• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پندر ہویں شعبان سے متعلق احادیث – ایک جائزہ

شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
پندر ہویں شعبان سے متعلق احادیث – ایک جائزہ




ڈاکٹرعبد اللطیف کندی مدنی



مراجعہ:

شفیق الرحمن ضیاء اللہ مدنی
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
بسم اللہ الرحمن الرحیم


پندرہویں شعبان سے متعلق احادیث- ایک جا ئزہ


ڈاکٹرعبداللطیف الکندی---------------- استاذ الکلیۃ السلفیۃ مومن آباد سرینگر



جب ماہ شعبان آتا ہے توامت اسلامیہ ماہ مبارک"شہررمضان" کے استقبال کی تیاریوں میں لگ جاتی ہے –اس لئے کہ یہ مبارک مہینہ اپنے اندربے شمارخوبیاں,محاسن اوراجروثواب رکھتا ہے- یہ نزول قرآن کریم کا مہینہ ہے -اورمسلمان ماہ مبارک کی راتوں کوسربسجود رہنے اورنہاررمضان میں روزہ رکھنے کی مشق ماہ شعبان ہی سے کرنے لگتے ہیں- اوریہی نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ بھی ہے کہ شعبان سے ہی روزوں کی انجام دہی کثرت سے فرماتے تھے - حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں کہ :

(كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصوم حتى نقول:لا يفطرويفطرحتى نقول:لايصوم,ومارأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم استكمل صيام شهرإلا رمضان وما رأيته أكثرصياما منه في شعبان)

(رواه البخاري في صحيحه مع الفتح: 4/251): كتاب الصيام ,باب صوم شعبان برقم 1969,ومسلم في صحيحه :2/811 برقم 1156(175) 8/37كتاب الصيام)

"رسول الله صلى الله عليه وسلم نفل روزہ رکھنے لگتے توہم (آپس میں) کہتے کہ اب آپ روزہ رکھنا چھوڑیں گے ہی نہیں, اورجب روزہ چھوڑدیتے توہم کہتے اب آپ روزہ رکھیں گے ہی نہیں,میں نے رمضان کوچھوڑکررسول صلى اللہ علیہ وسلم کوکبھی پورے مہینے کا نفلی روزہ رکھتے نہیں دیکھا اورجتنے روزے آپ شعبان میں رکھتے میں نے کسی مہینہ میں اس سے زیادہ روزے رکھتے آپ کونہیں دیکھا-(ترجمہ داود راز3/218)-

نیزعائشہ رضی اللہ عنہا ہی کا بیان ہے کہ:

(لم يكن النبي صلى الله عليه وسلم يصوم شهرا أكثرمن شعبان ,وكان يصوم شعبان كله.

(أخرجه البخاري في صحيحه :كتاب الصوم ,باب صوم شعبان( مع الفتح:4/251 برقم 1970),ومسلم في صحيحه :2/118) (8/38) كتاب الصيام حديث نمبر782 جبكہ مسلم میں شعبان کلہ کے بعد "کان یصوم شعبان إلاقلیلا" کی زیادتی ہے)-

"رسول صلى اللہ علیہ وسلم شعبان سے زیادہ اورکسی مہینہ میں روزہ نہیں رکھتے تھے,شعبان کے پورے دنوں میں آپ روزہ رکھتے,مسلم کی روایت میں "کان یصوم شعبان إلا قلیلا" کی زیادتی سے پتہ چلتا ہے- کہ پورےشعبان کے روزے مقصود نہیں بلکہ شعبان کے اکثرروزے رکھتے تھے-

جب کہ ابن حجررحمہ اللہ نے بھی فتح الباری(4/252) میں پورے شعبان سے مراد اکثرشعبان لیا ہے-ان احادیث سےشعبان میں روزہ رکھنے کی تاکید اوررسول صلى اللہ علیہ وسلم کی سنت ثابت ہوتی ہے-

جیسا کہ عبد اللہ بن أبی قیس کی روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ فرمان منقول ہے:



(كان أحب الشهورإلى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يصومه شعبان ثم يصله برمضان)-

