• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پندرہ شعبان کو کیا واقعی اعمال نامے بند کر کے زندگی موت کے فیصلے کئے جاتے ہیں؟ ؟؟؟

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
۷۔عَنْ عَائِشَۃَ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ قَالَ : ((ھَلْ تَدْرِیْنَ مَا ھٰذِہِ اللَّـیْلُ؟یَعْنِیْ لَیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ)) قَالَتْ مَا فِیْھَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ؟ فَقَالَ: ((فِیْھَا اَنْ یُکْتَبَ کُلُّ مَوْلُوْدٍ مِنْ بَنِیْ آدَمَ فِیْ ھٰذِہِ السَّنَۃِ وَفِیْھَا اَنْ یُکْتَبَ کُلُّ ھَالِکٍ مِنْ بَنِیْ آدَمَ فِیْ ھٰذِہِ السَّنَۃِ وَفِیْھَا تُرْفَعُ أَعْمَالُھُمْ وَفِیْھَا تُنْزَلُ أَرْزَاقُھُمْ فَقَالَتْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَا مِنْ اَحَدٍ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ اِلاَّ بِرَحْمَۃِ اللّٰہِ تَعَالٰی؟ فَقَالَ : ((مَا مِنْ اَحَدٍ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ اِلاَّ بِرَحْمَۃِ اللّٰہِ تَعَالٰی)) ثَلَاثًا‘ قُلْتُ وَلَا أَنْتَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ؟ فَوَضَعَ یَدَہٗ عَلٰی ھَامَّتِہٖ فَقَالَ: ((وَلَا أَنَا اِلاَّ اَنْ یَّتَغَمَّدَنِیَ اللّٰہُ بِرَحْمَتِہٖ)) یَقُوْلُھَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ (۱۹)
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے‘ وہ نبی اکرمﷺ سے نقل کرتی ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: ’’(اے عائشہ!) کیا تو جانتی ہے یہ کون سی رات ہے ؟ یعنی نصف شعبان کی رات۔‘‘ حضرت عائشہ ؓنے پوچھا: اے اللہ کے رسولﷺ !اس رات میں کیا ہوتا ہے ؟تو آپؐ نے فرمایا:’’اس رات اس سال پیدا ہونے والے اور مرنے والے ہر ابن آدم کا نام لکھا جاتا ہے۔ اس رات میں اعمال بلند کیے جاتے ہیں اور اس رات میں لوگوں کا رزق نازل کیا جاتا ہے ‘‘۔ پس حضرت عائشہؓ نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ !کیا کوئی بھی اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں داخل نہ ہو گا؟ تو آپؐ نے فرمایا:’’ کوئی بھی جنت میں اللہ کی رحمت کے بغیر داخل نہیں ہوگا۔‘‘ آپؐ نے یہ بات تین مرتبہ فرمائی تو حضرت عائشہؓ نے کہا :اے اللہ کے رسولﷺ !کیا آپ بھی؟آپؐ نے اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھتے ہوئے فرمایا : ’’ہاں میں بھی‘ سوائے اس کے کہ مجھے اللہ کی رحمت ڈھانپ لے ۔‘‘ آپؐ نے تین مرتبہ یہ کلمات کہے۔‘‘


@اسحاق سلفی @عدیل سلفی @خضر حیات @کنعان @محمد ارسلان الزبیری

تمام بھائیوں سے گزارش ہے کہ جواب جلد از جلد دیں۔
جزاک اللہ خیرا
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
عَنْ عَائِشَۃَ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ قَالَ : ((ھَلْ تَدْرِیْنَ مَا ھٰذِہِ اللَّـیْلُ؟یَعْنِیْ لَیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ))
اس روایت کو امام بیہقیؒ نے " الدعوات " میں روایت کیا ہے اور انہی کے حوالہ سے مشکاۃ شریف میں منقول ہے :
أخرجه البيهقي في الدعوات الكبير (530) من طريق :
خلف بمن محمد، حدثنا صالح بن محمد، محمد بن عباد حدثني حاتم بن إسماعيل المدني، عن نضر بن كثير، عن يحيى بن سعد، عن عروة بن الزبير، عن عائشة، رضي الله عنها في حديث طويل فيه: هل تدرين ما في هذه الليلة؟ قالت: ما فيها يا رسول الله؟ فقال: فيها أن يكتب كل مولود من مولود بني آدم في هذه السنة، وفيها أن يكتب كل هالك من بني آدم في هذه السنة، وفيها ترفع أعمالهم، وفيها تنزل أرزاقهم"، فقالت: يا رسول الله، ما أحد يدخل الجنة إلا برحمة الله؟ فقال: "ما من أحد يدخل الجنة إلا برحمة الله". قلت: ولا أنت يا رسول الله؟ فوضع يده على هامته، فقال: "ولا أنا، إلا أن يتغمدني الله منه برحمة" يكررها ثلاث مرات.
وإسناده ضعيف جدا:
فيه: خلف بن محمد الخيام البخاري، أبو صالح،.قال أبو يعلى الخليلى: خلط، وهو ضعيف جدا، روى متونا لا تعرف. الإرشاد ("المنتخب منه" 3/ 972)، وميزان الاعتدال (1/ 662)

