• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پنجاب اسمبلی اجلاس( بجٹ 2018)مہذب لوگوں کی بدتہذ یبیاں((ظفر اقبال ظفر))

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
281
ری ایکشن اسکور
21
پوائنٹ
104
((ظفر اقبال ظفر))
پنجاب اسمبلی بجٹ 2018مہذب لوگوں کی بدتہذ یبیاں
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور قیامت تک کے آنے والے لوگوں کے لیے بلا تفریق مذہب مکمل رہنمائی کرتا ہے ۔ اسلام کا یہ خاصہ ہےکہ امن و سلامتی ‘رواداری و محبت‘ ایثار و قربانی ‘اخوت و بھائی چارہ‘صبرواستقلال‘برداشت وتحمل‘بردباری اور فراخ دلی ‘خوش طبی اور خوش اخلاقی کا درس ہی نہیں دیتا بلکہ اس کامکمل نظام پیش کرتاہے اور دیگر اقوام عالم کی اخلاقی پستی نےجس قدر معاشروں کو دیمک زدہ کیا تاریخ انسانی کا یہ ایک سیاہ باب ہے۔عرب معاشرے کی مثال ثبوت کے لیے پیش کرناضروری سمجھتا ہو ں۔اسلام کی آمد سے قبل عرب معاشرہ جو کہ قبائلی نظام پر مشتمل ’ظلم وجبر ‘قتل و غار ت ‘فتنہ و فساد ‘ راہزنی ‘ڈکیٹی ‘بد امنی و دہشت گردی ‘ جنسی ہراسگی ‘دختر کشی اوراخلاقی تنزلی جیسے جرائم کی آماجگاہ بن چکا تھا۔عربوں میں قبائلی تعصب اورخاندانی فخر سے شروع ہونے والےجنگ و جدل کےلا متناہی سلسلے نے ہزاروں لوگ اورخاندانوں کے خاندان سفائے ہستی سے مٹا دیئے ۔ قبیلے کا سردار غریب اور نادار لوگوں کو غلام بنائے رکھتا ‘جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون گردش ایام تھا ‘لاقانونیت کی کالی گھٹائیں ہر سو چھائی ہوئی تھیں۔خوف و ہراس نے
لوگو ں کا جینا دو بھر کر دیا تھا ۔
’’قانون الہی ہے کہ جب معاشرہ اس قدر برائیوں کی آمجگاہ بن جائے اور اخلاقی پستیوں میں گر چکا ہو ں تو اللہ تعالیٰ معاشروں کی اصلاح اور قوموں کی تعلیم و تربیت کے لیے ان میں انبیاء و رسل کو معجزات اور کتب سماویہ کے ساتھ بھیج کر ان کی ہدایت کا سامان کرتا ہے ۔جولوگ انبیا ء کی دعوت کو قبول کر لیں ان کے لیے بہت سارے انعامات اللہ کی طرف سے نازل ہوتے ہیں اور جو لوگ انبیاء و رسل کی تکذیب کر دیں تو اللہ تعالیٰ عذاب مسلط کر کے انہیں سفائے ہستی سے مٹا دیتا ہے ۔‘‘
اس قانو ن کے مطابق عرب معاشرہ جب مکمل طور پر اخلاقی پستی اور معاشرتی برائیوں سے دیمک زدہ ہوگیا تب اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی ہدایت اور اصلاح کےلیے تاکہ اللہ کی طرف سے حجت قائم ہو جائے ‘عبد اللہ بن عبد المطلب کے گھر سے ختم نبوت کا سراج منیر اور آفتاب بشریت طلوع کر کے قوم اور عربوں کی ہدایت و رہنمائی اور تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا ۔جن لوگوں نے نبی اکرم ﷺ کی تکذیب کی اور استہزاءکیا وہ لوگ برباد کردئیے گئے۔جن لوگو ں نے نبی اکرم ﷺ کی اطاعت و فرمابرداری کی وہ کامیاب و کامران ٹھہرے۔ان کو دنیا میں رضی اللہ عنھم ورضوءعنہ کا سرٹیفکیٹ اور ابوبکر فی الجنۃ‘ عمر فی الجنۃ کی صورت میں دنیا میں ہی جنت کی بشارت دی۔جومخالفین تھے جنہوں نے مکہ میں پتھر مارے ‘کبھی مجنو اور دیوانہ کہا ‘کبھی گندگی پھینکی تو کبھی مکہ کی سر زمین سے ہجرت کرنے پر مجبور کیا ‘فتح مکہ کے وقت (لا تثریب علیکم الیوم )کہہ کر سب کو معاف کر دیا ۔اس کا اثر تھا کہ لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے ۔