(أخرجه أحمد في مسنده 6/188,وأبوداؤد في سننه: كتاب الصوم ,باب في صوم شعبان 2/812 برقم 2431,والنسائي في سننه:كتا ب الصيام ,باب صوم النبي صلى الله عليه وسلم 4/169,وابن خزيمه في صحيحه: جماع أبواب صوم التطوع 3/282 برقم 2077,والحاكم في المستدرك:كتاب الصوم 1/434,وقال: هذاحديث صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه ووافقه الذهبي في تلخيصه)-

"رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کوجس ماہ میں روزہ سب سے زیادہ محبوب تھا,ماہ شعبان ہے پھرآپ اسے رمضان کے ساتھ ملاتے تھے"-
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
یہ اوراسطرح کی چند دیگراحادیث پرغورکرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ماہ شعبان کے روزے سے متعلق احادیث موجود ہیں- اوررسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ماہ شعبان کے اکثرایام روزہ سے ہوتے تھے- لہذا امت کوبھی ماہ شعبان کے اکثرروزے رکھنےچاہئے-

نیزکچہ ایسی روایات بھی ملتی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن اپنے گذشتہ رمضان کے چھوٹے ہوئے قضاء شدہ روزے شعبان میں رکھتی تھیں- چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ فرمان صحیح بخاری ومسلم میں موجود ہے کہ:


(كان يكون عليّ الصيام من رمضان فما استطيع أن أقضيه إلا في شعبان)-

( أخرجه البخاري في صحيحه :كتاب الصوم,باب متى يقضي قضاء رمضان؟ 4/222 برقم 1950,ومسلم في صحيحه:كتاب الصيام 2/802-803 برقم 1146(8/21), والإمام مالك في المؤطا 1/208/54, وابوداؤد في صحيحه برقم 2399,وابن ماجه برقم 1669,وابن خزيمه برقم 2046,والبيهقي في السنن الكبرى 4/252)-

"مجھ پررمضان کے فوت شدہ روزے واجب الاداء ہوتے اورمیں ان کی قضاء نہ کرپاتی سوائے شعبان کے- بعض روایات میں یہ اضافہ بھی ہے کہ ایسا رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہمیشہ مستعد رہنے کی وجہ سے ہوتا تھا"-

پس جو خواتین رمضان کی قضا ء شدہ روزے ماہ شعبان سے قبل نہ اداکرسکیں تووہ لازما ماہ شعبان میں ہی ادا کریں- تاکہ نئے رمضان سے قبل وہ اس فریضہ کوانجام دے سکیں-

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:


(لایتقدمن أحدکم رمضان بصوم یوم أویومین إلا أن یکون رجل کان یصوم صومہ فلیصم ذلک)

أخرجہ البخاری فی صحیحہ :کتاب الصوم 4/127 -128 برقم 1419,ومسلم فی صحیحہ:کتاب الصیام 2/ 762 برقم 1802)-

"تم میں سے کوئی رمضان سے ایک یا دو روز قبل روزہ نہ رکھے ہاں اگرایسا شخص ہوجوعام طورپرروزے رکھتا ہے تووہ اس روز کا روزہ رکھے"-

ان احادیث اوراسی طرح کی چند دیگراحادیث میں صرف شعبان کے روزہ کی مشروعیت کا پتہ چلتا ہے- جبکہ ان احادیث میں پندرہویں شعبان کی رات کی فضیلت یا خاص طورپرپندرہ شعبان کے روزہ کا کوئی ذکرنہیں ہے-
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
پندرہویں شعبان کی رات سے متعلق احادیث:

اس سلسلے میں جتنی بھی احادیث ہیں وہ ضعف اوروضع سے خالی نہیں صرف ایک حدیث ہے جوگرچہ طعن سے خالی نہیں مگرعلامہ البانی کے نزدیک اس کے سارے طرق ملانے کے بعد درجہ صحت کوپہونچتی ہے –وہ حدیث یہ ہے-

1-حدثنا راشد بن سعيد بن راشد الرملي حدثنا الوليد عن ابن لهيعة عن الضحاك بن ايمن عن الضحاك بن عبد الرحمن بن عرزب عن ابي موسى الاشعري عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:‏‏‏‏"إن الله ليطلع في ليلة النصف من شعبان فيغفر لجميع خلقه إلا لمشرك او مشاحن".

