اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپکی تعریف کے متعلق چند معلومات درکار ہیں؟
1.
کیا آپ خود اس تعریف سے متفق ہیں. ؟
2۔
کیا اس تعریف سے صرف امریکہ ہی فائدہ اٹھا سکتا ہے.یا کوئی اور بهی؟
3۔
کیا امریکہ اپنی کی ہوئی دہشت گردی کی تعریف سے مبرا تو نہیں؟
4۔
کیا آپ امریکہ کی کی ہوئی دہشت گردی کی تعریف کا دفاع کرنا پسند کریں گے یا نہیں؟
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
انسانی تاريخ ميں ہر اہم ملک، قوم اور تہذيب کا ماضی جنگوں، تنازعات اور کسی نا کسی تناظر ميں مسلح تحريکوں سے عبارت رہا ہے۔ اسی تاريخ ميں امريکہ ديگر ممالک سے ہٹ کر نہيں ہے۔
ہم ريڈانڈينز، امريکہ کی خانہ جنگوں، دو عالمی جنگوں ميں امريکی کردار اور کئ دہائيوں پرانے ايسے بے شمار جنگی تنازعات پر تعميری، طويل اور علمی بحث کر سکتے ہيں جن کی جانب آپ نے اشارہ کيا ہے۔ ليکن اس ضمن ميں پيش کيے جانے والے تمام دلائل اور جوابی دلائل ان زمينی حقائق پر اثر انداز نہيں ہوں گے جو عالمی دہشت گردی کے حوالے سے اس وقت تمام مہذب دنيا کو درپيش ہيں۔
وقت کا اہم ايشو يہ نہيں ہے کہ کئ دہائيوں يا کئ صديوں پہلے ہونے والی جنگوں ميں امريکہ کو کيا کردار ادا کرنا چاہیے تھا۔ يہ کام تاريخ دانوں اور سياسی تاريخ کے حوالے سے علم حاصل کرنے والوں کے ذمہ ہے کہ وہ تاريخ کے واقعات کو اس کے مخصوص تناظر ميں کيسے جانجتے ہيں۔ جو چيلنج ہميں آج درپيش ہے وہ يہ ہے کہ اس خونی سوچ اور اس کے اثرات سے عام انسانوں کی زندگيوں کو کيسے محفوظ بنايا جاۓ جو آج تمام مہذب دنيا کے ليے ايک مشترکہ خطرہ بن چکی ہے۔
جس دور ميں ہم رہ رہے ہيں اس کی ناقابل ترديد حقيقت دہشت گردی کا وہ عفريت ہے جو عام انسانوں کی زندگيوں پر روزانہ اثرانداز ہو رہا ہے۔ اس عالمی عفريت سے نبردآزما ہونے کے ليے امريکہ اور پاکستان کی حکومتيں اسٹريجک پارٹنرز اور مشترکہ اتحادی ہيں۔
جہاں تک مختلف عالمی تنازعات کے حوالے سے امريکی کردار يا بعض تجزيہ نگاروں کے نزديک "مجرمانہ عدم مداخلت" کا سوال ہے تو اس ضمن ميں صدر اوبامہ کی جانب سے اقوام متحدہ ميں کی گئ ايک تقرير کا حصہ پيش ہے جو ہمارے موقف کی وضاحت کرتا ہے۔
"جو امريکہ پر اس بنياد پر تنقيد کرتے رہے ہيں کہ امريکہ اکيلا ہی دنيا بھر ميں اقدامات اٹھاتا رہتا ہے، اب وہ خاموش تماشائ بن کر اس انتظار ميں کھڑے رہنے کے مجاز نہيں ہيں کہ امريکہ تن تنہا دنيا کے مسائل حل کر دے گا۔ ہم نے الفاظ اور عملی اقدامات کے ذريعے دنيا سے روابط قائم کرنے کے ايک نۓ دور کا آغاز کر ديا ہے۔ اب يہ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ اس ضمن ميں اپنا کردار ادا کريں۔"
صدر اوبامہ کے الفاظ زمينی حقائق اور دنيا کے اہم ترين مسائل کے ضمن ميں ايک حقيقت پسندانہ تجزيہ ہے۔ يہ ايک غير حقيقی اور غير فطری بات ہے کہ دنيا بھر کے تمام تر مسائل کے ليے امريکہ ہی کو مورد الزام قرار ديا جاۓ۔ اسی طرح يہ سوچ بھی غلط ہے کہ خطے کے ديگر فريقين اور اہم کرداروں کی ذمہ داريوں کو نظرانداز کر کے امريکہ سے ہی يہ توقع رکھی جاۓ کہ تمام تر مسائل کرنے ميں امريکی حکومت فيصلہ کن کردار ادا کرے۔ يہ بھی ياد رہے کہ بہت سے عالمی مسائل کئ دہائيوں پر محيط ہيں اور بعض ايشوز ايسے بھی ہيں جن ميں براہراست فريق امريکی مداخلت کے حق ميں ہی نہيں ہيں۔ کشمير کا مسلہ بھی اسی کيٹيگری ميں آتا ہے۔
ماضی بعيد ميں مختلف اقوام کی دنيا ميں حيثيت اور اثر رسوخ کا دارومدار جنگوں اور معرکوں کے نتيجے ميں پيدا ہونے والے حالات اور نتائج کے تناظر ميں ہوتا تھا جبکہ جديد دور ميں کسی بھی قوم کی برتری کا انحصار سائنس اور ٹيکنالوجی کے ميدان ميں کاميابی، کاروبار اور معاش کے مواقعوں اور نت نۓ امکانات کی دستيابی پر مرکوز ہوتا ہے۔ اس تناظر ميں امريکہ يا کسی اور ملک کے ليے "سپر پاور" کی اصطلاح اس بنيادی اصول کی مرہون منت ہوتی ہے کہ عام انسانوں کے معيار زندگی ميں بہتری لانے کے لیے کتنے تخليقی ذرائع اور مواقعے مہيا کيے گۓ ہيں۔
آج کے جديد دور ميں جنگيں اور فسادات اجتماعی انسانی ترقی اور کاميابی کی راہ ميں رکاوٹ ہيں۔
جب آپ دنيا کے مختلف ممالک میں دی جانے والی امريکی امداد کو غیر اہم قرار ديتے ہيں تو آپ يہ نقطہ نظرانداز کر ديتے ہیں کہ يہ پيسہ دراصل امريکہ کے ٹيکس دہندگان سے حاصل کيا جاتا ہے۔ کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ امريکی عوام اپنی حکومت کو محنت سے کمائ ہوئ دولت اس بنياد پر خرچ کرنے کی اجازت دے گي کہ اس امداد کے ذريعے دنيا بھر ميں جنگوں اور فسادات کا سلسلہ دانستہ جاری رکھا جاۓ؟
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu
http://www.facebook.com/USDOTUrdu