جن تن لاگی تھی۔ عتیق اللہ کا پرانا رفیق داغ جدائی دے گیا ہے۔

اسے رونے دو مگر یہ کیا، ہزاروں آنکھیں اس کے ساتھ برس پڑی ہیں۔
جنازہ شروع ہوا، قیامت صغری کا منظر۔اللہ جی میرے استاد جی کو جنت لے جائیو۔
دل میں خیال آیا اے کاش یہ جنازہ ہمیں بھی نصیب ہو، جنازے کا اختتام ہوا، چہرہ دیکھنے کو آگے گئے، یہاں ایک اور حیرانی انتظار میں تھی، مولانا رفیق اثری جلالپوری دوسروں کے کندھوں کے سہارے مولانا چھتوی کو کندھا دینے پہنچے ہوئے ہیں۔
صلاح الدین یوسف بھی بوڑھے ہیں، مگر یہاں موجود تھے۔
مسعود عالم کی بھی کیا عمر ہےاتنی گرمی میں گھر سے نکلنے کی، مگر وہ بھی حاضر ہیں۔
ارشاد الحق اثری بھی استاد جی کے آخری دیدار کو چلے آئے ہیں۔
شیخ امن پوری فرمایا کرتے ہیں کہ علم حدیث مخدوم ہے ۔ اللہ اس کے خادموں کو بھی مخدوم بنا دیتے ہیں۔
حضرت شیخ الحدیث کا جنازہ دیکھا تو یقین ، حق الیقین بلکہ عین الیقین ہوگیا، استاد جی ابو یحیی فرما رہے تھے کہ جب سے ان کا جنازہ دیکھا ہے اپنے مشن کی حقانیت پہ ایمان اور مضبوط ہوگیا ہے، عرض کیا ، افسوس ! وہ مگرہم میں نہیں رہا جس کی صحبت ، چند ساعتوں کی صحبت ایمان کو جلا دیا کرتی تھی۔
پہلی ملاقات جب ان سے ہوئی تو عرض کیا کہ شیخ ! کوئی نصیحت فرما دیجئے ۔
فرمایا : اتق اللہ حیث ماکنت ۔
بیٹا سنت کو لازم پکڑو اور جہاں بھی رہو بدعات سے اجتناب کرو ۔
میری ان سے چار ملاقاتیں ہوئی ہیں، اول جامعہ اسلامیہ سلفیہ ڈلن بنگلہ کی تقریب بخاری پہ، تب کئی دن تک ان کے تکلم کے سحر سے نہیں نکل پایا تھا ۔
دوسری جامعہ ستیانہ میں، تو مہینوں ان کی نصیحت منزل دکھاتی رہی ، تیسری ان کے گھر میں، تب ان کی مسکراہٹ نے غلام بنا لیا تھا۔
اور آخری ان کے جنازے پر تب سے اب تک حیران ہوں کہ

مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے؟

آتی رہے گی تیری انفاس کی خوشبو
گلشن تیری یادوں کا مہکتا ہی رہے گا۔
ایک ایک کر کے ستاروں کی طرح ڈوب گئے
ہائے کیا لوگ میرے حلقہ اسلاف میں تھے۔

اے مجھے صبر کے آداب سکھانے والے
جب وہ بچھڑا تھا وہ منظر نہی دیکھا تو نے۔

 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
چھتوی صاحب کے ایک شاگرد ، جو ہمارے استاد ہیں ، مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب ، سے مدینہ منورہ قرآن کریم نمائش میں اچانک ملاقات ہوئی ، میں نے ان سے عرض کیا کہ چھتوی صاحب آپ کے استاد محترم تھے ، ان کی وفات پر آپ کے کیا تاثرات ہیں ؟
کہنے لگے : مجھے مرکز الدعوۃ السلفیہ ستیانہ بنگلہ سے فراغت کو تقریبا سترہ سال ہونے کو ہیں ، میں آج تک ’ مرکز ‘ کو اپنے دل سے نہیں نکال سکا ، الحمد للہ اب بھی اپنے ادارے کے ساتھ مکمل تعاون کرنے کی کوشش کرتا ہوں ، حسب سابق اس سال بھی رمضان میں لاکھوں کا فنڈ کرکے ، جس میں میرے اپنا ذاتی تعاون بھی شامل تھا ، مرکز کو بھجوایا ہے ، میں سمجھتا ہوں ، چھتوی صاحب مرکز الدعوۃ السلفیہ کا ایک رکن تھے ، اللہ سے دعا ہے کہ ان کے بعد یہ مرکز اپنی حیثیت کو برقرار رکھ سکے ۔
اپنے متعلق بتانے لگے ، دوران تعلیم میں کافی ٹھاٹھ باٹھ سے رہا کرتا تھا ، بعض دفعہ اساتذہ کرام مالدار طالبعلموں کے ساتھ خصوصی شفقت رکھتے ہیں ، لیکن چھتوی صاحب کا معاملہ اس سے الٹ تھا ، اور کہا کرتے تھے ، اگر میں شبیر کو ڈانٹ ڈپٹ کے نہ رکھوں تو یہ مجھ سے صحیح فائدہ نہیں اٹھا سکے گا ۔
شبیر صاحب کے بقول چھتوی صاحب اپنے ایک چھوٹے نواسے کو پیار سے ’ کھبیث ‘ کہا کرتے تھے ، ایک دفعہ جامع البیان کا سبق پڑھا رہے تھے ، پوچھنے لگے ، وفاق کے امتحانات میں اول نمبر کس کا ہے ؟ لڑکوں نے بتایا ، شبیر کا ۔ صاحبِ جامع البیان نے ’ و لکن البر من آمن ‘ کی ترکیب ’ و لکن البر بر من آمن ‘ سے کی ہے ، چھتوی صاحب نے مجھ سے پوچھ لیا ، بتاؤ ، یہاں ’ البر ‘ محذوف کیوں نکالا گیا ؟
میں نے کہا : البر مبتدا مصدر ہے ، اگر اس کی خبر ’ من ‘ کو بنایا جائے تو مبتدا کمزور اور خبر قوی بنتی ہے ، یہ درست نہیں ، اس لیے خبر محذوف نکالی گئی ہے ، تاکہ مبتدا و خبر میں مطابقت رہے ، چھتوی صاحب نے سن کر سبق آگے پڑھانا شروع کردیا ، شبیر صاحب نے پوچھا : استاد جی ! جواب صحیح ہے ؟ چھتوی صاحب فرمانے لگے ! ’ کھبیثا ! اگر صحیح نہ ہوتا تو آگے نہ چلتا ۔ مزید فرمایا : اگر جواب غلط ہوتا ، تو میں نے سمجھنا تھا کہ وفاق کی پوزیشن بھی بغیر استحقاق کے ہی آگئی ہے ۔
شبیرصاحب کے بقول ’ جامع البیان ‘ کافی دقیق اور مشکل کتاب ہے ، جس کی تدریس کی صلاحیت چھتوی صاحب ہی رکھتے تھے ۔
 
Top