(رواه ابن ماجة في سننه:كتاب إقامة الصلاة1/455 برقم 1390,وابن أبي عاصم في السنة ص 223 برقم 510, واللالكائي في شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة برقم 763من طريق ابن لهيعة عن الزبيربن سليم عن الضحاك بن عبد الرحمن عن أبيه عن أبي موسى به-
وقال الألباني رحمه الله: "وهذا اسناد ضعيف من أجل ابن لهيعة وعبد الرحمن وهو ابن عزوب والد الضحاك مجهول,وأسقطه ابن ماجة في رواية له عن ابن لهيعة" انظرسلسلة الصحيحة3/136 تحت رقم 1144)-


"حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"اللہ تعالى پندرہویں شب مطلع ہوتے ہیں اوراپنی ساری مخلوق ماسوائے مشرک اوربغض رکھنے والے کی مغفرت فرماتے ہیں-
جبکہ یہی حدیث معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے- دیکھئے:
صحیح ابن حبان:کتاب الحظروالإباحة ,باب ماجاء فی التباغض والتحاسد والتنابز 12/ 184 برقم5656,وابن ابي عاصم في السنة ص 224 برقم 512,والطبراني في المعجم الكبير20/108-109 برقم 215,نيزديکھئے طبرانی کی ہی مسند الشامین زیرنمبر205, وابونعیم فی حلیۃ الأولیاء 5/191-

امام البانی رحمہ اللہ نے "السنة" ص 224میں فرمایا:"حدیث صحیح,ورجاله موثوقون,لکنه منقطع بین مکحول ومالک بن یخامرولولا ذلک لکان الإسنادحسنا,ولکنه صحیح بشواهدہ المتقدمة" یہ حدیث صحیح ہے - اسکے رواۃ توثیق شدہ ہیں ,لیکن اسمیں مکحول اورمالک بن یخامرکے درمیان سند میں انقطاع ہے- ورنہ سند حسن ہوتی - لیکن یہ دوسرے شواہد کی وجہ سے صحیح ہے" علامہ البانی نے ایسا ہی کلام سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ 3/135میں بھی ذکرکیا ہے-

اس حدیث کواگرصحیح لغیرہ بھی مان لیا جائے لیکن اسمیں پندرہویں شب کی فضیلت دوسری راتوں کے مقابلے میں بالکل ثابت نہیں ہوتی ہے- اسلئے کہ صحیحین کی حدیث کے مطابق ایسا بلکہ اس سے زیادہ فضیلت ہررات کی توبہ واستغفارکوحاصل ہے- چنانچہ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
(ينزل ربنا تبارك وتعالى كل ليلة إلى سماء الدنيا حين يبقى ثلث الليل الآخريقول:من يدعوني فأستجيب له,من يسألني فأعطيه ,من يستغفرني فأغفرله "-
(اخرجه البخاري في صحيحه :كتاب التهجد 3/29 برقم 1145,ومسلم في صحيحه :كتاب صلاة المسافرين 1/125 برقم 758)-

همارے رب تبارک وتعالى ہرشب کی آخری تہائی میں نچلے آسمان پرنزول فرماتے ہیں ,اورفرماتے ہیں :"کون میرے دربارمیں دعا گوہےکہ میں اسکی قبولیت کا پروانہ لکھوں,کون ہے جو مجھ سے مانگے کہ میں اسے عطا کروں ,کون ہے جومجھ سے مغفرت طلب کرے کہ میں اسکی مغفرت کروں" – پس رب کریم کا نزول ,اپنی مخلوقات پرمطلع ہونا اورانکی مغفرت کسی معینہ رات پرہی موقوف نہیں - بلکہ یہ ہرشب ہوتا ہے توپھرپندرہویں شب کی فضیلت میں اس حدیث کوپیش کرنا کسی خصوصی فضیلت کا باعث نہیں.-
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
2- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ : فَقَدْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ لَيْلَةً فَخَرَجْتُ فَإِذَا هُوَ بِالْبَقِيعِ فَقَالَ: أَكُنْتِ تَخَافِينَ أَنْ يَحِيفَ اللهُ عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ قُلْتُ: يَارَسُولَ اللهِ! إِنِّي ظَنَنْتُ أَنَّكَ أَتَيْتَ بَعْضَ نِسَائِكَ فَقَالَ: إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يَنْزِلُ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَيَغْفِرُ لأَكْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ كَلْبٍ.


