• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پردہ پوشی اور حیا

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
پردہ پوشی اور حیا

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ حَیِّيٌّ سِتِّیْرٌ یُحِبُ الْحَیَائَ وَالسِّتْرَ فَإِذَا اغْتَسَلَ أَحَدُکُمْ فَلْیَسْتَتِرْ۔ ))1
’’ بے شک اللہ تعالیٰ ستیر (بہت پردہ ڈالنے والا) اور حیا دار ہے (چنانچہ) وہ حیا اور پردہ پوشی کو پسند کرتا ہے۔ پس جب تم میں سے کوئی نہائے تو اسے پردہ کرنا چاہیے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی ہے:
(( اَلْاِیْمَانُ بِضْعٌ وَّسَبْعُوْنَ شُعْبَۃً؛ وَالْحَیَائُ شُعْبَۃٌ مِنَ الْاِیْمَانِ۔ ))2
’’ ایمان کی ستر سے کچھ زیادہ شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔ ‘‘
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- صحیح سنن أبي داؤد، رقم: ۳۳۸۷۔
2- أخرجہ مسلم في کتاب الإیمان، باب: بیان عدد شعب الإیمان، رقم: ۱۵۲۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آتا ہے کہ :
(( کَانَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم أَشَدُّ حَیَائً مِنَ الْعَذْرَائِ فِيْ خِدْرِھَا۔ ))1
’’ آپ پردے میں رہنے والی کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیا دار تھے۔ ‘‘
تشریح…: حیاء لغوی اعتبار سے حیاۃ (زندگی) سے ماخوذ ہے اور آدمی کی حیا اس میں قوت حیاۃ سے تعلق رکھتی ہے۔ کیونکہ حیادار انسان انجام کے مواقع کو بڑی اچھی طرح مدنظر رکھتا ہے۔ حیاء حس کی قوت، لطافت اور حیاۃ کی قوت سے ہوتی ہے اور انسان میں دل کی زندگی کے مطابق حیاء کی قوت پیدا ہوتی ہے۔
جب دل اور روح کی موت واقع ہوجائے تو حیا میں کمی آجاتی ہے چنانچہ جتنا دل زندہ ہوگا اتنی ہی حیا کامل ہوتی جائے گی غیرت اور انکساری کا نام حیاء ہے جو انسان پر عیب دار کرنے والی اشیاء کے خوف سے طاری ہوتی ہے۔
بعض اوقات محض کسی چیز کو کسی سبب کی بناء پر چھوڑنے کو حیاء کہہ لیا جاتا ہے اور کسی چیز کو ترک کرنا حیاء کے لوازمات میں سے ہے۔
اصطلاح شرع…: ایسی عادت حیاء کہلاتی ہے جو بری چیز سے اجتناب پر ابھارے اور حق والے کے حق میں کمی کرنے سے روکے۔
کہا گیا ہے کہ اللہ کی نعمتوں کو اور اپنی کوتاہی کو دیکھنے سے جو حالت پیدا ہوتی ہے اسے حیاء کہتے ہیں۔ گو حیاء فطری ہوتی ہے لیکن پھر بھی اسے ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے کیونکہ بعض اوقات اسے بھی دیگر نیک اعمال کی طرح کوشش و محنت کرکے حاصل کیا جاتا ہے اور عادت بنایا جاتا ہے لیکن بسا اوقات یہ فطرت میں پہلے سے ہی شامل ہوتی ہے لیکن چونکہ شرعی قانون کے مطابق اس کا استعمال اکتساب، نیت اور علم پر مبنی ہوتا اس لیے اس کو ایمان کا جزو شمار کیا گیا ہے۔
اور اس وجہ سے بھی یہ ایمان کا حصہ بنتی ہے کہ حیاء نیک اعمال پر ابھارنے اور نافرمانیوں سے رکنے کا کام دیتی ہے۔ انسان میں حیاء تین اقسام پر مشتمل ہوتی ہے۔
