• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پھٹے موزوں پر مسح کرنا

شمولیت
مئی 30، 2017
پیغامات
93
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
52
السلام علیکم
پھٹے ہوئے موزوں پر مسح کرنے پر کیا احکام ہیں
جزک اللّه خیرا
 
Last edited by a moderator:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
السلام علیکم
پھٹے ہوئے موزوں پر مسح کرنے پر کیا احکام ہیں
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ !
ــــــــــــــــــــــــــ
بسم الله الرحمن الرحيم

الجواب : الصحيح من أقاويل العلماء جواز المسح على الخف أو الجورب المخرق فقد رخص النبي صلى الله عليه وسلم بالمسح على الخفين و لم يشترط كونه سليما من الخروق أو الفتوق ولا سيما أن خفاف بعض الصحابة لا تخلو من فتوق و شقوق فلو كان هذا مؤثرا على المسح لبين النبي صلى الله عليه وسلم ذلك بيانا عاما فقد تقرر في القواعد الأصولية أن تأخير البيان عن وقت الحاجة لا يجوز.

وقد قال الإمام سفيان الثوري رحمه الله :( امسح عليها ما تعلقت به رجلك وهل كانت خفاف المهاجرين و الأنصار إلا مخرقة مشققة مرقعة ) رواه عبد الرزاق في المصنف (1/194) .

وقال شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله في الفتاوى (21/174):( فلما أطلق الرسول صلى الله عليه وسلم الأمر بالمسح على الخفاف مع علمه بما هي عليه في العادة و لم يشترط أن تكون سليمة من العيوب وجب حمل أمره على الإطلاق ولم يجز أن يقيد كلامه إلا بدليل شرعي وكان مقتضى لفظه أن كل خف يلبسه الناس و يمشون فيه فلهم أن يمسحوا عليه وإن كان مفتوقا أو مخروقا من غير تحديد لمقدار ذلك فإن التحديد لابد له من دليل).

وهذا مذهب اسحاق وابن المبارك وابن عيينة وأبي ثور.
وذهب الإمام الشافعي و أحمد في المشهور عنهما إلى أنه لايجوز المسح على الخفين أو الجوربين مادام أنه يظهر من الملبوس فتق أو شق في محل الفرض.
وذهب أبو حنيفة ومالك إلى التفريق بين الخرق اليسير و الخرق الكثير.

والصحيح القول الأول وأنه يجوز المسح على الخفين و الجوربين ما تعلقت بهما القدم و أمكن المشي فيهما.
ويصح أيضا المسح على الجوربين اللذين يصفان البشرة لأن الإذن بالمسح على الخفين مطلق ولم يرد تقييده بشيء فكان مقتضى ذلك أن كل جورب يلبسه الناس لهم أن يمسحوا عليه وهذا مقتضى قول القائلين بجواز المسح على الخف المخرق ما أمكن المشي عليه.

وقد ذكر النووي رحمه الله في المجموع(1/502) أنه إذا لبس خف زجاج يمكن متابعة المشي عليه جاز المسح عليه وإن كان ترى تحته البشرة. والله أعلم.
قاله
سليمان بن ناصر العلوان

15/9/1421
___________________
http://www.ahlalhdeeth.com/vb/showthread.php?t=28050
ــــــــــــــــــــــــــــ
ترجمہ :
سوال : كيا پھٹى ہوئى جرابوں پر مسح كرنا جائز ہے ؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب :
الحمد للہ:

علماء كرام كے صحيح قول يہى ہے كہ پھٹى ہوئى جرابوں اور موزوں پر مسح كرنا جائز ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے موزوں پر مسح كرنے كى رخصت دى ہے، اور اس ميں شرط نہيں لگائى كہ وہ پھٹى ہوئى نہ ہوں، خاص كر بعض صحابہ كرام كے موزے سوراخ وغيرہ سے سليم نہ تھے، چنانچہ اگر يہ مسح پر اثرانداز ہوتے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اسے عام بيان فرما ديتے، اصولى قواعد ميں يہ بات طے شدہ ہے كہ ضرورت كے وقت سے بيان كى تاخير جائز نہيں.

امام سفيان ثورى رحمہ اللہ تعالى تو يہ كہتے تھے:
" ان پر اس وقت تك مسح كرو جب تك يہ تمہارے پاؤں ميں ہيں، اور كيا مھاجرين و انصار كے موزے سوراخوں اور پھٹنے سے محفوظ تھے، ان ميں پيوند لگے ہوتے، اور وہ پھٹے ہوئے اور سوراخ والے تھے "
اسے عبد الرزاق نے روايات كيا ہے، ديكھيں: مصنف عبدالرزاق ( 1 / 194 ).

اور شيخ الاسلام ابن تيميہؒ كہتے ہيں:
" جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے موزوں پر مسح كرنے كا حكم مطلقا ديا ہے، حالانكہ انہيں علم تھا جو عادتا ہوتا ہے، اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے عيوب سے سلامت ہونے كى شرط نہيں لگائى، تو ان كے حكم كو مطلقا ركھنا واجب ہے، اور كسى شرعى دليل كے بغير نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام ميں كوئى قيد نہيں لگانى جائز نہيں.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے الفاظ كا تقاضا ہے كہ لوگ جو موزے پہن كر چلتے ہيں ان ميں انہيں مسح كرنے كى اجازت ہے، چاہے وہ كھلے ہوں يا پھٹے ہوئے اس ميں كوئى مقدار كى تحديد نہيں ہو سكتى اس كے ليے دليل كى ضرورت ہے ... "
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن تيميہ ( 21 / 174 ).

حضرات ائمہ اسحاق بن راھویہؒ، ابن مباركؒ، امام ابن عيينہؒ، اور امام ابو ثور رحمہم اللہ كا مسلك يہى ہے.

امام شافعى، اور امام احمد دونوں سے مشہور يہ ہے كہ جب موزے يا جرابيں پھٹے ہوں اور ان سے فرض والى جگہ ظاہر ہوتى ہو تو ان پر مسح كرنا جائز نہيں.
اور ابو حنيفہ اور امام مالك رحمہما اللہ نے تھوڑے اور زيادہ پھٹے ہونے ميں فرق كيا ہے.
ليكن پہلا قول ہى صحيح ہے كہ جب موزے يا جرابيں قدم سے معلق ہيں اور ان ميں چلنا ممكن ہو تو اس پر مسح كرنا جائز ہے.

اور ان جرابوں پر بھى مسح كرنا جائز ہے جن كے نيچے سے جلد كى رنگت ظاہر ہوتى ہو، كيونكہ موزوں پر مسح كرنے كى اجازت مطلق ہے، اور اسے كسى چيز كے ساتھ مقيد كرنا ثابت نہيں، چنانچہ اس كا تقاضا يہى ہے كہ ہر وہ جراب جو لوگ پہنتے ہيں وہ ان پر مسح كريں، پھٹے ہوئے موزوں ميں جب تك چلا جائے تو اس پر مسح كو جائز كہنے والوں كے قول كا تقاضا يہى ہے.

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جب كوئى شخص شيشے كا موزہ پہن لے اور اس ميں چلنا ممكن ہو تو اس پر مسح كرنا جائز ہے، چاہے اس كے نيچے سے جلد كى رنگت نظر آرہى ہے .. "
ديكھيں: المجموع للنووی( 1 / 502 ).
الشيخ سليمان بن ناصر العلوان
 
Top