(رواه احمد في مسنده 6/238,والترمذي في سننه:أبواب الصيام 2/121-122 برقم 739,وابن ماجة في سننه :كتاب إقامة الصلاة 1/444 برقم 915)-
وضعفه البخاري والترمذي وابن الجوزي والدارقطني والألباني وابن باز رحمهم الله جميعا انظرسنن الترمذي 2/122والعلل المتناهية 2/66 وضعيف ابن ماجة 103-104 والتحذيرمن البدع لابن بازص 28)-

"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں نے ایک رات رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کواپنے پاس نہ پایا تومیں آپ کی تلاش میں نکلی آپ صلى اللہ علیہ وسلم بقیع میں تشریف فرماتھے- آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کیا تم ڈرتی تھی کہ اللہ اوراسکے رسول تم پرظلم کریں گے؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ !مجھے گمان گذرا کہ آپ اپنی بعض ازواج مطہرات کے پاس تشریف لے گئے ہیں, توآپ نے فرمایا :" بے شک اللہ تبارک وتعالى پندرہویں شعبان کی شب کونچلے آسمان پرنزول فرماتے ہیں اورقبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد میں لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں- اس حدیث کوامام بخاری,امام ترمذی,امام دارقطنی,امام ابن جوزی,علامہ البانی اورشیخ ابن باز رحمہم اللہ وغیرہ نے ضعیف قراردیا ہے-

تواس طرح کی روایت پندرہویں شعبان کی رات کی فضیلت کیلئے کیسےمفید ہوسکتی ہے-
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
3-
حدثنا الحسن بن علي الخلال حدثنا عبد الرزاق انبانا ابن ابي سبرة عن إبراهيم بن محمد عن معاوية بن عبد الله بن جعفر عن ابيه عن علي بن ابي طالب قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏"إذا كانت ليلة النصف من شعبان فقوموا ليلها وصوموا يومها فإن الله ينزل فيها لغروب الشمس إلى سماء الدنيا فيقول:‏‏‏‏"الا من مستغفر لي فاغفر له الا مسترزق فارزقه الا مبتلى فاعافيه"الا كذا الا كذا حتى يطلع الفجر.

(رواه ابن ماجة في سننه: كتاب إقامة الصلاة 1/444 برقم 1388وقال البوصيرى في زوائدابن ماجة 2/10
:"هذا إسناد فيه ابن أبي سبرة واسمه أبوبكربن عبدالله بن محمد بن أبي سبرة وقال أحمد وابن معين: يضع الحديث وقال ابن حجرفي التقريب 2/397: رموه بالوضع وقال الألباني : ضعيف جدا أوموضوع انظر ضعيف ابن ماجة ص 103 برقم 294)-

"حضرت على بن ابی طالب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب شعبان کی پندرہویں شب ہوتواس رات کا قیا م کرو اوراس دن روزہ رکھو,اسلئے کہ اللہ غروب آفتاب کےساتھ ہی سماء دنیا پرنزول فرماتے ہیں- اورکہتے ہیں :کوئی مغفرت طلب کرنے والا ہے کہ میں اسکی مغفرت کروں؟ کوئی رزق کا متلاشی ہے کہ میں اسے نوازوں ,کوئی مصیبت کا مارا ہے کہ میں اسے عافیت بخشوں,کیا کوئی ایسا ہے کیا کوئی ایسا ہے- حتى کہ طلوع فجرکا وقت ہوجاتا ہے-
امام بوصیری نے اس حدیث کی سند میں موجود راوی ابن ابی سبرہ پرشدید کلام کیا ہے اوراسے روایتیں گھڑنے والا قراردیا ہے- اسی لئے علامہ البانی نے اسکی سند کوضعیف جدا یا موضوع کہا ہے-