(۱) اللہ تعالیٰ سے حیا
(۲) لوگوں سے حیا
(۳) اپنے آپ سے حیا۔
اللہ سے حیاء اس کے اوامر پر عمل کرکے اور اس کے ڈانٹ والے کاموں سے رک کر ہوتی ہے ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- أخرجہ البخاري في کتاب الأدب، باب: الحیاء، رقم: ۶۱۱۹۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
(( اِسْتَحْیُوْا مِنَ اللّٰہِ تَعَالیٰ حَقَّ الْحَیَائِ، مَنِ اسْتَحْیَا مِنَ اللّٰہِ حَقَّ الْحَیَائِ فَلْیَحْفَظِ الرَّأْسَ وَمَا وَعَی، وَلْیَحْفَظِ الْبَطَنَ وَمَا حَوَی، وَلَیَذْکُرِ الْمَوْتَ وَالْبِلَا، وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَۃَ تَرَکَ زِیْنَۃَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا، فَمَنْ فَعَلَ ذٰلِکَ فَقَدِ اسْتَحْیَا مِنَ اللّٰہِ حَقَّ الْحَیَائِ۔ ))1
’’ اللہ تعالیٰ سے ویسے حیا کرو جیسے حیا کرنے کا حق ہے۔ چنانچہ جس نے اللہ تعالیٰ سے کماحقہ حیاء کی تو وہ اپنے ذہن، خیالات اور اعضاء وغیرہ کی حفاظت کرے اور اپنے پیٹ اور روزی کی حفاظت کرے۔ موت اور بوسیدہ ہونے کو یاد رکھے اور جس نے آخرت کا ارادہ کیا اس نے دنیا کی زندگانی کی زیب و زینت ترک کردی چنانچہ جس نے یہ کام کرلیے تو اس نے اللہ تعالیٰ سے شرمانے اور حیاء کرنے کا حق ادا کردیا۔ ‘‘
یہ حیاء، دین کی قوت اور یقین کی صحت سے حاصل ہوتی ہے۔
لوگوں کے شرمانے کا مفہوم اس وقت ہوتا ہے جب ان کو تکلیف نہ پہنچائی جائے اور فضول قسم کی بات پر دشمنی مول نہ لی جائے۔ حیاء کی یہ قسم نوع مروت کے کامل ہونے اور اپنی ثناء و تعریف کو پسند کرنے سے ابھرتی ہے۔
اپنے آپ سے شرمانے کا مفہوم پاک دامنی اور تنہائیوں کی حفاظت سے پورا ہوتا ہے۔ یہ قسم نفس کی فضیلت اور اچھی نیت سے حاصل ہوتی ہے۔
جب انسان میں تینوں قسموں کی حیاء مکمل ہوگی تو اس میں خیر کے اسباب بھی کامل ہوجائیں گے اور برائی کے اسباب کی نفی ہوجائے گی اور اس کا ذکر فضل کے ساتھ اور خوبصورتی کے ساتھ ہوگا اور اگر کوئی بھی وجہ کم ہوئی تو اس کے بقدر اس سے فضل بھی کم ہوتا جائے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( اَلْحَیَائُ لَا یَأْتِيْ إِلاَّ بِخَیْرٍ۔ ))2
’’ حیا سے فقط بھلائی ہی حاصل ہوتی ہے۔ ‘‘
مزید فرمایا:
وَقَالَ صلی اللہ علیہ وسلم :
(( اَلْحَیَائُ خَیْرٌ کُلَّہُ۔ ))3
’’ حیاء تمام کی تمام خیر ہے۔ ‘‘
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1-صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۹۳۵۔
2- أخرجہ مسلم في کتاب الإیمان، باب: بیان عدد شعب الایمان، رقم: ۱۵۶۔