عرب معاشرہ خصوصاً مکہ مکرمہ جس کے باسی عزتوں کے لٹیرے تھے عزتوں کے محافظ بن گئے ۔جو راہزن تھے وہ امانت ودیانت کی صفات حمیدہ سے متصف ہو گئے ۔جو قاتل تھے وہ جان نثار اور بھائی بندی کی اعلیٰ مثال کچھ اس طرح بنے کہ اپنی جائیدادوں میں مہاجرین کو شریک کرنے والے بن گئے ‘کسی نے اپنی ایک بیوی کو طلاق دے کر اپنے مہاجر بھائی کو کہا اس سے شادی کر کے اپنا گھر آباد کر و‘کسی نے اپنا کھانا مہمان کو پیش کرکے خود بھوک برداشت کی ‘ کسی نے لوگوں کو ظلم و جبر سے نکالنے کے لیے پانی کا کنوا وقف کردیا۔ اس طرح عر ب معاشرہ ایک مہذب معاشرہ بن گیا اور دیکھتے دیکھتے ہی عرب کی سر زمین میں کوئی جرم باقی نہ رہا ۔تاریخ شاہد ہے کہ جن قوموں نے ترقی کی ہے ان کے لیڈروں اور بڑے لوگوں نے اپنی قوم کی خاطر بڑی قربانیاں دیں ۔اس قوم کے لیڈر وں نے وسیع تر مفادات کی خاطر ذاتی فائدے کو قربان کر دیا ۔ قوم کے بڑے قوم کے لیے نمونہ اور آئیڈیل ہوتے ہیں اورقومیں ان کو دیکھ کر اپنے مستقبل کا فیصلہ کرتی ہیں ۔اس طرح اجتمائی جدو جہد سے قومیں بڑے چیلنجزوں کا سامنا کرنے پر تیار ہو جاتی ہیں ۔آج لوگ حقوق انسانی و احترام آدمیت اور صفائی کی مثال پیش کرتے وقت یورپ کی مثال دیتے ہیں کہ وہا ں انسان تو کیا حیوانوں کےحقوق کےمتعلق بھی معاشرے میں قوانین نافذ العمل ہیں۔ یہ کس حد تک درست ہےیہ میری گفتگو کاموضوع نہیں ۔
قارئین کرام ! آج ہم جس معاشرے میں جی رہے ہیں اس معاشرےکو مہذب اورتہذیب و تمدن کا گہوارہ بنانے کے بلندو بانگ دعوے کرنے والے‘ اس معاشرے کو مدینے جیسا معاشرہ بنانے کےلیےتہذیب و تمدن اور ترقی کی گردان کرتے نہیں تھکتے ۔وہ لوگ جنہوں نے قوم کو ایثار و محبت ‘تحمل و بردباری اور برداشت کا درس دینا تھا ان کا اپنا کردار کسی صورت تہذیب یافتہ نہیں ۔
’’16 اکتوبر 2018 بروز منگل کوپنجاب اسمبلی کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں حکومت وقت کی جانب سے پہلا 2026 ارب کا فری ٹیکس بجٹ پیش کیا گیا۔ (ن) لیگی ارکان اسمبلی نے بجٹ کی کاپیا ں پھاڑ دیں اور گو نیازی گو کے نعرے لگانے لگے۔ اس پر بس نہیں ایوان اسمبلی میں تو ڑ پھوڑ میں جس سے جتنا ہو سکا وہ کر گزرا۔دوسری طرف پی ٹی آئی ارکان اسمبلی نے بھی جوابی کاروائی کرتے نعرے بازی کی جوکہ دیکھتے ہی دیکھتے باہم دست وگریبان اور تھپڑوں اور گونسوں کے آزادانہ استعمال کی صورت اختیار کر گئی۔ایوان اسمبلی مچھلی منڈی کی عملی تصویر پیش کرنے لگا ۔‘‘