تواسطرح کی روایات سے فضائل ومسائل ثابت نہیں ہوتے ہیں لہذا لوگوں کوفوراَ اس طرح کے اہتمام اورمیلوں سے پرہیز کرنا چاہئیے-
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
4-ایک اورحدیث شعبان کی فضیلت میں ذکرکی جاتی ہے کہ :

(رجب شهرالله وشعبان شهري ورمضان شهرأمتي)-

"رجب اللہ کا مہینہ ہے اورشعبان میرامہینہ ہے اوررمضان میری امت کا مہینہ ہے"-

اسے ابوبکرالنقاش نے روایت کیا ہے جیسا کہ ابن حجرنے کہا ہےاورنقاش مذکور حدیثیں گھڑنے والا دجال تھا جیسا کہ حافظ ابوالفضل محمد بن ناصرنے اپنے "امالى" میں کہا ہے جبکہ ابن دحیہ نے مذکورہ حدیث کوموضوع حدیث یعنی من گھڑت حدیث قراردیا ہے جبکہ ابن الجوزی نے بھی اسے الموضوعات 2/205- 206,امام صنعانی نے الموضوعات ص 61 اورامام سیوطی نے اللآلی المصنوعۃ فی الآحادیث الموضوعة 2/114 میں اسے موضوع قراردیا ہے-
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
5- ایک اورحدیث حضرت على رضی اللہ عنہ سے منسوب کی جاتی ہے جسکے الفاظ یوں ہیں:

( يا على ! من صلى مأة ركعة في ليلة النصف من شعبان ,يقرأ في كل ركعة بفاتحة الكتاب و"قل هوالله أحد" عشرمرات ,قال النبي صلى الله عليه وسلم :يا على ما من عبد يصلي هذه الصلوات إلا قضى الله عزوجل له كل حاجة طلبها تلك الليلة ....) الحديث

"اے على !جوشخص شعبان کی پندرہویں شب سورکعت نمازپڑھے ,ہررکعا ت میں سورہ فاتحہ اورقل هو اللہ احد دس مرتبہ پڑھے - نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے على! جوبھی بندہ ان نمازوں کوپڑھے گا- اللہ اس شب اسکی مانگی ہوئی ہرضرورت پوری کردیتا ہے"-

اس کوابن الجوزی نے تین طرق سے اپنی کتاب الموضوعات میں ذکرکیا ہے جسے صرف جھوٹی حدیثوں کے لئے ہی ترتیب دیا ہے تاکہ امت ان احادیث موضوعہ کوپہچان کران سے بچ سکے-

حدیث علی کے لئے دیکھئے (الموضوعات 2/127-128-129)
اورفرمایا کہ اس حدیث کے من گھڑت ہونے میں ہمیں بالکل بھی شک نہیں ہے- اسکی تینوں سندوں میں اکثرروات مجاہیل ہیں اورکچھ توانتہائی درجہ کے ضعیف بھی ہیں- جبکہ یہ حدیث ناممکن بھی ہے کیوں کہ ہم نے کتنوں کویہ نمازپڑھتے ہوئے دیکھا ہے رات چھوٹی ہونے کی وجہ سے ان کی فجربھی چھوٹ جاتی ہے- اورصبح انتہائی کسلمندی کی حالت میں کرتے ہیں ,اس جیسی حدیثوں کونمازرغائب کے ساتھ ائمہ مساجد نے عوام الناس کوجمع کرنے اوراپنی لیڈری چمکانے کے لئے بطورجال استعمال کیا ہے - اورنام نہاد واعظین قصہ خواں حضرات اسے لے کرمجالس کوگرماتے رہتے ہیں حالانکہ یہ حق سے کوسوں دورہیں..
(دیکھئے الموضوعات 2/129)-