3- أخرجہ مسلم في کتاب الإیمان، باب: بیان عدد شعب الایمان، رقم: ۱۵۷۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ان احادیث میں اس بات کی طرف اشارہ کا بھی احتمال ہے کہ جس انسان میں حیاء کی عادت ہوگی اس میں بھلائی کا عنصر غالب ہوگا چنانچہ حیاء کے ذریعہ جو بھلائی حاصل ہوگی اس کے مدمقابل اگر اس سے کوئی غلط حرکت سرزد ہوجائے تو اس کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی یا مکمل بھلائی اس وجہ سے ہوتی ہے کہ جب انسان اس کو عادت بنا لیتا ہے تو یہ اپنی طرف بھلائی کو کھینچ لانے کا سبب بن جاتی ہے چنانچہ اس میں سبب اور ذات دونوں وجہ سے بھلائی ہوگی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إِنَّ مِمَّا أَدْرَکَ النَّاسُ مِنْ کَلَامِ النُّبُوَّۃِ الْأُوْلٰی: إِذْا لَمْ تَسْتَحِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ۔))1
’’بلاشبہ قدیم کلام نبوت میں سے جو کچھ لوگوں نے حاصل کیا وہ یہ یوں بھی ہے:’’ جب تو حیاء نہیں کرتا تو جو چاہتا ہے کر گزر۔ ‘‘
حدیث کو جملہ خبریہ کی بجائے انشائیہ بنانے کی حکمت یہ ہے کہ انسان کو شر کے مواقع سے بچانے والی چیز حیاء ہے اور جب اس کو چھوڑ دے گا تو گویا ایسے ہوگیا جیسے اسے طبعی طور پر ہر برائی کرنے پر مامور کیا گیا ہے۔
اس کو امر تہدیدی (یعنی ڈانٹ کا حکم) بھی کہا گیا ہے: پھر حدیث کا معنی ہوا کہ جب تجھ سے حیاء نکل گئی تو جو مرضی کر، لیکن یادد رہے اللہ تعالیٰ اس پر تیری پکڑ کرے گا اور سزا سے دو چار کرے گا۔ اس حدیث میں حیاء کے معاملہ کے بھاری ہونے کی طرف بھی اشارہ ہے۔
یہ بھی کہا گیا ہے یہ امر بمعنی خبر ہے یعنی جس کی حیا ختم ہوگئی وہ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( مَا کَانَ الْفُحْشُ فِی شَیْئٍ إِلَّا شَانَہُ مَا کَانَ الْحَیَائُ فِيْ شَيْئٍ إِلَّا زَانَہُ۔))2
’’ حیاء جس چیز میں بھی ہوتی ہے اسے خوبصورت بنا دیتی ہے۔ ‘‘
(فی شیء: کسی چیز میں) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس لفظ میں مبالغہ ہے یعنی اگر کسی جامد چیز میں بھی حیاء ہو تو وہ بھی خوبصورت ہوجاتی ہے اور اگر انسان میں آجائے تو کیا ہی کہنے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1-أخرجہ البخاري في کتاب الأدب، باب: إذا لم تستح فاصنع ما شئت رقم : ۶۱۲۰۔
2- صحیح سنن الترمذي، رقم : ۱۶۰۷۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
پردہ: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِکُمْ وَرِیْشًا وَلِبَاسُ التَّقْوٰی ذٰلِکَ خَیْرٌ ذٰلِکَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰہِ لَعَلَّھُمْ یَذَّکَّرُوْنَ o} [الاعراف : ۲۶]
’’ اے آدم کی اولاد! ہم نے تمہارے لیے لباس پیدا کیا تھا جو تمہارے پردہ والے بدن کو بھی چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے ۔رہا تقویٰ کا لباس، یہ اس سے بڑھ کر ہے۔ ‘‘
اللہ ذوالجلال تمام انسانوں کو شرم گاہوں اور جسموں کو ڈھانپنے کا حکم دے رہے ہیں کیونکہ وہ پردہ کو پسند کرتا اور ننگا رہنے کو ناپسند کرتا ہے۔
ایسے ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پردے اور ستر کی حفاظت کا حکم دیا ہے اور بے پردگی سے منع فرمایا ہے۔