یاد رکھیں !جو قومیں باہم دستو گریباں ہو اور اختلافات کی نظر ہو وہ قومیں اتحاد و اتفاق کی دولت سے محروم ہو جاتی ہیں اور وہ قومیں کبھی اپنے دشمن کے خلاف نہیں لڑسکتیں ۔ان قوموں کو فتح کرنے کے لیے باہر سے کسی دشمن کی ہرگز ضرورت نہیں ہوتی ۔اس قوم کی برادی کے لیے یہی کافی ہے کہ شیطان ان میں پھوٹ ڈال دےجس سے دشمن کو کھل کر من مانی کا موقع میسر ہو جاتا ہے۔تاریخ انسانی گواہ ہے کہ قوموں کے زوال کے اسباب میں بڑا سبب باہمی اختلاف ہے اور جس قوم کو دشمن باہم لڑانے میں کامیاب ہو جائے وہ قوم بغیر جنگ کے فتح کی جاتی ہے۔جس قوم میں اختلاف پیدا ہو جائے اس کی نسلیں غلامی کی زندگی گزارنے پہ مجبور ہوجاتی ہیں ۔آپ دیکھیں افغانستان میں حکومت اور طالبان کی لڑائی سےکس نے فائدہ اٹھایا؟برصغیر کےمسلمانوں اور ہندوں کے اختلاف سےکس نے کئی سو سال برصغیر پر حکومت کی؟سعودی عرب اور ایران ویمن کے اختلافات سےکس نے فائدہ اٹھایا ؟شام اور ترکی کے اختلافات سےکس کو من مانی کا موقع ملا ؟پاکستان میں شعیہ وسنی اختلافات سے کس کو فائدہ ہوا؟سیاسی جماعتوں کے اختلافات سےکس کو فائدہ ہوا؟قوم کو دفاعی اداروں کے خلاف بڑکانے میں کون لوگ ملوث تھے اور ان کے کیا مفادات تھے ؟خدا راہ ذرا سمجھیے ان اختلافات کے پیچھے کون ہے؟ بس کریں بہت ہو چکے اختلافات اور بہت دہنگا فساد ہو چکا آئیے اب ملک و قوم کی خاطر جن سے ووٹ لے کر اسمبلیوں میں آئیے ہو ان کی نظریں تمہاری طرف ہیں کہ کب آپ اپنے اختلاف سے فارغ ہو کر قوم کی مسائل کےحل کی بات کریں۔نہ جانے کب آپ قوم کے مسیحا بنوں گے ؟کب قوم کی فلاح اور بہود کی طرف تو جہ کر وگے ؟ کب بےروز گاری سے تنگ خودکشی جیسے واقعات کی طرف توجہ کرو گے اور لوگوں کو روز گار دو گے تاکہ غریب کشکول توڑ کر خوشحالی کی زندگی بسر کرسکیں۔جس قوم کے لیڈر ان کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہو جائیں بس اختلاف اور ایک دوسرے پرالزام تراشی سے ہی ان کو فرصت نہ ہوتو وہ قومیں بھوک و افلاس کی نظر ہو کر چوری ‘ ڈاکہ زنی‘گداگری ‘حالات سے تنگ آکرخود کشی ‘خیانت‘ کرپشن ‘رشوت‘ سود خوری کی عادی بن جاتی ہیں۔اس قوم کی عورتیں بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی کی خاطر جسم فروشی پر مجبور ہو جاتی ہیں۔اس قوم کے نوجوان بے راہ روی اور ڈکیتی کےعادی بن جاتے ہیں ۔اس قوم کے بوڑھے دو وقت کی روٹی کی خاطر اولڈ ہوموں کا رخ کرنےپر مجبور ہو جاتے ہیں ۔بدقسمتی سے آج ہمارا معاشرہ ان سب برائیوں کی بینٹ چڑھ کر رہ گیا ہے۔دہشت گردی اور فسادات ہمارے معاشرےکا مقدر کیوں بنے؟نفرت و عداوت عوامی حلقوں میں کیوں پھیل رہی ہے ؟ہماری اجتماعی قوت کیوں کمزور ہوتی جا رہی ہے؟ بے روز گاری کا جن سر چڑ کیوں بولنے لگاہے ؟ان سب سوالوں کےجوابات 16 اکتوبر 2018 کو پیش کیے جانے والے پنجاب اسمبلی کےبجٹ اجلاس میں ہونے والی ہنگامہ آرائی ذرا غوروفکرسےآپ کو مل جائیں گے۔
 
Last edited:
Top