امام ابن قیم الجوزی رحمہ اللہ نے اپنی شہرہ آفاق تالیف" المنارالمنیف ص 98زیرنمبر175میں فرمایا ہے "اورانہی من گھڑت احادیث میں شعبان کی پندرہویں رات کی نماز سے متعلق احادیث بھی ہیں- اورپھرمذکورہ بالا حدیث کوبھی ذکرکیا - اورآخرمیں فرمایا:(والعجب ممن شم رائحة العلم بالسنن أن يغتربمثل هذا الهذيان ويصليها) تعجب تواس سے ہے جس نے علوم سنت کی بوسونگھی ہے پھراسطرح کے ہذیان سے دھوکہ کھاتا ہے اوراسطرح کی نماز پڑھتا ہے-

جبکہ امام سیوطی نے بھی اسے اللآلی المصنوعۃ 2/57-58-59 میں ذکرکرنے کے بعد اس پرمن گھڑت ہونے کا حکم لگایا ہے - اور امام شوکانی رحمہ اللہ نے بھی الفوائد المجموعۃ ص 51-52 میں اسے ذکرکرنے کے بعد موضوع کہا ہے-
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
6- اسی طرح ایک اورحدیث

(من صلى ليلة النصف من شعبان ثنتى عشرة ركعة يقرأ في كل ركعة "قل هوالله أحد"ثلاثين مرة,لم يخرج حتى يرى مقعده من الجنة....)

" جس نے شعبان کی پندرہویں کوبارہ رکعت نمازپڑھی اورہررکعت میں تیس مرتبہ قل ھواللہ احد پڑھا وہ نہیں نکلے گا یہاں تک کہ جنت میں اپنے مقام کودیکھ لے" -

اسے بھی علامہ ابن الجوزی نے جھوٹ کی گھٹری الموضوعات 2/129 میں ذکرکرنے کے بعد فرمایا ہے- :"ھذا موضوع ایضا" یہ بھی من گھڑت ہے- اوراس میں مجہول راویوں کی جماعت ہے- اورابن القیم نے بھی اسے المنارالمنیف ص 99 زیرنمبر177,اورسیوطی نے اللآلی المصنوعۃ 2/59 میں ذکرکرنے کے بعد اس پروضع کا حکم لگایا ہے-
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86

پندرہویں شعبان کا میلہ کیوں؟


قارئین کرام! گذشتہ سطورمیں آپ لوگوں نے شعبان سے متعلق احادیث کا جائزہ لیا جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس ماہ میں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کثرت سے روزہ رکھتے تھے- اوربس! اسکے علاوہ اس ماہ میں کسی خاص عبادت ,میلہ ,عرس یا شب بیداری اورحلوہ پوری کا کوئی ذکرنہیں ہے- اورجن احادیث میں پندرہویں شب کے قیام اورخاص نمازوں کا ذکرہے وہ سب کی سب انتہائی ضعیف بلکہ موضوع یعنی من گھڑت ہیں توضعیف اورمن گھڑت روایات پردین کی عمارت استوارکرنا درست نہیں ,جب کہ اللہ کے فضل وکرم سے ہمارے پاس مکمل دین ,قرآن کریم اوراحادیث صحیحہ کی شکل میں موجود ہے اوراس سے اعراض کسی طرح بھی درست نہیں ,لہذا ضعیف اورموضوع روایات اورخواب وحکایات پرمبنی دین اسلام کے مزاج سے قطعى میل نہیں کھاتا لہذا اس طرح کی خرافات سے قطعی پرہیزامت کی کامیابی کا رازہے- یہ حضرات شب براءت منانے کے لئے ایک قرآنی آیت کا بھی سہارا لیتے ہیں,لیکن انکا اس آیت سے استدلال قطعی طورپراصول قرآن اورشریعت اسلامیہ کے خلاف ہے,کہتے ہیں کہ اس رات کے متعلق قرآن میں آیا ہے:

{إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَفِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ}

( سورة الدخان:3-4)

"بے شک ہم نے قرآن کوایک با برکت شب میں نازل کیا ہے- اورہم ہی ڈرانے والے ہیں ,اسی شب میں ہراہم فیصلہ لیا جاتا ہے"-

اوراس آیت میں لیلۃ مبارکۃ سے مراد شب براءت یعنى پندرہویں شعبان کی رات ہے- لہذا وہ طرح طرح کے میلے عرس اورحلوہ پوری کا بندوبست کرتے ہیں,جب کہ ان لوگوں کا اس آیت سے استدلال اصول قرآن اورفرامین نبوی کے سراسرخلاف ہے- کیوں کہ اللہ تعالى نے خود ہی قرآن کریم میں لیلۃ مبارکہ کی تحدید فرمادی کہ وہ کس ماہ اورکس شب کوکہتے ہیں چنانچہ ارشاد باری ہے:

{شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيَ أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ }

(سورة البقرة : 185)

"ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا"

توپتہ چلا کہ قرآن کریم کا نزول رمضان کے با برکت مہینہ میں ہوا ہے نہ کہ شعبان کے ماہ میں ,جیسا کہ یہ لوگ گمان کرتے ہیں ,اورپھرمزید تحدید سورۃ القدرنازل فرماکرکردی ارشادہے:

{إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْر وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِلَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍتَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْر}

( سورة القدر:1-5)

"بے شک ہم نے ہی اس قرآن کوشب قدرمیں نازل کیا ہے- اورآپ کوکیا معلوم کہ شب قدرکیا ہے- شب قدرہزاررات سے زیادہ بہترہے - اس شب میں فرشتے اورخاص کرجبرئیل اللہ کے حکم سے سلامتی کا پیغام لے کراترتے ہیں اورایسا طلوع فجرتک ہوتا ہے" -

اس سورۃ مبارکہ سے پتہ چلا کہ لیلۃ مبارکہ لیلۃ القدرہے جونزول قرآن کی شب ہے اوریہ رمضان میں ہے- لہذا اس بابرکت شب یعنی شب قدرکواسکا اصل مقام دیا جانا چاہئے اوراسی شب کی تلاش وجستجو رمضان کے آخری عشرے میں کرنا مطلوب ہے- نہ کہ پندرہویں شعبان کی شب کی تلاش-

لہذاان مسلمانوں کوفوراَ قرآن اورنبوی تعلیمات کی طرف رجوع کرنا چاہئے اوراللہ کے دین پراللہ کی منشاء کے مطابق رسول کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے متعین کردہ طریقہ کے مطابق عمل کرنا چاہئے نہ کہ اپنے خود ساختہ طریقوں کی روشنی میں ,کیوں کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عقیدت واحترام اوران کے مقام نبوت کے منصب کے بھی خلاف ہے اوراسکی خلاف ورزی انسان کوفتنہ وابتلاء میں مبتلا کرتی ہے جیسا کہ فرمان الہی ہے:

{ فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ}

(سورة النور: 63)

" ان لوگوں کو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی سنت کی خلاف ورزی سے باز آنا چاہئے ورنہ وہ فتنہ اوردردناک عذاب میں مبتلا ہوجائیں گے"-

جب کہ ایسے میلے,عرس اورحلوہ پوری کی محفلیں اللہ کے دربارمیں قبولیت حاصل نہیں کرپاتی ہیں,کیوں کہ تاجدارمدینہ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

(من عمل عملا لیس علیہ أمرنا فھورد)

(رواه مسلم في صحيحه : كتاب الأقضية 3/ 1343-1344 برقم 1718)

"جس شخص نے ایسا عمل کیا جوہمارے حکم کے مطابق نہیں ہےتووہ عمل رد کردیا جاتا ہے"-

نیزفرمایا:

(من أحدث فی أمرنا ھذا مالیس منه فهورد)

( رواہ البخاری فی صحیحہ :کتاب الصلح 5/301 برقم 2697,ومسلم فی صحیحہ :کتاب الأقضیۃ 3/1343 برقم 1718)-

"جس نے ہمارے دین میں ایسا اضافہ کیا جواس دین کا حصہ نہیں ہے تووہ اضافہ مردود ہے"-

نصوص سابقہ سے ثابت ہواکہ پندرہویں شعبان کی شب کے قیام اوراس دن کے صیام اوراس دن کے صیام کی خصوصیت نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے دین میں سے نہیں ہے اورنہ ہی اس شب میں میلہ عرس اوراسطرح کی دوسری محدثات اورفضولیات اورغیرشرعی اختلاط کی گنجایش ہے –لہذا عام مسلمانوں کواس سے اجتناب برتنا چاہئے-
 
Top