رواه البيهقي في الدعوات الكبير ج2 - ص 146 - -رقم 530 بتحقيق الشيخ بدر بن عبد الله البدر
فقال في تخريجه: اخرجه البيهقي في فضائل الاوقات باسناده هنا -واسناده ضعيف جدا "فيه ابو صالح خلف بن محمد بن اسماعيل البخاري-قال الخليلي في "الارشاد "كان له حفظ ومعرفة وهو ضعيف جدا "
وقد نقل الذهبي قول الخليلي هذا في الميزان في ترجمته "

خلاصہ یہ کہ اس کی اسناد انتہائی ضعیف ہے کیونکہ :
اس راوی "خلف بن محمد الخیام " بے حد ضعیف اور ناکارہ راوی ہے ، امام ابویعلی الخلیلی فرماتے ہیں کہ یہ راوی بہت زیادہ ضعیف ہے یہ ایسی احادیث نقل کرتا ہے جن کے متون ثقہ رواۃ سے منقول نہیں ہوتے ، اور الخلیلی کی یہی بات امام ذھبی ؒ نے میزان میں نقل فرمائی ہے ،
ـــــــــــــــــــــــــ​
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
جزاک اللہ خیرا استاد محترم بھائی اسحاق ۔


ایک مسئلہ اور ہے اس پر بھی رہنمائی چاہیے ۔


السلام علیکم و رحمت اللہ

سوال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زید کا انتقال ھو گیا زید کے پاس ایک لاکھ روپیہ ھے
وارثین میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک بیوی اولاد نہیں ھے
چار بھائی سگا

سوال یہ ہی کہ
کیا زید کے ترکہ میں چاروں بھائیوں کا حق ھوگا یا نہیں؟؟؟

جواب دیکر شکریہ کا موقع فراھم کریں


@اسحاق سلفی
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
زید کا انتقال ھو گیا زید کے پاس ایک لاکھ روپیہ ھے
وارثین میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک بیوی ہے جبکہ اولاد نہیں ھے چار سگے بھائی ہیں
سوال یہ ہی کہ
کیا زید کے ترکہ میں چاروں بھائیوں کا حق ھوگا یا نہیں؟؟؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شریعت اسلامیہ کی رو سے اگر فوت ہونے والا لا ولد ہے تواس کی جائیداد سے چوتھا حصہ اس کی بیوی کا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:''اگر تمہاری اولاد نہ ہوتو تمہاری عورتوں کاتمہارے ترکہ سے چوتھا حصہ ہے۔''
بیوہ کو مقررہ حصہ دینے کے بعد جو باقی بچے گا۔وہ پدری بھائیوں کو مل جائےگا۔فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔:'' مقررہ حصے حقداروں کے دینے کے بعد جو باقی بچے وہ میت کے اس قریبی رشتہ دار کے لئے جو مذکر ہو۔''(صحیح بخاری :کتاب الفرائض حدیث نمبر 673)
صورت مسئولہ میں قریبی رشتہ دار پدری بھائی کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے۔ لہذا بیوہ کو4/1 دینے کے بعد 4/3 باقی بچتا ہے۔وہ متوفی کے پدری بھائیوں میں میں برابر تقسیم ہوگا ۔اس بنا پر متوفی کی کل جائیداد کو چار حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصہ ( جو کل جائیداد کا3/1ہے)بیوہ کودے دیا جائے۔اور باقی تین حصے(جو کل جائیداد کا4/3 ہے) اس کے پدری بھائیوں کا حق ہے۔(واللہ اعلم بالصواب)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

اور یاد رہے کہ اگر متوفی کا والد زندہ ہو تو مرنے والے کے ترکہ سے بھائیوں کو کچھ نہیں ملے گا ؛

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بیٹے کی ساری دیت آپ کو(بچے کی والدہ) اور اس کے باپ کو ملے گی، آپ کو چھٹا حصہ اور باقی رقم اس کے والد کو مل جائے گی، اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ اس صورت میں بھائیوں کا دیت میں کوئی حصہ نہیں ہے کیونکہ باپ کی وجہ سے بھائی میراث سے محروم ہیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب​

ج3ص71​

محدث فتویٰ
 
Top