(( عَنِ الْمَسْتُورِ بْنِ مَخْزَمَۃِ قَالَ: اَقْبَلْتُ بِحَجَرٍ، أَحْمِلُہُ ثَقِیْلٍ، وَعَلَیَّ إِزَارُ خَفِیْفٌ قَالَ: فَانْحَلَّ إِزارِی وَمَعِیَ الْحَجَرُ لَمْ أَسْتَطِعْ أَنْ أَضَعَہُ حَتَّی بَلَغْتُ بِہٖ إِلٰی مَوْضِعِہٖ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ: إِرْجِعْ إِلٰی ثَوْبِکَ فَخُذْہُ لَا تَمُشْوُاْ عُرَاۃً ))1
’’جنابِ مسور بن مخزمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:میں ایک پتھر لارہا تھا جو مجھے بہت بھاری محسوس ہورہا تھا اور میرے پاس ہلکا سا تہبند تھا کہتے ہیں ’’پس میری تہبند اتر گیا اور میرے پاس پتھر تھا میں اتنی سکت نہ پاتا تھا کہ اسے اس کی اصل رکھنے کی جگہ سے پہلے اتار سکوں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’واپس جاکر اپنا کپڑا پکڑلاؤ ننگے ہونے کی حالت میں مت چلو۔ ‘‘
دوسری حدیث میں فرمایا:
(( إِذَا اغْتَسَلَ أَحَدُکُمْ فَلْیَسْتَتِرْ۔))2
’’ جب تم میں سے کوئی ایک غسل کرے تو پردہ اختیار کرے۔ ‘‘
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- أخرجہ مسلم في کتاب الحیض، باب: الاعتناء بحفظ العورۃ رقم : ۷۷۳
2- صحیح سنن أبي داود، رقم ۳۳۸۷۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
یہ بھی ارشاد ہے:
(( إِحْفَظْ عَوْرَتَکَ إِلاَّ مِنْ زَوْجَتِکَ أَوْ مَا مَلَکَتْ یَمِیْنُکَ قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِذَا کَانَ الْقَوْمُ بَعْضُھُمْ فِی بَعْضٍ؟ قَالَ: إِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ لاَّ یَرَیَنَّھَا أَحَدٌ فَلَا یَرَیَنَّھَا قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِذَا کَانَ أَحَدُنَا خَالِیًا، قَالَ: اللّٰہُ أَحَقُّ أَنْ یُسْتَحْیَا مِنْہُ مِنَ النَّاسِ۔))1
’’ اپنی شرمگاہ کی حفاظت کر سوائے اپنی بیوی اور لونڈی کے، میں نے (صحابی کا قول ہے) کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! جب لوگ ایک دوسرے کے پاس ہوں (یعنی اکٹھے ہوں) فرمایا: اگر تم میں طاقت ہے کہ اسے کوئی نہ دیکھ سکے تو ایسا ہی کر کہ کوئی نہ دیکھ سکے، میں نے عرض کی :اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! جب ہم میں سے کوئی تنہا ہو تو؟ فرمایا: لوگوں سے زیادہ اللہ کا حق ہے کہ اس سے شرم اور حیاء کی جائے۔ ‘‘
اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ سے پردہ کر، کیونکہ اس سے چھپنا تو ممکن ہی نہیں لہٰذا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی فرمانبرداری اور اس کی محبوب اور پسندیدہ چیز کو طلب کرتے ہوئے پردہ کر۔2
اس موضوع پر ایک حدیث یہ بھی ہے کہ:
(( عَنْ عَبْد ِالرَّحْمٰنِ بْنِ جَرْھَدٍ قَالَ: کَانَ جَرْھَدٌ ھَذَا مِنْ أَصْحَابِ الصُّفَّۃِ، قَالَ: جَلَسَ رَسُوْلُ اللّٰہِ عِنْدِنَا وَفَخِذِیْ مُنْکَشِفَۃٌ فَقَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْفَخِذَ عَوْرَۃٌ۔))3
