• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پرائز بانڈ کی شرعی حیثیت ؟

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ ۔
محترم اہل علم سے عرض ہے کہ :
پرائز بانڈ کے متعلق ضروری تفصیلات فراہم کریں ،
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
الســـلام عــليــكــم شیخ محترم یہ پرائز بانڈ سے نکلی ھوئ رقم حلال ھوتی ھے یا حرام ؟

کچھ اہل سنت کے علما ء اس کو حلال کہتے ھیں ۔ اور وہ اس کی یہ دلیل پیش کرتے ھیں کے ناجائز ہونے کے دو اسباب ہو سکتے ہیں جو ان میں نہیں پائے جاتے۔
سود
جوا
پرائز بانڈ میں سود نہیں پایا جاتا کیونکہ " سود قرض پر متعین اضافہ بطور شرط ہوتا ہے۔ جبکہ 200، 500، 1000 روپے والے بانڈ پر لاکھوں روپے کا انعام نکل آنا یہ شرح سود دینا کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ اس کے ناجائز ہونے کا دوسرا سبب جوا ہوتا ہے وہ بھی یہاں نہیں پایا جاتا کیونکہ جوئے میں ساری رقم ڈوب جاتی ہے یا پھر کئی گنا زیادہ آ جاتی ہے۔ یہاں انعام نکلنے یا نہ نکلنے، دونوں صورتوں میں اصل زر محفوظ رہتا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا ناجائز ہونے کے جب دونوں امکان براہ راست موجود نہیں ہیں تو پھر پرائز بانڈز کا لین دین ناجائز ہونیکی وجہ نہ ہوئی لہذا یہ جائز ہے۔
شیخ محترم آپ اس سوال کی وضاحت زرا ڈیٹیل میں کر دیجے گا دلیل کے ساتھ تاکہ مجھے سمجھنے میں اور آ گے کسی کو بتانے میں آ سانی ھو ۔


جواب :

شیخ محترم @رفیق طاھر حفظہ اللہ

یہ دونوں قباحتیں اس میں موجود ہیں ۔ جوا بھی اور سود بھی !
مختلف لوگ ایک برابر رقم لگاتے ہیں لیکن نتیجہ کسی کو زیادہ اور کسی کو کم اور کسی کو کچھ بھی نہیں ملتا ۔ لہذا یہ جوا ہے ۔
اور سارے ہی یہ سوچ کر بانڈ لیتے ہیں کہ شاید میرا انعام نکل آئے , نکل آئے تو واہ واہ نہ نکلے تو ...... اور یہ کیفیت بھی جوا ہونے کی بین دلیل ہے ۔
پھر رقم ادھار دے کر نقصان میں شرکت کے بغیر نفع حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے یہ غیر طے شدہ سود ہے ۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
پرائز بانڈ حلال ہیں یا حرام ؟ ||

جواب: بسم اللہ والحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ ، اما بعد؛

پرائز بونڈ جدید دور میں سود اور جوے کا مرکب ہے اور اسلام میں نہ سود کے لیے کوئی جگہ ہے نہ جوا کی کوئی نوع جائز ہے،اس طریقے میں حکوم اپنی ضرورت کے پیش نظر متعین رقوم کے بدلے خاص متبادل بیچتی ہے، جبکہ اصل رقوم حکومت کو وصول ہو جاتی ہے۔اس طرح اپنی ضرورت کے مطابق حکوم اس رقم کو استعمال کرتی ہے۔ پرائزبونڈ کا خریدار جب چاہے اپنی اصل رقم واپس لے کر یہ پرائز بونڈ فروخت کر سکتے ہیں۔ پھر قرعہ اندازی کر کے بعض افراد کو مخصوص انعامات دیے جاتے ہیں۔ حقیقت میں انعام کی یہ رقم وہ سود ہوتی ہے جو حکومت عوام کی رقم اپنے پاس رکھ کر حاصل کرتی ہے، پھر تمام حاملین پرائز بونڈ کو منافع(سود) کی یہ رقم دینے کی بجائے بعض لوگوں کو انعام کی شکل میں دے دی جاتی ہے۔ ایسی انعامی رقم عین سود ہے، فقط نام تبدیل کر کےعوام کو اس میں مشغول کیا جاتا ہے۔ پھر اکثر لوگوں کو چھوڑ کر صرف چند لوگوں کو منافع کا حقدار قرار دیا جاتا ہے۔جس کی شاخیں جوئے سے ملتی ہیں۔

عوام کو اس سے لالچ یہ ہوتی ہے کہ جب چاہیں گے پرائز بونڈ فروخت کر کے اپنی اصل رقم حاصل کر لیں گے۔ اوراگر انعام نکل آیا تو مفت کا منافع بھی ہے۔ یاد رہے حرام کے لیے حیلہ کرنا بھی اسلام میں جائز نہیں،لہذا سود اور جوا خواہ اپنی اصل کیفیت میں ہوں یا شکل و صورت بدل کے میسر ہوں دونوں انداز سے حرام ہیں ان سے پچنا دین و ایمان کی حفاظت ہے۔

واللہ المستعان

http://ircpk.com/fatwa/الفقه-وأصوله/فقہ/382-معاملات/خرید-وفروخت/سود-خوری/6816-prize-bonds-halal-hain.html
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
انعامی بونڈ کی شرعی حیثیت :

شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 29 April 2014 03:38 PM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

