• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پلاٹ کی زکوۃ کے متعلق سوال

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
پلاٹ کی زکوۃ کے متعلق سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
زکوٰۃ کے حوالے سے کچھ سوالات ہیں...
1. زید سعودی عرب میں ایک کمپنی میں ملازم ہےوہ اپنی جمع پونجی سے منافع حاصل کرنے کی نیت سے کچھ پلاٹس اپنے ملک میں خریدے، کچھ سستی قیمت کے ہیں تو کچھ مہنگی، کسی پلاٹ پر اگر سال گزر جائے تو اس کی مالیت کے اعتبار سے زکوٰۃ ادا کر دیتا ہے۔
امسال چند ماہ قبل اس نے ایک بیس لاکھ کا پلاٹ خریدا ہے، اب وہ یہ جاننا چاہتا ہے کہ اگر اس پلاٹ پر بھی ایک سال گزر جائے اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا وقت آن پہنچے تو اس پلاٹ کی قیمت کے اعتبار سے پچاس ہزار روپے کی زکوٰۃ بنتی ہے جبکہ اگر وہ پلاٹ بیچنے پر منافع بھی اتنا ہی آنے والا ہے یعنی پچاس ہزار روپے۔ اب اس کا سوال یہ ہے کہ اگر وہ زکوٰۃ ادا کرتا ہے تو منافع سے محروم رہے گا اور اگر زکوٰۃ ادا نہ کرے تو گنہگار ہوگا۔ اب اس کا شرعی حکم جاننا چاہتا ہے۔
2. پلاٹس اور زمینوں پر زکوٰۃ کب نکالی جائے گی ہر سال یا پھر جب بِک جائے تب؟
3. بچیوں کی شادی کے لئے کچھ پلاٹس خرید کر رکھ دئیے جاتے ہیں کیا ان پر بھی ہر سال زکوٰۃ واجب ہے؟
ان سوالات کے شرعی جوابات مدلل انداز میں مطلوب ہیں۔جزاکم اللہ خیرا
سائل : عبادالرحمن دکن، حیدرآباد

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الحمد للہ :
اللہ تعالی نے ہمارے اوپر زکوۃ کو فرض قرار دیا ہےاور زکوۃ سے سماج کے بہت سارے مسائل حل ہوتے ہیں ۔ یہ زکوۃ صرف انہیں لوگوں کو دینا ہوتا ہے جن کے پاس ضرورت سے زائد مال ہواس لئے مالدار میں اپنے مالوں کو پاک کرنے اور اپنے مال سے غریب ومحتاج کی مدد کرنے کا مخلصانہ جذبہ کارفرما ہو۔
جن چار چیزوں میں زکوۃ ادا کرنی ہے ان میں سے ایک مال تجارت ہے ۔گوکہ اموال تجارت میں زکوۃ نکالنے کے متعلق اختلاف ہے مگر صحیح بات یہی ہے کہ ان میں بھی زکوۃ نکالنا ہے ۔ ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اور احمد وغیرہ میں ہے ۔
كنَّا في عَهْدِ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ نُسمَّى السَّماسِرَةَ فمرَّ بِنا رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ فسمَّانا باسمٍ هوَ أحسَنُ منهُ، فقالَ: يا معشرَ التُّجَّارِ، إنَّ البيعَ يحضرُهُ اللَّغوُ والحلفُ، فَشوبوهُ بالصَّدقةِ(صحيح أبي داود:3326)
ترجمہ: ہمیں (تاجرکو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سماسرہ کہا جاتا تھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس سے گزرے تو ہمیں ایک اچھے نام سے نوازا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے سوداگروں کی جماعت! بیع میں لایعنی باتیں اور (جھوٹی) قسمیں ہو جاتی ہیں تو تم اسے صدقہ سے ملا دیا کرو یعنی صدقہ کرکے اس کی تلافی کرلیا کرو۔
سمرہ بن جندب سے مروی ایک روایت اس طرح کی آتی ہے ۔
إنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلم كان يأمرُنا أن نُخرِجَ الصَّدقةَ من الذي نُعِدُّ للبيعٍ(سنن أبي داود:1562)
ترجمہ:رسول اللہ ﷺ ہمیں حکم دیتے تھے کہ جو سامان ہم نے تجارت کی غرض سے رکھا ہوا ہے اس سے زکوٰۃ ادا کریں۔
اس کی سند کو شیخ البانی سمیت کئی محدثین نے ضعیف کہا ہے تاہم شیخ ابن باز نے اسے مشہور کہا ہے اور اس کے لئے شاہد ہے یہ بھی کہا ہے ۔دیکھیں : (فتاوى نور على الدرب لابن باز:15/253، مجموع فتاوى ابن باز: 167/14)
نافع مولی ابن عمر سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے جسے حافظ ابن حجر عسقلانی نے درایہ میں، امام شافعی نے الام میں ، بیہقی نے السنن الکبری میں، ابن حزم نے المحلی میں اور امام نووی نے المجموع میں ذکر کیا ہے ۔
عنِ ابنِ عمرَ ليسَ في العُروضِ زَكاةٌ إلَّا ما كانَ للتِّجارةِ.
ترجمہ: نافع مولی ابن عمر سے روایت ہے کہ سامان میں زکوۃ نہیں ہے الا یہ کہ وہ تجارت کے لئے ہو۔
(الدراية:1/261, السنن الكبرى للبيهقي:4/147 , المحلى:5/234, المجموع:6/48, الإمام الشافعي: 2/46)
اس سے بات صاف ہوجاتی ہے کہ مال تجارت میں زکوۃ ہے اور یہ بھی معلوم رہے کہ مال تجارت اور اس کے منافع دونوں کو جوڑ کر زکوۃ دی جائے گی جب یہ نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر ایک سال کی مدت گزرجائے ۔
مال تجارت میں ہر وہ چیز داخل ہے جس سے تجارت کی جاتی ہےخواہ پرچون کی دوکان ہو، گاڑیوں کا شوروم ہو یا پلاٹوں کی خریدبکری ۔
ہم میں سے بعض لوگ پلاٹ کے سلسلے میں خرید تے وقت یہ نیت کرلیتے ہیں کہ جب اس کی قیمت بڑھے گی تب بیچ دیں گے ۔ اس نیت سے خریدے گئے پلاٹ کا حکم مال تجارت کی طرح ہے ۔ جس طرح مال تجارت میں زکوۃ دیتے ہیں اسی طرح اس نیت سے خریدے گئے پلاٹ پر بھی زکوۃ دیں گے ۔دو شرطوں کے ساتھ کہ اس کی قیمت نصاب زکوۃ تک پہنچتی ہو اور اس پر ایک سال گزرجائے ۔
پہلے سوال کا جواب یہی ہے کہ بیس لاکھ کے پلاٹ پر ایک سال گزرجانے کے بعد پچاس ہزار زکوۃ کے طور پر ادا کرنا ہوگا۔ جہاں تک منافع سے محرومی کی بات ہے تو اللہ تعالی نے مالداروں کے مال میں ضرورتمندوں کا حق رکھا ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ (الذاريات:19)
ترجمہ: اور ان کے مال میں مانگنے والوں کا اور سوال سے بچنے والوں کا حق تھا۔
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ بیچنے کی نیت سے خریدے گئے پلاٹ کی ہرسال زکوۃ دینی ہوگی۔
تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ بچیوں کی شادی کے لئے خریدے گئے پلاٹ شادی میں بیچنے کی نیت سے ہو تو اس پر بھی سالانہ زکوۃ ہے ۔

واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
مقبول احمد سلفی

 
Top