’’عبد الرحمن بن زید سے روایت ہے انہوں نے کہا جرھد اصحاب صفہ میں سے تھے۔ انہوں نے کہا ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف فرما ہوئے۔ اُس وقت میری ران سے کپڑا ہٹا ہوا تھا۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ کیا تو نہیں جانتا کہ ران ستر ہے؟ (اسے ڈھانپ کر رکھ)‘‘
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
(( مَا مِنِ امْرَأَۃٍ تَخْلَعُ ثِیَابَھَا فِيْ غَیْرِ بَیْتِھَا إِلاَّ ھَتَکَتْ مَا بَیْنَھَا وَبَیْنَ اللّٰہِ تَعَالٰی))4
’’ جس عورت نے اپنے گھر کے علاوہ کسی اور جگہ میں کپڑے اتارے تو اس کے اور اللہ کے درمیان جو چیز تھی اس نے اسے پھاڑ دیا۔ ‘‘
کیونکہ عورت کو اجنبی سے پردہ کرنے کا حکم ہے اور ستر صرف خاوند کے پاس کھولنا جائز ہے چنانچہ جب اللہ تعالیٰ کا خوف اس کے دل سے نکل گیا اور اس نے خاوند کے گھر کے علاوہ کسی اور جگہ میں کپڑے اتارے اور اپنے اعضاء ظاہر کردیے تو جس پردے کا اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا تھا وہ اس نے پھاڑ کر پھینک دیا نیز اس نے حیا اور ادب کا پردہ بھی پھاڑ دیا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1-صحیح سنن أبي داود، رقم : ۳۳۹۱۔
2- عون المبعود، ص: ۳۹، جلد: ۱۱۔
3- صحیح سنن أبي داود، رقم : ۳۳۸۹۔
4-صحیح سنن أبي داود، رقم : ۳۳۸۶۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اللہ تعالیٰ (حَیِّيٌّ) یعنی بہت زیادہ حیاء والا ہے اس لیے جو اس سے سوال کرتا ہے اسے خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا (سِتِّیرہے) بری اشیاء کی محبت کو چھوڑنے والا، عیبوں اور رسوائیوں کو چھپانے والا ہے۔
اس کے ارادے اور شان میں پردے اور حیاء کی محبت شامل ہے چنانچہ بندے کی طرف سے بھی وہ حیاء اور پردے کو پسند کرتا ہے تاکہ بندہ اللہ تعالیٰ کے اخلاق کو عادت بنا سکے۔
اس حدیث میں بندوں کے لیے حیاء و پردے کو تلاش کرنے اور ننگا نہ ہونے پر ابھارنا اور اشارہ کرنا مقصود ہے۔1
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1-نووی شرح مسلم ص ۵، ۲/ فتح الباری ص ۵۲، ۱/ ص ۵۲۳، ۱۰/ ادب الدنیا والدین للماوردی ص ۲۵۸۔ ۲۶۰/ مدارج السالکین لابن القیم ص ۲۴۸، ۲/ تحفۃ الاحوذی ص ۹۳، ۶/ عون المعبود ص ۳۲۔۳۴، ۱۱/ حاشیہ سندی شرح نسائی ص ۲۱۸، ۱]

اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند
 

نسرین فاطمہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 21، 2012
پیغامات
1,281
ری ایکشن اسکور
3,232
پوائنٹ
396
جزاک اللہ خیرا واحسن الجزاء فی الدنیا ولآخرۃ
 

عبدالقیوم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 25، 2013
پیغامات
825
ری ایکشن اسکور
433
پوائنٹ
142
اللہ علم وعمل میں برکت ڈالے آمین
 
Last edited by a moderator:
Top