رحیم یار خان سے محمد عثمان دریافت کرتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے جاری کردہ انعامی سکیموں (انعامی بانڈز وغیرہ) کی شرعی حقیقت کیا ہے۔؟بعض علماء اسے جوا کی ایک قسم بتاتے ہیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حکومت کی طرف سے جاری کردہ انعامی سکیمیں شرعاً ناجائز اور حرام ہیں کیوں کہ یہ جوئے کی مختلف اقسام ہیں جسے قرآن نے حرام پلید اور شیطانی عمل قراردیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

بلاشبہ شراب جوا بتوں کے نام کی چیزیں اور تیروں کے زریعے قسمت آزمائی پلید اور شیطانی کام ہیں۔ان سے پرہیز کرو۔''(5/المائدۃ :90)

دور جاہلیت میں جوئے کی متعدد صورتیں تھیں جن میں ایک یہ تھی کہ کعبہ میں رکھے ہوئے چند مخصوص تیروں کے زریعے مشترکہ مال تقسیم کیاجاتا تھا۔ اس طرح کہ قرعہ اندازی کے زریعے جو تیر جس کے نام نکل آیا اور اس پرجتنا حصہ لکھا ہوتا وہ اسے مل جاتا بعض خالی تیر نکلنے کی صورت میں وہ شخص بالکل محروم رہتا ایسا کرنے سے کچھ لوگ حصہ پاتے اور کچھ بالکل تہی دست رہتے۔اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ قرآن کی نظر میں اس قسم کے تمام کام حرام ہیں۔جن میں تقسیم کا دارومدار کسی ایسے امر پررکھاجائے جس کے زریعے دوسروں کا مال کسی ایک شخص یا چند اشخاص کی جیبوں میں چلاجائے۔دریافت کردہ انعامی سکیموں میں یہ خرابی بدرجہ اتم موجود ہے۔لہذا ان کے حرام اور ناجائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں

امام ابوبکر حصاص حضرت ابن عباس رضی ا للہ تعالیٰ عنہ کا ایک قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ''مخاطر وجوا ہے۔''(احکام القرآن :ص 1/329)

دوسرے مقام پر جوئے کی حقیقت بیان کرتے ہوئے لکھتےہیں:

''جوئے کی حقیقت یہ ہے کہ کسی کو فکر اور اندیشے کی بنا پرمال کا مالک بنادیا جائے۔(احکام القرآن :ج11'465)

یعنی نتائج سے قبل کسی موہوم خطرہ کے پیش نظر فکر اور اندیشے میں مبتلا ہونا ہے۔ کہ اسے کیا ملے گا۔کم یازیادہ یا محروم رہے گا۔جو ئے میں جو رقم ملتی ہے۔وہ محنت یا کسی خدمت کا صلہ نہیں ہوتی۔بلکہ محض اتفاقی امور پر ا س کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔بعینہ یہ صورت حال انعامی سکیموں میں پائی جاتی ہے۔بعض لوگ اسے انعام کہہ کر جائز سمجھتے ہیں حالانکہ اس طرح کسی کو دی جانے والی رقم کو کسی صورت میں انعام نہیں کیاجاسکتا کیونکہ :

1۔انعام حسن کی کارگردگی یا اعلیٰ خدمات کاصلہ ہوتا ہے جبکہ اس میں ایسا نہیں ہوتا۔

2۔انعام حاصل کرنے والے سے کچھ وصول نہیں کیا جاتا جبکہ انعامی سکیموں میں شمولیت کے لئے کچھ نہ کچھ دینا پڑتا ہے۔

3۔انعام میں کچھ وجوہ ترجیح ہوتی ہے۔ جب ان سکیموں میں کامیابی کی بنیاد محض ''اتفاق'' ہے۔

اس کاروبار کے حرام ہونے کے لئے یہ کافی ہے۔کہ اس میں جمع شدہ رقم سے کچھ حصہ تقسیم کرکے باقی رقم ہڑپ کرجانا لوگوں کا مال ناجائز زرائع سے کھانا ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے سختی سےمنع فرمایا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

''تم آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقہ سے مت کھاؤ۔''(4/النساء :29)

لہذا جن حضرات نے سے جوئے کی قسم قرار دیتے ہوئے حرام اور ناجائز کہا ہے وہ برحق اور ان کا موقف بالکل صحیح اور درست ہے۔قسمت آزمائی کا سہارا لےکر اسے درست کہنا بھی صحیح نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ قسمت آزمائی جس کی بنیاد محض و وہم گمان اور اتفاقی امر پر ہو وہ ناجائز ہے جیسا کہ قرآن کریم میں تیروں کے زریعے قسمت آزمائی کو حرام ٹھرایا گیا ہے فرمان ربانی ہے:

''تمہارے لئے یہ بھی حرام ہے۔ کہ تم پانسوں کے زریعے اپنی قسمت معلوم کرو۔''(5/المائدہ :3)

اس کے علاوہ اسلام میں قرعہ اندازی کی و سادہ سی صورت کو جائز کہا گیا ہے جس میں دو مساویانہ حقوق رکھنے والوں کے درمیان فیصلہ کیاجاتا ہے۔لہذا ایسی قرعہ اندازی جس میں قرعہ ڈالنے والوں کے حقوق مساوی نہ ہوں بلکہ صرف سکیم میں شمولیت کی وجہ سے ان کا حق تسلیم کیا جائے اسے کماراور جوا کہا جاتاہے۔ ایک مسلمان کے لئے ان سے بچنا ضروری ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث
ج1ص264

محدث فتویٰ
 
Last edited:

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
لیکن محترم شیخ!
اوپر جو حرام اور جائز کو جمع کیا اسکا مطلب؟
کیا کتابت کی غلطی ہے؟
 
Top